موجودہ حالات میں یوم القدس پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے
یوم علیؑ کی طرح یوم القدس بھی بھرپور شان و شوکت سے منائیں گے، علامہ حمید امامی
بعض عرب ممالک امریکہ و اسرائیل کی خوشنودی کیلئے ایران کی مخالفت کرتے ہیں
18 May 2020 01:17
اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے صدر کا کہنا تھا کہ میں حیران ہوں کہ جب ایران اسرائیل کیخلاف آواز اٹھاتا ہے تو عرب ممالک اسکے خلاف بات کرتے ہیں، حالانکہ فلسطین میں تو اکثریت اہلسنت برادران کی ہے۔ بعض عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ کو خوش کرنے کیلئے ایران کی مخالفت میں آواز اٹھاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایران، لبنان، یا پاکستان سے زیادہ عرب ممالک اسرائیل کیخلاف آواز اٹھاتے۔ لیکن وہ کسی صورت امریکہ کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے۔ بیت المقدس تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، وہ صرف اہل تشیع یا صرف اہلسنت کا تو نہیں ہے۔ قبلہ اول تمام مسلمانوں کا ہے، جس میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ اب اگر عرب ممالک مخالفت برائے مخالفت کرتے ہیں تو اسکی وجہ یہ ہے کہ امریکہ و اسرائیل ناراض نہ ہوں۔
علامہ حمید حسین امامی صاحب کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو سے ہے، وہ اسوقت شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے صدر کی حیثیت سے ملی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اس سے قبل علامہ صاحب تنظیم میں مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ علامہ حمید حسین امامی خوش اخلاق اور انقلابی فکر کے حامل عالم دین ہیں۔ اسلام ٹائمز نے حالیہ یوم علیؑ کے موقع پر پیدا ہونیوالی صورتحال اور آمدہ یوم القدس کی مناسبت سے علامہ صاحب کیساتھ خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: حکومت کیجانب سے یوم علیؑ کے موقع پر جلوسوں پر پابندی کے حوالے میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس نے افراتفری کی صورتحال پیدا کی، ایسے حساس موقع پر حکومت کو اس قسم کا نوٹیفکیشن جاری کرنیکی ضرورت کیونکر پیش آئی۔؟
علامہ حمید امامی: مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ لاک ڈاون کی رٹ صرف اکیس رمضان تک تھی، اکیس رمضان کے بعد تو لاک ڈاون ختم ہوگیا، نہ ہی کوئی احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں حکومت اس لئے یہ شور شرابہ کر رہی تھی کہ شیعان حیدر کرار علیہ السلام اپنے امام کا یوم شہادت نہ منائیں۔ حالانکہ حکومت کے اس بیس نکاتی ایجنڈے پر بھی ہم عمل پیرا ہیں اور تمام تر حکومتی ہدایات پر عمل بھرپور طریقہ سے کر رہے تھے۔ چاہے عزاداری سید الشہداء علیہ السلام ہو یا عزاداری مولائے کائنات علیہ السلام، یہ ہماری شہ رگ حیات ہے، یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ عزاداری ہے تو ہم ہیں، عزاداری نہیں ہے تو ہماری اس زندگی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لہذا حکومت نے یہ کام عجلت میں آکر کیا، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔
اسلام ٹائمز: صدر مملکت اور وزیراعظم کیساتھ علمائے کرام کی ہونیوالی ملاقاتوں میں شیعہ علماء کونسل سمیت مجلس وحدت مسلمین کے رہنماء موجود تھے، کیا اس مسئلہ کو شیعہ علمائے کرام نے ان ملاقاتوں میں کلیئر نہیں کیا تھا۔؟
علامہ حمید امامی: اس ملاقات میں شیعہ علماء کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کے علمائے کرام موجود تھے، میں نے خود علامہ عارف واحدی صاحب کا ایک انٹرویو سنا، جس میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے یہ مسئلہ وہاں پر اٹھایا کہ ہم یوم علیؑ کو بھرپور طریقہ سے منائیں گے اور جہاں تک احتیاطی تدابیر کا معاملہ ہے تو یہ اقدامات کرنا ہمارا اپنا مسئلہ بھی ہے کہ یہ بیماری زیادہ نہ پھیل سکے۔ آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہوگا کہ کراچی والوں نے عملاً ثابت بھی کیا، انہوں نے جتنی مجالس منعقد کیں، وہ سب احتیاطی تدابیر کیساتھ کیں۔ میں خود یہاں پر نماز جمعہ پڑھاتا ہوں، خدا گواہ ہے کہ ہم نے بھی مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ ہمارے علمائے کرام نے صدر مملکت اور وزیراعظم پر بالکل واضح کیا کہ ہم احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے یوم علیؑ کو ہر صورت میں منائیں گے۔
اسلام ٹائمز: اب بعض دیگر مکاتب فکر کیجانب سے بھی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ہمیں بھی باجماعت نماز، تراویح اور دیگر عبادات کی اجازت دی جائے، ان مطالبات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ حمید امامی: دیکھیں، پاکستان میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ آباد ہیں، یہاں بریلوی، اہلحدیث، دیوبندی بھی ہیں، ہم نے تو آج تک کسی پر اعتراض نہیں کیا ہے۔ ہم نے تو یہ نہیں کہا کہ وہ تراویح نہ پڑھیں یا کچھ اور نہ کریں۔ لہذا دیگر مکاتب فکر کے علمائے کرام کو بھی چاہیئے کہ خدارا اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیں۔ جب ہم نے کسی پر اعتراض نہیں کیا تو وہ ہم پر کیوں اعتراض کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب کورونا وائرس کی بیماری آئی تو اس وقت ہمارے زائرین کو ایران اور عراق سے لایا گیا اور پھر انہیں کس طرح بھیڑ بکریوں کی طرح ایک جگہ جمع کیا گیا۔ تاہم اس کے باوجود جتنے بھی زائرین آئے، ان میں سے کسی ایک میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود زائرین کے حوالے سے کتنا پروپیگنڈا کیا گیا اور اب کہا گیا کہ یوم علیؑ کیوجہ سے کورونا پھیلے گا۔ میرے خیال میں یہ پروپیگنڈا وہی لوگ کرتے ہیں، جو مولا علی علیہ السلام اور اہلبیت علیھم السلام سے بغض رکھتے ہیں۔ ہماری مجالس سے کسی کو کورونا وائرس کا خطرہ ہے اور نہ ہی ہوگا۔
اسلام ٹائمز: یوم القدس کی بھی آمد ہے اور ملک میں نیم لاک ڈاون اور ایس او پیز کے معاملات ہیں، اس صورتحال میں شیعہ علماء کونسل یوم القدس کیسے منائے گی۔؟
علامہ حمید امامی: یوم القدس منانا کسی ایک مذہب یا مسلک کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل نے ہمارے قبلہ اول پر قبضہ کر رکھا ہے۔ آج کل تو یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ یوم القدس بھی ایک طبقہ کیلئے رہ گیا ہے۔ یہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ تمام مکاتب فکر کو چاہیئے کہ جمعۃ الوداع کو شان و شوکت کیساتھ یوم القدس منائیں اور یوم القدس منانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اسرائیل، امریکہ اور ان کے حواریوں پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ عالمی مسئلہ ہے، یہودیوں نے جو قبضہ کر رکھا ہے، اس سے نہ تو ہم کبھی غافل ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی غافل ہوں گے۔ جیسا کہ امام خمینی (رہ) نے کہا تھا کہ دنیا کے تمام مسلمان اگر اکٹھے ہو جائیں اور ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیل پر ڈال دیں تو وہ غرق ہو جائے گا۔ ہم یوم القدس اس سال بھی گذشتہ سالوں کی طرح ان شاء اللہ شان و شوکت کیساتھ منائیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ جس طرح یوم علیؑ پر کچھ لوگ پروپیگنڈا کرنے کیلئے بلوں سے باہر نکلے، اسی طرح یوم القدس کے موقع پر بھی استعماری کارندے میدان میں نکلیں گے اور یوم القدس کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ جس طرح ہم نے یوم علیؑ منایا، اسی طرح بھرپور طریقہ سے یوم القدس کو بھی منائیں گے۔
اسلام ٹائمز: امام خمینی (رہ) نے یوم القدس کی بنیاد رکھ کر امت مسلمہ کو استعماری طاقتوں کیخلاف متحد ہونیکا موقع فراہم کیا، لیکن آج کئی عرب ممالک تو اسرائیل میں سفارتخانے قائم کرنیکی بات کر رہے ہیں، یہ قبلہ اول کسی ایک ملک کا مسئلہ رہ گیا ہے۔؟
علامہ حمید امامی: میں حیران ہوں کہ جب ایران اسرائیل کیخلاف آواز اٹھاتا ہے تو عرب ممالک اس کے خلاف بات کرتے ہیں، حالانکہ فلسطین میں تو اکثریت اہلسنت برادران کی ہے۔ بعض عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ کو خوش کرنے کیلئے ایران کی مخالفت میں آواز اٹھاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایران، لبنان، یا پاکستان سے زیادہ عرب ممالک اسرائیل کیخلاف آواز اٹھاتے۔ لیکن وہ کسی صورت امریکہ کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے۔ بیت المقدس تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، وہ صرف اہل تشیع یا صرف اہلسنت کا تو نہیں ہے۔ قبلہ اول تمام مسلمانوں کا ہے، جس میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ اب اگر عرب ممالک مخالفت برائے مخالفت کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ و اسرائیل ناراض نہ ہوں۔
اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر کورونا کیوجہ سے کیا یوم القدس کی تقریبات اور جلوس وغیرہ متاثر ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ حمید امامی: میرے خیال میں کورونا وائرس یوم القدس پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیئے، بلکہ اس سال اس کو زیادہ اہمیت دی جائے تو بہتر ہے، بلکہ ہم تو کوشش کریں گے کہ پہلے سے زیادہ بھرپور انداز میں یوم القدس کو منایا جائے۔
اسلام ٹائمز: جنرل قاسم سلیمانی نے بیت المقدس کی آزادی کی تحریک کو بھرپور قدرت فراہم کی، لیکن آج وہ ہمارے درمیان نہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انکی شہادت سے اس تحریک کو مزید تقویت ملے گی۔؟
علامہ حمید امامی: پوری دنیا نے دیکھا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایران نے امریکہ کے منہ پر ایک ایسا تھپڑ رسید کیا کہ مسلمان ممالک بھی حیران رہ گئے، کیونکہ امریکہ خود کو ایک سپر پاور سمجھتا تھا۔ ایران میں ایسا نہیں ہے کہ اگر جنرل سلیمانی شہید ہوگئے تو ان کے بعد کوئی اس تحریک کو آگے نہیں لیجا سکے گا، وہاں وہ لوگ ہیں، جو فلسطینیوں کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
اسلام ٹائمز: رہبر انقلاب اسلامی نے چند سال قبل کہا تھا کہ اسرائیل آئندہ 25 سال نہیں دیکھ پائے گا، امت مسلمہ صیہونی ریاست کے خاتمے کا یہ خواب رہبر معظم کی پیشنگوئی کے تناظر میں کب تک شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ سکتی ہے۔؟
علامہ حمید امامی: ہمارا ایمان ہے کہ رہبر معظم جو کچھ کہتے ہیں، وہ ضرور ہوتا ہے، میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ دیکھیں گے کہ اسرائیل کا خاتمہ زیادہ دور نہیں، بیت المقدس کی آزادی کی تحریک ان شاء اللہ جلد اپنے انجام کو پہنچے گی اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کا جلد خاتمہ ہوگا۔
خبر کا کوڈ: 863279