بیت المقدس کسی ایک فرقہ کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا حق ہے
اگر عالم اسلام امام خمینی (رہ) کے فرمان پر گوش بر آواز ہوجاتا تو بیت المقدس کب کا آزاد ہوگیا ہوتا، مولانا سید غافر رضوی
مسلمانوں کے باہمی انتشار و اختلاف کیوجہ سے آج بھی ہم بیت المقدس دشمن کے چنگل سے آزاد نہیں کرا پائے ہیں
15 May 2020 16:37
پیام اسلام فاؤنڈیشن کے نائب مدیر کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ دور حاضر میں سوشل میڈیا ایک بہترین اسلحہ ہے یعنی ترقیات زمانہ کے پیش نظر میں یہی کہوں گا کہ اِس زمانہ میں نوجوان طبقہ پر جتنا کارگر حملہ سوشل میڈیا ہے اتنا اثر انداز کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہم سوشل میڈیا کے ذریعہ جو تبلیغ کرنا چاہیں اس میں زیادہ تر کامیابی کے امکانات ہیں کیونکہ واٹسپ، ٹیلیگرام، فیسبک، انسٹاگرام وغیرہ جیسے کتنے ہی پروگرام ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنے پیغام کو اپنی جوان نسل تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ حال حاضر میں یہی ایک ایسا اسلحہ ہے جو ہمیں ہماری منزل سے قریب کرسکتا ہے۔
ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی کا تعلق ہندوستانی ریاست اترپردیش سے ہے، مولانا سید غافر رضوی تعلیم و تدریس کے علاوہ متعدد محاذوں پر سرگرم عمل ہیں، تحقیق، تصنیف، خطابت، شاعری میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ ادارۂ شعور ولایت لکھنؤ انڈیا کے معاون مدیر ہیں، ادارۂ ریاض القرآن لکھنؤ میں فعال رکن کی حیثیت سے مصروف ہیں، ادارۂ نور اسلامک مشن لکھنؤ میں عمومی رکن ہیں۔ مولانا غافر رضوی ساغر علم فاونڈیشن کے مدیر، پیام اسلام فاؤنڈیشن کے نائب مدیر، ابوطالب انسٹیٹیوٹ کی ہیئت تحریریہ کے رکن، ہندوستان کے مشہور و معروف اخباروں میں بھی ان کے مضامین مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں، مولانا سید غافر رضوی کی متعدد کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ فی الحال دانشنامہ اسلام ہند و ایران، ایران کلچر ہاؤس میں علمائے ہند کی مختصر اور مفصل زندگانی پر آپ کی تحقیق جاری ہے۔ اسلام ٹائمز نے مولانا سید غافر رضوی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: موجودہ حالات میں کہ جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں لاک ڈاؤن جاری ہے، یوم القدس یا بیت المقدس کی بازیابی کے حوالے سے کیا لائحہ عمل انجام پانا چاہیئے۔؟ کیسے ہم گھروں میں رہ کر بھی اس مہم کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی: اگرچہ کورونا وائرس جیسے مہلک عذاب نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ کاروبار زندگی پوری طرح انجام دیئے جارہے ہیں یہ بات الگ ہے کہ کیفیت تھوڑی بدلی ہوئی ہے۔ جس طرح ہم کاروبار زندگی انجام دے رہے ہیں اسی طرح فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں نیز بیت المقدس کی آزادی کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے، کیونکہ بیت المقدس ہمارا قبلۂ اوّل ہے یعنی وہ ہمارا تھا اور ہمارا ہی ہے لہٰذا ہمیں اپنا حق حاصل کرنے کے لئے صدائے احتجاج بلند کرنی ہے، لیکن اس سال ماحول کے پیش نظر الوداعی جمعہ کا انعقاد محالات کی منزلوں میں ہے لہٰذا ہمیں ایسی صورت میں سوشل میڈیا کو اپنا اسلحہ بناکر بیت المقدس کی آزادی اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کرنی چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: اسلام دشمن طاقتوں کی جانب سے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کی سازشیں عمل میں لائی جارہی ہیں، اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دشمن طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہ اور فلسطین کی دشمن ہیں لیکن ان تمام طاقتوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر یہ سوپر ہیں تو ان کے اوپر بھی کوئی ہے اور سب سے اوپر وہ ذات ہے جو مظلوم کے دل سے بلند ہوئی آہ کو بھی سنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کی رچی ہوئی تمام سازشیں ناکام ہوں گی اور وعدۂ الٰہی کے مطابق پرچم اسلام سربلند ہوگا۔ انشاء اللہ
اسلام ٹائمز: بدقسمتی سے سینچری ڈیل کو بعض اہم عرب ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی، اس پر آپ کا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: کہیں پر نمک حرامی صادق آتی ہے اور کہیں پر نمک ناشناسی، اس سوال سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کی رگ و پئے میں نمک حرامی اور نمک ناشناسی دونوں ہی چیزیں رچ بس گئی ہیں جو اپنے محسن کے احسانوں کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: دشمنان اسلام کی جانب سے آئے روز فلسطینیوں کے خلاف منصوبوں اور سازشوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ایسے میں ہر سال یوم القدس کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: اس میں کوئی شک نہیں کہ گزر زمان کے ساتھ اسلام دشمن طاقتیں اسلام کے خلاف نت نئی سازشیں رچ رہی ہیں لیکن جیسے جیسے سازشوں میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ویسے یوم القدس کی ریلیوں میں جوش و ولولہ میں زیادتی نظر آتی ہے اور امت مسلمہ کا یہی جوش بیت المقدس کو آزاد کرائے گا اور مظلوم فلسطینیوں کو ظلم و ستم کے چنگل سے رہائی دلائے گا۔
اسلام ٹائمز: کہا جارہا ہے کہ مسئلہ فلسطین پر بھارت کی پالیسی میں پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے، یعنی مسئلہ فلسطین پر حکومتی موقف بدل گیا ہے، آپ پہلے اور آج کے بھارتی حکومت کے موقف کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی: در حقیقت پہلے بھارت اور اسرائیل کے درمیان دوستی اتنی زیادہ گہری نہیں تھی جتنی زیادہ گہری اس وقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے فلسطین کے بارے میں جو بھارتی حکومت کا نظریہ تھا وہ اب نہیں ہے، در حقیقت یہ حکومتی پیمانہ پر سیاسی داؤ پیچ ہیں جو سادہ لوح انسانیت کے ذہن سے ماوراء ہیں۔
اسلام ٹائمز: ایک جانب اگر حکومتی موقف میں بدلاؤ آیا ہے لیکن دوسری جانب عوامی سطح پر بھارت میں فلسطینوں کی حمایت میں روز بروز اضافہ دیکھا جاسکتا ہے، جیسے کہ ہر سال یوم القدس کی ریلیوں میں یہاں کی عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، آپ اس حوالے سے کیا نظریہ رکھتے ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی: اصل میں سادہ لوح انسانیت اور حکومت کے داؤ پیچ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، سیاسی داؤ پیچ کی بناء پر بھارتی حکومت تو فلسطینیوں کی طرف سے بے رخی کا اظہار کررہی ہے لیکن عوام یہ کام نہیں کرسکتی کیونکہ اس کے پہلو میں انسانیت کا دل دھڑک رہا ہے جو انسانیت کی خاطر ہر وقت مر مٹنے کو تیار ہے یہی وجہ ہے کہ یوم القدس کی ریلیوں میں دن بہ دن ترقی نظر آتی ہے۔
اسلام ٹائمز: بیت المقدس کی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی سمجھی جاتی ہے، اس حوالے سے آپ کا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید غافر رضوی: یقیناً باہمی انتشار ایسی مہلک بیماری ہے جو انسانیت کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالتی ہے، اتحاد ایسی قوت ہے جو ایوانِ ستم کے پائے لرزا دیتی ہے، اگر برسوں پہلے عالم اسلام امام خمینی کے فرمان پر گوش بر آواز ہوجاتا تو بیت المقدس نہ جانے کب کا آزاد ہوگیا ہوتا اور مظلوم فلسطینیوں کو نجات مل گئی ہوتی لیکن مسلمانوں کے باہمی انتشار و اختلاف کی وجہ سے بیت المقدس آج بھی ہم دشمن کے چنگل سے آزاد نہیں کرا پائے ہیں، بیت المقدس کسی ایک فرقہ کا نہیں بلکی پوری امت مسلمہ کا حق ہے لہٰذا اس حق کو لینے کے لئے پوری امت کو ایک ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔
اسلام ٹائمز: سوشل میڈیا کے ذریعہ ہم اس اسلامی مشن و مہم یعنی بیت المقدس کی آزادی کی مہم کو کیسے مؤثر بناسکتے ہیں۔؟
مولانا سید غافر رضوی: دور حاضر میں سوشل میڈیا ایک بہترین اسلحہ ہے یعنی ترقیات زمانہ کے پیش نظر میں یہی کہوں گا کہ اِس زمانہ میں نوجوان طبقہ پر جتنا کارگر حملہ سوشل میڈیا ہے اتنا اثر انداز کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے لہٰذا ہم سوشل میڈیا کے ذریعہ جو تبلیغ کرنا چاہیں اس میں زیادہ تر کامیابی کے امکانات ہیں کیونکہ واٹسپ، ٹیلیگرام، فیسبک، انسٹاگرام وغیرہ جیسے کتنے ہی پروگرام ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنے پیغام کو اپنی جوان نسل تک پہنچا سکتے ہیں بلکہ حال حاضر میں یہی ایک ایسا اسلحہ ہے جو ہمیں ہماری منزل سے قریب کرسکتا ہے۔ آج ہر ہاتھ میں موبائیل ہے، ہماری نوجوان اور جوان نسل موبائیل کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتی ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں موبائیل یعنی سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی ہم اپنے پیغام کو اچھی طرح عام کرسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ: 862860