اپنے ہی مرتب کردہ معاہدے کی انتظامیہ نے تین بار خلاف ورزی کی
بوشہرہ تنازعہ کے حوالے سے انتظامیہ کا جانبدارانہ فیصلہ عدل و انصاف کا قتل ہے، علامہ عابد الحسینی
27 Apr 2020 22:54
پاراچنار میں فریقین کی تازہ لڑائی کے حوالے سے اسلام ٹائمز کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران سابق سینیٹر علامہ عابد حسینی کا کہنا تھا کہ ڈنڈر بوشہرہ کے حالیہ معاہدے کو معاہدہ نہیں بلکہ سادہ لفظوں میں ایک آرڈیننس کہنا چاہیئے، بلکہ فورسز کے ایک ذمہ دار شخص کے ہاتھوں اسے عدل و انصاف کا پہلا اور بدترین قتل قرار دیا جاسکتا ہے۔ موصوف نے اپنے ہی مرتب کردہ معاہدے کی تین بار خلاف ورزی کی اور معاہدے کو پس پشت ڈال کر ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ پاکستان میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے۔ جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے بوشہرہ کی تازہ لڑائی کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں کرم کے مسائل کا حل کیسے نکالا جاسکتا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: میرے خیال میں کرم کے مسائل کے حل میں صرف اللہ ہی پر تکیہ کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہاں انتظامیہ خود فریق کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ہم بار بار کہہ بھی چکے ہیں کہ بالش خیل، بوشہرہ، غوز گڑھی، نری میلہ وغیرہ تمام تنازعات کا حل حکومت کے پاس موجود ہے۔ سرکاری کاغذات مال کی روشنی میں تمام متنازعہ مسائل کا حل خود حکومت ہی نکالے۔ مگر مقامی انتظامیہ کا کردار بذات خود مشکوک ہے۔ چنانچہ ان تنازعات کے حل میں ان سے کوئی امید نہیں۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب ڈنڈر اور بوشہرہ کی تازہ لڑائی کے حوالے سے آپکی رائے کیا ہے، کون سا فریق قصور وار ہے۔؟َ
علامہ سید عابد الحسینی: میں تو یہی کہوں گا کہ اس میں فریقین کا کوئی قصور نہیں، بلکہ اس میں سارا قصور مقامی انتظامیہ کا ہے، بلکہ میرے خیال میں اس حوالے سے سول انتظامیہ کا بھی اتنا قصور نہیں ہوگا، جتنا قصور یہاں تعینات فورسز کے ایک ذمہ دار شخص کا ہے، کیونکہ یہ شخص ہر کام سے کام تو رکھتا ہے، مگر کسی کے حل کی کوشش نہیں کرتا، بلکہ ٹائم پاس کرکے لوگوں کا وقت ضائع کرتا ہے۔ آج کل تو اس نے سول انتظامیہ نیز عدلیہ کا چارج بھی خود سنبھال رکھا ہے۔ اس کی کارکردگی پر حیرت ہے۔ وہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ اور ہیں۔ ہر کام میں کام تو رکھتا ہے، مگر جب ایک فریق کے عدم تعاون کی وجہ سے ناکام رہتا ہے تو مظلوم فریق کو بڑے آرام سے جواب دیکر کہتا ہے کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں، بلکہ یہ کام عدالت کا ہے۔ یہ لوگوں کو بیوقوف بناتا ہے۔ گویا کوئی سمجھتا ہی نہیں، کیونکہ جب تمہارا کام نہیں، تو ابتداء میں ہی اسے عدالت یا سول انتظامیہ کی صوابدید پر چھوڑ دیتے۔
اسلام ٹائمز: بوشہرہ کے مسئلے کے حوالے سے سنا ہے کہ آپ سے بھی رابطہ کیا گیا تھا۔ آپ نے مداخلت کیوں نہیں کی۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: ہاں بالکل میرے ساتھ بذات خود نیز تحریک حسینی کے صدر اور انجمن حسینیہ کے ساتھ اس حوالے سے علیحدہ علیحدہ رابطہ ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے تحریک حسینی کے رہنماؤں سے کہا کہ مسئلے کا فوری اور منصفانہ حل ڈھونڈا جائے۔ خیال رہے کہ بہت سارے اہل سنت قبائل ہم سے رجوع اور تعاون طلب کرتے ہیں۔ جن میں سے منگل، مقبل، خروٹی، بنگش اور پاڑہ چمکنی قبائل قابل ذکر ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ عدالتی سطح پر بھرپور تعاون کیا ہے۔ خروٹی قوم کے مابین صلح، پاڑہ چمکنی میں سرکاری چیک پوسٹ کی تعمیر کا مسئلہ، مقبل اور منگل کا مسئلہ وغیرہ ہم نے کسی بھی قوم قبیلے کو مایوس نہیں کیا ہے، جبکہ حالیہ مسئلے کے حوالے سے بھی میں نے صدر تحریک حسینی سے کہا کہ بذات خود جاکر مسئلے کا حل نکالیں۔ جنہوں نے بار بار رابطے کئے اور اتوار کا دن مذاکرات کے لئے قرار دیا۔ تاہم معینہ دن سے ایک دن پہلے ہی اہلیان بوشہرہ نے قانون اپنے ہاتھ میں لیکر لڑائی چھیڑ دی۔ چنانچہ ہمارے رابطے کیلئے انہوں نے کوئی گنجائش ہی ںہیں چھوڑی۔
اسلام ٹائمز: جنگ کے بعد جو معاہدہ ہوا، اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: اسے معاہدہ نہیں بلکہ سادہ لفظوں میں ایک آرڈیننس کہنا چاہیئے، بلکہ ایک ذمہ دار ادارے کے ذمہ دار شخص کے ہاتھوں اسے عدل و انصاف کا پہلا قتل قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس نے اپنے ہی مرتب کردہ معاہدے کی تین بار خلاف ورزی کی اور معاہدے کو پس پشت ڈال کر ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔
اسلام ٹائمز: معاہدے کی کونسی شق کی خلاف ورزی ہوئی اور ناانصافی کیسے ہوگئی۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: کئی موارد میں خلاف ورزی ہوئی ہے۔
1۔ جنگ چھیڑنے اور ظلم سہنے والے فریق کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا گیا۔
2۔ غلط افواہ پھیلا کر حکومت کو دھوکہ دیا گیا۔ حکومت نے موقع پر سب کچھ دیکھ کر بھی ظلم پر آنکھیں بند کر لیں۔
3۔ جارح فریق نے نہ فقط اپنے مدمقابل شیعہ گاؤں ڈنڈر کو نشانہ بنایا، بلکہ غیر متعلقہ گاؤں شاخ دولت خیل کو بھی بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔ مگر حکومت نے انہیں کوئی سزا نہیں دی۔
4۔ اس کے علاوہ امن قائم کرنے کیلئے فوج کے ساتھ موجود شیعہ جرگہ ممبران کو فوج کی موجودگی میں اشتعال انگیز گالیاں دی گئیں۔ حکومت صرف خاموش تماشائی بنی رہی۔
5۔ زمین کے تنازعے کو غلط اور فرقہ وارانہ رنگ دیکر پورے پاکستان میں نفرت پھیلائی گئی، مگر حکومت کی جانب سے انہیں سزا کی بجائے انعام ملا۔
6۔ بیس گھرانوں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گاؤں پر پانچ سو گھرانوں نے بھاری ہتھاروں سے حملہ کیا۔ اس میں سے سب سے زیادہ حیران کن کردار ان کے حلیف سنی بنگش قبیلے کا ہے، جن کا نفع نقصان انہی بیس شیعہ گھرانوں کے ساتھ ہے۔ تاہم اپنی قرارداد کو پس پشت ڈال کر معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا۔ ان سب کے باوجود فورسز کے ایک ذمہ دار شخص نے اپنی ذمہ داری کا کوئی لحاظ رکھنے کی بجائے انصاف کا قتل عام کیا اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا نہیں دی، جبکہ یہی شخص بالش خیل کے حوالے سے خود کو بے بس شو کررہا ہے۔
اسلام ٹائمز: کرم میں ایسے مسائل کا آخری حل آپکی نظر میں کیا ہوسکتا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: میں چالیس پینتالیس سال سے کرم کی سیاست سے وابستہ رہا ہوں، اس دوران میری ہمیشہ سے یہ روش اور طریقہ کار رہا ہے کہ بار بار کوششوں کے باوجود کبھی انتظامیہ سے ملاقات نہیں کی۔ تاہم گذشتہ چند سال سے اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے بے حد اصرار پر ان سے ملاقاتیں کیں۔ خصوصاً سابق بریگیڈیئر بار بار ہمارے گھر اور مدرسہ میں آئے۔ ملاقات کے دوران ہم نے کرم کے تمام مسائل ان کے سامنے رکھے اور کہا کہ کرم میں کسی مسئلے کا تعلق مسلک اور عقیدہ سے نہیں، بلکہ مفادات خصوصاً اراضی سے متعلق ہیں۔ انہوں نے بار بار مسائل کے حل کی یقین دھانی کروائی، تاہم کسی مسئلے کا حل نکالے بغیر اپنی مدت پوری کرکے چلے گئے۔
اس کے بعد موجودہ بریگیڈیئر صاحب بھی کئی مرتبہ ہمارے مدرسے اور گھر آئے۔ انہیں بھی کرم کے مسائل کے حوالے سے پوری طرح سے بریف کیا گیا۔ انہوں نے مختصر وقت میں مسائل کے حل کا یقین دلایا۔ مگر اب یقین ہوگیا کہ ہر ایک بغیر کسی حل کے اپنی مدت پوری کرکے چلا جائے گا۔ چنانچہ اب میرا اپنا خیال یہی ہے کہ حکام بالا، خصوصاً جرنیلوں اور آرمی چیف تک رسائی حاصل کی جائے اور انہیں مقامی مسائل سے آگاہ کرنے کے علاوہ مقامی سطح پر افسران کے جانبدارانہ رویئے سے بھی مطلع کیا جائے۔ اگر وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں ملا تو پھر تو یہی نتیجہ لیا جائے گا کہ پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی ہے۔
خبر کا کوڈ: 859363