ٹائیگر فورس کا مقصد لوگوں کو دھوکہ دینا ہے
موجودہ حکومت اور اپوزیشن ملکر پاکستانی عوام سے انتقام لے رہی ہیں، سردار ظفر حسین
22 Apr 2020 22:28
جماعت اسلامی کے صوبائی رہنماء کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہم نے سیاسی اختلاف کے باوجود حکومت کیساتھ کرونا کے معاملے میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہماری ذیلی تنظیمیں مسلسل خدمت میں مصروف ہیں، کروڑوں روپے کا راشن پہنچایا جا چکا ہے، آگہی، صفائی اور سپرے کی مہم چلائی گئی ہے، دوسری سیاسی مذہبی جماعتیں بھی اپنے اپنے دائرے میں کام کریں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آزمائش میں کامیاب کرے۔
جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے نائب امیر سردار ظفر حسین جماعت اسلامی فیصل آباد کے سابق امیر اور ایڈووکیٹ ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست سے وابستہ ہیں۔ موجودہ صورتحال، وفاقی حکومت کیطرف سے موجودہ کابینہ اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کیخلاف چینی اسکینڈل میں سامنے آنیوالے الزامات، کرونا وائرس وباء کیوجہ سے درپیش چیلنج اور سرکاری و غیر سرکاری اقدامات کے متعلق انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: ایف آئی اے کی رپورٹ پر نیب نے چینی اسکینڈل کے کرداروں کیخلاف تحقیقات کے بعد کارروائی کا عندیہ دیا ہے، کیا نتیجہ سامنے آئیگا۔؟
سردار ظفر حسین: ہم نے ہمیشہ کرپشن کیخلاف آواز اٹھائی ہے، سب سے پہلے عدالت میں کرپشن کیخلاف تحقیقات کی اپیل لیکر گئے، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے، موجودہ حکومت اسی نعرے پہ اقتدار میں آئی کہ کرپشن کو ختم کرینگے، لیکن ہم نے شروع سے کہا ہے کہ یہ صرف نعرے ہیں۔ لیکن نااہلی کیساتھ ساتھ دوسری جماعتوں کے کرپٹ افراد کو ملا کر یہ حکومت بنائی گئی۔ موجودہ وقت ان باتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا نہیں، یہ درست ہے، لیکن کرپشن کیخلاف تحقیقات بھی ہونی چاہیں، مقدمات بھی چلنے چاہیں، موجودہ اسکینڈل سے پہلے بھی وزراء کے نام آئے ہیں، لیکن انہیں چھوڑ دیا گیا، ہمارا خیال ہے کہ جب تک موجودہ پارٹی یا جنہیں مین اسٹریم سیاستدان کہا جاتا ہے، یہ جب تک اقتدار میں رہیں گے، حالات میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئیگی، بلکہ تبدیلی کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا رہیگا۔
اس دفعہ بھی چینی اور آٹے کے بحران پر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں وزیراعظم کے قریبی رفقاء کو چینی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور یہ انکشاف سامنے آیا کہ پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور موجودہ حکومت کے بانی اور معمار جہانگیر ترین اور موجودہ حکومت کا ایک دوسرا سہارا وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر ملوں نے سبسڈی اور چینی کی ایکسپورٹ سے پیدا ہونے والے بحران میں اربوں روپے کا منافع کمایا۔ یہ بھی چینی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف عوام اور اپوزیشن کے احتجاج پر عمران خان نے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں 6 رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا، جس کی رپورٹ گذشتہ دنوں منظر عام پر آئی، لیکن اگر اصل کرداروں کی بات کی جائے تو وہ تو موجودہ وزیراعظم ہے۔ جو ان لوگوں کے سہارے سے اقتدار تک پہنچا۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ جن لوگوں نے کرپشن کی ہے کہ انہوں نے مختلف سیاسی پارٹیوں کے الیکٹیبلز کو لالچ دیکر پی ٹی آئی میں شامل کروایا، کس کا طیارہ استعمال ہوا، کس کس نے الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد پارٹیاں توڑیں، کیا ان لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات کیلئے پی ٹی آئی کو اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچایا، کیا عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچانے والوں کیخلاف تحقیقات ہونی چاہیں اور جو ان کرپٹ لوگوں کے ذریعے ایوان وزیراعظم تک پہنچا، اس کیخلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیئے۔ میرے خیال میں اصل کردار عمران خان کا ہے، جس نے حکومت بنانے کیلئے اس کرپٹ اشرافیہ کی مدد لی، سب نے ایک دوسرے کا نام، اثر و رسوخ اور پیسہ استعمال کرکے اپنے اپنے مفادات حاصل کیے ہیں۔
اسلام ٹائمز: ہوسکتا ہے کہ جہانگیر ترین دوسرے رہنماؤں کی طرح نیب اور ایف آئی اے کی تحقیقات سے صاف بچ کر نکل آئیں، کیا وہ دوبارہ ڈپٹی وزیراعظم بن سکتے ہیں؟، کیا یہ موجودہ صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے ہے۔؟
سردار ظفر حسین: نہیں ایسا نہیں لگتا، ایک تو عمران خان نے جہانگیر ترین کا نام آتے ہی شہباز گل کے ذریعے یہ اعلان کروایا کہ انہیں زرعی ٹاسک فورس سے الگ کر دیا گیا ہے، لیکن پاور اسکینڈل میں نام آنے پر ندیم بابر اور اس سے پہلے خسرو بختیار کے متعلق ایسا نہیں کیا بلکہ واضح طور پر ان کی حمایت میں کہا ہے کہ وہ اس میں ملوث نہیں ہیں، بلکہ عمران خان نے کابینہ کے وزراء کو بھی کہا ہے کہ ندیم بابر، خسرو بختیار اور عبدالرزاق داؤد ایماندار آدمی ہیں، پاور اسکینڈل میں ندیم بابر، خسرو بختیار اور عبدالرزاق داؤد کا دفاع کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے، عمران خان کو اب ضرورت نہیں اور وہ جہانگیر ترین کو دوبارہ ساتھ رکھیں، لیکن یوٹرن بھی لے سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ نے ہر دور میں عذر تراشے ہیں اور لوگوں کو مختلف اسکینڈلز کے ذریعے گمراہ رکھا ہے، یہ اسکینڈل ہی نہیں بلکہ حکمران جو کچھ لوگوں کی امداد کے نام پہ کر رہے ہیں، یہ بھی سراسر دھوکہ ہے، ایک طرف مر رہے ہیں، بے روزگار ہیں، انہوں نے کروڑون روپے ٹائیگرز کی وردیوں پہ لگا دیئے ہیں، ایسی حکمت عملی بنائی ہے کہ کوئی دوسری جماعت اس کام میں شامل ہو ہی نہیں سکتی۔
اسلام ٹائمز: اگر سسٹم اس حد تک بوسیدہ ہوچکا ہے اور ایف آئی اے کے بعد نیب کی تحقیقیات کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیگا۔؟
سردار ظفر حسین: یہ بھی ان کے انتہا درجے کی ہوس کیوجہ سے ہوا ہے، لالچ اور ہوس کی کوئی حد نہیں۔ اگر شوگر ملز مالکان صرف سبسڈی تک ہی محدود رہتے اور مزید لالچ کرکے چینی کا مصنوعی بحران پیدا نہ کرتے تو شاید تحقیقات کی نوبت نہ آتی۔ جہاں تک نیب کیطرف سے تحقیقات کی بات سامنے آرہی ہے، نیب تو خود ایک سیاست زدہ ادارہ بن چکا ہے، ماضی قریب میں نیب مقدمات اور ان کا حشر سامنے آنے کے بعد تو یہ ایک مذاق لگتا ہے۔ ہمارے لیے یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں سبسڈی کلچر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ملک کا امیر طبقہ اور صنعتکار مختلف حیلے بہانوں سے سبسڈی کی مد میں حکومت سے اربوں روپے بٹور رہا ہے، جس کا بوجھ غریب عوام اٹھا رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت ہمیشہ کیلئے ان کارٹلز کو سبسڈیز دینا بند کرے اور ماضی میں انہیں دی گئی سبسڈیز اُن سے سود سمیت واپس لی جائے، کیونکہ اِسی طرح پاکستان میں معاشی ترقی ممکن ہے۔
اسلام ٹائمز: ایک رائے یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون اور خواہش پر آیا ہے، اب جو مخدوش صورتحال ہے، اسکی ذمہ داری کا تعین کیسے ہوگا، اسکا کوئی حل بھی ہے۔؟
سردار ظفر حسین: پاکستان میں حکومت بنائی بھی مفادات کے پیش نظر جاتی ہے اور حکمرانوں کو گھر بھی مخصوص اور مختصر گروہ کے مفاد کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ لیکن جب نیتیں ٹھیک نہ ہوں تو کام الٹے ہو جاتے ہیں، موجودہ حکومت کے معاملے میں ان قوتوں کو سمجھ جانا چاہیئے کہ جس برے اور بھونڈے طریقے سے حکومت بنوائی گئی، پاکستان کا اس سے سخت نقصان ہوا ہے۔ پہلے صرف حکومت کے مخالفین کہتے تھے کہ ملک خطرے میں ہے، اب کی بار ذرا معاملہ یوں مختلف ہے اور تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت اور حکومت کی حمایت کرنے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
ہم یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں کہ وزیراعظم قوم سے خطاب کرتے وقت قوم کو حوصلہ دینے کے بجائے بھوک اور بیروزگاری سے ڈراتے ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات بھی مسئلہ ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تنازع بھی مسئلہ ہے، افغانستان بھی پاکستان کے لئے ایک مسئلہ ہے۔ مذہبی انتہاء پسندی اور تفرقہ بازی بھی مسئلہ ہے اور اسی طرح کے سینکڑوں اور مسائل بھی ہیں، جن کا اس ملک کو سامنا ہے، لیکن اس بات پر اجماع کی سی کیفیت ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔
اسلام ٹائمز: پاکستان تو شروع سے ہی بحرانوں اور مسائل کا شکار ہے، موجودہ سیٹ اپ لانیوالے اور صرف موجودہ حکومت چلانے والوں کو کیسے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔؟
سردار ظفر حسین: یہ تو میں کہہ چکا ہوں کہ پاکستان پہلے ہی مسائل کا شکار ہے، لیکن جس طرح ہر دفعہ کوئی نہ کوئی نعرہ اور جھانسہ دیا جاتا ہے، جس سے لوگوں کو مائل اور مطمئن کیا جاتا ہے کہ کسی مخصوص گروپ کو حکومت میں لایا جائے، تاکہ ملک اور عوام کے مسائل سے چھٹکارا حاصل ہوسکے، عمران خان کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا، لیکن دیکھیں تو 2017ء میں جب پاکستان کا جی ڈی پی گروتھ پانچ فیصد سے زیادہ تھا تو اس وقت اس ملک کے بااختیار حلقے، ماہرین معیشت اور خود عمران خان صاحب ہمیں بتاتے رہتے کہ ملک معاشی تباہی کی وجہ سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کے پیچھے ایک بنیادی محرک یہ بھی تھا کہ ملک کے مقتدر حلقے جب ہندوستانی معیشت کے ساتھ پاکستانی معیشت کا موازنہ کرتے تھے تو اس بات سے تشویش میں مبتلا ہو جاتے تھے کہ اس اقتصادی صورت حال کے ساتھ مستقبل میں پاکستان کو بقا کا سوال درپیش ہوسکتا ہے۔ گذشتہ حکمرانوں کو ملک دشمن بتا کر ان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکال دیں گے۔
لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاملہ اُلٹ ہوگیا۔ جی ڈی پی گروتھ پانچ سے دو فیصد پر آگیا اور اگلے سال کے لئے نیگٹو گروتھ کی پیشگوئی ہو رہی ہے۔ معیشت کا پہیہ رک گیا۔ سرمایہ اندر آنے کی بجائے بیرون ملک بھاگنے لگا۔ کم و بیش ہر صنعت بشمول میڈیا بحران کا شکار ہوگیا۔ سی پیک پر کام سست پڑ گیا۔ پی ٹی آئی حکومت کے رویئے سے چینی ناراض، سعودی پریشان اور ترک حیران ہے۔ یہ وہ دوست ممالک تھے جن کی طرف ہم مستقبل میں اپنی معیشت میں سہارے کے لئے دیکھ رہے تھے۔ رہا امریکہ تو پاکستان سے اس کی افغانستان کے حوالے سے محتاجی ختم ہو رہی ہے اور مستقبل میں اس کی طرف سے کسی معاشی سہارے کا امکان نہیں۔ اب حالات سنگین ہوتے جا رہے ہیں، ادھر دنیا کرونا کیوجہ سے ایک بڑے امتحان میں مبتلا ہوچکی ہے۔ یوں تو پاکستانی سیاست اور نظام حکومت پر جتنا رویا جائے کم ہے، لیکن اس وقت وائرس کیوجہ سے پھیلنے والی وباء پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: اپوزیشن اور حکومت اگر متحد ہو کر کام کریں تو کرونا کراسز کے سبب پیدا ہونیوالی مشکلات پہ قابو آسان ہوجائیگا۔؟
سردار ظفر حسین: کسی بھی ہنگامی صورتحال کی طرح ہمارا اتفاق ہونا چاہیئے، یہ چیلنج بھی ایسا ہے کہ ساری قوم کو ایک پیج پہ ہونا چاہیئے، اب تک حکومت کے پاس کوئی فارمولا ہونا چاہیئے تھا یا پھر اپوزیشن کے پاس، لیکن افسوس اس نازک دور میں حکومت کا کردار جاہلانہ تو اپوزیشن کا مجرمانہ ہے۔ عمران خان کے پاس کوئی ویژن ہے، کوئی فارمولا اور نہ کوئی ہوم ورک۔ وزیراعظم بننے کے بعد تکبر کے اس بلند ترین مقام پر فائز ہوچکے ہیں کہ وہ اپوزیشن کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ کسی اور کی رہنمائی کی۔ وہ ہر مسئلے کا حل اپنی ایک تقریر سمجھتے ہیں۔ جو جتنا بڑا خوشامدی ہے، وہ ان کے اتنے قریب ہوتا ہے اور جو جتنی عقل کی بات کرے، وہ اتنا ان کی بیڈ بکس میں آجاتا ہے۔ ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس بحرانی کیفیت کا کوئی حل نکال لیں گے، احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
جب حکومت کی یہ حالت ہے تو اپوزیشن کا فرض بنتا تھا کہ وہ کوئی متفقہ لائحہ عمل بنا کر کوئی فارمولا سامنے لے آتی کہ جس کے نتیجے میں ہم پہلے کورونا سے اور اس کے بعد معیشت کے مسئلے سے نمٹنے کے قابل ہو جاتے، لیکن اس نے بھی اپنے لئے مجرمانہ کردار چنا ہے۔ اپوزیشن لیڈر اپنی خاموشی اور لاتعلقی کے ذریعے ان لوگوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں، جو عمران خان کو لائے ہیں، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ سزا عمران خان کو مل رہی ہے اور نہ لانے والوں کو بلکہ پورے ملک اور اس کے غریب عوام کو مل رہی ہے۔ اس لیے ہم نے سیاسی اختلاف کے باوجود حکومت کیساتھ کرونا کے معاملے میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہماری ذیلی تنظیمیں مسلسل خدمت میں مصروف ہیں، کروڑوں روپے کا راشن پہنچایا جا چکا ہے، آگہی، صفائی اور سپرے کی مہم چلائی گئی ہے، دوسری سیاسی مذہبی جماعتیں بھی اپنے اپنے دائرے میں کام کریں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آزمائش میں کامیاب کرے۔
خبر کا کوڈ: 858339