بی جے پی کا ایجنڈا اسرائیل سے ماخوذ ہے
بھارت میں ہندو مسلم فسادات کی کبھی بھی آزادانہ جانچ نہیں ہوئی، جو جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے، ڈاکٹر منظور عالم
این آر سی کا اصل مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے
8 Apr 2020 19:58
آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سیکرٹری کا نئی دہلی میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ این آر سی میں جن لوگوں کا نام نہیں آئیگا ان میں مسلمانوں کو علاوہ کو شہریت ترمیمی ایکٹ کی بنیاد پر شہری تسلیم کرلیا جائیگا مسلمانوں کیلئے کوئی آپشن نہیں ہوگا، کیونکہ این آر سی کی بنیاد پر وہ غیر ملکی ٹھہرائے جائیں گے اور قانون کے مطابق غیر ملکی مسلمانوں کو ہندوستان شہریت نہیں دیگا۔ یہ قانون یقینی طور پر انسانی حقوق، ملکی دستور اور انصاف کیخلاف ہے تاہم یہ قانون بن چکا ہے جسکا اصل مقصد مسلمانوں کو نقصان پہونچانا ہے جس سے بچنا اور اس سازش کو ناکام بنانا ضروری ہوگیا ہے اور اسکا اثر این آر سی نافذ ہونیکا بعد ظاہر ہوگا۔ مسلمانوں کو سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کرنا چاہیئے۔
ڈاکٹر محمد منظور عالم کا تعلق بھارتی ریاست بہار سے ہے، وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں، جسکا قیام بھارتی مسلمانوں کے اتحاد و ملی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1992ء میں عمل میں لایا گیا، وہ Institute Of Objective Studies کے چیئرمین بھی ہیں، جو قوم کے وسیع مفادات کیلئے وجود میں آئی ہے، مسلمانوں کو کلمہ لا الہ الا اللہ پر متحد کرنا، مسلمانوں کی جان و مال و عزت کے تحفظ کے اقدام کرنا اور بھارت میں بے قصور مسلمانوں پر ہونیوالی زیادتی اور ناانصافی کیخلاف جدوجہد کرنا ملی کونسل کے اہم اہداف میں شامل ہے، ڈاکٹر منظور عالم اسکے علاوہ کئی رسالوں کے مدیر اور ایڈیٹر بھی ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ڈاکٹر منظور عالم سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: این آر سی اور سی اے اے قوانین جو بھاجپا حکومت کی جانب سے بھارتی عوام پر تھوپے گئے ہیں، یہ قوانین کیا ہیں اور آپ ان قوانین کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر منظور عالم: شہریت ترمیمی بل اب ایک مستقل قانون میں تبدیل ہوچکا ہے، اس قانون کے مطابق بھارتی حکومت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں اور یہودیوں کے علاوہ تمام اقوام کو شہریت دے گی۔ پہلے شہریت ملنے کی مدت 11 سال ہوتی تھی اب اسے بھی کم کرکے صرف 6 سال کردیا گیا ہے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، جین اور بڈھست کو شہریت دینے کے لئے یہ ایکٹ بنایا گیا ہے لیکن مسلمانوں کو اس سے دور رکھا گیا ہے۔ بھارت کے پڑوس میں مذکورہ تین ممالک کے علاوہ میانمار، چین اور تبت جیسے ممالک بھی ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے ہوئے بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں پر ظلم ہوتا ہے اس لئے انہیں پناہ دینا ہندوستان کا اخلاقی فریضہ ہے اسی لئے ہم یہ بل لیکر آئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ میانمار اور چین میں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے، یہ بھی ہندوستان کے پڑوس میں ہیں پھر انہیں شہریت دینے سے ہندوستان انکار کیوں کررہا ہے۔ سری لنکا میں ہندﺅوں پر ظلم ہورہا ہے، تبت میں عیسائیوں پر تشدد ہورہا ہے ان کی فکر کیوں نہیں ہے جبکہ یہ بھی ہندوستان کے پڑوسی ممالک ہیں اور سرحدیں متصل ہیں۔ دراصل شہریت ترمیمی بل بھارت کے آئین، دستور اور اصول کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون انسانی حقوق، انصاف، مساوات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور آزادی پر حملہ ہے۔ اس بل کا بنیادی مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا اور سیکولرزم کا خاتمہ ہے۔ اس قانون کو لاکر بی جے پی نے واضح کردیا ہے کہ وہ اکثریت کی طاقت کی بنیاد پر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنائے گی اور یہ اس کا ایک عملی قدم ہے۔
اسلام ٹائمز: بی جے پی کی جانب سے بار بار ایسے قوانین سامنے آرہے ہیں جن کے نتیجے میں اقلیت میں خوف و ہراس پیدا کیا جارہا ہے، ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔؟
ڈاکٹر منظور عالم: دیکھیئے بی جے پی کا ایجنڈا اسرائیل سے ماخوذ ہے۔ اسرائیل کا یہ قانون ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والا کوئی یہودی اگر اسرائیل کی شہریت حاصل کرنا چاہے گا تو اسے شہریت دی جائے گی، یہی فارمولہ بی جے پی ہندوستان میں نافذ کررہی ہے کہ ہندوستان کے دروازے صرف ہندﺅوں کیلئے کھلے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ ملک صرف ہندﺅوں کا ہے۔ بی جے پی نے ابھی صرف تین ممالک کے ہندﺅوں کے لئے دروازہ کھولا ہے حالانکہ ہندو صرف مذکورہ تینوں ممالک میں نہیں رہتے ہیں، ملیشیا، انڈونیشا، متحدہ عرب امارات سمیت دسیوں ممالک میں ہندوآباد ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ہندو آبادی کو وہاں مکمل مذہبی آزادی، انصاف، مساوت اور تحفظ حاصل ہے۔ ان ممالک نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہمیں ہندو برداشت نہیں ہیں۔ کبھی ان ممالک کے حوالے سے گھر واپسی کی خبر سننے کو نہیں ملی۔ ان ممالک نے کبھی وہاں آباد ہندو اور دیگر کمیونٹی سے شہریت ثابت کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ہے، مجموعی طور ان کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھایا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے تجارت کرنے گئے ہندﺅوں کو باضابطہ مندر بناکر دیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی کرسکیں۔ دوسری طرف بھارت کی موجودہ حکومت اپنے ہی شہریوں کو غیر ملکی قرار دینے کی کوشش کررہی ہے۔ تو بھاجپا کی یہ کوششیں اقلیت خاص طور پر مسلمانوں کے ڈرانا و دھمکانا ہے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری ثابت کرنا ہے۔
اسلام ٹائمز: این آر سی کے حوالے سے امت شاہ بار بار یہ یقین دہانی کرارہے ہیں کہ اس بل کا ہندوستان کے مسلمانوں سے کوئی تعلق ہے نہ خطرہ، آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر منظور عالم: امت شاہ کی یہ حقیقت کے خلاف اور محض سیاسی جملہ ہے۔ ان جملوں پر اس وقت تک کسی حد تک بھروسہ کرنا ممکن تھا کہ اگر این آر سی نافذ کرنے کی بات نہیں ہوتی لیکن وزیر داخلہ یہ بھی صاف لفظوں میں کہہ چکے ہیں کہ وہ ہر حال میں این آر سی نافذ کریں گے۔ دیکھیئے پہلے شہریت ترمیمی بل کی منظوری، اس کے بعد پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ، اس کارروائی کا واحد مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور انہیں پریشان کرنا ہے۔ این آر سی میں جن لوگوں کا نام نہیں آئے گا ان میں مسلمانوں کو علاوہ کو شہریت ترمیمی ایکٹ کی بنیاد پر شہری تسلیم کرلیا جائے گا مسلمانوں کے لئے کوئی آپشن نہیں ہوگا، کیونکہ این آر سی کی بنیاد پر وہ غیر ملکی ٹھہرائے جائیں گے اور قانون کے مطابق غیر ملکی مسلمانوں کو ہندوستان شہریت نہیں دے گا۔ یہ قانون یقینی طور پر انسانی حقوق، ملکی دستور اور انصاف کے خلاف ہے تاہم یہ قانون بن چکا ہے جس کا اصل مقصد مسلمانوں کو نقصان پہونچانا ہے جس سے بچنا اور اس سازش کو ناکام بنانا ضروری ہوگیا ہے اور اس کا اثر این آر سی نافذ ہونے کا بعد ظاہر ہوگا۔ مسلمانوں کو سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کرنا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: حالیہ دنوں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو مارا گیا اور انکے گھروں و دکانوں کو جلایا گیا، کیوں بھارتی حکومت ان فسادات پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔؟
ڈاکٹر منظور عالم: میں یہاں یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ بھارت میں فسادات اور مسلم مخالف حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ آزادی سے لیکر آج تک مسلم مخالف فسادات کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف مواقع پر مختلف شہروں میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے۔ مسلمانوں کے گھر لوٹے گئے ہیں۔ مسلمانوں کے مکانات جلائے گئے ہیں۔ ان کی دکانیں تباہ و برباد کی گئی ہیں۔ مساجد، مدارس اور دیگر مذہبی مقامات پر حملہ ہوتا رہا ہے اور ہر جگہ فساد میں پولیس کا بھی رول نمایاں اور واضح ہوتا ہے۔ پولس انتہا پسندوں پر قابو پانے کے بجائے ان کا ساتھ دیتی ہے۔ خواہ جمشید پور فساد ہو۔ نیلی کا قتل عام ہو۔ بھاگلپور فساد ہو یا پھر 2002 کا گجرات قتل عام۔ ہر ایک فساد اور قتل عام میں مسلمانوں کا جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ یہی معاملہ 2020ء کے دہلی فساد کا ہے۔ یہاں بھی مسلمانوں پر یکطرفہ حملہ ہوا۔ ان کی دکانوں کو جلایا گیا۔ مکانوں کو لوٹا گیا ہے اور پھر آگ کے حوالے کردیا گیا۔ اس پورے فساد میں دہلی پولیس نے بھی انتہا پسندوں اور فسادیوں کا ساتھ دیا۔ پولیس کی ذمہ داری امن و سلامتی برقرار رکھنا ہے اور ملک کا امن و امان خراب کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں کسنا ہے لیکن بھارت میں مسلسل اس کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ اب یہاں آئین کا احترام ختم ہوچکا ہے۔ قانون کا ڈر نہیں رہ گیا ہے اور جن کی ذمہ داری قانون کا نفاذ ہے وہ خود قانون کی اب دھجیاں اُڑا رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: خود بھارت کی سالمیت کے لئے یہ فسادات کس قدر مہلک اور خطرناک ثابت۶ ہورہے ہیں۔؟
ڈاکٹر منظور عالم: پہلی بات تو یہ کہ ان فسادات کی کبھی بھی آزادانہ جانچ نہیں ہوئی جو بھارتی جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے۔ فسادات، منافرت اور تشدد سے ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب کو نقصان پہنچا ہے۔ ملک کی یکجہتی کو نقصان پہونچا ہے۔ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کا نقصا ن ہوا ہے۔ دلوں میں دوریاں پیدا ہوئی ہے۔ ان فسادات کے نتیجے میں عام لوگوں کے دکان اور مکان برباد ہوئے ہیں اور اس کے بدلے میں کچھ لوگوں نے سیاست چمکائی ہے اور کچھ کو کرسیاں ملی ہے۔ اس لئے عوام میں بیداری اور انہیں اس کے نقصانات کا احساس ہونا ضروری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فسادات کو روکے۔ پولیس اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ انجام دے۔ فسادایوں کا ساتھ دینے کے بجائے انکے خلاف ایکشن لے۔ ملک میں امن و امان کو یقینی بنائے کیونکہ ملک کی ترقی کے لئے قانون کی پاسداری ضروری ہے۔ جب عوام کے دلوں سے قانون کا خوف ختم ہوجاتا ہے تو ملک میں انارکی پھیل جاتی ہے اور پھر اس کی آگ ان لوگوں تک بھی پہونچ جاتی ہے جو اس بڑھاوا دیتے ہیں۔ اس لئے ملک کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہندو مسلم کے درمیان نفرت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اس کو پنپنے سے روکا جائے اور بھائی چارہ کو فروغ دیا جائے۔ ہمیشہ یہ تاثر دیا گیا ہے کہ مسلمان اکثریتی طبقہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ انہیں ایک دائرے میں رہنا ہوگا، اگر وہ مخصوص دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، حکومت وقت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں اس کا شدید انجام بھگتنا ہوگا۔ کیا یہ جمہوریت ہے اور سیکولرزم ہے۔
خبر کا کوڈ: 855253