سکیورٹی کے نام پر لوگوں کو تنگ کرنا برداشت سے باہر، اس کیخلاف تمام تنظیموں کو احتجاج کرنا چاہیئے، علامہ عابد حسینی
27 Dec 2019 21:03
سابق سینیٹر کا اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ بارہا تحریک کے رہنماؤں کو تذکر دے چکا ہوں کہ آپ لوگ خوش فہمی میں نہ رہیں۔ موجودہ انتظامیہ تمہیں امید بلکہ دھوکے میں رکھتی ہے۔ آپکا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بالش خیل، شورکی، علیشاری اور پیواڑ کے مسائل جوں کے توں پڑے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی شنوائی ہی نہیں ہو رہی۔ حکومت اکثر معاملات میں مکمل طور پر فریق بنی بیٹھی ہے۔ ہم سنتے ہیں۔ کہ یہاں بیٹھے حکام کو طوری قبائل کی تعمیر و ترقی کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے کرم کے تازہ ترین حالات کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب چند روز قبل ٹریکٹر ڈرائیورز نے پاراچنار بائی پاس روڈ پر احتجاج کیا تھا، اسکا بنیادی سبب کیا تھا اور اس حوالے سے آپکا موقف کیا ہے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ہم روزانہ اس راستے سے بازار آتے ہیں۔ پہلے دن ہم نے دیکھا تو معمول کی سکیورٹی کا خیال کرتے ہوئے گزر گئے۔ اگلے روز جب دوبارہ بیسیووں ٹریکٹرز کو پھاٹک پر کھڑے دیکھا تو حیرت ہوئی۔ تحریک کے ذمہ داران کو طلب کرکے معاملے کا حال احوال پوچھ کر موقع پر بھیج دیا۔ ان کے توسط سے معلوم ہوا کہ چند دنوں سے فوجی انتظامیہ نے ایک نیا حکمنامہ جاری کیا ہے کہ ریت اور بجری لے جانے والے ٹریکٹرز کو پاراچنار میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ احتمال ہے کہ کوئی ممنوعہ چیز شہر میں داخل ہو۔ تو ہم نے اپنے بندوں کو متعلقہ افسران کے ساتھ بات کرنے اور مذاکرات کرنے کیلئے بھیجا۔ جنہوں نے ان پر واضح کیا کہ اگر یونہی لوگوں کو تنگ کیا جاتا رہا تو یہ لوگ احتجاج کریں گے اور پھر انکے ساتھ احتجاج میں ہم بھی شامل ہونگے۔ چنانچہ ان کا احتجاج بالکل حق بجانب تھا اور اس حوالے سے میں اہلیان کرم کو دعوت دیتا ہوں کہ جہاں کہیں ان کے ساتھ ظلم ہو اور حکومت ان کی حق بات سننے کو تیار نہ ہو، تو احتجاج انکا پورا حق ہے اور ایسے احتجاج میں ہم شانہ بشانہ انکے ساتھ ہونگے۔
اسلام ٹائمز: یہ سب کچھ تو آپ اہلیان کرم کی بہتری کیلئے کیا جا رہا ہے۔ آپکی سکیورٹی کیلئے ہو رہا ہے۔ سکیورٹی اگر کڑی نہ ہو تو ممکن ہے پاراچنار شہر کے اندر پھر دھماکے ہوجائیں۔؟
علامہ سید عابد حسینی: پاراچنار میں جو دھماکے ہوئے اور دیگر جو نقصان ہوا، لگتا یہ ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے پلان شدہ تھا۔ اس وقت کی انتظامیہ اس میں ملوث تھی۔ اس حوالے سے ہمارے پاس ایسے کئی شواہد موجود ہیں۔ جیسے کباڑ میں دھماکے میں اس وقت کے تحصیلدار محال کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ اسی طرح امام بارگاہ گیٹ کے سامنے ہونے والے دھماکے میں کرنل کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ دھماکے کے دو ہی منٹ بعد وہ خود ہی حاضر ہوکر مارٹر کے مسڈ گولے اٹھوانے میں مصروف تھے۔ اسی طرح یہ کہ حکومت نے درجنوں مقامات سے خودکش دھماکوں میں استعمال ہونے والا مواد برآمد کیا اور یہ کہ خودکش بمبار کو سہولت فراہم کرنے والوں کا پتہ لگا لیا اور ایسی باتوں کا فوجی افسران نے بھری محفلوں میں اعتراف کیا۔ مگر پھر بھی ملزمان کو سامنے لایا گیا اور نہ ہی انہیں سزا ہوئی۔ چنانچہ کرم یا پاراچنار کی بہتری کے لئے کچھ بھی نہیں ہو رہا بلکہ اہلیان پاراچنار کو تنگ کرنے کیلئے سب کچھ ہو رہا ہے۔ باقی ٹریکٹر یا دیگر گاڑیوں کو مین پھاٹک ٹل پاراچنار روڈ پر دس بارہ گھنٹوں تک روکنے کا کیا مقصد ہے۔ حالانکہ شام 6 یا 7 بجے کے بعد جب ان کو چھوڑا جاتا ہے، تو اس وقت انہیں کونسا یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ ان میں کوئی خطرناک مواد موجود نہیں۔
اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں سکیورٹی کو برقرار رکھنے کیلئے گاڑیوں کیساتھ کیا کرنا چاہیئے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ ایکسرے مشین نصب کی جائے۔ اس کے ذریعے پتہ لگایا جائے یا لوڈ گاڑیوں کو سرکاری تحویل میں لیکر منزل مقصود تک پہنچایا جائے اور اپنے اہلکاروں کی نگرانی میں ان لوڈ کرایا جائے۔ تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ گاڑی میں کوئی ممنوعہ مواد تو نہیں۔ حالانکہ یہ بھی کافی مشکل ہے، تاہم اس سے کسی حد تک روک تھام ہوسکتی ہے۔
اسلام ٹائمز: اچھا اگر ان دونوں پر عمل نہ ہوسکا تو تیسرا راستہ تو پھر یہی ہے کہ سکیورٹی کو ہی ختم کر دیا جائے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: ہاں یہی تیسرا راستہ ہے، جو کہ نہایت خطرناک ہوگا، کیونکہ حکومت ایسا نہیں چاہتی اور اگر سکیورٹی ختم کی گئی تو یہ ظاہر کرنے کیلئے حکومت خود ہی دھماکے کرائے گی کہ تمہارے کہنے پر سکیورٹی ختم کی گئی، جس کا یہی نتیجہ برآمد ہوا
اسلام ٹائمز: تو اس مسئلے کا آخر حل کیا ہے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: میرے ذہن میں تو اس مسئلے کا کوئی خاص حل نظر نہیں آرہا، البتہ افسران پر واضح کیا جائے کہ اس علاقے کے حوالے سے تمہارا کیا خیال اور کیا خدشات ہیں۔ اگر خدشات ہیں تو ہم انہیں دور کریں۔ ملک کو کسی خاص چیز یا قربانی کی ضرورت ہے، تو واضح کیا جائے اور وہ تم لوگوں پر پہلے ہی واضح ہے۔ ورنہ باہر سے ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ آئندہ جو بھی دھماکہ ہوا، اس کی تمام تر ذمہ داری تم ہی لوگوں پر عائد ہوگی۔ ان لوگوں نے ہمارے ساتھ جو زیادتیاں کی ہیں۔ وہ شاید ہندوستان نے کشمیریوں کے ساتھ نہیں کی ہونگی۔
اسلام ٹائمز: اہم قومی مسائل جیسے شاملات اور دیگر مسائل کے حوالے سے کوئی پیشرفت ہوئی ہے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: بارہا تحریک کے رہنماؤں کو تذکر دے چکا ہوں کہ آپ لوگ خوش فہمی میں نہ رہیں۔ موجودہ انتظامیہ تمہیں امید بلکہ دھوکے میں رکھتی ہے۔ آپ کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بالش خیل، شورکی، علیشاری اور پیواڑ کے مسائل جوں کے توں پڑے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی شنوائی ہی نہیں ہو رہی۔ حکومت اکثر معاملات میں مکمل طور پر فریق بنی بیٹھی ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ یہاں بیٹھے حکام کو طوری قبائل کی تعمیر و ترقی کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی، بلکہ نہایت بے شرمی کے ساتھ وہ دیگر افغان قوموں کے حقوق کی بات کرتے پھرتے ہیں۔ کوئی ترقیاتی منصوبہ ہو تو یہ حکام اپر کرم میں نہایت اہم اور فیزیبل مقامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے مقبل، منگل اور بوشہرہ کی بات کرتے ہیں۔
حالانکہ ہم اس کے مخالف نہیں، انکے ساتھ ہماری پوری ہمدردی ہے۔ تاہم ہمارا حق انہیں دینا قرین انصاف نہیں ہے۔ ہم ان کے کون کونسے کرتوت شمار کریں۔ ان کی عدالت کی حالت یہ ہے کہ صدہ میں اپر کرم بلکہ لوئر کرم کے طوری بنگش قبیلے کے کسی اہل اور قابل شخص کو بھی نوکری نہیں دی جاتی، جبکہ بالعکس پاراچنار میں لوئر اور سنٹرل کرم کے کمزور بلکہ نااہل امیدواروں کو بھی نوکریاں دی جاتی ہیں۔ اسے کیا نام دیا جائے۔ چنانچہ اپر کرم کی تنظیموں، میڈیا سے وابستہ افراد، علماء اور دیگر اہم افراد سے ہماری گزارش ہے کہ اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھائیں، بلکہ اعلیٰ حکام کے گوش گزار کرائیں۔
خبر کا کوڈ: 835091