کرپٹ سیاستدان ملاؤں کی مدد سے حکومت کو ڈکٹیٹ کرنیکی کوشش کر رہے ہیں، جویریہ ظفر آہیر
18 Nov 2019 23:50
حکمران جماعت کی رکن قومی اسمبلی کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ اب بھی جب لاہور ہائی کورٹ نے انہیں اجازت دی ہے تو کئی اہم چیزیں سامنے آ گئی ہیں، پھر کہنے تو جو ضمانت دی گئی ہے، وہ کون دے رہا ہے، جس شخص کے اپنے بچے، بیٹے، رشتہ دار مفرور ہیں، یا جیلوں میں بند ہیں، مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، اس کے باوجود حکومت نے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی، لیکن پورے ملک میں عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ پاکستان کے نظام انصاف اور نظام اقتدار میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
ممبر قومی اسمبلی، پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی رہنماء، جویریہ ظفر آہیر خوشاب کے معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ گرین پاکستان انیشیٹو ادارے کی بانی چیئرمین ہیں۔ نئے پاکستان میں پارٹی قیادت کیساتھ سرگرم اور فعال ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال، مسئلہ کشمیر، آزادی مارچ اور حکومتی موقف سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، جو اسوقت دشمن کے شکنجے میں ہے، پاکستان مسئلہ کشمیر پہ کہاں کھڑا ہے، حکومت اپنی ذمہ داری کیسے ادا کر رہی ہے؟
جویریہ ظفر آہیر: حکومت ایک لمحہ بھی کشمیر کی صورتحال سے غافل نہیں ہے، دفتر خارجہ دن رات مصروف عمل ہے، وزرات خارجہ کا سیل مکمل طور پر فعال ہے، بھارت کی طرف سے ہونے والی ایک زیادتی، ایک ایک جرم اور ظلم کا جواب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، کشمیری قیادت کو وزیراعظم پر مکمل اعتماد ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھارت کی طرف سے جاری فوجی محاصرے اور مواصلاتی ذرائع کی معطلی کی وجہ سے معمولات زندگی مفلوج ہیں۔ ایس ایم ایس اور پری پیڈ موبائل فون سروسز مکمل طور پر معطل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی یہ صورتحال عالمی ضمیر، خصوصی طور پر یورپ، امریکہ، برطانیہ اور سکینڈے نیوین ممالک، جو خود کو انسانی حقوق کا علم بردار گردانتے ہیں۔
ان کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے، جو کسی جانور کو ایذا پہنچانے پر بھی تڑپ اٹھتے ہیں۔ کیا انہیں واقعی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج اور سکیورٹی فورسز کے مظالم اور مسلسل جاری کرفیو نظر نہیں آتا۔ یہ مظالم کسی جانور پر نہیں جیتے جاگتے کشمیریوں پر کیے جا رہے ہیں جو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے کہ عالمی ضمیر کب جاگتا ہے۔ جب تک بھارت کا عالمی سطح پر مقاطعہ نہیں کیا جائے گا‘ اس کے راہ راست پر آنے کی امید نہیں۔ محاصرے کے سو دنوں سے ایام کی تکمیل دراصل ایک سوال ہے کہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر کے عوام کو مظالم سے بچانے کے لیے کب متحرک ہو گی؟، یہ وہ سوال ہے جسے حکومت دنیا کے ہر فورم پر ہر طرح سے ہمہ وقت اٹھا رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: لیکن سید علی گیلانی نے وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان بھارت سے تمام معاہدے ختم کر دے لیکن حکومت کرتار پورہ منصوبے کی تکمیل کر کے مودی کی مبارک باد کیوں وصول کر رہی ہے؟
جویریہ ظفر آہیر: اس حوالے سے پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہے، کرتار پور راہداری کے افتتاح پر اگر آج علامہ اقبال اور قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی بہت خوش ہوتے، آج ایک عظیم دن ہے اور پاکستان میں اقلیت محفوظ ہیں۔ بھارتی قیادت کیساتھ تعلقات کی تاریخ میں گئی تو ایشو ہو گا۔ یہ پہلی حکومت ہے، جسکا کشمیر پر بیانیہ دنیا بھر میں سنا گیا۔ پہلی مرتبہ دہشتگردی کا الزام پاکستان کی بجائے بھارت پر لگ رہا ہے۔ پچاس سال بعد سلامتی کونسل نے کشمیر پر بات تو کی۔ عالمی اداروں کی کشمیر پر اتنی رپورٹس کبھی نہیں آئیں۔ کشمیر پر خاموشی اختیار کرنے کا الزام بے بنیاد ہے۔ دنیا نے پہلی مرتبہ تسلیم کیا کہ کشمیریوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔
یہ بیانیہ حکومتی کوششوں سے دنیا نے تسلیم کیا۔ اپوزیشن ساتھ دے تو کشمیر کا معاملہ اور بہتر انداز میں آٹھ سکتا ہے۔ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ وزارت انسانی حقوقِ نے کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت کی جانب سے بالا کوٹ میں سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ بھارتی قیادت نیوکلیئر دھمکیاں دے رہی ہے۔ پاکستان نے نہ صرف بالا کوٹ سٹرائیک کو ناکام بنایا۔ ہمارے پاس اپنی مرضی کے وقت اور جگہ پر جواب دینے کی صلاحیت ہے۔ یہ صرف موجودہ حکومت کے دور میں ممکن ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے اندر ایسی سیاست کی جا رہی ہے، جس سے مسئلہ کشمیر کو نقصان ہو رہا ہے۔
جب کشمیریوں کو ہماری آواز کی ضرورت تھی پاکستان کی سڑکوں کو بلاک کر کے منتخب حکومت کو کمزور کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے، میڈیا کا جو ٹائم کشمیر کاز کیلئے استعمال ہونا چاہیے تھا، وہی اندرونی اختلافات اور الزمات کی نذر ہو رہا ہے، داخلی استحکام کے بغیر پاکستان کو بھرپور انداز میں سفارتی کوششوں میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، دونوں جگہوں پر حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنیکی کوشش میں مصروف ہے۔
اسلام ٹائمز: اب تو بھارتی جرنیل نے بے ہودہ بیانات دینا بھی شروع کر دیئے ہیں، کیا قومی عزت و وقار کیلئے بڑا ایکشن لینے کی ضرورت نہیں؟
جویریہ ظفر آہیر: اس بیان سے ہر دل کو ٹھیس پہنچی ہے، لیکن اس سے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوا ہے، ریپ کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی وکالت کوئی بھی شخص نہیں کر سکتا۔ بھارتی جنرل سنہا نے ٹی وی پر بیٹھ کر جس ڈھٹائی اور بے حیائی سے کشمیری عورتوں کے ریپ کی بات کی، اس نے ثابت کیا کہ وہ کس قدر نیچ اور گھٹیا سوچ کا مالک ہے۔ ریپ کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی وکالت کوئی بھی شخص نہیں کر سکتا، لیکن ہر شخص خصوصاً خواتین کو اس بیان پر شدید ردعمل دینا چاہیے۔ انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں کے ذریعے عالمی سطح پر ہر فورم پہ اس کے خالف آواز اٹھائی جا رہی ہے، پاکستان کبھی بھی کمشیری بھائیوں کو بھارتی درندوں کے رحم و کرم پہ نہیں چھوڑے گا۔
اسلام ٹائمز: کیا دھرنے سے زیادہ مختلف شہروں کا لاک ڈاؤن حکومت کیخلاف دباؤ کا باعث نہیں بنے گا؟
جویریہ ظفر آہیر: مولانا فضل الرحمان سے کسی بھی قسم کی توقع رکھی جاسکتی ہے، لیکن بلاول بھٹو کے بیان پر زیادہ حیرانی ہے۔ اب ثابت ہو گیا ہے کہ اپوزیشن منافقین کا ٹولہ ہے، مُلا ملٹری اتحاد کے خلاف اعلان جہاد کرنے والے محمود خان اچکزئی آج انہیں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ایسا وہی کر سکتے ہیں، اور کسی کا ضمیر اس کی اجازت نہیں دیتا۔ مجھے یقین ہے مولانا فضل الرحمان کا مقصد مقدمات میں پھنسے سیاسی رہنماؤں کو ریلیف دلوانا تھا۔ مولانا فضل الرحمان جن بڑی سیاسی جماعتوں کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے، پہلی بار ایسا ہوا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر مولانا فضل الرحمان کے پیچھے کھڑے تھے۔
مولانا فضل الرحمان کی وجہ سے کشمیر کاز کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔ عمران خان آج مصروف رہے وہ قومی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ حکومت نے جے یو آئی کے لیے کوئی راستہ بند نہیں کیا۔ اگر کوئی ہزار بار کہتا رہے کہ وزیراعظم کو استعفیٰ دینا ہوگا تو یہ اسکی بھول ہے، وزیراعظم عمران خان اپنی مدت پوری کریں گے اور حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اپنے آپ کو سیکولر اور لبرل کہنے والے اپوزیشن رہنماء مذہب کو سیاسی مقاصد کیلئے کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، یہ نہ صرف ملکی سیاست بلکہ مذہب کیلئے بھی بدنامی کا باعث ہے، اگر دھرنا سیاسی ہے تو مدارس کے طلبہ کا کیا کام تھا، ہر جگہ پہ ان معصوم بچوں کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سابق ادوار میں جن لیڈروں کی کرپشن کی وجہ سے آج مہنگائی اور بے روزگاری کا بازار گرم ہے۔
وہی لوگ بے روزگاری کے نام پہ ہی حکومت کیخلاف تشدد پہ اکسا رہے ہیں۔ اب انکا اصل ایجنڈا بھی لوگوں کے سامنے آ چکا ہے، ایک طرف بلاول زرداری یہ کہتے ہیں کہ ہماری والدہ شدت پسندی، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا نشانہ بنی ہیں، دوسری طرف انہی عناصر کیساتھ کنٹینر پر کھڑے ہو کر منتخب حکومت کو للکار رہے تھے، اب بلی مکمل طور پر تھیلے سے باہر آ چکی ہے، انہوں نے نہ صرف سیاسی عمل کو بلکہ پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
اسلام ٹائمز: حکومت حزبِ اختلاف کی طرف سے سیاسی مخالفت اور سیاسی تنقید کا رخ مذہب کے نام پہ سیاست اور شدت پسندی کی طرف موڑ دیتی ہے، لیکن اصل مسئلے کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتی؟
جویریہ ظفر آہیر: ہم پہلے دن سے ہی اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں، خود شدت پسندی کی اصل وجہ غربت اور بے روزگاری ہے، اور یہ کرپشن کی وجہ سے ہے، اگر کرپشن نہ ہوتی اور سیاستدان اور حکمران کرپٹ نہ ہوتے تو غربت نہ ہوتی، اسی طرح شدت پسندی بھی پیدا نہ ہوتی۔ دوسرا یہ کہ جب مذہب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے کہ آپ دوسرے سیاستدانوں کو مسلمان نہیں سمجھتے، حکمرانوں کو مسلمانوں کی صف میں شامل نہیں گردانتے، جب سے وزیراعظم نے سچے دل سے ریاست مدینہ کے اصولوں پر پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے عزم اور خواہش کا اظہار شروع کیا ہے، یہ لوگ اسے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، خود سارے دورِ اقتدار میں لوگوں کا مال لوٹتے رہے ہیں۔
جب انہیں یہ خوف لاحق ہوا ہے کہ اب انہیں احتساب اور حساب کا سامنا کرنا پڑیگا تو ملاؤں کی مدد سے حکومت کو ڈکٹیٹ کرنیکی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے کئی پروگرام اور اسکیمیں شروع کی ہیں، غریبوں کو گھر دینگے، نوجوانوں کو روزگار دینگے، جیسا کہ کامیاب جوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کو 10ہزار روپے سے لیکر 50لاکھ تک قرض دیا جائے گا۔ ایک لاکھ تک کا قرضہ بلا سود ہو گا۔ دینی مدارس میں 500 سکل لیبارٹریز قائم کی جائیں گئیں، جہاں طلباء کو مختلف ہنر سکھائے جائیں گے۔ ان سکل لیبارٹریز میں بین لااقوامی معیار کی تربیت حاصل کرنے والے اساتذہ کو تعینات کیا جائے گا۔ اسی طرح احساس پروگرام پر مسلسل کام ہو رہا ہے، انشا اللہ انکے نتائج جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے، ملک سے غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو جائیگا، اس کے بعد خوشحالی آئیگی اور شدت پسندی اور انتہاء پسندی کی کوئی گنجائش نہیں رہیگی۔
اسلام ٹائمز: موجودہ سیاسی ماحول میں مختلف حلقوں کی جانب سے نواز شریف کی بیماری کی وجہ سے بیرون ملک روانگی کی اجازت کو سراہا جا رہا ہے، حکمران جماعت اپنا پرانا موقف کیوں دہرا رہی ہے؟
جویریہ ظفر آہیر: اس حوالے سے وزیراعظم نے اپنی پوری ٹیم کو پہلے دن ہی تلقین کی تھی کہ بیماری پر سیاست نہ کی جائے، بلکہ ہمیں سیاست سے زیادہ میاں نواز شریف کی صحت عزیز ہے۔ اس پر میرے خیال میں جو اعتراض کیا گیا ہے وہ موجودہ صورتحال میں بیرون ملک علاج کیلئے اجازت پر نہیں تھا، بلکہ خود شریف خاندان اور مسلم لیگ نون کی جانب سے نواز شریف کی بیماری کو سیاست کیلئے استعمال کرنے پر تھا، جیسا کہ ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا تھا، لیکن شہباز شریف صاحب کے مفرور بیٹے نے ٹوئٹ کرنا شروع کر دیئے، اسی طرح شریف خاندان کہنے کو تو ایک سیاسی خاندان ہے، لیکن انہوں نے ہمیشہ مختلف ادوار میں ڈیل کر کے ملک چھوڑا ہے اور اس کو بیماری کا نام دیا ہے، اسی طرح اب بھی اس ایک خاندان کے اہم افراد بیرون ملک ہیں، جو عدالتوں کے طلب کرنے کے باوجود واپسی کا نام نہیں لے رہے۔
پھر قانون کی حکمرانی کا تقاضا ہے کہ سارے پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے۔ اب بھی جب لاہور ہائی کورٹ نے انہیں اجازت دی ہے تو کئی اہم چیزیں سامنے آ گئی ہیں، پھر کہنے تو جو ضمانت دی گئی ہے، وہ کون دے رہا ہے، جس شخص کے اپنے بچے، بیٹے، رشتہ دار مفرور ہیں، یا جیلوں میں بند ہیں، مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، اس کے باوجود حکومت نے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی، لیکن پورے ملک میں عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ پاکستان کے نظام انصاف اور نظام اقتدار میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے، جس سے ہر پاکستانی کو یکساں اصولوں کے تحت انصاف اور بنیادی حقوق مہیا کیے جائیں، یہی ہمارا نعرہ ہے، جو بلاامتیاز کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
خبر کا کوڈ: 827980