حزب اللہ ہمیشہ سو فیصد الرٹ رہنے والی فورس ہے، پہلے کیطرح آج بھی سو فیصد تیار ہے
اسرائیل کے تمام اقدامات رائیگاں گئے، جنرل قاسم سلیمانی کا 20 سال میں پہلا خصوصی انٹرویو
اسرائیلی سفیر نے کہا کہ اگر جنگ رکے گی نہیں تو پوری اسرائیلی فوج نیست و نابود ہو جائیگی
27 Oct 2019 20:07
سپاہ پاسداران کے کمانڈر نے 33 روزہ جنگ کے حوالے سے اپنے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ایک اسپیشل آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا، جس کا کمانڈر شہید عماد مغنیہ تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ انہیں کس نام سے پکاروں، کیا انہیں بھی آج کل عام ہونیوالے لقب یعنی "سردار" کا نام دوں؟ آج کل ہمارے ملک میں سردار اور امیر جیسے القاب بہت عام ہوگئے ہیں، لیکن شہید عماد مغنیہ اِس لقب سے ماوراء تھے، وہ صحیح معنوں میں ایک حقیقی سردار تھے۔ ایک ایسے سردار جو میدانِ جنگ میں جناب مالکِ اشتر کی صفات جیسی صفات کے حامل تھے۔ میں نے اُنکی شہادت میں محاذِ مقاومت کا حال ویسے ہی دیکھا، جیسے جناب مالک اشتر کی شہادت کے وقت امیرالمؤمنین علیہ السلام کا تھا۔ جناب مالک کی شہادت کے وقت، مولا بے انتہا محزون اور مغموم تھے، یہاں تک کہ منبر پر آنسو بہا کر فرمایا تھا کہ مالک کی کیا ہی بات تھی، مالک اگر ایک پہاڑ تھا تو کیا ہی عظیم اور بڑا پہاڑ تھا اور اگر پتھر تھا تو کیا ہی مضبوط پتھر تھا۔
جنرل قاسم سلیمانی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ دوست و دشمن سبھی انکی عسکری صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ انہیں عصر حاضر میں عالم اسلام کا ناقابل شکست سپہ سالار کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں، کیونکہ حاج قاسم سلیمانی جس میدان جنگ میں بھی وارد ہوئے، کامیابی و کامرانی نے انکے قدم چومے اور عبرتناک شکست دشمن کا مقدر بنی۔ حاج قاسم سلیمانی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران اور القدس بریگیڈ کے کمانڈر ہیں۔ حاج قاسم سلیمانی نے گذشتہ بیس برس یعنی جب سے انہوں نے قدس بریگیڈ کی سپہ سالاری سنبھالی، انہوں نے میڈیا کے کسی ادارے کو کوئی انٹرویو نہیں دیا۔ البتہ حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین 33 روزہ جنگ کے موضوع پہ انہوں نے تفصیلی گفتگو کی حامی بھری۔ 33 روزہ جنگ کے موضوع پہ حاج قاسم سلیمانی کی دلچسپ، پراثر اور اہم انکشافات پہ مبنی انٹرویو کو (البلاغ) ادارہ فروغ ثقافت اسلامی پاکستان نے فارسی سے اردو کے قالب میں خوبصورتی سے ڈھالا ہے، البلاغ کے شکریہ کیساتھ اس انٹرویو کا اردو متن قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
سوال: ہم چاہتے ہیں کہ گفتگو کا آغاز 33 روزہ جنگ کے اسباب سے کریں، یہ جنگ تب چھڑی جب خطے اور بالخصوص افغانستان اور عراق میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے تقریباً پانج سال ہو رہے تھے اور امریکہ کو عراق میں مختلف ناکامیوں کا سامنا تھا۔ اسی لیے "نئے مشرق وسطی" کے امریکی پلان کو بڑے مسائل کا سامنا تھا۔ لیکن اچانک سے کھیل کا رخ بدل گیا اور لبنان کو اس پلان اور کھیل کے میدان کے طور پر چنا گیا اور 33 روزہ جنگ شروع ہوگئی۔ یہ جنگ کیوں پیش آئی۔؟
حاج قاسم سلیمانی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، سید الشہداء مولا حسین علیہ السلام کے ایامِ عزا کی مناسبت سے آپ سب کی خدمت میں تسلیت عرض کرتا ہوں۔ 33 روزہ جنگ کے مسئلے کے پیچھے کچھ خفیہ اسباب تھے، جو جنگ کی وجہ بن گئے، اور کچھ ظاہری اسباب تھے، جو اُن اصل اسباب کے حصول کا بہانہ بن گئے۔ اگرچہ ہمیں پہلے سے ہی صہیونیوں کی تیاری کی خبر تھی، لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ تھا کہ دشمن ہمیں جنگ کے ذریعے سرپرائز کرنا چاہتا ہے۔ جنگ کے شروع ہونے کے بعد دو موضوعات کو دیکھ کر ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ ایک تیز رفتار اور غیر متوقع جنگ کے ذریعے حزب اللہ کو نیست و نابود کر دیا جائے، لیکن جنگ ایسے حالات میں چھڑ گئی، جس میں دو اہم واقعات تھے، ایک پورے خطے سے مربوط واقعہ اور دوسرا خود صہیونی حکومت سے۔ خطے کا واقعہ یہ تھا کہ امریکہ، نائن الیون کے ذریعے ہمارے خطے میں کافی حد تک اپنی فوجی موجودگی بڑھا چکا تھا، جس کی تعداد کے لحاظ سے مثال شاید دوسری جنگ عظیم میں ملے، لیکن کیفیت کے لحاظ سے دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ خوفناک۔
1991ء میں کویت پر صدام کے حملے کے بعد، امریکہ کا عراق پر حملہ اور صدام کا تخت الٹنے کے بعد، ہمارے خطے میں ایسی سکیورٹی حالت پیش آئی، جو کہ امریکی فورسز کے یہاں باقی رہنے کی وجہ بن گئی۔ البتہ نائن الیون کے بعد، امریکہ کے افغانستان اور عراق پر حملوں کے بعد سے امریکہ کی فورسز کی 40 فیصد تعداد بلا واسطہ ہمارے خطے میں داخل ہوگئی اور بعد میں رفتہ رفتہ نئی تعینات اور پیش آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے، بات ریزرو فورسز اور نیشنل گارڈز کی موجودگی تک بھی پہنچ گئی، یعنی کہا جا سکتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فورسز پر مشتمل تقریباً 60 فیصد امریکی فوجی، خطے میں داخل ہوئے۔ لہٰذا ایک بہت بڑے پیمانے پر فوجی موجودگی واقع ہوئی کہ جس میں فقط عراق میں 150 ہزار امریکی فوجی حاضر ہوئے۔ اور 30 ہزار سے زائد فورسز، افغانستان میں داخل ہوئیں، یہ تعداد اُس 15 ہزار فوجیوں کی تعداد سے ہٹ کر ہے، جو اقوام متحدہ کی جانب سے وہاں حاضر تھے۔ لہٰذا تقریباً 200 ہزار اسپیشل اور تربیت یافتہ فورسز فلسطین کے پاس موجود تھیں۔ ظاہر ہے کہ اِن کی موجودگی نے صہیونیوں کو اچھے مواقع فراہم کر دیئے۔
یعنی امریکیوں کی عراق میں موجودگی، شامیوں کی شام کے اندر سرگرمیاں نہ کر پانا، شامی حکومت سمیت ایرانی حکومت کے لئے بھی ایک خطرہ تھا۔ لہٰذا آپ اگر 33 روزہ جنگ کے وقت آپ عراقی جغرافیہ کو دیکھیں گے تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ عراق، مقاومت کے مرکز (یعنی لبنان) کے ساتھ ہمارے رابطے کا واحد راستہ ہے۔ امریکہ نے ہمارے سامنے تقریباً 200 ہزار مسلح افواج، سینکڑوں ہوائی جہاز اور ہیلی کوپٹر سمیت ہزاروں جنگی سازوسامان کی رکاوٹ بنا دی۔ ظاہر ہے کہ خطے میں امریکی فوجی موجودگی سے صہیونی حکومت کو اچھے مواقع فراہم ہو رہے تھے جو اِس سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس معنی میں کہ ایران اور شام اِس کی ہیبت سے ڈر جائیں اور نتیجہ یہ ہو کہ یہ دو کچھ نہ کرسکیں۔ صہیونی حکومت کو اچھے مواقع فراہم تھے، کیونکہ امریکہ کی حکومت وقت یعنی بش کی حکومت جو کہ ایک تشدد پسند اور فیصلوں میں جلد بازی کرنے والی حکومت تھی اور دوسری طرف سے وائٹ ہاؤس کی ٹیم بھی صہیونی حکومت کی حمایت میں تھی، لہٰذا صہیونیوں کو عسکری حملے کے لئے اچھا موقع نظر آیا۔ چنانچہ یہ جنگ کے اصل اسباب تھے، جو کہ امریکہ کی خطے میں فوجی موجودگی، صدام کی حکومت کا خاتمہ اور افغانستان حملے میں امریکہ کی ابتدائی کامیابی سمیت خطے پر طاری امریکی فوج کا رعب و دبدبہ تھا۔
امریکہ نے خطے اور بین الاقوامی سطح پر اپنی پالیسیوں کے مخالف سیاسی گروہوں کو دہشتگرد گروہ ٹہرایا تھا۔ صہیونی حکومت نے ایسے موقع سے فائدہ اٹھانا تھا اور ایک تیز رفتار جنگ کے لئے یہی اچھی فرصت تھی، کیونکہ اس حکومت کو 2000ء میں ایک شکست کا سامنا ہوا تھا اور لبنان سے ایک بار پسپائی اختیار کی تھی، بلکہ بھاگ گئی تھی اور حزب اللہ نے انہیں شکست سے دوچار کیا تھا۔ وہ اِس بار چاہتے تھے کہ لبنان پر حملہ کریں، لیکن اس پر قبضہ کرنے کے مقصد سے نہیں بلکہ جنوبی لبنان کی سیاسی شکل تباہ کرنے کے لیے۔ یہ بات جنگ شروع ہونے کے بعد ہی برملا ہوگئی کہ اُن کا اصل مقصد لبنان کی ڈیموگریفی پوری طرح بدلنے کا تھا۔ اس معنی میں کہ وہ عوام اور فورسز جو جنوبی لبنان میں ہیں اور حزب اللہ کے ساتھ ایک مسلکی رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں، اُن کو وہاں سے بھگا کر لبنان سے باہر نکالا جائے۔ صہیونی چاہتے تھے کہ 1967ء میں جنوبی لبنان میں رہنے والے فلسطینیوں کے خلاف جو منصوبہ اپنایا تھا، وہی منصوبہ اِس بار جنوبی لبنان کے شیعوں کے خلاف نافذ کریں۔ پوری طرح وہی پلان جس کے ذریعے فلسطینیوں کو جنوبی لبنان سے خارج کیا تھا، جو کہ وہاں سے لبنان اور شام اور دیگر عرب ممالک کے کیمپوں میں بسنے لگے تھے، بالکل وہی منصوبہ اُن کی نظر میں تھا۔
وہی منصوبہ جس کے نتیجے میں یاسر عرفات جیسا شخص بھی اِس پر مجبور ہوگیا کہ لبنان کی مرکزیت کو مغربی ممالک کی مرکزیت کے ساتھ تبدیل کرے اور صہیونی، فلسطینی کمانڈنگ کو پوری طرح مفلوج کریں۔ لبنانی شیعوں کے حوالے سے بھی یہی ذہنیت پائی جانے لگی تھی، لہذا میں جنگ سے پہلے کے حالات کی بجائے، دورانِ جنگ کے حالات بیان کرنا چاہتا ہوں، تاکہ ہمارا موضوع گفتگو کامل ہو۔ امریکی اور اسرائیلیوں کے دو قسم کے الفاظ تھے، جنگ شروع ہونے کے ساتھ، بش نے بہت گندے الفاظ استعمال کئے، کیونکہ وہ خود اُن گندے الفاظ کے لائق تھا، لہذا میں وہ دوبارہ ذکر کرنا نہیں چاہتا، لیکن رائس نے اُن سے تھوڑے سے ادب والے الفاظ استعمال کئے۔ جب جنوبی لبنان میں قتل عام اور فریادیں بڑھنے لگیں، چونکہ اُن کی ٹیکنالوجی کی مستی کا عروج تھا، کیونکہ جہاں کا وہ ارادہ کر لیتے تھے، ٹیکنالوجی کی مدد سے بالکل وہی نشانہ مار کر تباہ کاری کرتے تھے۔ جب وہ قتل عام واقع ہوا، جس کے مقابلے میں قانا کا قتل عام کچھ بھی نہیں تھا، تب رائس نے وہ جملہ استعمال کیا۔ اُس نے مسماریوں کے ملبے تلے بے گناہ انسانوں، بچوں اور خواتین کی فریادوں کے بارے میں یہ کہا کہ یہ نئے مشرق وسطی کی ڈلیوری کا درد ہے۔
ایک بڑے واقعے کی ڈلیوری کا درد۔ لہٰذا اِن الفاظ سے واضح ہو رہا تھا کہ ایک بڑا منصوبہ عملی ہونے والا ہے اور صہیونیوں نے جو پہلے سے کیا، وہ یہ تھا کہ فلسطین میں ایک بڑے کیمپ اور کئی کشتیوں کا بندوبست کر رکھا تھا۔ کیمپ اس لیے تاکہ جتنا وہ چاہیں لبنان سے افراد کو گرفتار کرکے ابتدا میں اِسی فلسطینی کیمپ میں لے جائیں، جس میں 30 ہزار افراد تک کی گنجائش تھی، پھر اُسی کیمپ میں گرفتار افراد کی تقسیم بندی کریں، اور جو عام لوگ ہیں، اُن کو دوسرے ممالک میں منتقل کریں اور جو اُن کی نظر میں مجرم ہیں اور جن کے حزب اللہ کے ساتھ لنکس ہیں، اُن کو اپنے پاس رکھیں اور کشتیاں بھی تیار کھڑی تھیں۔ لہذا یہ جنگ ویسی جنگ تھی، جس میں تر و خشک دونوں جلتے ہیں بلکہ اس میں ٹیکنالوجی کی باریک بینی کا سہارا لیا جا رہا تھا۔ انہوں نے پہلے ایک چھوٹے سے گروہ کو نشانہ بنایا یعنی چاہا کہ پہلے حزب اللہ کو اپنا نشانہ بنائیں، لیکن بعد میں اپنے حملے کو وسعت دے کر جنوبی لبنان کے باشندے تمام شیعہ آبادی اپنا نشانہ بنایا، تاکہ یوں جنوبی لبنان میں موجود ڈیموگریفی کو پوری طرح بدل سکیں اور بعد میں اپنے اِس مقصد کا اقرار بھی کرچکے ہیں۔
پہلے اسرائیلی وزیراعظم اولمرت نے اُس کے بعد وزیر جنگ اور پھر چیف آف آرمی نے یہ اقرار کیا کہ اُن کا یہ مقصد تھا کہ وہ ایک غیر متوقعہ جنگ کے ذریعے حزب اللہ کے سیٹ اپ کے اکثر کو ایک وسیع ہوائی حملے کے ذریعے نابود کرنا چاہتے تھے۔ جس کے نتیجے میں پہلے حملے میں ہی حزب اللہ سیٹ اپ کا 30 فیصد بری طرح نابود ہو جاتا اور بعد کے مراحل میں پوری تباہی کے درپے تھے، لہذا یہ جو جنگ تھی، دوسری جنگوں سے مختلف تھی اور صہیونی جس روڈ میپ پر جا رہے تھے، اُس کے مطابق یہ واضح تھا کہ وہ حزب اللہ جیسی ایک فوجی تنظیم کی نابودی ہی نہیں چاہتے بلکہ لبنان میں مقیم پوری شیعہ قوم کو دوسرے ممالک منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دشمن چاہتا تھا کہ اِس جنگ کا نتیجہ یہ ہو کہ حزب اللہ پوری طرح نابود ہو جائے اور حزب اللہ کے خاتمے کی شرط یہ تھی کہ لبنانی عوام کی ایک کثیر تعداد جو کہ نہ صرف جنوبی لبنان بلکہ بقاع اور شمالی لبنان میں رہتے تھے، اُن سب کو وہاں سے منتقل کر دیں۔ دوسری بات جو کہ بہت ضروری اور قابل غور ہے، وہ ہے اس جنگ میں عرب ممالک کی اسرائیل کی حمایت اور جنوبی لبنان سے حزب اللہ سمیت شیعہ قوم کے خاتمے کے لیے اُن عرب ممالک کی رضامندی۔
صہیونی حکومت نے اپنے سب سے بڑے عہدے دار یعنی اولمرت جو کہ اس حکومت کا وزیراعظم تھا، اُس کے ذریعے اعلان کیا کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ عرب ممالک نے ایک عرب تنظیم یعنی حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دیا ہے، اگرچہ اُس کی مراد تمام عرب ممالک نہیں بلکہ خلیج فارس کے عرب ممالک اور اُن میں سرِفہرست آل سعود کی حکومت تھی۔ البتہ مصر بھی اُن میں شامل تھا۔ البتہ اُس وقت کچھ ممالک مستثنٰی تھے، عراق میں کوئی حکومت نہیں تھی اور اُس وقت کا عراقی حکمران ایک امریکی فوجی عہدیدار تھا۔ لہذا اُس دور کی عراقی حکومت، امریکیوں کے ہاتھ میں تھی۔ شامی حکومت بھی، مرحوم حافظ اسد کے انتقال کے بعد، ایک تازہ تشکیل پانے والی حکومت تھی۔ بہرحال پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ ایک عرب تنظیم کے خلاف جنگ میں اکثر عرب ممالک اسرائیل کی حمایت کر رہے تھے۔
یہ ایک ضروری اور اہم حقیقت ہے جس کا اعتراف اولمرت نے کیا تھا۔ لہٰذا 33 روزہ جنگ کے خفیہ اہداف میں ہمیں تین زاویوں کو مدنظر رکھنا ہوگا، پہلا زاویہ، عراق میں امریکی موجودگی اور عراق میں امریکی حکومت کے نتیجے میں خطے میں پائے جانے والا امریکی رعب و دبدبہ۔ دوسرا زاویہ، حزب اللہ کی مکمل تباہی اور جنوبی لبنان کے ڈیموگریفی کی تبدیلی کے لیے عرب ممالک کی پوری تیاری اور اُن کی جانب سے اسرائیل کی خفیہ حمایت۔ اور تیسرا زاویہ تھا صہیونیوں کا اِس موقع سے فائدہ اٹھا کر حزب اللہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانے کے بعد خطے میں اپنے مقاصد حاصل کرنا۔
سوال: آپ نے اِس جنگ کے خفیہ اسباب بہت اچھی طرح بتا دیئے، اِسکے ظاہری اسباب اور جنگ شروع کرنے کے بہانے کیا تھے۔؟
حاج قاسم سلیمانی: بات یہ تھی کہ حزب اللہ نے لبنانی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ صہیونی حکومت کے چنگل میں گرفتار لبنانی جوان قیدی اور اسیروں کو رہائی دلائے گی اور حزب اللہ کے علاوہ ایسی کوئی طاقت نہیں تھی، جو اُنہیں نجات دلا سکے۔ سید حسن نے ایک بیان میں وعدہ کیا کہ جیسے کہ پہلے بھی ہوا ہے، اِس بار بھی حزب اللہ ہی لبنانی قیدیوں کو صہیونیوں سے نجات دلائے گی۔ لبنانی عوام جن میں دروزی مسلک، مسلمان اور عیسائی قیدی شامل تھے، حزب اللہ کے علاوہ اُن کا کوئی سہارا نہیں تھا اور آج بھی نہیں۔ درحقیقت صہیونی بربری حکومت کے مقابلے میں لبنانی قوم کی اصل پناہ گاہ حزب اللہ ہی ہے۔ اُس وقت بھی حزب اللہ کے علاوہ کوئی سہارا نہیں تھا اور حزب اللہ کے پاس بھی اور کوئی چارہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ اُن کے خلاف کوئی اقدام کرتی، جس کے نتیجے میں اسیروں کی تبدیلی کی نوبت آتی۔ اگرچہ صہیونیوں کو ڈپلومیسی کی زبان آتی ہی نہیں، اُسے صرف ایک ہی زبان سمجھ میں آتی ہے اور وہ ہے سب کے ساتھ زور اور جبر سے کام لینا۔
اس کے علاوہ اُسے دوسری زبان کوئی خاص سمجھ میں نہیں آتی اور اُسے دوسرے طریقوں کی پروا بھی نہیں، جیسے کہ عربوں کے ساتھ بھی اُس کا برتاؤ یہی رہا ہے۔ چنانچہ لبنانی عوام کی توقع پر پورا اترنے کے لیے اور اپنے وعدے پر عمل کرنے کے علاوہ حزب اللہ کے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ یہ واحد راستہ تھا اور اس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ پچھلے تبادلہ میں بھی اسرائیل نے اصل اسیروں کو رہا نہیں کیا تھا، جن میں سے بعض حزب اللہ کے جوان تھے۔ وہ نوجوان جنہوں نے ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا تھا اور اب اُن کی جوانی کی عمر گزر رہی تھی۔ حزب اللہ نے یہ وعدہ کیا، لیکن پچھلے تبادلے میں وہ وعدہ پورا نہ ہوسکا اور اسرائیل انہیں آزاد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا اور حزب اللہ نے اپنے وعدے کی تعبیر کے لیے عملی ایکشن لینے کا فیصلہ کیا، تاکہ اُس کے ذریعے تبادلہ کر پائے، جس میں حزب اللہ کامیاب بھی ہوئی۔ اِس مشن کے لئے ایک اسپیشل آپریشن کا منصوبہ بنایا گیا، جس کا کمانڈر شہید عماد مغنیہ تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ انہیں کس نام سے پکاروں، کیا انہیں بھی آج کل عام ہونے والے لقب یعنی "سردار" کا نام دوں؟ آج کل ہمارے ملک میں سردار اور امیر جیسے القاب بہت عام ہوگئے ہیں، لیکن شہید عماد مغنیہ اِس لقب سے ماوراء تھے، وہ صحیح معنوں میں ایک حقیقی سردار تھے۔
ایک ایسا سردار جو میدانِ جنگ میں جناب مالکِ اشتر کی صفات جیسی صفات کا حامل تھا۔ میں نے اُس کی شہادت میں محاذِ مقاومت کا حال ویسے ہی دیکھا، جیسے جناب مالک اشتر کی شہادت کے وقت امیرالمؤمنین علیہ السلام کا تھا۔ جناب مالک کی شہادت کے وقت، مولا بے انتہا محزون اور مغموم تھے، یہاں تک کہ منبر پر آنسو بہا کر فرمایا تھا کہ مالک کی کیا ہی بات تھی، مالک اگر ایک پہاڑ تھا تو کیا ہی عظیم اور بڑا پہاڑ تھا اور اگر پتھر تھا تو کیا ہی مضبوط پتھر تھا۔ آگاہ رہو، اے لوگو کہ مالک کی موت نے پوری ایک دنیا کو ویران کر دیا اور دوسری دنیا کو خوش۔ مالک جیسے مرد کی موت پر تمام رونے والے روئیں۔ کیا مالک جیسا کوئی یاور ہے؟ کیا کوئی بھی مالک جیسا ہے؟ کیا کسی دوسری ماں نے مالک جیسے کو جنم دیا ہے؟ امیرالمومنین کا یہ جملہ بہت اہم ہے، فرمایا کہ مالک میرے لئے ویسا ہی تھا، جیسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے تھا۔ عماد کی مثال بھی یہی تھی۔ یعنی عماد محاذِ مقاومت کے لئے ایسی صفات کا حامل تھا، جو میں نے عرض کی۔ اگر ہمارے ہاں رائج ناموں اور القابات کو نظر انداز کروں تو عماد کو اسی تعبیر سے تشبیہ دینا چاہیئے جو امیرالمؤمنین نے جناب مالک کے بارے میں فرمایا: کہ مالک جیسے کو جنم دینے کے لئے دنیا کی خواتین کو بہت وقت لگے گا۔ عماد بھی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے۔
وہ جیسے کہ کٹھن میدانوں کی منیجمنٹ اچھی طرح انجام دیتے تھے، ویسے ہی اِس اسپیشل آپریشن کے بھی کمانڈر تھے، تاکہ اس کی نگرانی اور منیجمنٹ کر سکے۔ وہ مشن کامیابی کے ساتھ پورا ہوا اور وہ مقبوضہ فلسطین میں صہیونی فوجی گاڑی پر حملہ کرکے اُس میں سے دو افراد جو کہ زخمی ہو چکے تھے، اُن کو قیدی بنایا۔ میں فی الحال اس آپریشن سے پہلے کے حالات بیان نہیں کر رہا، کیونکہ یہ آپریشن ایک دن والا آپریشن نہیں تھا، بلکہ کئی مہینوں کا تھا، جس میں صہیونی حکومت کو نگرانی میں رکھا گیا اور ایک حکمت عملی کے تحت جو سید مقاومت سید حسن نصراللہ نے مقاومت کے جنرل سیکرٹری کے طور پر اپنائی، اس آپریشن کے لیے عماد مغنیہ رحمۃ اللہ علیہ کو چنا گیا اور اِس آپریشن کے تیار ہونے سے پہلے کچھ اقدامات کئے گئے، جو کہ نہایت اہم تھے، لیکن کیونکہ ہمارے موضوع سے ہٹ کر ہے، لہذا وہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ یہ آپریشن درحقیقت ایک آپریشن نہیں بلکہ چار آپریشن تھے، چار نہایت اسپیشل آپریشنز۔ ایک تھا اِس آپریشن کا ڈیزائن۔ دوسرا تھا اِس آپریشن کے وقت اور جگہ کا تعین۔
تیسرا تھا صہیونی حکومت کے وسیع کانٹے دار تاروں کو پار کرکے آپریشن کی جگہ تک پہنچنا، کیونکہ آپریشن صرف یہ نہیں تھا کہ اُنہیں مار کر واپس آیا جائے بلکہ اُنہیں قیدی بنا کر بارڈر کے اس پار لانا بھی تھا، لہٰذا ہر مشن کو بخوبی انجام دینے کی ضرورت تھی، تاکہ اپنے افراد سمیت اسیروں کو بھی بچایا جا سکے۔ چوتھا یہ تھا کہ آپریشن تیز رفتاری کے ساتھ انجام پائے۔ یہ کوئی سوا گھنٹہ یا آدھے گھنٹے کا آپریشن نہیں تھا بلکہ منٹوں اور سیکنڈوں والا آپریشن تھا۔ ضروری تھا کہ دشمن کے موقع واردات پر پہنچنے سے پہلے ہی اسیروں کو جلدی سے پناہگاہ میں پہنچایا جائے۔ عام طور پر زمینی آپریشن کی جگہ تک دشمن کی رسائی چند منٹوں میں ہی ہو جاتی ہے اور فضائی آپریشن میں تو اِس سے بھی تیز رفتاری میں ہوتی ہے۔ اسی لیے آپریشن کے شروع ہونے سے پہلے، بخوبی جائزہ لیا گیا۔ عماد مغنیہ کی ایک خصلت یہ تھی کہ وہ نزاکت اور ظرافتوں پر غور کرتے تھے، لہٰذا کیونکہ وہ خود قریب سے نگرانی رکھتے تھے، آپریشن کا ڈیزائن اور کمانڈ بھی اُن کو سونپی جاتی تھی اور عماد اُس میں کامیاب ہوئے۔
سوال: اسرائیل کی طرف سے اس بہانے کیساتھ جنگ کا آغاز ہوا اور دشمن نے حزب اللہ کے ٹھکانوں پر سنگین حملے کئے۔ ابتدائی گھنٹوں اور دنوں میں حزب اللہ کا ردعمل کیا تھا؟ بالخصوص جب اسرائیل نے اِن وحشیانہ حملوں کیوجہ یہ بتائی کہ حزب اللہ نے اُنکے افراد پکڑے ہیں، ظاہر ہے کہ عالمی سطح پر اُنکے اوپر پریشر زیادہ ہوتا ہوگا۔؟
حاج قاسم سلیمانی: دو نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کی ایک ناقابل سمجھوتہ اور مسلسل جنگ رہی ہے، کیونکہ حزب اللہ کی نظر میں اور عقائد اور سیاسی منطق کی رو سے، اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ ممکن نہیں تھا اور حزب اللہ کو برداشت کرنا بھی اسرائیل کے لیے ممکن نہیں تھا، اس خاطر یہ ایک مسلسل دشمنی تھی اور حزب اللہ ہمیشہ سے تیاری میں رہتی تھی۔ یہ ہے پہلا نکتہ۔ حزب اللہ کو شاک نہیں لگا اور ایسا نہیں تھا کہ تیار نہیں تھی۔ وہ تیار تھی اور اُس کی یہ تیاری اِس آپریشن سے پہلے کی تھی۔ البتہ اِس آپریشن نے دوسرے زاویوں سے اُن کی تیاری اور ہوشیاری بڑھا دی۔ لیکن فورسز نفری اور جنگی وسائل کے لحاظ سے وہ پہلے سے ہی تیار تھے۔ اب بھی ویسے ہی تیار ہیں۔ حزب اللہ ہمیشہ سو فیصد الرٹ رہنے والی فورس ہے۔ حزب اللہ کا الرٹ ہونا ایسا نہیں کہ مثلاً پہلے زرد الرٹ جاری کیا جائے اور پھر ریڈ الرٹ کی تیاری کا اعلان ہو۔ یا مثلاً پہلے تیس فیصد کی تیاری ہو، پھر ستر فیصد ہو جائے اور آخرکار سو فیصد۔ ایسا ہرگز نہیں۔ حزب اللہ ہمیشہ سو فیصد تیاری میں رہتی ہے۔ اُس دن بھی سو فیصد تیاری میں تھی، آج بھی سو فیصد تیار ہے۔
فرق صرف یہ ہے کہ ہر دور کی تیاری کی کیفیت پچھلے دور سے مختلف ہوتی ہے۔ حزب اللہ جو بھی آپریشن کرنا چاہتی ہے، اُس سے پہلے سکیورٹی اقدامات انجام دیتی ہے اور اُس کے بعد وہ آپریشن۔ اسی لیے حزب اللہ نے جب اُس اسیروں کے تبادلے کے لیے دو صہیونی فوجیوں کی اسیری کا فیصلہ کیا، اُس سے پہلے خود کو تیار کیا۔ یہ تیاری دو زاویوں سے تھی، دشمن کا مقابلہ کرنے کی تیاری اور کم سے کم نقصان کی تیاری۔ صہیونی حکومت نے جنگ کے آغاز سے ہی، اُس کے ابتدائی گھنٹون سے لے کر ابتدائی دنوں تک فقط اُن ٹھکانوں پر حملہ کیا، جو اُن کے ڈیٹابیس میں پہلے سے موجود تھے۔ صہیونی حکومت نے تمام وہ انفارمیشن جو اُن کے ڈیٹابیس میں پہلے سے موجود تھا، اپنی فضائیہ کے حوالے کی اور اسرائیلی فضائیہ نے اُس ڈیٹا بیس کے مطابق حملہ کیا، جس میں حزب اللہ سے متعلق خاص ٹھکانے پائے جاتے تھے، لیکن حزب اللہ کی تدبیر اور حکمت عملی کی وجہ سے، حزب اللہ کو نفری اور وسائل دونوں لحاظ سے بہت کم نقصان کا سامنا ہوا، یہاں تک کہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ حزب اللہ کو نقصان ہوا ہی نہیں۔ دشمن نے دس دن گزرنے کے بعد اعلان کیا کہ میرا ڈیٹا بیس انفارمیشن ختم ہوگیا ہے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ حزب اللہ سے متعلق اُس کے پاس جتنے ٹھکانوں کی خبر تھی، اُن سب کو ویران کرچکا تھا۔
لیکن بعد میں جاکر معلوم ہوا کہ آپریشن سے پہلے ہی دشمن کے متوقع ردعمل کے مطابق انجام پانے والے حزب اللہ کے اقدامات اور حکمت عملی کی برکت سے، اسرائیل نے جو بھی اقدام کیا تھا، وہ رائیگاں گیا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جنگ کے متوقع ہونے اور ماضی میں دشمن کے ردعمل کے مطابق اِس طرح کے واقعات کے نتیجے میں کبھی کوئی مکمل جنگ واقع نہیں ہوئی تھی۔ عام طور پر ایک دن کا ردعمل ہوا کرتا تھا، جس میں صہیونی مختلف علاقہ جات پر بمباری کرتے تھے اور پھر ختم، لیکن اِس جنگ کے ابتدائی لمحوں میں ہی منصوبہ موجود تھا، جسے نافذ کیا گیا، یعنی وہ منصوبہ جسے وہ خاموشی کے ساتھ عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے، اُسے پوری طرح برملا کرکے نافذ کیا۔ یہ جو ہم خاموشی کا منصوبہ کہہ رہے ہیں، یہ اب کی بات ہے، نہیں تو ہم جنگ کے دو ہفتے گزرنے کے بعد معلومات کی رو سے نہیں بلکہ ایمانی طور پر ہی جان چکے تھے اور تقریباً جنگ کے آخر میں ہمیں معلومات ملی کہ دشمن پری پلینڈ منصوبے کے تحت ہمیں حیرت زدہ کرنا چاہتا تھا، اور ہماری معلومات کی ایک بڑی وجہ خود دشمن کا اعلان تھا اور یوں وہ جنگ تیزی سے ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہوگئی اور جیسے کسی بارود کے ڈھیر میں چنگاری لگے، جنگ ویسے ہی شعلہ ور ہوگئی۔ جیسے کہ ایک ہی آن میں وہ پورا منصوبہ عملی ہوا اور وہ زوردار دھماکہ جسے ہم 33 روزہ جنگ کہتے ہیں، واقع ہوئی۔
سوال: جنگ کے وقت آپ کہاں تھے۔؟
حاج قاسم سلیمانی: جنگ کے پہلے دن، میں واپس لبنان چلا گیا، کیونکہ اُس سے ایک دن پہلے ہی وہاں سے آیا تھا۔ البتہ پہلے شام گیا، کیونکہ لبنان جانے والے تمام راستوں پر حملے ہو رہے تھے۔ بالخصوص لبنان اور شام کے درمیان سرحدی اور سرکاری راستہ مسلسل طور پر فضائی حملوں کی زد میں تھا اور جنگی طیارے مسلسل موجود تھے۔ میں نے محفوظ لائن کے ذریعے حزب اللہ کے دوستوں سے رابطہ کیا، عماد مغنیہ مجھے لینے کے لیے چلا آیا اور مجھے شام کے ایک اور راستے سے لبنان لے گیا، جس میں ایک حصہ پیدل چلنا تھا اور کچھ گاڑی سے۔ تب جنگ کا اصل نشانہ، حزب اللہ کے دفتری عمارتیں، جنوبی لبنان کے اکثر مقامات اور کچھ مرکزی اور شمالی علاقہ جات تھے۔ جیسے ہی پہلا ہفتہ ختم ہوا، تہران سے مجھے بلایا گیا، تاکہ انہیں جنگ کے حالات کی خبر دوں۔ میں ایک بائی پاس راستے سے ایران واپس آیا۔ تب رہبر معظم مشہد میں تھے اور میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا، تاکہ تینوں قوا اور حکام اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے ارکان اور غالباً انٹیلی جینس سے متعلق افراد کے ساتھ میٹنگ ہو۔ مشہد کی میٹنگ میں، میں نے جنگ کی ایک رپورٹ پیش کی۔ میری رپورٹ بہت دردناک تھی، یعنی یہ کہ میری دی گئی معلومات سے، جیت کی کوئی امید ظاہر نہیں ہو رہی تھی، کیونکہ یہ جنگ ایک الگ قسم کی، ٹکنالوجیک اور نہایت سنجیدہ جنگ تھی۔
نشانے بڑی دقت کے ساتھ چنے جاتے تھے۔ بارہ منزلہ عمارتیں ایک ہی بم سے زمیں بوس ہو جاتی تھی۔ توپ خانوں کے لیے دیہی علاقوں میں نشانہ بازی بہت سخت کام ہے، کیونکہ ایک دیہات سے دوسرے دیہات کا فاصلہ اتنا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود جنگ کا رخ حزب اللہ کے بعد پوری شیعہ قوم کی طرح مڑ گیا تھا، لیکن پھر بھی ایک شیعہ آباد دیہات کا حال، بغل میں پڑے عیسائی برادری کے دیہات یا اہل سنت برادری کے دیہات سے یکسر علیحدہ اور خراب تھا۔ یعنی ایک دیہات میں ایک شخص آرام سے بیٹھ کر حقہ پی رہا تھا اور دوسرے دیہات میں ہزاروں گولہ باریاں ہو رہی تھی۔ میں نے یہ سب باتیں وہاں میٹنگ میں بتا دیں۔ نماز کا وقت ہو چلا اور امام خامنہ ای تجدیدِ وضو کے لیے چلے گئے۔ میں بھی وضو کرنے چلا گیا۔ آقا نے وضو کر لیا تھا اور اُن کی آستینیں ابھی اوپر ہی تھیں، جب واپس جا رہے تھے، ہاتھ سے مجھے اشارہ کرکے کہا کہ آجاؤ۔ میں چلا گیا۔ آقا نے فرمایا کہ آپ اپنی اِس رپورٹ کے ذریعے مجھے کچھ خاص بتانا چاہ رہے تھے؟ میں نے عرض کی کہ نہیں، صرف حقیقت سے آپ کو باخبر کرنا چاہتا تھا۔ آقا نے فرمایا کہ وہ تو میں سمجھ گیا، اُس کے علاوہ کچھ بتانا چاہ رہے تھے؟ میں نے عرض کی کہ نہیں۔ نماز پڑھ لی اور سب میٹنگ میں واپس آگئے۔ میری رپورٹ ختم ہوچکی تھی۔
آقا نے اپنے بیانات شروع کئے۔ کچھ مطالب کا ذکر فرمایا۔ جیسے کہ سلیمانی صاحب نے جنگ کے بارے میں جو رپورٹ دی، حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ یہ ایک دشوار اور سخت جنگ ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ جنگِ خندق کی طرح کی جنگ ہے۔ آقا نے جنگِ احزاب یعنی جنگِ خندق کی آیات تلاوت فرمائی اور مسلمانوں اور پیغمبر کے ساتھیوں کی حالت اور وہ حالت جو لشکرِ اسلام پر طاری تھی، وہ بیان کی۔ پھر فرمانے لگے لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ اِس جنگ کی فتح، جنگِ خندق کی فتح جیسی ہوگی۔ میں حیرت زدہ ہوگیا، کیونکہ فوجی لحاظ سے فتح کا کوئی خیال تک مجھے نہیں آرہا تھا۔ یعنی اپنے دل میں یہ تمنا کی کہ کاش آقا ایسا نہ فرماتے کہ اس جنگ کے نتیجے میں ہماری فتح ہوگی۔ جنگِ احزاب، پیغمبر کی بہت بڑی فتح تھی۔ آگے آقا نے دو اہم نکات بیان فرمائے، جو کہ بہت ہی اہم تھے، آقا نے فرمایا کہ میرا ماننا ہے کہ اسرائیل نے یہ منصوبہ پہلے سے بنایا تھا اور چاہتا تھا کہ اسے پوری طرح لاعلمی اور خاموشی میں عملی جامہ پہنائے اور حزب اللہ کو لاعلمی میں نابود کرے۔ حزب اللہ کے یہ دو فوجی پکڑنے سے اُن کی خاموشی کا منصوبہ خراب ہوگیا۔ ہمیں اِس بات کی خبر نہیں تھی، سید حسن نصراللہ کو بھی نہیں اور عماد مغنیہ کو بھی نہیں۔
ہم میں سے کسی کے پاس یہ انفارمیشن نہیں تھی۔ مجھے ہمیشہ سے اِس بات پر یقین تھا اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہتا رہتا تھا کہ اِن بیس سالوں میں جب سے امام خامنہ ای کی خدمت میں ہوں، میں نے واضح طور پر اُن کی زبان، دل اور دماغ پر حکمت کے آثار دیکھے ہیں، جو کہ پرہیزکاری کا نتیجہ ہے، لہذا وہ جس بات کا شبہ ظاہر کرتے ہیں، آخرکار وہ شبہ ہی ہوتا ہے اور جہاں وہ یقین سے بات کرتے ہیں، آخرکار وہ نتیجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ جب آقا نے یہ نکتہ فرمایا مجھ میں امید جاگ اٹھی، کیونکہ اِس بات سے سید حسن نصراللہ کو بہت مدد ملنی تھی اور انہیں تسلی مل جاتی بالخصوص تب جبکہ شہداء کی تعداد بڑھ گئی تھی اور مسمار اور تخریب کاری بھی بڑھ گئی تھی۔ سید حسن نصراللہ ایسی باتیں بیان کرتے تھے، جن سے میں فکرمند ہو جاتا تھا اور میں نہیں چاہتا وہ باتیں یہاں بتا دوں۔ ہمیں آقا کا یہ بیان بہت اچھا لگا اور بالخصوص اُن افراد کے لیے جو اس بیان سے پہلے تک یہ سوچتے تھے کہ حزب اللہ نے دو اسیروں کے لیے پوری شیعہ قوم کو خطرے میں ڈال دیا۔ اب یہ بیان اُن کے لیے بہت امید افزا تھا کہ حزب اللہ نے دو اسیروں کے ذریعے نہ صرف خود کو بلکہ پورے لبنان کو مکمل تباہی سے بچا لیا ہے۔
ایک تیسرا نکتہ بھی بتایا، جو کہ روحانی پہلو کا حامل تھا، فرمایا کہ انہیں کہیئے کہ دعائے جوشن صغیر پڑھیں۔ اہل تشیع میں عام طور پر دعائے جوشن کبیر پڑھی جاتی ہے اور دعائے جوشن صغیر، خواص کے علاوہ عام عوام میں مشہور نہیں۔ پھر آقا نے وضاحت بھی فرمائی کہ ہمیں یہ نہیں لگنا چاہیئے کہ دعائے جوشن صغیر میں کیا پڑا ہے؟ جیسے کہ بعض کہتے ہیں کہ یہ چار قل پڑھو یا مثلاً ایک بار الحمد پڑھو تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آقا نے فرمایا کہ دعائے جوشن صغیر، ایک پریشان انسان کی کیفیت ہے۔ ایک شخص جو بری طرح پریشانی میں ہے اور خدا سے بات کرنا چاہتا ہے۔ میں اُسی رات تہران چلا گیا اور وہاں سے دوبارہ شام۔ مجھے اچھا محسوس ہو رہا تھا، کیونکہ میرے پاس ایک ایسا پیغام تھا، جو سید حسن کے لیے نہایت قیمتی تھا۔ عماد مغنیہ پھر سے مجھے لینے آگیا اور اسی راستے سے لبنان چلے گئے۔ میں سید حسن کے پاس چلا گیا اور انہیں پوری داستان سنا دی۔ سید کو اُن باتوں سے ایک زوردار روحانی طاقت ملی۔ سید کی ایک خصلت ہے، جو ہم کبھی اُس مقام پر نہیں پہنچ سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ولایت شناسی کا درس اُن کے پاس جا کر پڑھنا چاہیئے۔ اُن کا رہبر معظم کے بیانات پر پورا ایمان ہے اور انہیں الہیٰ اور غیبی بیانات تسلیم کرتا ہے۔ اسی لیے رہبر معظم کی جانب سے کی گئی ہر بات، ہر لفظ کے اوپر لاجواب توجہ دیتا ہے۔ میں نے سید کو سب بتا دیا اور وہ بہت خوش ہوئے۔ اُس کے فوراً بعد رہبر کی یہ فرمائش کہ اِس جنگ کا نتیجہ، جنگِ خندق کی فتح جیسے ہوگا۔
اگرچہ اس میں سختیاں بہت ہونگی، لیکن بڑی فتح حاصل ہونی ہے۔ رہبر کی یہ فرمائش تمام مجاہدین تک پہنچ گئی۔ جو فرنٹ لائن میں تھے، اُن سے لے کر سب کے سب تک اور ساتھ ہی رہبر کا یہ تجزیہ کہ "دشمن کا پہلے سے ہی حملے کا منصوبہ تھا" رائے عامہ کو متوجہ کرنے کے لیے سید حسن کی باتوں کی بنیاد بن گیا، تاکہ لوگوں کو دشمن کے مقصد سے آگاہ کریں اور تیسرا یہ کہ دعائے جوشن صغیر بھی مجاہدین میں عام ہوگئی۔ یہ دعا انتہائی قیمتی مفاہیم کی حامل ہے، عرفانی، روحانی اور عبودی لحاظ سے اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ مفاتیح الجنان کی بہترین دعاؤں میں سے ہے۔ اِس دعا کی نشر و اشاعت بڑھتی گئی اور المنار چینل ایک دلنشین اور محزون آواز کے ساتھ یہ دعا مسلسل طور پر چلاتا رہا۔ یہاں تک کہ عیسائی بھی یہی دعا پڑھنے لگے، کیونکہ یہ دعا، الہیٰ اور عرفانی دعا تھی اور کسی خاص مسلک سے مربوط نہیں تھی، یعنی جو کوئی بھی عبودیت رکھتا ہو، خدا کی طاقت اور الہیٰ قوت پر ایمان رکھتا ہو، یہ دعا اس پر اثر انداز ہوگی۔ لہذا رہبر کا یہ پیغام بہت موثر ثابت ہوا اور ایک تحریک کا نقطہ آغاز بنا اور کہا جاسکتا ہے کہ حزب اللہ کی رگوں میں اِس سے ایک تازہ خون دوڑ گیا، یہاں تک کہ حزب اللہ نئی امید اور مزید خود اعتمادی کے ساتھ میدان میں اتری۔
سوال: آپ نے جنگ کے دوران سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ کے دیگر کمانڈروں کو اسکے علاوہ کوئی دوسرا پیغام نہیں پہنچایا۔؟
حاج قاسم سلیمانی: میں اُس کے بعد جنگ کے تنتیسویں دن تک واپس نہیں آیا اور وہیں لبنان میں رہا۔ جب جنگ ختم ہوگئی، میں ایران آگیا اور اُسی مشہد والی میٹنگ کی طرح، اِس بار تہران میں رہبر معظم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس میں دیگر اہم حکام اور عہدیدار بھی تھے۔ جنگ کے حالات کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی، جس کا ایک حصہ تب نشر بھی ہوا تھا۔ علاوہ بر ایں میں جب لبنان میں تھا، سکیور لائن کے ذریعے ضروری انفارمیشن تہران پہنچایا کرتا تھا، اس لیے ہمارے حکام پہلے سے ہی تمام حالات سے واقف تھے۔
سوال: اسلامی جمہوریہ ایران کے ردعمل کے بارے میں، ایران کے اندر کیا رائے پائی جاتی تھی؟ کیا ہمارے ردعمل کے بارے میں حکام میں سب کی رائے ایک جیسی تھی یا کسی نے مخالفت بھی کی تھی۔؟
حاج قاسم سلیمانی: اُس دور میں کوئی اختلافِ رائے پایا ہی نہیں جاتا تھا، یعنی سب حزب اللہ کی حمایت کے حوالے سے متفق تھے، خواہ معنوی حمایت ہو یا مادی حمایت، جیسے کہ اسلحہ، جنگی سازوسامان اور میڈیا کوریج سمیت وہ سب جو ایران کے کرسکتا تھا، لہذا ہمارے نظام میں، کم سے کم اُس دور میں کوئی مخالف نہیں تھا۔ میں جب تک وہاں پر تھا، تب بھی ایران کے اندر کی رائے سے واقف رہتا تھا اور اِس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں تھی اور حزب اللہ کی حمایت اور اُس کی فتح کی کوشش کے حوالے سے صحیح معنوں میں ایک مکمل وحدت پائی جاتی تھی۔ کیونکہ اِس حمایت کے مرکزی کردار، رہبر معظم تھے، لہذا لوگوں کو اِس موضوع کی جانب متوجہ کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران، اسلام اور عالمِ اسلام کی بھلائی کی جانب توجہ دلانے کے بعد ایرانیوں کے دل میں کوئی شک و شبہہ نہیں بچا تھا۔ البتہ اب بھی ہوسکتا ہے بعض مسائل میں اختلافِ رائے پایا جائے، لیکن حزب اللہ کے حوالے سے آج بھی ہم اتفاقِ رائے رکھتے ہیں۔
سوال: اِس 33 روزہ جنگ کے آپریشنز کے حوالے سے کوئی خاص باتیں بیان نہیں ہوئی ہیں اور شاید اس جنگ میں صرف اسرائیلیوں کے حالات کے بارے میں ہی بات ہوئی ہے، اچھا ہوگا اگر آپکی زبان سے اس جنگ کے آپریشنز کی تفصیل سن لیں، کیونکہ آپ اس جنگ کے میدان میں خود حاضر تھے۔؟
حاج قاسم سلیمانی: دیکھیئے، 33 روزہ جنگ کے حوالے سے اب بھی کچھ ایسی باتیں ہیں، جنہیں بتانا مناسب نہیں۔ اس جنگ کے تقریباً تیرہ سال ہوچکے ہیں اور اب بھی بہت سالوں تک حزب اللہ کے آپریشنز کی تفصیل کی کچھ باتیں راز ہی رہیں گی۔ لیکن جو کچھ بتایا جاسکتا ہے اور فائدہ مند ہے بتانا، آپ کو کچھ اہم نکات اور کچھ آپ بیتیاں سناؤں گا۔ حزب اللہ کا ضاحیہ کے مرکز میں ایک آپریشن روم تھا، جس کے آس پاس کی عمارتیں مسلسل طور پر بمباری کا نشانہ بنتی تھیں اور مسمار ہو جاتی تھیں۔ یعنی ہر رات، دو تین اونچی عمارتیں، جو کہ شاید بارہ تیرہ منزلیں تھیں، خاک سے یکساں ہو جاتی تھیں۔ یہ آپریشن روم کوئی بیسمینٹ روم نہیں تھا، بلکہ ایک معمولی سا آپریشن روم تھا، لیکن بعض جنگی سازوسامان، کنیکشنز اور مواصلات وہاں سے منیج ہوا کرتے تھے۔ ایک رات جب ہم اِس آپریشن روم میں تھے، اور جنگ کے تقریباً سب اہم عہدیدار اور کمانڈر وہاں موجود تھے، تقریباً رات کے گیارہ بجے جب ہمارے آس پاس کی عمارتوں کو مار کر گرا چکے تھے، ہمیں خبر ملی کہ سید حسن کی جان کو نہایت خطرہ ہے، ہم نے فیصلہ کیا کہ سید کو وہاں سے کسی دوسری جگہ لے جائیں، میں اور عماد مغنیہ نے مشورہ کیا، لیکن سید آپریشن روم سے باہر نکلنے کو تیار نہ تھے۔
اُن کا نکلنا اتنا آسان بھی نہیں تھا کہ بس ضاحیہ سے بآسانی نکل سکیں گے، بلکہ ایک ایسی عمارت سے انہیں نکالنا تھا، جو ہمیں لگ رہا تھا کہ دشمن کو اُس پر شک ہوگیا ہے۔ اسرائیلیوں کے ایم کے ڈرون طیارے، مسلسل ضاحیہ کی فضا میں پرواز کر رہے تھے، ایک نہیں، تین تین ڈرون ایک ساتھ۔ اور تمام آتے جاتے کی پوری خبر رکھتے تھے، یہان تک کہ کسی موٹر سائکل والے کو بھی نظر میں رکھ رہے تھے۔ رات کے بارہ بجے، ضاحیہ پوری طرح سنسان ہوگیا، وہ جو حزب اللہ کا اصل مرکز تھا، جیسے کہ وہاں کوئی انسان ہے ہی نہیں۔ ہم نے وہاں سے دوسری عمارت جانے کا فیصلہ کیا اور چلے بھی گئے۔ البتہ پہلی عمارت اور دوسری عمارت میں فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ جیسے ہی عمارت کے اندر چلے گئے، ایک اور بمباری ہماری عمارت کے ساتھ ہوئی۔ ہم اُسی بلڈنگ میں رک گئے، کیونکہ اُس میں ہماری سکیور لائن تھی اور سید اور عماد مغنیہ کا رابطہ کٹنا نہیں چاہیئے تھا۔ پھر سے ایک اور بمباری ہوئی اور ہماری عمارت کے پاس واقع ایک پل کو مار گرایا۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ اِن دو بمباریوں کے بعد تیسری بمباری شاید ہماری عمارت پر ہو۔ اُس عمارت میں صرف تین افراد تھے، میں اور سید اور عماد۔ لہذا ہم نے وہاں سے جانے کا ارادہ کیا اور تیسری عمارت کی جانب گئے۔
ہم تینوں باہر آگئے، ہمارے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی، ضاحیہ پر اندھیرا چھایا ہوا تھا اور پورا شہر سنسان تھا اور صرف صہیونیوں کے ڈرون طیاروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔ عماد نے مجھے اور سید کو کہا کہ آپ اِس درخت کے نیچے بیٹھیں، تاکہ ڈرون کی نظر میں نہ آئیں۔ اگرچہ ہم ڈرون سے محفوظ نہیں تھے، کیونکہ ایم کے ڈرون کا کیمرہ، انسانی جسم کی حرارت کو محسوس کرتا ہے، لہذا وہاں پوری طرح محفوظ رہنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو مجھے حضرت مسلم کی کہانی یاد آئی، اپنے لیے نہیں، بلکہ سید کے لیے کیونکہ سید وہاں کے مالک تھے۔ عماد جا کر کچھ ہی منٹوں میں ایک گاڑی لے آیا۔ عماد بے مثال تھا۔ خاص طور پر آپریشن ڈیزائننگ میں۔ گاڑی کے پہنچنے سے پہلے ہی ڈرون کی آنکھ نے ہمیں دیکھ لیا تھا۔ جیسے ہی گاڑی پہنچی، ایم کے ڈرون نے گاڑی پر فوکس کیا۔ ایم کے ڈرون کی انفارمیشن سیدھا تل ابیب جاتی تھی اور وہ لوگ یہ سب اپنے آپریشن روم میں دیکھ رہے تھے۔ بیسمینٹ جانے میں، پھر دوسری بیسمینٹ اور وہاں سے اس گاڑی تک پہنچنے اور اُس کے بعد اگلی چیز پر جس کا نام ذکر نہیں کرسکتا، اُس تک پہنچنے میں اور دشمن کو دھوکہ دینے میں ہمیں کافی وقت لگ گیا۔ تقریباً اڑھائی بجے کے قریب ہم پھر سے آپریشن روم تک پہنچ آئے۔
جو اہم بات تھی، وہ یہ تھی کہ عام طور پر جنگوں میں تیز رفتاری سے کام لینا چاہیئے۔ مجھے تقریباً چالیس سال ہوچکے ہیں کہ فوجی اور عسکری امور انجام دیتا ہوں اور مجھے یہ بات پتہ ہے۔ جنگ میں بہت تیز رفتاری ہوتی ہے، تاکہ جو وسائل اُن کے پاس ہیں، وہ سب ابتدائی لمحوں میں ظاہر کرسکیں۔ حزب اللہ نے اس جنگ کے ہر مرحلے پر ایک نئے جنگی اوزار اور ایک نئے اقدام کے ذریعے ہیبت زدہ اور حیران کیا تھا۔ یعنی حزب اللہ ہر بار آگے کی طرف بڑھتی تھی۔ حیفا کا مرحلہ، حیفا کے بعد کا مرحلہ، حیفا کے بعد کے بعد والا مرحلہ۔ اِن مراحل کو رفتہ رفتہ آگے بڑھاتے گئے، تاکہ دشمن کو غفلت کی نیند سے جگا سکیں اور ہر مرحلے میں ایک نئے اسلحے کی نمائش کرتے تھے، تاکہ دشمن کو یہ بتا سکیں کہ وہ دشمن تک بہت دور سے بھی رسائی رکھتے ہیں، لہذا دشمن کو یقین ہوگیا کہ حزب اللہ اُس وقت، ایسے ایک مرحلے میں داخل ہوسکتی ہے، جو سب سے خطرناک مرحلہ ہے، ایسا مرحلہ جس سے زیادہ خوفناک کچھ ہو ہی نہیں سکتا، یعنی حزب اللہ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ تل ابیب کے اندر تک جنگ کو پھیلا سکے۔ لہذا حزب اللہ کے یہ اقدامات، اگرچہ عسکری پہلو کے حامل بھی تھے۔
لیکن نفسیاتی لحاظ سے بھی شدید تھے، یعنی عسکری آپریشن بھی کرتی تھی اور ہر مرحلے میں دشمن کو مقبوضہ فلسطین کے کسی جغرافیہ پر چیلنج دیتی تھی اور ساتھ ہی، نفسیاتی لحاظ سے بھی دشمن کو شدید دباؤ میں بھی رکھتی تھی۔ دوسری بات، جنگی سازوسامان کو استعمال کرنے کا طریقہ ہے۔ دشمن کا خیال یہ تھا کہ اُس کے آپریشن کی شدت کے نتیجے میں حزب اللہ کی طاقت صفر ہوچکی ہوگی، لیکن ہر مرحلے میں جب دشمن کو لگتا تھا کہ مثلاً حزب اللہ کی میزائل طاقت ختم ہو رہی ہے۔ حزب اللہ اس دن اور اس کے اگلے دن، پچھلے دن سے کئی گنا زیادہ میزائل برساتی تھی۔ میزائل مارنا کوئی معمولی بات نہیں۔ وہ بھی ایسی سرزمین پر جہاں فضا میں اُس کا سامنا ایک سنگین اور متحرک توپ خانے سے ہو، کیونکہ میزائل کے لیے ضروری ہے کہ پناہ گاہ سے باہر آکر اپنے نشانے پر آئم کرسکے، پھر اُس نشانے پر فائر ہو۔ فائر کرنے والے کو نقصان نہ ہو اور کسی امن کے مقام پر واپس پہنچے۔ یہ نہایت مشکل کام ہے۔
سوال: اِس وسیع پیمانے پر تیاری کتنے عرصے میں اور کن مراحل کے بعد ہو پائی۔؟
حاج قاسم سلیمانی: حزب اللہ کے مجاہدین کی قابلیت اور صلاحیت کی وجہ وہ شارٹ ٹائم گہری ٹریننگز تھیں، جو سال 2000ء سے 2006ء تک انجام پائی تھیں، یعنی تب جب صہیونی جنوبی لبنان میں شکست سے دوچار ہو کر وہاں سے بھاگے تھے۔ یہ ٹریننگ اور تیاری مسلسل طور پر سال 2006ء تک جاری رہی، جو کہ حزب اللہ کی پیشنگوئی کے تحت تھی، جس کا نام سیدالشہداء تھا۔ اِس ڈیزائن کا منیجر اور ڈیزائنر بھی خود عماد مغنیہ تھا، لہذا اس نے بخوبی منیجمنٹ کی تھی کہ دشمن کے مقابلے میں کیسے عمل کیا جائے۔ تیسرا نکتہ حزب اللہ کی حکمت عملی کا ہے۔ دوسری جنگوں کے برعکس جن میں ایک فرنٹ لائن ہوتی ہے، اس جنگ کی کوئی فرنٹ لائن نہیں تھی، بلکہ ہر مقام ایک مورچہ تھا، اس معنی میں کہ لبنان کے ساتھ مقبوضہ فلسطینی سرحد سے لے کر، کم سے کم لیطانی نامی نہر تک، وہاں ہر مقام، جیسے کہ پہاڑیاں، گاؤں، مکانات ایک مورچہ اور ایک فرنٹ لائن تھا۔ ایک عام مورچہ نہیں جو جنگوں میں عام ہوتا ہے اور ہم اسے اپنی جنگ میں استعمال کرتے تھے، بلکہ ایک خاص مورچہ جس میں خصوصی تدبیریں تھیں۔ حزب اللہ کا یہ حربہ ایک وسیع سمارٹ بارودی سرنگ کی طرح تھا، جس میں کوئی خالی اور محفوظ مقام نہیں تھا۔
اگر آپ دشمن کے چلنے کے راستے پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ سرحد کے ساتھ منسلک کچھ دیہات، جن میں دشمن ان گاؤں میں داخل ہونے میں ناکام رہا تھا اور وہ اندر داخل نہیں ہوسکے تھے اور شہروں میں داخل ہونے میں بھی ناکام رہے تھے اور بالآخر وادی الحجیر جانے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد لیطانی نہر کی جانب چلے گئے اور یہی وہ مقام تھا، جہاں دشمن کمزور ہوا اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 33 روزہ جنگ میں ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ بعض اوقات حزب اللہ کی ایک ضرب، خندق کی جنگ میں مولا امیر المومنین (ع) کی ضرب کی طرح فائدہ مند ثابت ہوتی تھی، جیسے وہاں عمر ابن عبدود کو زمین پر دے مارا تھا۔ جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا تھا کہ علی کی یہ ضرب تمام جن و انس کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ وہ ضرب اسلام کی نجات کا باعث بنی۔ حزب اللہ حملے کے لیے جو منصوبے بناتے تھے، ان میں بعض ضربات ایسے تھے کہ صہیونیوں کے بنیادی ڈھانچوں کو ایک ہی جھٹکے میں نیست و نابود کر دے۔ ان ڈھانچوں میں سے ایک حکومت کی بحریہ تھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ جنوبی لبنان تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ تھا، جو بحیرہ روم کے پار ہو کر سائڈن، صیدا پھر صور اور بالآخر جنوبی سرحدی علاقے تک پہنچتا تھا۔
تمام جنگوں میں، صہیونی حکومت کے فریگٹ بحری جہاز سمندر پر کھڑے تھے اور اپنی دقیق توپوں سے اس سڑک کو بند کرچکے تھے، انہوں نے پہلے ہفتے میں بھی ایسا ہی کیا تھا۔ جو بات دشمن کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھی، وہ تھی حزب اللہ کے سمندری میزائل۔ وہ دن پہلا دن تھا، جس میں سمندری میزائلوں کا تجربہ کیا جانا تھا۔ اس سے پہلے، تمام میزائل خفیہ رکھے گئے تھے اور اُن کا کوئی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک مشکل آپریشن تھا۔ راکٹ کو ایک پناہ گاہ اور خفیہ جگہ سے باہر نکالنا تھا، میزائل لے جانے والی گاڑی کو ایسی جگہ پر جانا تھا، جو نمایاں جگہ تھی حالانکہ اس کے سامنے تین چار اسرائیلی بیڑے بھی کھڑے تھے۔ یہ اس وقت کیا جانا تھا، جب سید نے بیان دینا تھا، کیونکہ یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ سید حسن زخمی حالت میں ہے اور یہ افواہ لبنانیوں میں عوامی تشویش کا باعث بنی تھی۔ سید کا عماد کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ جب سید بیان دینگے، تب یہ آپریشن ہونا ہے۔ اس ہفتے دشمن کو ایک برتری حاصل تھی اور ہم نے میزائل والے ردعمل کے علاوہ کوئی اور اہم کام نہیں کیا تھا، لیکن ہر صورت میں یہ کارروائی کرنی تھی۔ راکٹ نے کئی بار پلیٹ فارم کو نشانہ بنایا اور گولی مارنے کی کوشش کی، لیکن فائر نہ پو پائی۔ سید چاہتے تھے کہ اس آپریشن کو اپنے الفاظ میں ایک اہم حیرت قرار دیں۔
سید حسن کے بیان کو ریکارڈ کرکے بعد میں چلانے کا پروگرام تھا۔ جہاں پر سید بیان دے رہے تھے، اُس کے ساتھ ہی ایک کمرہ تھا، جہاں میں اور عماد اور دوسرے بھائی ساتھ بیٹھے تھے۔ سید کی گفتگو اختتام کو پہنچ چکی تھی، لیکن میزائل فائر نہیں ہو رہا تھا۔ سید اختتام پر جیسے ہی یہ کہنا چاہتے تھے کہ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ، جیسے ہی اس مقام پر پہنچے، ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی میزائل فائر ہوا۔ میزائل کی رفتار سُپر سونک تھی اور تیزی سے بحری جہاز سے ٹکرا گیا، چنانچہ اپنی تقریر کے اختتام پر، سید نے کسی غیبی بیان کی طرح جیسے اُنہیں باہر کا منظر دکھائی دے رہا ہو، کہا کہ اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیلی جنگی جہاز جل رہا ہے۔ سید کا یہ کہنا میزائل حملے کے ساتھ بیک وقت ادا ہوا۔ اب اس میں ایک ایسا فلسفہ ہے، جو عام لوگوں کی نظر میں شاید قابل قبول نہیں، لیکن اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ خدا نے اِس بیان اور میزائل حملے کو بیک وقت قرار دیا اور میزائل بھی ٹھیک نشانے پر جا لگا، جبکہ ان بحری جہازوں میں کافی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں اور وہ میزائل کو راستے سے ہٹا سکتے ہیں۔ اُن میں اینٹی میزائل سسٹم ہوتا ہے، جو میزائل کو ناکارہ بنا سکتے ہیں، لیکن میزائل آیا اور مارا اور جہاز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
یہ واقعہ درحقیقت صہیونی بحریہ سے نجات کا واقعہ تھا، وہ بحریہ جو اس کے بعد جنگ کے خاتمے تک نظر نہیں آئی اور ایک راکٹ کے ذریعے، صیہونی حکومت کی پوری بحریہ منظر غائب ہوگئی۔ یقیناً، اس حقیقت کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی حکومت کی بحریہ کتنی کمزور ہوسکتی ہے کہ ایک میزائل سے، اس کی پوری بحریہ کو غائب کر دیتی ہے۔ یہاں ہمارا موضوع صہیونی حکومت کی فوجی طاقت ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس حکومت کے پاس جتنے بھی بحری جہاز ہوں گے، اس بار ایک میزائل کے ساتھ، دو میزائل یا تین میزائل کے ساتھ مکمل طور پر میدان سے باہر ہوں گے۔ اُس وقت، بحریہ 100 کلومیٹر کی رینج والے میزائل سے بھاگی تھی اور شاید اگلی بار 300 کلومیٹر رینج سے ہی دور دور بھاگیں گے۔ پس یہ ایک معجزہ اور ایک بڑی فتح تھی۔ وہ لوگ جو اس وقت بے گھر ہوئے تھے یا بمباری کے تحت تھے، اُسی بمباری کے وقت خوشی سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ ایک اور حیرت انگیز بات تھی، جو حزب اللہ نے رقم کی اور تقدیر کو تبدیل کر دیا، جس کے بعد صہیونی حکومت اس وقت تک اس کا مقابلہ نہیں کرسکی تھی، جب تک کہ وہ آخرکار خیام کے میدانی علاقے اور لیطانی کی جانب منتقل ہوگئی، لیکن وہاں بھی شکست کھائی۔
بیسویں دن سے ستائیسویں دن تک بہت مشکل دن تھے، میں اور عماد نے علیحدگی اختیار کی اور سید کسی اور مقام پر تھے، ہم رات کے وقت میٹنگ کرتے تھے اور کچھ خاص ضوابط کے تحت، سید تک رسائی حاصل کرکے اُن سے ملاقات کرتے تھے اور عماد میدان کی مکمل رپورٹ پیش کرکے سید کی تدابیر حاصل کر لیتا تھا۔ وہ دن بہت دشوار دن تھے، بہت سنگین اور سخت دن۔ کہا جاسکتا ہے کہ 33 روزہ جنگ کے سب سے کٹھن دن تھے۔ میں اب تمام وہ باتیں یہاں پر نہیں بتا سکتا۔ عماد نے ایک اہم حکمت عملی سے کام لیا، جو کہ نہایت موثر ثابت ہوا۔ میں اگر اس کی تاثیر بتانا چاہوں تو مجھے اُسے امام خامنہ ای کے اُس پیغام کی رو سے بیان کرنا ہوگا، جو امام خامنہ ای نے سید کے لیے بھیجا تھا۔ وہ حکمت عملی جو کہ نہایت اہم تھی، فرنٹ لائن میں موجود مجاہدین کا سید حسن کے نام خط تھا، وہ مجاہدین جو دشمن کے بالکل روبرو تھے۔ بہت عجیب خط تھا، جب وہ خط سید حسن کے سامنے پڑھا جا رہا تھا، عماد مغنیہ جو کہ اِس حکمت عملی کا ڈیزائر بھی تھا، خود بلند آواز سے رو رہا تھا، میں نے ایسا کسی کو نہیں دیکھا، جو وہ خط سنے اور نہ روئے، لیکن اُس سے بھی اہم، سید کا جواب تھا۔ یعنی ہم اگر تشبیہ کرنا چاہیں تو مجاہدین کا خط، کربلا میں امام حسین (ع) کے ساتھیوں کے اشعار جیسا تھا، جو انہوں نے امام حسین (ع) کے دفاع کے لیے پڑھے تھے اور سید کا جواب بھی شبِ عاشور امام حسین (ع) کے جواب جیسا تھا، جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے عزم کو سراہا تھا۔
یہ دو مکالمے، یعنی مجاہدین کا سید کو خط، اور سید کا جوابیہ بیان، ہر ایک کا عظیم اثر تھا اور حقیقت میں الہیٰ بیانات تھے۔ واقعی اُس خط اور بیان کا اثر بہت زیادہ تھا اور سب کی قوتِ قلب کا باعث بنا۔ اٹھائیسویں دن کے بعد سے جنگ نے اپنا رخ تبدیل کر دیا۔ اب میں یہاں ایک اور نکتہ بتانا چاہتا ہوں۔ ایسے بہت سے مناظر ہم نے دفاعِ مقدس میں بھی دیکھے تھے اور میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جنگ میں ہمارے حق پر ہونے کی ایک وجہ، ہمارے مجاہدین کی نفسیات رہی ہیں، جو کہ زیادہ تر سیر و سلوک اور حجابوں کے ہٹ جانے کی کیفیت کے ساتھ شباہت رکھتی تھی۔ وہ حجاب اور حائل کے ماورا ہوکر بات کرتے تھے۔ کربلائے پنج نامی آپریشن سے ڈیڑھ سال پہلے، ہم شلمچہ میں تھے اور وہاں پر ایک آپریشن کرنے کا ارادہ تھا اور دشمن کو ہم پر شک نہ ہو، اس لیے ہم نے اپنے انٹیلی جینس کے افراد وہیں مقیم کر دیئے تھے۔ ہمارے سامنے پانی تھا اور اُس دن ہمارے دو سپاہی، انفارمیشن حاصل کرنے کے لیے چلے گئے، لیکن واپس نہیں آئے، ایک کا نام حسین صادقی اور دوسرے کا اکبر موسایی پور تھا۔ ہمارا ایک ساتھی جو کہ بہت عارف اور ولی قسم کا تھا، اسکول کی عمر کا نوجوان تھا، طالب علم تھا لیکن بہت معرفت رکھتا تھا۔
اس حد تک کہ شاید عملی عرفان میں اُس جیسے بہت کم ملیں گے۔ ایسے مقام پر فائز تھا کہ بعض اولیاء اور بزرگ شاید ستر اسی سالوں میں وہاں پہنچتے ہیں۔ میں اہواز میں تھا، جب اُس نوجوان نے وائرلیس سیٹ کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے کہا کہ یہاں آو۔ میں وہاں گیا۔ ہمارے اُس برادر نے کہا کہ اکبر موسایی پور اور صادقی واپس نہیں آئے۔ میں بہت اداس ہوگیا اور کہا کہ ابھی تو ہم نے شروع بھی نہیں کیا اور دشمن نے ہمارے فوجی پکڑ لئے اور آپریشن لیک ہوگیا۔ میں نے یہ باتیں غصے میں کہیں۔ میں ایک دن وہیں رہا اور پھر واپس آگیا۔ کیونکہ بہت سے محاذوں پر جنگ جاری تھی۔ دو دن بعد اُس برادر نے پھر سے مجھ سے رابطہ کرکے کہا کہ آجاو۔ میں چلا گیا۔ اُس برادر کا نام بھی حسین تھا، مجھ سے کہنے لگا کہ کل اکبر موسایی پور واپس آجائے گا۔ میں نے کہا کہ کیا بات کر رہے ہو حسین؟ حسین نے مسکرا کر کہا: غلام حسین کا بیٹا، حسین یہ زبان دے رہا ہے۔ اُس کے والد کا نام غلام حسین تھا، وہ ٹیچر تھے، اس کی والدہ بھی ٹیچر تھی۔ حسین ماں باپ دونوں کی طرف سے معلم زادہ تھا۔ وہ نوجوانی کی عمر میں ہی معلم تھا۔ جب کوئی حسین آغا کا نام لیتا تھا، حسین آغا ایک ہی تھا وہاں پر۔ اگرچہ سینکڑوں حسین تھے، وہاں ہماری لشکر میں۔ لیکن حسین آغا ایک ہی تھا۔
میں نے پوچھا کہ حسین! کیا ہوا ہے؟ کہنے لگا کہ کل اکبر موسایی پور واپس آجائے گا اور اس کے بعد صادقی۔ میں نے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ؟ کہنے لگا کہ آپ بس یہیں پر موجود رہیں۔ میں وہیں رکا۔ ہمارے پاس ایک جنگی کیمرہ تھا، جسے چھپانے کے لیے اس کے ارد گرد ہم نے بوریاں رکھی تھی اور قلعہ سا بنایا تھا۔ انٹیلی جینس کے برادران جو کیمرے میں دیکھ رہے تھے، تقریباً دوپہر کے ایک بجے کے قریب آئے اور کہنے لگے کہ پانی کے اوپر کوئی چیز تیرتی ہوئی آرہی ہے۔ میں نے جاکر دیکھا، تو حقیقت میں ایسا ہی تھا۔ ہمارے ساتھی پانی میں گئے اور دیکھا کہ اکبر موسایی پور ہے۔ اگلے دن حسین صادقی کا جنازہ آیا۔ یہ بات عجیب تھی کہ پانی کے اُس تلاطم کے باوجود، اُن کے جنازے ٹھیک وہیں پر واپس کیسے آئے، جہاں سے وہ آپریشن کے لیے نکلے تھے۔ وہ دونوں پانی کے اندر ہی شہید کر دیئے گئے تھے۔ حسین آغا کچھ عرصے بعد شہید ہوگیا۔ میں یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ اُن سخت حالات میں، حزب اللہ کے ایک برادر جو کہ بہت دیندار اور مہذب تھے اور جنوبی علاقہ جات میں انہیں پوسٹ ملی تھی۔
اُس نے کہا میں نے خواب دیکھا کہ ایک خاتون آئی ہیں، جن کے ساتھ دو خواتین اور بھی تھیں، مجھے لگا سیدہ زہراء (س) ہیں۔ اُن کے قدموں کی جانب گیا۔ اُن سے کہا: دیکھیں ہماری حالت، دیکھیں ہم کس پریشانی میں ہیں۔ بی بی نے فرمایا کہ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں مصر تھا کہ اُن کے قدموں میں جا گروں اور اُن سے کچھ لینا چاہ رہا تھا۔ میرے بہت اصرار کے بعد، انہوں نے پھر سے فرمایا کہ ٹھیک ہو جائے گا اور اپنے لباس کے اندر سے ایک رومال نکال کر اسے ہلایا اور فرمایا کہ ختم ہوگیا۔ اُس کے بعد اسرائیل کا ایک ہیلی کاپٹر مارا گیا، جس کے بعد ٹینکوں کو مارنا شروع کیا گیا۔ ٹینکوں کو مارنا ہی صہیونیوں کی شکست کا نقطہ آغاز تھا۔ یہ وہ مقام تھا، جہاں تقدیر بدلی اور کورنیٹ میزائل میدان میں نمایاں ہوگئے۔ اور پہلی بار ایسا ہوا کہ اسرائیل کے میرکاوا ٹینک جو اب تک اس کیفیت کے ساتھ نہیں مارے گئے تھے، اب نابود ہوگئے اور ایک ہی دن میں تقریباً سات ٹینک تباہ کر دیئے گئے۔
سوال: یہ جنگ کیسے ختم ہوئی۔؟
حاج قاسم سلیمانی: حمد آل خلیفہ جو کہ قطر کے وزیراعظم رہ چکے ہیں، تب وزیر خارجہ تھے۔ وہ اقوام متحدہ میں ثالثی کرنے کے لیے لبنان آتے جاتے تھے۔ انہوں نے بعد میں بھی کہا کہ اُن دنوں میں امریکی کسی صورت میں جنگ روکنے کی بات نہیں کرنے دیتے تھے، میں نا امید ہوگیا اور اپنے مکان پر آرام کرنے چلا گیا، لیکن اچانک سے اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر کو دیکھا کہ مجھے لینے آیا تھا۔ جلدی جلدی میں پریشان حال میں مجھے کہا کہ تم آخر ہو کہاں؟ میں نے کہا: خیریت؟ ہوا کیا ہے؟ کہنے لگا: چلو اقوام متحدہ چلتے ہیں۔ آکر جان بولٹن خبیث کو دیکھا کہ بہت پریشان اور مضطر ہو کر چل رہا ہے۔ دونوں نے مجھ سے کہا کہ اب جنگ کو روکنا ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ کیوں؟ کہنے لگے کہ اگر جنگ رکے گی نہیں تو پوری اسرائیلی فوج نیست و نابود ہو جائے گی، لہذا اسرائیلیوں نے اپنی تمام شرطیں واپس لے لی اور انہیں نظر انداز کرکے حزب اللہ کی شرطیں ماننے اور جنگ بندی کے اعلان کے لیے تیار ہوگئے اور حزب اللہ کو یہ عظیم فتح نصیب ہوئی۔
نہ صرف یہ کہ فتح حاصل ہوئی بلکہ اسرائیلی حملوں کے لیے وہی ایک نقطہ پایان شمار ہوا، جس کے بعد سے ابھی تک اسرائیل نے کوئی جنگ نہیں کی۔ نہ صرف یہ کہ حزب اللہ نے صہیونیوں کے لبنان پر ہر قسم کے حملے کو روکا بلکہ صہیونیوں کے کسی پر بھی حملے کو روکا ہوا ہے۔ میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ بن گورین کے حملہ کرنے کی پالیسی کو چھوڑ کر، اب اسرائیل فقط دفاعی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ یہ واقعہ، جو کچھ عرصہ پہلے واقع ہوا، جس میں حزب اللہ نے اپنے دو شہیدوں کی شہادت پر انتقام لینے کی دھمکی دی کہ اسرائیل کو نشانہ بنائیں گے اور مارینگے۔ اسرائیلی یہ سن کر سرحدی علاقوں سے تین سے پانج کلومیٹر تک اندر کی طرف بھاگ گئے۔ یہاں تک کہ لبنانی چینل المیادین کا رپورٹر کانٹے دار تاروں کے اس پار جا کر کہنا لگا کہ میں مقبوضہ فلسطین (یعنی اسرائیل) سے آپ کو رپورٹ دے رہا ہوں۔ اسرائیلیوں کا یہ خوف، اسی 33 روزہ جنگ کا اثر ہے۔
سوال: دفاع مقدس کے ایام قریب ہیں، کس طرح ہے کہ دفاع مقدس کی تہذیب و ثقافت محاذِ مقاومت کیساتھ جڑ چکی اور ابھی تک زندہ ہے۔؟
حاج قاسم سلیمانی: آپ اگر تاریخ اسلام میں مختلف واقعات کی طرف دیکھین گے تو سمجھ جائینگے کہ امیرالمؤمنین نے رسول اللہ کے بعد انہی کی اقتدا کی۔ جب امیرالمومنین نصیحت کرتے تھے، جب خط لکھتے تھے، جب خطاب کرتے تھے، اُن کی بنیاد اور نمونہ عمل، پیغمبر کا دور، پیغمبر کا عمل اور اُن کی سیرت ہوتی ہے۔ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) جب کسی کی اقتدا کرنا چاہتے تھے، خود امیرالمومنین کو زندہ مثال کے طور پر اور سیرہ رسول کو عملی کرنے والے کے طور پر، اپنا نمونہ عمل قرار دیتے تھے۔ ہمارا دفاعِ مقدس بھی اسی جنس کا ہے۔ یعنی اُن تمام مقدس دفاعوں کی نسبت، ماں کی طرح ہے۔ محور اور مرکز ہے۔ ہمارے دفاعِ مقدس میں روحانی امور، اعلیٰ ترین شکل میں سامنے آئے۔ دینی تبلیغ، بہترین صورت میں انجام پائی۔ ایمانی اور عبادی امور اعلیٰ ترین صورت میں کسی ذرہ برابر کج روی کے بغیر پیش کئے گئے۔ جانثاری اور شہادت بہترین شکل میں پیش کی گئی۔ بڑے عہدیداروں کے اپنے اندر افراد کے ساتھ برتاؤ اور سلوک کو فقط اسلام کے ابتدائی دور کے ساتھ مقایسہ کیا جاسکتا ہے، لہذا اِن تمام باتوں میں دفاعِ مقدس ایک چوٹی کی طرح ہے۔ آپ البرز کی بلندیوں کو دیکھیں، اُس کی لمبائی ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے، لیکن پھر بھی سب سے بلند چوٹی دماوند ہی کہلاتا ہے۔ البرز پہاڑی سلسلے میں سب سے اونچی چوٹی دماوند ہے۔ دفاع مقدس کی مثال اِن دیگر مقدس دفاعوں کی نسبت، البرز کے اس طویل پہاڑی سلسلے میں دماوند کی طرح ہے۔ دفاع مقدس کی اپنی ایک اونچائی ہے، جو اِن سب سے بلند ہے اور یہ سب اُس کی نسبت دامنِ کوہ اور اس پہاڑی سلسلے کے پہاڑ ہیں۔
خبر کا کوڈ: 823976