دھماکہ میں بازو اور دنوں ٹانگوں سے محروم ہونیوالے نوجوان کی داستان
معذوری کے باوجود علم کی روشنی پھیلا کر دہشتگردوں کے عزائم ناکام بنانا چاہتا ہوں، گلزار حسین
25 Oct 2019 23:08
پارا چنار سے تعلق رکھنے والے استاد کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ میرا مقصد اپنے علاقہ کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، میں اپنا یہ خواب ضرور پورا کروں گا۔ میں ان حالات کے باوجود دنیا کے سامنے مثال قائم کرنا چاہتا ہوں کہ انسان ہمت کرے تو سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔
گلزار حسین بنگش کا تعلق پاراچنار کے نواحی دیہات لقمانخیل سے ہے، آٹھ سال کی عمر میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکہ کے نتیجے میں اپنے ایک بازو اور دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئے تھے، تاہم انہوں نے ہمت نہ ہاری، والد کا سایہ سر پر نہ ہونے کے باوجود اپنی تعلیم مکمل کی، اور اپنی معذوری کو کمزوری نہ بننے دیا۔ عزم و ہمت کی داستان گلزار حسین اپنے علاقہ میں آج بھی علم کی شمع روشن کرتے ہوئے ان تعلیم دشمن دہشتگردوں کے مزموم عزائم کو ناکام بنا رہے ہیں، جن کی بربریت کا وہ نشانہ بنے تھے۔ اسلام ٹائمز نے اس باہمت نوجوان کی زندگی کے حوالے سے ان کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: سب سے پہلے ہمارے قارئین کو اس حادثہ کے حوالے سے آگاہ کیجئے گا، جسکا شکار ہونے کی وجہ سے آپ کی زندگی یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی۔
گلزار حسین: میں ۲۵ فروری ۱۹۹۹ء کو اپنے گاوں میں ایک چشمے سے پانی پینے کیلئے جارہا تھا کہ اچانک دہشتگردوں کی نصب کردہ ایک بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں، میں شدید زخمی ہوگیا، اور دونوں ٹانگوں اور ایک بازو سے محروم ہوگیا، اس وقت میری عمر ۸ سال تھی۔ اس واقعہ کے بعد کچھ ماہ میں ہسپتال میں داخل رہا، اور وہاں میرا علاج چلتا رہا۔ کچھ صحت یاب ہونے کے بعد میں نے دوبارہ اسکول میں داخلہ لیا۔
اسلام ٹائمز: اتنے بڑے سانحہ کے بعد آپ نے اپنے تعلیمی سفر کو کیسے جاری رکھا۔؟
گلزار حسین: پہلی جماعت سے لیکر میٹرک تک میں گدھے پر سوار ہوکر اسکول آتا اور جاتا تھا۔ اپنے گاوں کے اسکول سے میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر کالج سے ایف اے کیا۔ اس کے بعد میں نے پی ٹی سی کورس بھی مکمل کیا، ۲۰۱۴ء سے لیکر اب تک میں اپنے گاوں کے پرائمری اسکول میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہا ہوں۔ میری تنخواہ صرف چھ ہزار روپے تھی، فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد میری تنخواہ گزشتہ اٹھارہ ماہ سے بند ہے۔
اسلام ٹائمز: آپ کیساتھ اتنی چھوٹی عمر میں ہونے والے اس حادثہ کے آپ کے خاندان پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔؟
گلزار حسین: ہمارے والد کافی عرصہ قبل اللہ کو پیارے ہوگئے تھے، اس سانحہ کے بعد میری والدہ نے میرے ساتھ بہت محنت کی، اس واقعہ کے بعد گھر والے بہت پریشان تھے اور بہت مشکلات میں تھے، مجھ سمیت کسی بھی خاندان کے فرد نے ہمت نہیں ہاری، ظاہر ہے یہ مشکل وقت تو تھا، مگر ہم اللہ کی رضا پر راضی تھے۔ میرے تمام گھر والوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ ہمارے گھر میں کمانے والا ایک اور فیملی کافی بڑی تھی، اس وجہ سے مالی مشکلات بھی تھیں، جب والدہ انتقال کرگئیں تو میرے لئے بہت مشکل حالات تھے، تاہم میں نے ان تمام تر حالات کا سامنا کیا۔ ہمیں اپنی زمین تک بیچنی پڑ گئی تھی۔
اسلام ٹائمز: گذشتہ ڈیڑھ سال سے آپکی تنخواہ بند ہے، اس کے باوجود آپ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں، کبھی خیال نہیں آیا کہ بغیر تنخواہ کے بچوں کو پڑھا رہا ہوں، میرا اپنا گزارہ کیسے ہوگا۔؟
گلزار حسین: یہ میرا مشن ہے، میرے لئے مشکل تو ضرور ہے، تھوڑی سے تنخواہ تھی، وہ بھی اب نہیں مل رہی، لیکن میں ہرگز اپنے اس مشن سے پیچھے نہیں ہٹوں گا، میرا مقصد اپنے علاقہ کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، میں اپنا یہ خواب ضرور پورا کروں گا۔ میں ان حالات کے باوجود دنیا کے سامنے مثال قائم کرنا چاہتا ہوں کہ انسان ہمت کرے تو سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: تنخواہ کی بندش کیوجہ سے گھریلو گزر بسر کیسے کر رہے ہیں۔؟
گلزار حسین: ہمارے ایک بھائی بنک میں سیکورٹی گارڈ ہیں، اس کے علاوہ باقی بھائی کاشتکاری اور مزدوری کرتے ہیں، بس اسی طرح مل جل کر گھر کا نظام چلا رہے ہیں، مشکلات تو ہیں لیکن ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں۔
اسلام ٹائمز: پاراچنار میں آپ کے گھرانے جیسے ہزاروں گھر موجود ہیں، جہاں سے کوئی نہ کوئی شہید یا زخمی ہے، کیا وجہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کیساتھ اتنا ظلم ہوا۔؟
گلزار حسین: ہمارا جرم تو صرف شیعہ ہونا ہی ہے، طالبان نے ہمارے علاقہ کا امن تباہ کیا، کسی زمانے میں یہاں شیعہ، سنی ایک ساتھ رہتے تھے، کسی کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن طالبان دہشتگردوں نے ان اہلسنت کو بھی ہمارے خلاف ورغلایا، جس کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے۔ ہمارے ہزاروں لوگ اسی وجہ سے شہید اور زخمی ہوئے، ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ یہاں شیعہ اور سنی بالکل بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔ ان دہشتگردوں کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا، انہیں تو اپنے بچوں کی بھی فکر نہیں ہوتی، وہ تو پیسے لیکر سب کچھ کرتے ہیں۔ ہم نے دہشتگردوں سے نہیں ڈرے، ہمیں اپنے مذہب اور عقیدے پر فخر ہے، ہم نہ ان سے پہلے ڈرے تھے اور نہ ہی انشاء اللہ آئندہ کبھی ڈریں گے۔
اسلام ٹائمز: کیا آپ نے اپنا مسئلہ پاراچنار کے سیاسی منتخب نمائندوں اور عمائدین کیساتھ اٹھایا۔؟
گلزار حسین: جی بالکل، کئی بار ہم نے سیاسی افراد سے رابطہ کیا ہے، لیکن ابھی تک کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا گیا، میں نے صوبائی مشیر تعلیم کیساتھ بھی ملاقات کی اور ان سے مسئلہ ڈسکس کیا۔ انہوں نے یقین دہانی تو کرائی ہے، لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوسکا۔
اسلام ٹائمز: آپ اسلام ٹائمز کی وساطت سے حکومت سے کیا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں۔؟
گلزار حسین: میری حکومت سے گزارش ہے کہ میری رکی ہوئی تنخواہ بحال ہو اور مجھے مستقل کردیا جائے، تاکہ میں علم کی روشنی پھیلانے کا اپنا خواب شرمندہ تعبیر کرسکوں۔
خبر کا کوڈ: 823970