امریکہ کمزور ہو گیا ہے، دنیا میں اس کی شکست کے آثار واضح ہیں
لبنان کو ضرورت ہے کہ وہ شام کے ساتھ تعاون اور رابطہ بڑھائے، سید حسن نصراللہ کا خصوصی انٹرویو (آخری حصہ)
عراقی اس شخص کی سازشوں سے ہوشیار رہیں، جو اِنکے تیل پر نظریں گاڑے ہوا ہے
25 Oct 2019 19:00
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے مجلہ مسیر کیساتھ اپنے خصوصی انٹرویو کے دوران بتایا کہ ٹرمپ کہتا ہے کہ عراق کا تیل ہمارا ہے کیونکہ ہم نے صدام حسین کے پنجے سے عراق کو نکالنے کی خاطر سات ٹریلین ڈالر خرچہ کیا ہے، لہذا ہر صورت یہ خرچہ ہمیں واپس ملنا چاہیے، وہ کہتا ہے کہ اس لیے ہمیں عراقی تیل پر ہاتھ رکھنا چاہیے، اُسے بیچ کر اپنے پیسے پورے کریں، جب اُس سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے ہو گا؟ اُس نے کہا کہ ہم امریکی فوج کو بھیجیں گے تاکہ وہ تیل والے علاقوں پر قبضہ کر لے، تیل کے میدانوں کا محاصرہ کرے اور عراقیوں کو اس تیل سے استفادہ کرنے سے روکے۔ کئی سال تک ہم اس تیل سے فائدہ اٹھائیں گے اور پھر اِن میدانوں کو اِن کے حوالے کر دیں گے۔
ادارہ حفظ و نشر آثار، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مجلہ ’’مسیر‘‘ کی ٹیم نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کیساتھ طویل دورانیئے پہ مشتمل انٹرویو کا اہتمام کیا۔ اس انٹرویو کو ذرائع ابلاغ کی دنیا کا طویل ترین انٹرویو بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ انٹرویو لگاتار دو راتوں پہ محیط ہے اور اس انٹرویو کی اہمیت یوں بھی دوچند ہو جاتی ہے کہ طلسماتی شخصیت رکھنے والے سید حسن نصراللہ نے اپنی گفتگو میں کئی اہم باتوں اور رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس انٹرویو کا آخری حصہ پیش ہے۔
سوال: حال ہی میں آپ نے داعش کے دوبارہ اکٹھے ہونے اور متحرک ہونے سے خبردار کیا تھا، اس کی کچھ وضاحت کر دیں۔
سید حسن نصراللہ: میں نے دو حوالوں سے بات کی تھی البتہ عراقی وزیراعظم جناب عادل عبد المہدی بھی اس حوالے سے بات کر چکے ہیں۔ داعش کا مسئلہ، جسے ’’حکومت خلافت‘‘ کہا جاتا ہے، عراق میں اس پر گفتگو جاری ہے۔ انہوں نے شام اور عراق کے درمیان ایک حکومت بنائی تھی اور یہ ایک بڑی حکومت تھی یعنی اس حد تک کہ اُس وقت شام اور عراق کے نام پر جو کچھ باقی بچا تھا، اس سے بڑی حکومت قائم ہو چکی تھی لیکن اب اس عنوان کے تحت کوئی حکومت نہیں اور داعش کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ اُن کی ایک بڑی فوج بھی ختم ہو گئی ہے۔ البتہ ان کے سرکردہ لوگ ابھی زندہ ہیں، لہذا واضح ہے کہ اُن کے بارے میں سوالات بھی باقی ہیں اور اِن کے حوالے سے امریکی سازش بھی موجود ہو گی۔ داعش کے سرکردہ لوگوں میں سے اکثر زندہ ہیں، انہیں شرق فرات اور دوسری جگہوں سے بچا کر نکال لیا گیا ہے۔ داعش کے چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں جو کہ شام اور عراق کے مختلف علاقوں میں اب بھی موجود ہیں، بدامنی پھیلانا، اُن کے اہم کاموں میں شامل ہے۔ وہ خودکش حملے کرتے ہیں، بم لگاتے ہیں، لوگوں کو قتل کرتے ہیں، یہ وہ مسائل ہیں کہ جن کا سدباب کیا جانا چاہیئے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر داعش کا باقی ماندہ ڈھانچہ اور اس کی جنگی حکمت عملی جب تک پوری طرح سے نابود نہ کر دی جائے، داعش ایک خطرہ کے عنوان سے شام اور عراق، اسی طرح ایران، لبنان اور خطے کے لیے باقی رہے گی۔
ہماری اطلاعات بتاتی ہیں، امریکی، داعش کی باقیات کو افغانستان لے گئے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس گروہ کے لوگ اب افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑیں گے یا وسطی ایشیا میں کارروائیاں کریں گے؟ لہذا فائل کھلی ہوئی ہے۔ داعش کا کچھ حصہ شمال افریقہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے مستقبل میں یہ چیز حیران کن نہ ہو گی کہ اگر داعش کو چین، روس یا دوسرے ممالک پر دباؤ بڑھانے کی خاطر استعمال کیا جائے کیونکہ امریکی اس کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ دوسرا مسئلہ جس کی طرف میں نے توجہ مبذول کروائی ہے، ٹرمپ، امریکہ اور عراق سے متعلق ہے۔ عراق میں امریکی فوج کے باقی رہنے پر ٹرمپ اصرار کر رہا ہے۔ میں نے خبردار کیا تھا کہ ٹرمپ اپنے انتخابی وعدوں کو عملی کرنے کی کوشش میں ہے۔ کبھی وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور کبھی نہیں، شاید وہ کامیاب نہ ہو، بہرحال وہ اپنے وعدوں پر عمل کرنے کی کوشش میں ہے۔ مثال کے طور پر ٹرمپ نے انتخابات کے دوران امریکی سفارت خانے کو قدس سے تل ابیب منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس نے یہ کر دیا۔ اس نے قدس کو تا ابد اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا وعدہ کیا تھا، یہ کام بھی کر دیا۔ ایٹمی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی بات کی تھی، وہ بھی کر گزرا۔ ایران پر پابندیاں سخت کرنے کی بات کی تھی، ایسا بھی کر دیکھایا۔ البتہ کچھ وعدے کیے، جن کو عملی کرنے میں اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسے مکزیک اور یونائیٹڈ اسٹیٹ امریکہ کے درمیان دیوار نہ بنا سکا کیونکہ گانگریس کی حمایت حاصل کرنے اور مالی امکانات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ آج بھی وہ اسے پورا کرنے کی کوشش میں ہے۔ وہ اپنے وعدے پورا کرنے کی کوشش میں ہے، اُس کے وعدوں میں جو زیادہ مشہور ہوا، ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ، وہ یہ تھا کہ اُس نے کہا کہ اوباما کے دور میں عراق سے امریکی انخلا غلطی تھا، ہمیں عراق میں ٹھہرنا چاہیے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عراق سے نکلنے کی طرف مائل نہیں، اگرچہ عراقیوں کا ارادہ کچھ اور ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ عراق کا تیل ہمارا ہے کیونکہ ہم نے صدام حسین کے پنجے سے (اس کے بقول) عراق کو نکالنے کی خاطر سات ٹریلین ڈالر خرچہ کیا ہے، لہذا ہر صورت یہ خرچہ ہمیں واپس ملنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ اس لیے ہمیں عراقی تیل پر ہاتھ رکھنا چاہیے، اُسے بیچ کر اپنے پیسے پورے کریں۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے ہو گا؟ اُس نے کہا کہ ہم امریکی فوج کو بھیجیں گے تاکہ وہ تیل والے علاقوں پر قبضہ کر لے، تیل کے میدانوں کا محاصرہ کرے اور عراقیوں کو اس تیل سے استفادہ کرنے سے روکے۔ کئی سال تک ہم اس تیل سے فائدہ اٹھائیں گے اور پھر اِن میدانوں کو اِن کے حوالے کر دیں گے۔ کیا ٹرمپ ایسا کر سکتا ہے؟ شاید نہیں، لیکن اس کے لیے کوشش ضرور کرے گا۔ اس بنا پر میں نے خبردار کیا تھا کہ عراقی اس شخص کی سازشوں اور خطرہ سے ہوشیار رہیں، جو اِن کے تیل پر نظریں گاڑے ہوا ہے۔ بالکل جیسے وہ سعودیوں کے وسائل کی طرف دیکھتا ہے اور انہیں لوٹ رہا ہے، ایسی طرح وہ سنجیدگی کے ساتھ عراقی تیل لوٹنے کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔ جو چیز ٹرمپ کے لیے رکاوٹ ہو سکتی ہے، وہ عراقیوں کا ہوشیار رہنا ہے، اُن کا ارادہ اور ذمہ داری قبول کرنا ہے۔
سوال: رات کی تاریکی میں عراق کے سفر، نے ظاہر میں ٹرمپ کو بہت غصہ دلایا تھا۔؟
سید حسن نصراللہ: واضح ہے کہ وہ کہتا ہے کہ ہم نے فوجی بھیجے ہیں، ہمارے لوگ مارے گئے ہیں، بہت پیسہ لگایا ہے اور پھر بھی ہم مجبور ہیں کہ رات کی تاریکی میں عراق سفر کریں، یہ بات ٹھیک ہے۔
سوال: حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں کہ مغربی ایشیا اور مسلمان ممالک میں امریکہ کے زوال کا دور شروع ہو چکا ہے۔ اس کا اقتدار ختم ہونے والا ہے اور خطے کی عوام کامیاب ہوں گی۔ رہبر معظم کے اس تجزیہ پر اپنی رائے کا اظہار فرمائیں اور یہ واضح کریں کہ کونسی نشانیاں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں؟
سید حسن نصراللہ: ایک یہ کہ حضرت آقا نے اس حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ خطے میں اِن کے تجربات، خطے کی معلومات اور بعض زمینی حقائق پر مبنی ہے۔ اس کی نشانیوں کے حوالے سے یہ مسئلہ عراق سے امریکی انخلا سے متعلق ہے۔ اگرچہ امریکی عراق میں رہنے کی نیت سے آئے تھے، جانے کی نیت سے نہیں لیکن امریکہ عراق میں نہیں ٹھہر سکا اور اب پھر داعش کے بہانے سے اس ملک میں واپس آیا ہے لیکن وہ پھر بھی عراق میں نہیں ٹھہر سکے گا۔ اگر عراقی حکام اور قوم، عراق سے امریکیوں کو نکالنے کا پختہ ارادہ کر لیں تو صرف کچھ ہی دنوں میں وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ امریکہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے کہ وہ عراقی قوم کے ارادے کی مخالفت کر کے اس ملک میں باقی رہ جائے۔ عراق کا مسئلہ، اس کے لیے سبق آموز ہے۔ شام میں بھی امریکیوں نے شکست کھائی ہے حتیٰ کچھ مہینے پہلے ٹرمپ نے کہا ہے کہ شرق فرات میں موجود امریکی افواج کا ارادہ ہے کہ واپس آ جائیں لیکن دوسرے حکام نے اُسے سمجھایا ہے کہ ابھی چھ مہینے تک افواج وہاں رہیں۔ وہ پھر بھی چاہتا تھا کہ اِن افواج کو نکال لے لیکن اُسے کہا گیا کہ یہ کام ابھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہاں سے امریکی انخلا بہت بڑی شکست کے مترادف ہے اور خطے میں امریکی دوستوں کی مایوسی کا باعث ہوگا لہذا اُس نے بھی امریکی افواج کے باقی رہنے ارادہ کر لیا لیکن ہر لمحہ اُن کے انخلا کا امکان پایا جاتا ہے۔ اُس نے جناب اردغان سے ٹیلفونک بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ شام سے نکل جائے گا، پھر شام آپ کے حوالے ہے، جو چاہیں اُس کے ساتھ انجام دیں۔ اس بات نے سعودیہ اور امارات کو غصہ دلایا، اسی بنا پر امارات نے بہت جلد دمشق میں اپنا سفارت خانہ کھولنے میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا تھا۔
اسی طرح یمن میں صرف سعودیوں کو شکست نہیں ہوئی بلکہ امریکہ کو بھی شکست ہوئی ہے۔ یمن میں امریکہ عاجز اور بے بس ہوگیا ہے۔ آج امریکہ خطے کے ممالک پر جو کچھ لادنا چاہتا ہے، وہ نہیں کر سکتا مگر یہ کہ وہ آل سعود کی طرح ضعیف النفس ہو۔ امریکہ آج خطے کے بہت سے ممالک پر حکم چلانے سے عاجز ہے اور وہ اِن پر اپنا ارادہ نافذ نہیں کر سکتا۔ واشنگٹن اپنے مفادات کا دفاع نہیں کر سکتا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۲۰ سال پہلے امریکی، صومالیہ گئے تھے اور اُس ملک میں وہ ایک سال بھی نہیں ٹھہر سکے تھے، اور آخر ذلیل ہو کر وہاں سے نکلے تھے۔ آج امریکہ میں خطے کے اندر باقی رہنے اور اس پر تسلط قائم کرنے کی سکت نہیں رہی اور وہ دن بدن کمزور ہو رہا ہے۔ اقوام کی بیداری اور اعتماد بنفس کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے۔ اس شکست پر واضح گواہ یہ ہے کہ امریکہ پچھلے ۴۰ سال سے اب تک کوشش کر رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا محاصرہ کر لے اور اسلامی نظام کو گرا دے لیکن اُسے ہر دفعہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ کو گرانا نہیں چاہتے بلکہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہم سے اچھے طریقے سے بول لے لیکن انہیں اس میں بھی ناکامی ہوئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ۴۰ سال گزرنے کے بعد بھی پہلے کی طرح اپنے اصولوں اور اقدار پر کاربند ہے اور امام خمینی کے زمانہ سے اب تک اُس کا راستہ پوری طرح سے واضح ہے۔
پومپیو لبنان آیا، لبنانی حکام سے ملاقات کی پھر مطبوعاتی کانفرنس میں لبنانی قوم سے خطاب میں کہتا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ مقابلہ کے لیے جرأت پیدا کریں۔ اس بات پر اُسے مثبت جواب نہیں ملا حتیٰ وہ جو ہمارے رقیب ہیں، انہوں نے جب پومپیو لبنان آیا تھا، اس سے کہا کہ ہم حزب اللہ کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتے، نیز ہمیں لبنان میں خانہ جنگی قبول نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی خواہشات اور اس کے فیصلے حتیٰ اس کے دوست جو ہمارے رقیب ہیں، اُن کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ اس بات کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ہم طاقتور ہیں، دوسرا یہ کہ ہمارے مخالفین جانتے ہیں کہ حالات کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا مجموعی طور پر لبنان پر اثر انداز ہو گا۔ اسی وجہ سے حزب اللہ کے ساتھ مقابلے کا انکار کیا۔ حتیٰ اب جبکہ ٹرمپ اور اس کا داماد کوشنر فلسطین پر معاہدہ صدی کو زبردستی لاگو کرنا چاہتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ ساری فلسطینی قوم نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ حماس، جہاد اسلامی، فتح، تنظیم آزادی اور محمود عباس سمیت سب معاہدہ صدی کے مخالف ہیں۔ جناب عباس، صلح، مذاکرات اور گنجائش دینے کی بات کرتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ اس قسم کے معاہدے کو حتیٰ میں بھی قبول نہیں کروں گا کیونکہ یہ بہت ذلت آمیز اور ناگوار ہے اور کوئی فلسطینی اس قسم کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔
حتیٰ عرب اتحاد کے وزرائے خارجہ کی آخری نشست میں اگرچہ زیادہ تر شرکت کرنے والوں کی باتیں سچی نہ تھیں لیکن آخری بیانیہ میں اعلان کیا گیا کہ ہم قرارداد اور بین الاقوامی قوانین سے ہٹ کر کسی سیاسی راہ حل کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس سے مراد معاہدہ صدی کی مخالفت ہے۔ انہوں نے کھلم کھلا یہ بات کی ہے ۔ لیکن ایسا کیوں؟ اس لیے کہ اب وہ جانتے ہیں کہ اُن کی اقوام اس معاہدہ صدی کو نہیں مانیں گی۔ چاہے کوئی ٹرمپ جیسا اس کی حمایت کرے۔ بہرحال امریکہ کی شکست پر بہت سے دلائل موجود ہیں۔ آج ہم ایسے قائدین کو دیکھ رہے ہیں، جیسے ٹرمپ اور پومپیو کہ جو دوسرے کسی بھی شخص کی عزت کرنا نہیں جانتے۔ یہ ڈپلومیسی پر توجہ نہیں کرتے، لالچی ، متکبر اور خود غرض لوگ ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنے ہم پیمان اور دوستوں کی بھی تحقیر کرتے ہیں اور اپنے روابط کو خود ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یورپین کے ساتھ اُن کا سلوک، روس و چین کے ساتھ روابط میں کچھاؤ، اس نمونہ کے بعض مسائل ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ لوگ دنیا کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر عوامی رائے جاننا چاہیں کہ کیا امریکی حکومت ایک قابل بھروسہ حکومت ہے؟ تو آپ نفی میں جواب سنیں گے۔ اب امریکہ ہر معاہدے اور پیمان سے باہر نکل رہا ہے، اور وہ عالمی دنیا پر اپنی خواہش کے مطابق حکم چلانا چاہتا ہے۔ اس قسم کے رویہ نے امریکی حیثیت کو داغدار کر دیا ہے، اس سے وہ کمزور ہوگیا ہے۔ لہذا بہت سے ممالک میں اُس کی شکست کے واضح آثار موجود ہیں۔
سوال: صہیونیوں اور امریکیوں کی خواہش کے برخلاف حزب اللہ آج ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس طرح کہ لبنان کو ایک وقار عطا کیا ہے، لبنان کے لیے ایک قومی افتخار اور طاقت کا احساس بن چکی ہے۔ گزشتہ برسوں میں ایک مقاومتی تنظیم کو ختم کرنے کی تمام امریکی سازشیں بری طرح ناکام رہی ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ اب اس خطے میں اسرائیلی خود کو شکست خوردہ تصور کرتے ہیں۔؟
سید حسن نصراللہ: ایسا ہی ہے، کم سے کم ۱۹۸۲ء میں جب حملہ آور صہیونیوں نے لبنانی سرزمین پر قبضہ کیا، اس وقت سے خطے اور لبنان کے لیے یہ حملے، امریکی منصوبہ کا حصہ تھے لیکن اُس زمانہ سے لبنان میں امریکیوں کا ہر منصوبہ اور ہر سازش ناکام ہوئی ہے۔ ۱۹۸۲ میں، پھر اس کے بعد ۱۹۸۵ میں پھر اسی طرح ۲۰۰۰ ، ۲۰۰۵ ، ۲۰۰۶ میں اور پھر حالیہ دور میں، امریکہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب امریکی، لبنانی قوم پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے اور بفضل خدا اُن کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اسرائیلی بھی ایسے ہیں، بالکل جیسے آپ نے دیکھا اور بتایا، جنوب لبنان پُر امن ہے۔ آج وہاں زندگی پُرسکون ہے۔ یہ وہ حالات ہیں کہ جو گزشتہ ۷۰ سالوں میں یعنی جب سے یہ غاصب و سرطانی اسرائیلی حکومت بنی ہے، تب سے ناپید تھے۔ آپ جانتے ہیں کہ جنوب لبنان اور مقبوضہ فلسطین کا سرحدی علاقہ ہمیشہ سے نا امن رہا ہے۔ اسرائیلی فوج یہاں حملے اور بمباری کرتی رہی ہے، یہ لوگ یہاں آ جایا کرتے تھے، اِدھر کے فوجیوں، پولیس والوں اور حتیٰ لوگوں میں سے کسی کو بھی اٹھا کر لے جاتے تھے۔ وہ لبنانیوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ۱۹۶۷ء میں جب اسرائیل نے مختلف علاقوں جیسے سینا، کرانہ باختری، غزہ پٹی اور جولان پر قبضہ کرنے کے لیے فوجی دستے روانہ کیے تو اسرائیل کے وزیر جنگ سے پوچھا گیا کہ کیا لبنان کی طرف بھی فوجی دستہ روانہ کیا گیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں، ضروری نہیں ہے، لبنان پر قبضہ کرنے کی خاطر صرف اتنا کافی ہے کہ اس ملک میں گانے بجانے والا کوئی دستہ روانہ کر دیا جائے۔
یعنی اس حد تک وہ لبنان کا مذاق بناتے تھے۔ خدا وند متعال کے فضل و کرم سے وہ دور ختم ہو گیا ہے۔ آج وہ جنوب لبنان پر بمباری کی جرات نہیں کرسکتے، نہ کسی کو اغوا یا قتل کرنے کا سوچ سکتے ہیں، نہ یہاں داخل ہونے کی جرأت کر سکتے ہیں۔ وہ بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں اور ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی طرح کی جارحانہ کارروائی کے نتیجہ میں مقاومت کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ یہ چیز ہماری طرف سے کھیل اور جنگ کے اصولوں کی پاسداری ہے۔ کل تک جنوب لبنان میں ہر وقت خوف کی فضا طاری رہتی تھی اور آج شمال فلسطین ایسا ہے۔ آج شمال فلسطین میں استعمار اور اسرائیلی شہری خوفزدہ ہیں جبکہ ہمارے شہری اور دیہاتی پُر سکون ہیں۔ اس مرتبہ یہ اسرائیلی ہیں جو دیواریں بنا رہے ہیں اور اپنی دفاعی لائینیں سیدھی کر رہے ہیں، جبکہ اس سے پہلے ہر وقت وہ کسی نہ کسی حملے کی تیاری میں ہوتے تھے۔ ہم ہمیشہ دفاعی حالت میں تھے لیکن آج ہم حملہ کرنے کی حالت میں ہیں۔ یہ ہم ہیں کہ آج انہیں متبنہ کر رہے ہیں کہ اذن پروردگار کے ساتھ ایک دن ہم مقبوضہ فلسطین میں داخل ہو جائیں گے۔ اسی وجہ سے الحمد للہ، آج طاقت کا توازن بدل گیا ہے۔ یہ بڑی کامیابی، اسلامی انقلاب کی کامیابی ، امام خمینی اور حضرت آقا کی رہبری کے سایہ میں، نیز اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے حزب اللہ اور خطے میں مقاومتی گروہوں کی مسلسل حمایت اور حوصلہ افزائی کے ساتھ حاصل ہوئی ہے۔
سوال: جو لوگ حزب اللہ اور مقاومت اسلامی لبنان کے بارے میں زیادہ آشنائی نہیں رکھتے، اِن کا تصور ہے کہ یہ عسکری تنظیم ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ حزب اللہ صرف ایک فوجی گروہ ہے۔ آپ بتائیے کہ حزب اللہ نے دفاعی و عسکری شعبہ کے علاوہ لبنان کی ترقی کے لیے جو ذمہ داریاں انجام دی ہیں وہ کیا ہیں اور اس تنظیم نے لبنانی قوم کی کیا خدمت کی ہے؟ علاوہ ازیں رہبر معظم نے ترقی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے جو گفتگو ایرانیوں سے کی ہے، کیا آپ بھی خود کو اس کا مخاطب قرار دیتے ہیں۔؟
سید حسن نصراللہ: جی ہاں! ہم خود بھی اس گفتگو کا مخاطب قرار دیتے ہیں، ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ بات ہمارے فرائض کا حصہ ہے اور ہم اس کی انجام دہی کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ حزب اللہ کی نسبت یہ بات ہے کہ ہماری توجہ پہلے سے ہی اس مسئلہ پر تھی لیکن اب پہلے سے زیادہ اس مسئلہ پر توجہ کی جا رہی ہے اور اس کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے۔ حزب اللہ محض ایک عسکری تنظیم نہیں بلکہ ایک عوامی جماعت شمار کی جاتی ہے۔ یہ ایک جماعت ہونے کی بجائے ایک عوامی تحریک زیادہ لگتی ہے، جبھی اس کا نام حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ، ایک قومی دھارے کی طرح اور ایک عوامی تحریک کی مانند کام کرتی ہے۔ مسلحانہ دفاع اور عسکری کارروائیوں سے ہٹ کر، حزب اللہ کے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ حزب اللہ کے کام دینی ہیں، آج بھی اس کے علما اور مبلغین حوزہ ہائے دینیہ میں ہیں جوکہ مختلف علاقوں میں تبلیغی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ اگر ہم لبنان میں گزشتہ کی نسبت آج دینی طلبہ کی تعداد دیکھیں تو ہم دیکھیں گے کہ لبنان میں موجود آبادی کے تناسب سے ان کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر ہم شہر مقدس قم اور نجف اشرف کے اپنے دینی بھائیوں کو بھی شامل کر لیں تو یہ تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ لبنان کی تاریخ میں یہ بات بے مثال ہے۔ دینی کارکردگی کے حوالے سے بتاؤں کہ پہلے لبنان کے بہت سے شہروں اور دیہاتوں میں مسجد نہ ہوا کرتی تھی لیکن اب کوئی ایک بھی گاؤں ایسا نہیں ہے جہاں مسجد نہ ہو اور ہر شہر کے مختلف علاقوں میں مسجدیں موجود ہیں مثلاً جنوبی ضاحیہ لاکھوں کی آبادی ہونے کے باوجود صرف تین یا چار مسجدیں تھیں لیکن اب ما شاء اللہ زیادہ تر ہر علاقے میں مسجد ہے۔
آج مختلف علاقوں میں حوزہ ہائے علمیہ بن چکے ہیں۔ خواتین کے حوزہ ہائے علمیہ الگ ہیں۔ مختلف علاقوں میں خواتین کے ثقافتی مراکز، علمی و دینی مراکز بھی کام کر رہے ہیں۔ دینی مناسبتوں، دینی فرائض کی ادائیگی، ماہ رمضان کے اعمال، شب ہائے قدر اور ایام محرم و صفر میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ ایام محرم و صفر اور ماہ مبارک رمضان میں محافل کا انعقاد، تلاوت قرآن کریم کی محافل، جلوس ہائے عزا اور پیادہ روی میں سال بسال رونق بڑھ رہی ہے۔ یہ حزب اللہ کی دینی کاررکردگی کا ایک عکس ہے۔ دینی کارکردگی کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کی تعلیمی، علمی اور تربیتی کارکردگی کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ یونیورسٹیوں میں ہمارا حزب اللہ کا بہت مضبوط نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کے اس مضبوط نیٹ ورک میں لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ شعبے کام کر رہے ہیں، یہ لوگ بہت فعالیت کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے افراد کا یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات سے بھی اچھے روابط ہیں۔ اسی طرح پرائمری اور ہائی سکولز کے اساتذہ سے بھی نزدیکی روابط قائم ہیں بلکہ لبنان کے تعلیمی اداروں میں سب سے مضبوط تعلیمی اور تربیتی نیٹ ورک حزب اللہ کا ہے۔ یہ لوگ اور ان کے یونٹس آپس میں بھی رابطہ استوار رکھتے ہیں۔ لہذا ثقافتی، فکری، سیاسی، علمی اور ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھرپور کارکردگی جاری ہے۔
سرکاری امتحانات میں ہم دیکھتے ہیں کہ حزب اللہ کے رکن طلبہ و طالبات ہمیشہ پہلی پوزیشنز حاصل کرتے ہیں، جس بنا پر حکومتی اعلانات میں انہی کے نام کامیاب امیدواروں میں سب سے اوپر ہوتے ہیں۔ ہم عوام کے مختلف طبقوں میں کئی طرح کے ثقافتی اور اجتماعی پروگرام کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ’’ہیئت ہائے بانوان‘‘ کے نام سے حزب اللہ کے اندر خواتین کے کئی گروہ کام کر رہے ہیں۔ خواتین کے یہ گروہ ہر گاؤں میں موجود ہیں۔ یہ تنظیم تمام عورتوں سے رابطہ کرتی ہے، اور اُن کے لیے ثقافتی و سماجی امور پر کلاس رکھتی ہے۔ دینی و سیاسی مناسبتوں سے محافل کا انعقاد کرتی ہے۔ عوامی امدادی کاموں میں حصہ لیتی ہے۔ مختلف علاقوں کی خواتین کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کی ایک تنظیم بنام ’’پیشاہنگان امام مہدی (ع)‘‘ ہے۔ تعداد کے اعتبار سے لبنان میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی یہ سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے تحت بھی ثقافتی، فکری، دینی، سماجی اور کچھ تفریحی پروگرام کیے جاتے ہیں۔
ہمارے کچھ سکولز بنام ’’امام مہدی (ع) سکول ‘‘ ہیں۔ جن میں پلے گروپ سے انٹر تک کی کلاسیں ہوتی ہیں اور یہ سکولز مختلف علاقوں جیسے البقاع، بیروت اور جنوبی علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے ’’ المعارف ‘‘ نام سے ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس یونیورسٹی کے تحت کئی ایک کالجز نے کام شروع کر دیا ہے۔ ہمارا اپنا ریڈیو اسٹیشن ہے جوکہ النور ریڈیو کے نام سے چل رہا ہے اور یہ لبنان میں سب سے مضبوط سگنل رکھنے والا ریڈیو ہے۔ اسی طرح ٹیلی وژن چینل ’’المنار‘‘ بھی ہم سے متعلق ہے۔ اس شعبہ میں ہم ایک ٹیلی وژن سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں۔ علاوہ از این کچھ عوامی فلاح و بہبود کی تنظیمیں لبنان میں کام کر رہی ہیں، جن کا تعلق ایران سے ہے لیکن اسے ہمارے حزب اللہ کے برادران چلا رہے ہیں۔ مثلاً بنیاد شہید، کمیتہ امداد امام خمینی وغیرہ۔ یہ تنظیمیں، شہداء، مجروحین اور مستضعف خاندانوں کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔ ہم خود بھی بہت سے غریب، محتاج خاندانوں اور بہت سے یتیموں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ طب کے میدان میں ہمارے کئی ایک ہسپتال اور چھوٹے بڑے طبی مراکز دن رات خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح ہماری شہری دفاع کی سب سے بڑی تنظیم موجود ہے جوکہ ایمرجنسی بیماروں کی دیکھ بھال اور مدد کرتی ہے۔ یہ سب کچھ حزب اللہ کے زیر نظر اور زیر سرپرستی ہو رہا ہے، لبنان کی حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ سارے ادارے عوام کو شہری، طبی، سماجی اور مالی تعاون و خدمات فراہم کر رہے ہیں۔
ہمارا ایک اور بڑا سلسلہ مؤسسہ قرض الحسنہ امام کاظم علیہ السلام کے نام سے ہے جو کہ بیت المال ِ مسلمین کے نام سے مشہور تھا لیکن اب اُس کا نام مؤسسہ قرض الحسنہ امام کاظم علیہ السلام رکھ دیا گیا ہے۔ اس ادارے کے دفاتر تقریباً تمام علاقوں میں موجود ہیں جوکہ لاکھوں لوگوں کو قرض فراہم کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ بھی لبنان میں اہم امور انجام دے رہا ہے اور اچھی شہرت رکھتا ہے۔ مذکورہ بالا تمام اداروں کے علاوہ بھی مزید کچھ شعبوں میں حزب اللہ کام کر رہی ہے، جیسے ’’جہاد سازندگی‘‘ ہے جو کہ زرعی شعبہ میں عوام کی مدد کرتا ہے اور عمدہ کارکردگی دیکھا رہا ہے۔ اس شعبہ میں عوام کو زرعی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک میدان اور شعبہ جات ہیں، شاید سارے میرے ذہن میں نہیں ہیں۔ ایک اور اہم مسئلہ، حزب اللہ کا بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا ہے۔ آج حزب اللہ اکثر بلدیاتی حلقوں میں موجود ہے اور بہت سے حلقوں کے ناظم اپنے برادران میں سے ہیں۔ یہ بلدیاتی حلقے بھی خاص طور پر عوامی خدمات میں مصروف ہیں۔ اسی وجہ سے اگر آج آپ لبنان کے مختلف شہروں میں جائیں تو آپ ۱۰، ۲۰، ۳۰ سال پہلے کی حالت اور اب میں بہت زیادہ فرق دیکھیں گے۔ ایک اہم میدان اور بھی ہے وہ یہ کہ حزب اللہ پارلیمانی انتخابات میں شرکت کر رہی ہے اور پارلیمنٹ میں ہمارے نمائندے موجود ہیں البتہ لبنان کی پارلیمنٹ میں ہمارے نمائندوں کی تعداد، جتنی بڑی ہماری تنظیم ہے، اس حساب سے کم ہے یعنی یہ تعداد حزب اللہ کے حقیقی حجم کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اتحاد کر کے کچھ سیٹیں اپنے اتحادیوں کو دے دیں تاکہ وہ بھی پارلیمنٹ میں بھرپور شرکت کریں۔ ہمارے پارلیمنٹ کے ممبران بھی اپنے علاقوں میں عوامی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔ حکومت میں ہمارے کچھ وزیر بھی ہیں۔ اس مرتبہ عوامی خدمت والی وزارتیں ہمیں دی گئی ہیں، جیسے کہ وزارت صحت، موجودہ وزیر صحت، اس حکومت میں سب سے زیادہ متحرک اور کاررکردگی کرنے والا وزیر ہے۔
حزب اللہ، عسکری شعبہ کے علاوہ ذرائع ابلاغ، سیاست، سماج اور ثقافت کے میدان میں بھی موجود ہے۔ ہمارے ایسے ادارے بھی ہیں جو ادب و ہنر کے میدان میں اپنے جوہر دیکھا رہے ہیں، یعنی شعر، ادب، مصوری، موسیقی اور گلوکاری پر کام کر رہے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ ہمارے جس پہلو کو زیادہ دیکھاتے ہیں، وہ عسکری پہلو ہے۔ کیونکہ ۱۹۸۲ سے حزب اللہ نے جو اہم ترین کام انجام دیا ہے، وہ اسرائیلی قابضین کو شکست دینا اور پہلی واضح عربی فتح حاصل کرنا ہے۔ یہ بہت بڑا اور عظیم کام تھا۔ اسی وجہ سے حزب اللہ کا عسکری پہلو زیادہ نمایاں رہتا ہے۔ اسی طرح حزب اللہ، تکفیریوں اور خطے پر غیروں کے تسلط کے خلاف جنگ کرنے کے لیے شام میں داخل ہوئی، جس کی وجہ سے اس کا عسکری پہلو بہت وسیع اور اہم بن کر سامنے آیا۔ اس کے باوجود حزب اللہ دوسرے اہم میدانوں میں بھی بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن ذرائع ابلاغ میں مناسب تشہیر نہیں کیا جاتی۔
سوال: ہم جناب عالی کی ایک تقریر سن رہے تھے، ہم نے سنا کہ آپ لبنانی عوام کی مشکلات کا ذکر کر رہے تھے، اس میں سے آپ نے بجلی کے بحران کا ذکر کیا۔ ہم جب کبھی لبنان جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بجلی کا مسئلہ کافی سنجیدہ ہے اور لبنانی عوام کے لیے یہ مشکل موجود ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اس میں ایک رکاوٹ سعودیہ ہے۔ لبنان میں اس مشکل کے متعلق کچھ فرمائیں، جس پر حزب اللہ سنجیدگی سے سوچ رہی ہے۔
سید حسن نصراللہ: ہم اس مسئلہ کو دیکھ رہے ہیں۔ اس مسئلہ میں رکاوٹ صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ ایک اصلی مشکل امریکہ ہے۔ مثلاً لبنانی حکومت اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مابین روابط کو کون خراب کرتا ہے؟ امریکی دھمکیاں۔ لبنانی حکومت میں بھی کچھ ہیں جو امریکہ اور لبنان پر اس کی پابندیوں سے ڈرتے ہیں۔ میں عرض کروں کہ کچھ برس پہلے ایران سے ایک سرکاری وفد لبنان آیا اور انہوں نے اس مشکل کو حل کرنے کے لیے قرض وغیرہ کے کئی حل پیش کیے لیکن لبنان میں کچھ تھے، جو امریکی پابندیوں سے ڈر رہے تھے لہذا امریکی رکاوٹ ہیں۔ امریکی صرف لبنان اور ایران کے روابط پر ہی اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ روس اور چین کے ساتھ تعاون اور روابط بڑھانے میں بھی روڑے اٹکاتے ہیں۔ مثلاً ابھی لبنانی حکومت اسلحہ خرید سکتی ہے اور روس سے فوجی ساز و سامان حاصل کر سکتی ہے ، لیکن اس کام کو نہیں کرتی کیونکہ امریکہ نے لبنانی حکومت کو دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ اگر روس سے اسلحہ خریدا تو لبنانی فوج کو دی جانے والی ساری امداد روک دوں گا۔چین کے پاس بھی بہت کچھ ہے اور وہ آمادہ ہے کہ لبنان کے ساتھ تعاون کرے لیکن کیوں لبنانی دروازے چین کے لیے نہیں کھولے جاتے؟
اصلی وجہ، پابندیاں لگانے کی امریکی دھمکیاں ہیں۔ امریکہ اب لبنان پر قبضہ اور یہاں اپنی افواج بھیجے کی بات نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر لبنان میں داخل ہو گا تو وہ اس پر قبضہ کر کے اپنا تسلط قائم نہیں کر سکتا۔ امریکہ جانتا ہے کہ اس مرتبہ عراق والا تجربہ اُس کے لیے لبنان میں تکرار ہو گا جبکہ ماضی میں وہ لبنان میں ایسا تجربہ پہلے بھی کر چکا ہے لہذا امریکہ اب پابندیوں کی دھمکیاں دیتا ہے۔ وہ جب بھی کسی ملک کو دھمکی دیتا ہے کہ تمہارے بینک، تمہاری کرنسی، تمہاری تجارت سب کچھ بند کر دوں گا تو وہ ملک ڈر جاتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ بہرحال، حکومت میں ہمارے دوست، اعلیٰ حکام کے ہمراہ، اپنی استطاعت کے مطابق لبنان اور لبنانی عوام کی مشکلات کو حل کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔ آج تک امریکی، اسرائیل کی حمایت میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کہ لبنانی، جنوب لبنان میں موجود تیل و گیس کے ذخائر سے استفادہ کر سکیں کیونکہ اسرائیل نے دھمکی دے رکھی ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہم بھی دھمکاتے ہیں لیکن جو کمپنیاں یہاں کام کرنے آتی ہیں، وہ پہلے ضمانت مانگتی ہیں۔ یہاں جو بھی کمپنی تیل و گیس کے ذخائر کو نکالنے کی غرض سے آتی ہے، امریکہ انہیں سزا دیتا ہے۔ البتہ اگر کوئی کمپنی آنے کی جرأت کرے، لہذا اصل مشکل، امریکہ ہے۔ سعودی عرب بھی اس حوالے سے دباؤ ڈالتا رہتا ہے تاکہ لبنانی حکومت کے ساتھ کوئی سنجیدہ معاہدہ نہ کر لے۔ لبنان کو ضرورت ہے کہ وہ شام کے ساتھ تعاون اور رابطہ بڑھائے لیکن حکومت لبنان کے بعض حکام جو امریکہ اور سعودیہ کے ساتھ روابط کو اہمیت دیتے ہیں، ایسا اقدام نہیں ہونے دیتے ۔ جبکہ لبنان کے حق میں ہے کہ اس منصوبہ پر عمل کیا جائے۔
سوال: فوجی لڑائی میں خاص طور سے صہیونی حکومت کے ساتھ جنگ میں یہ بات بہت ضروری ہے کہ آپ صہیونی دشمن پر اطلاعات و معلومات کے حوالے غلبہ رکھتے ہوں۔ تاکہ آپ ان معلومات سے مختلف میدانوں میں فائدہ اٹھا سکیں، اپنے دفاع کے لیے بھی اور دشمن پر حملہ آور ہوتے ہوئے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں حزب اللہ نے یہ اطلاعاتی غلبہ کس قدر حاصل کر لیا ہے؟
سید حسن نصراللہ: اس وقت میں ہم بہت زبردست اطلاعاتی غلبہ رکھتے ہیں، جو کہ بے مثال ہے۔ حزب اللہ مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ضروری اطلاعات و معلومات حاصل کرتی ہے۔ ان میں اہم وہ معلومات ہیں جنہیں ہم ہر قسم کی جنگ یا آئندہ کسی مقابلہ میں استعمال کرتے ہیں، یا اسرائیل کی جانب سے کسی احتمالی دھمکی کے پیش نظر ہمیں اِن معلومات کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں ہر طرح کی معلومات حاصل ہیں، ہم دشمن سے متعلق ہر واقعہ، ہربات کی تحقیق کرتے ہیں۔ ہم دشمن سے متعلق کھلے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات اور بعض خفیہ ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کو تمام جوانب سے پرکھتے ہیں۔ اس کا اہم مرحلہ اِن معلومات کی تحقیق و تصدیق ہے یعنی اہم یہ ہے کہ ہم تمامتر معلومات چاہے وہ کھلے ذرائع سے ہم تک پہنچی ہیں، ان پر بحث کریں، تحقیق کریں تاکہ ہم کسی نتیجہ تک پہنچ سکیں، یہ اہم ہے۔ حزب اللہ کی قوت یہ ہے کہ ہم ہر وقت تمام نظریات پر بات کرتے ہیں، نیز ثقافت، سنتیں اقدار، رسم و رواج، نقاط ضعف و قوت پر گفتگو کرتے ہیں، اسی طرح اسرائیل سے متعلق ہر چھوٹی بڑی بات کو خوب پرکھتے ہیں۔ یہ طریقہ کار حزب اللہ کو ہمیشہ اسرائیل کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے، سب سے باخبر رکھتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ کس نہج پر سوچتے ہیں، کسے پسند کرتے ہیں اور کونسی چیز انہیں اچھی نہیں لگتی، کس سے متاثر ہوتے ہیں اور اُن کی مشکلات کیا ہیں۔ اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ اس حکومت کے اندر کیا کیا سیاسی اختلافات ہیں، کہاں سیاسی دراڑیں ہیں، جماعتی و دینی اختلافات کیا ہیں۔ شخصیتوں کا فرق کس حساب سے ہے۔ ہم دشمن کے سیاسی اور عسکری قائدین کی بھی تحقیق کرتے ہیں اور ہمیں اُن کے بارے میں ساری معلومات ہیں۔ یہ چیز ہماری توانائی کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کے مختلف طریقوں میں ہماری مددگار ہوتی ہے۔
سوال: آپ نے اپنی گفتگو کے دوران حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے بارے میں مختلف حوالوں سے بعض باتیں بتائی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ذرا اس حوالے سے زیادہ وضاحت سے ساتھ بیان کریں چونکہ آپ کا رہبر معظم کے ساتھ چالیس سالہ نزدیکی رابطہ ہے، آپ اِن کی کونسی نمایاں اور اہم خصوصیات سے آگاہ ہیں، بالخصوص اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپ کا اکثر اہم شخصیات سے رابطہ رہتا ہے، آپ نے اِن کی شخصیت میں کیا فرق دیکھا ہے، کونسی بات انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے؟
سید حسن نصراللہ: پہلی بات یہ ہے کہ اس سوال کے جواب میں جو کچھ کہوں گا، شاید مجھے الزام دیا جائےکہ اِن سے محبت و عشق کی بنا پر ایسا کہہ رہا ہوں۔ شاید یہ کہا جائے کہ فلاں صاحب حضرت آقا کے ساتھ محبت و عشق رکھنے کی وجہ سے ایسی باتیں کر رہے ہیں لیکن میں حقیقت کی بنیاد پر اور فرط عقیدت کے جذبات سے دور رہتے ہوئے کہوں گا کہ رفاقت کے اس طویل دورانیہ کے بعد میں سمجھا ہوں کہ حضرت آقا غیر معمولی صفات و خصوصیات کے حامل ہیں۔ کبھی آپ کسی شخصیت کے متعلق بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِن میں بہت سی اچھی صفات پائی جاتی ہیں اور پھر اِن اچھی صفات میں سے ایک دو غیر معمولی صفات کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن حضرت آقا کے بارے میں کہوں گا کہ اِن کی ساری صفات ہی غیر معمولی ہیں۔ مثال کے طور پر خداوند متعال، اسلام، مسلمین، مستضعفین و مظلومین کی نسبت انتہا درجے کا اخلاص رکھتے ہیں، یہ اخلاص غیر معمولی اور بلند مرتبہ ہے۔ شاید یہ ایک صفت، پروردگار عالم کی جانب سے ان کے حمایت یافتہ ہونے کی ایک دلیل ہے۔ یہ صفتِ اخلاص انتہائی عجیب اور شدید ہے۔
جب ہم اخلاص کی بات کرتے ہیں تو اِس سے مراد اِن کی ذات اور شخصیت کا اخلاص نہیں ہے کہ میرے پاس اس بات پر بہت سے دلائل موجود ہیں۔ یہ اخلاص ، اِن کی ذات میں ہے، ان کی رہبری میں ہے، ان کی مرجعیت میں پوشیدہ ہے اور یہ کسی ایک حد تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ اسلام، مسلمان اور عام انسان کی بھلائی کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں۔ حضرت آقا کی واضح اور بڑی صفت، اُن کا زہد و تقویٰ ہے۔ یہ چیز مشہور اور مشہود ہے۔ بغداد میں امریکی سفارت خانہ کوشش کر رہا ہے کہ حضرت آقا کی شخصیت کو داغدار کرے لیکن اپنی حماقت کی وجہ سے اُن کی شخصیت کے تعارف کا باعث بن رہا ہے، کوئی بھی اس کی بات پر اعتماد نہیں کر رہا۔ مثلاً کہتے ہیں کہ حضرت آقا کی ذاتی جائیداد کی مالیت ۲۰۰ ملین ڈالر تک ہے، یہ ایسی بات ہے کہ کوئی ایک بھی اس پر یقین نہیں کرسکتا۔ حضرت آقا کی ممتاز خصوصیت، اِن کی اخلاقی صفات اور اِن کا ذاتی اخلاق ہے۔ ہم جب بھی ان سے ملتے ہیں، ان کے چہرے پر تواضع اور انکساری کے آثار دیکھائی دیتے ہیں، ہر لبنانی جو ایران گیا ہے اور اس نے حضرت آقا سے ملاقات کی ہے، خصوصی ہو یا غیر خصوصی، ہر کوئی ان کے چہرے پر شدید عاجزی و انکساری کے آثار دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ ہم لبنان میں دیکھتے ہیں کہ کسی چھوٹے سے حلقے کا ایک ناظم بھی لوگوں کے سامنے اور دعوتوں میں حضرت آقا کی طرح عجز و انکساری کا اظہار نہیں کرتا۔
محبت، جذبہ اور دوسروں کا احساس ایسا ہوتا ہے کہ ہر ملاقات میں کوئی انہیں قائد، رہبر اور حاکم تصور کرنے سے پہلے، خود کو ایک شفیق، مہربان اور احساس کرنے والے باپ کے سامنے پاتا ہے۔ ان کی انکساری اور پدرانہ شفقت کے بارے میں گفتگو کے دوران میں نے وضاحت کی تھی کہ جب ہم اپنے مسائل ان کے سامنے بیان کرتے تھے اور پھر اس پر اپنی رائے دیتے تھے تو آپ سب کچھ سننے کے بعد کہتے میری تجویز یہ ہے ، آپ خود اس کی تحقیق کر لیں۔ حضرت آقا کے منکسرانہ، مہربان، مشفقانہ اور پدرانہ رویہ کی یہ ایک مثال ہے۔ یہ رویہ پدرانہ اس لیے ہے کیونکہ ہمیں سیکھاتا ہے کہ ہم کس طرح پختہ ہو جائیں، کس طرح فیصلے کریں، مہربانی پر مبنی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ہمیں تکلیف میں رکھ کر فیصلے کرنے پر اُبھاریں۔ ان کی ایک اور اہم خصوصیت، سیاست اور تاریخ سے گہری اور وسیع آگاہی ہے۔ حضرت آقا ہمارے خطے یعنی مغربی ایشیا، جسے مشرق وسطیٰ کہا جاتا ہے، بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ شام، فلسطین اور لبنان کے مسائل سے بالاخص آگاہی رکھتے ہیں جبکہ یہ خطہ اور اس کے مسائل بہت پیچیدہ ہیں حتیٰ بہت سے سیاستدان اور متفکرین بھی اس خطے کا تجزیہ تحلیل کرتے وقت غلطی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب ہم نے گزشتہ چالیس سالوں میں آج تک خطے کے بارے میں حضرت آقا کے تمام تجزیوں کو درست اور منطقی پایا ہے۔
خطے کے ممالک اور حتیٰ وہ ممالک جن کے رہائشی شاید خود اپنے مسائل کا اتنا اچھا تجزیہ نہیں کرسکتے ہوں گے، ان سب کے بارے میں حضرت آقا کا ہر موقف درست ثابت ہوا ہے اور یہ بہت عجیب ہے۔ منجملہ وہ خصوصیات، جن کے حوالے سے میرا اعتقاد ہے کہ وہ اِن کی شخصیت کا امتیاز شمار ہوتی ہیں، ان میں سے ایک خداوند متعال کی ذات پر اِن کا لازوال اعتماد اور بھروسہ ہے۔ ہم یہاں ایسے شخص کی بات نہیں کر رہے جو عبادت کرنے کی خاطر کسی جگہ کے گوشہ و کنار میں جا بیٹھا ہے یا ایسے شخص کی بات نہیں جو حتیٰ تعلیم و تربیت کے میدان میں کام کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ میرا خدا پر بھروسہ ہے بلکہ حقیقی امتحان تو یہ ہے کہ حضرت آقا کی طرح اسلامی جمہوریہ کو چلانے، رہبری اُمت، امریکہ اور کرہ ارض کے طاغوتوں اور عالمی مستکبرین سے مقابلہ کی ذمہ داری کاندھوں پر ہو، پھر مستضعفین و مظلومین جہان کی حمایت کر رہے ہوں، سخت ترین جنگ کے میدان میں جائیں اور پھر کہیں مجھے خداوند متعال پر اعتماد و بھروسہ ہے اور سچ میں بھروسہ کرتے ہو۔ فرق یہاں ہے کہ خداوند متعال پر اعتماد و بھروسہ ہونا اور ہے، دوسروں کے دل میں یہ قوت پیدا کرنا اور ہے۔ میری مراد، اس اعتماد پر صرف بات کرنا نہیں بلکہ اسے دوسروں کے دل اور عقل میں راسخ کرنا ہے، جیسے حزب اللہ لبنان ہے۔ اسی اعتماد کے سایہ میں ہے کہ ترقی، آگاہی ، مجاہدت اور کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ یہی اعتماد و بھروسہ ہے کہ ایرانی قوم اور ایرانی جوان، امریکہ اور اس کی تمام سازشوں کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
اگر خود حضرت آقا پروردگار عالم پر اس قدر عظیم اعتماد کے درجہ پر نہ ہوتے تو وہ دوسروں کو ایسا اعتماد نہیں دے سکتے تھے۔ فکر میں دیکھ لیں، آج عالم اسلام میں مسلمان مفکرین کی تعداد انگشت شمار ہے، ایک مفکر اور تعلیم یافتہ شخص میں بھی فرق ہوتا ہے۔ ہمارے پاس تعلیم یافتہ مسلمان تو بہت ہیں کہ جنہوں نے کئی علوم میں کتابیں لکھی ہیں اور بہت تقریریں کر رکھی ہیں لیکن مسلمان مفکرین یعنی شہید مطہری اور شہید باقر الصدر، جوکہ عالم اسلام کے مفکرین میں سے ہیں، ان جیسے کتنے ہیں؟ آج عالم اسلام میں مسلمان مفکرین کی تعداد بہت کم ہے لہذا شک نہیں ہے کہ جو کوئی حضرت آقا کی تقریر سنتا ہے، ان کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے، ان کے بیانات اور ارشادات پر کان دھرتا ہے، بالخصوص ماہ رمضان میں کہ جب وہ مختلف طبقوں سے ملاقات کرتے ہیں، جان جاتا ہے کہ یہ مسلمان مفکرین کے عظیم امام ہیں۔ عالم اسلام میں شاید ان کے برابر کا کوئی دوسرا مفکر نہیں پایا جاتا یعنی عالم اسلام میں حضرت آقا کی سطح فکری رکھنے والا کوئی دوسرا مفکر نہیں ہے۔ فقہی و علمی میدان میں حضرت آقا کی شخصیت مناسب انداز سے روشناس نہیں ہوئی۔
میں دعویٰ نہیں کرتا کہ میں اہل علم و دانش میں سے ہوں البتہ بہت سے اہل علم و دانش و اہل فضل و مجتہدین کو جانتا ہوں جنہوں نے حضرت آقا کے سامنے زانوء تلمذ طے کیے ہیں۔ انہوں نے حضرت آقا کی اجتہادی صلاحیت اور علمی و فقہی میدان میں توان مندی کی گواہی دی ہے۔ جب اِن کی مرجعیت پر گواہی دی جاتی ہے تو یہ گواہی آزمانے کے بعد، علمی تحقیق و تفحص کے بعد دی جاتی ہے اور یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اس میں جذبات و احساسات کا عمل دخل نہیں۔ آج پہلے کی طرح جنگ جاری ہے، آج اس جنگ میں، علم و آگاہی ، فکر و اندیشہ نیز تمامتر سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی ، عسکری اور امن عامہ کے مسائل کی تحقیق و تشخیص اور آگاہی و شعور میں کون رہنمائی کر رہا ہے۔ اس جنگ میں جہاں اعلیٰ درجے کی بصیرت اور شجاعت درکار ہے، کون رہبری کر رہا ہے؟ ممکن ہے انسان میں بصیرت ہو لیکن شجاعت نہ ہو، اپنی جان، روح اور اپنے خون کو نثار کرنے کا جذبہ نہ رکھتا ہو ۔ رہبروں میں سے کون ہے جو اِن تمام خصوصیات و صفات کا حامل ہو؟ حضرت آقا کی خصوصیات و صفات کا یہ مختصر تعارف ہے اور اگر کوئی اِن کی تفصیل جاننے کے لیے تحقیق و مطالعہ کرے تو اُسے بہت کچھ سمجھنے اور جاننے کو ملے گا۔
سوال: صفت شجاعت کا آپ نے ذکر کیا ہے، آپ کی نظر میں خطے کے مسائل پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے کونسے فیصلے شجاعانہ تھے؟
سید حسن نصراللہ: آپ جانتے ہیں کہ ۱۱ ستمبر امریکہ کے واقعات کے بعد جارج بش اور امریکی نئے محافظہ کاروں کی جماعت بہت غصہ میں تھے۔ انہوں نے امریکی قوم کے غصہ کو بہانہ بنایا تاکہ اس کے ذریعہ سے تمام قانونی حدوں اور بین الاقوامی اصولوں کو پاؤں تلے روند ڈالیں۔ اُس دن جارج بش نے کہا کہ دنیا یا ہمارے ساتھ ہے یا ہمارے خلاف؟ اُس نے امریکی افواج کو ایران کے قریبی ممالک میں بھیجنا شروع کیا۔ ہم امریکی افواج کو برازیل بھیجنے کی بات نہیں کر رہے بلکہ اُس فوج کی بات کر رہے ہیں، جو افغانستان، عراق اور ایران کے اطراف اور ایرانی سمندری حدود کی طرف بھیجی گئی تھی۔ اس نے یہ کام اپنی واضح اور سخت دشمنی کو دیکھانے کی خاطر کیا۔ جو کوئی بھی اس کے مد مقابل آتا، امریکہ اُسے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ خطے میں بہت سے ڈر گئے اور ان پر خوف طاری ہو گیا کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ امریکہ خطے میں آ جائے گا اور اُن پر مسلط ہو جائے گا۔ مجھے یاد ہے اُس زمانہ میں کچھ مقالے لکھے گئے اور ان میں کہا گیا کہ خطہ ۲۰۰ یا ۳۰۰ سو سال کے لیے امریکائی دور میں داخل ہو رہا ہے اور کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ امریکہ کے سامنے کھڑا ہو سکےاور اسے شکست دے سکے لیکن کون امریکہ کے سامنے کھڑا ہوا ؟ حضرت آقا (رہبر معظم سید علی خامنہ ای)۔ اس کام کے لیے صرف تاریخ اور سیاست سے آگاہی یا دین داری اور اخلاص ہی کافی نہیں ہے بلکہ اعلیٰ سطح کی شجاعت و دلیری چاہیے۔ حضرت آقا، دنیا کی واحد متکبر سپر طاقت کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی طاقت جسے غصہ تھا اور وہ خود کو کسی اصول اور اخلاقیات کا پابند نہیں سمجھتی تھی۔ وہ اس کے سامنے جھک کر کھڑے نہیں ہوئے بلکہ حملہ کرنے کے انداز میں کھڑے تھے یعنی امریکہ کے ساتھ جنگی حالات میں اور گزشتہ سالوں میں خطے کے اندر امریکی منصوبوں کا مقابلہ جس نے کیا، وہ حضرت آقا تھے۔
سوال: مجھے یاد آ رہا ہے کہ جب اس سے پہلے آپ کے ساتھ گفتگو ہوئی تھی، آپ شام میں داخل ہونے کے فیصلے کو بھی بہادرانہ شجاعانہ فیصلہ قرار دے رہے تھے۔
سید حسن نصراللہ: اس میں شک نہیں کہ یہ سارے فیصلے شجاعانہ تھے لیکن آپ نے سوال کیا ہے کہ کونسا فیصلہ زیادہ شجاعانہ تھا؟ شجاعانہ ترین فیصلہ یہ تھا کہ کوئی امریکی خوفناک طوفان کے سامنے دیوانہ وار ڈٹ کر کھڑا ہو جائے اور اس طوفان کے سامنے کسی بھی طرح سے جھکنے یا تسلیم ہونے پر تیار نہ ہو اور آخر کار وہ کامیاب بھی ہو جائے۔
سوال: آپ نے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقعہ پر ایک کتاب بنام ’’ان مع الصبر نصرا‘‘ کا حوالہ دیا تھا۔ اگر آپ نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے تو وہ نکات جو آپ کو یاد ہیں، ان میں سے کچھ بیان فرما دیں۔
سید حسن نصراللہ: یہ کتاب چھپنے سے پہلے میرے پاس آئی تو میں نے اسے ایک ہی رات میں پڑھ لیا۔ مغرب کا وقت تھا، جب کتاب میرے ہاتھ آئی۔ اُسی رات میں نے انتہائی شوق و ذوق کے ساتھ کتاب کا مطالعہ مکمل کر لیا۔ پہلے اُس مقدمے کو پڑھا جسے حضرت آقا نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ مقدمہ جو عربی زبان میں لیکن فارسی رسم الخط میں تھا۔ میں حیران رہ گیا چونکہ میں جانتا تھا کہ حضرت آقا عربی زبان پر مسلط ہیں اور آسانی کے ساتھ عربی میں بات کر سکتے ہیں لیکن جو عبارت میں نے پڑھی وہ بہت زیادہ فصیح و بلیغ تھی، اس میں اعلیٰ سطح کی عربی بلاغت تھی۔ میرا خیال نہیں کہ آج عرب دنیا میں کوئی عرب زبان اتنی خوبصورت عربی اور اتنی فصیح و بلیغ عبارت تحریر کرسکتا ہو۔ کتاب کی ابتدا میں یہ پہلی چیز تھی، جس سے میں آگاہ ہوا۔ اسی طرح کتاب کے تعارف میں زبان و بیان کے متعلق وضاحت تھی، جس کے نکات قابل توجہ تھے کیونکہ میں نے برادر ڈاکٹر آذر شب سے سنا تھا کہ یہ عبارت، یعنی عربی عبارت، خود حضرت آقا کی ہے اور میں نے صرف بعض سادہ اصطلاحات کا اضافہ کیا ہے۔ لہذا اس کتاب کی عبارت عرب ادبیات اور زبان عربی کی بلاغت کا ایک شاہکار شمار ہوتا ہے۔ بہت سے عرب ادیب، علما نہیں بلکہ ادیب حضرات بھی ایسی بلاغت اور خوبصورتی کے ساتھ نہیں لکھ سکتے۔
اس کے بعد ایک خصوصیت، واقعات کا تفصیلی بیان ہے۔ حضرت آقا نے واقعات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے، اس طرح کہ ان میں بہت سے عرب دنیا کے لیے نئے ہیں اگرچہ ممکن ہے ایرانیوں ایسا نہ ہو کیونکہ اس کتاب کا فارسی نسخہ موجود ہے۔ میں نے حضرت آقا کی یاد داشتوں کو مختلف کتابوں میں پڑھا تھا، بالخصوص ان کے زندگی نامہ کے حصے مختلف کتابوں میں پڑھ چکا تھا لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ عربی زبان میں وہ کتاب پڑھ رہا تھا، جسے خود حضرت آقا نے تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ لکھا تھا۔ یہ بہت متاثر کن تھا۔ اس کتاب میں حضرت آقا اور ان کے ساتھیوں کی مظلومیت، وہ تمام رنج اور تکلیفیں جو انہوں نے سہیں، وہ ساری مشکلات جو انہوں نے برداشت کیں، قارئین کے لیے بیان کی گئی تھیں۔ بہرحال، وہ اپنی آب بیتی (یاد داشتیں) لکھ رہے تھے، دوسروں کے واقعات نہیں، کہ جو ہمارے ذہن میں دوسروں کا سوال آئے۔ یہ واضح ہے کہ ایرانی قوم، علماء، مسؤلین حتیٰ وہ لوگ جو کچھ عرصہ بعد کسی عہدہ پر فائز ہوئے، دکھ و درد کے سمندر پار کر کے آئے تھے، انہوں نے لازوال جانثاری کی تھی، یہانتک کہ اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
سوال: آپ جو حضرت آقا سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں، کس زبان میں بات چیت ہوتی رہی ہے؟
سید حسن نصراللہ: میں عربی زبان میں بات کرتا رہا ہوں اور وہ فارسی زبان میں۔ لیکن کبھی وہ ملاقات کے شروع میں عربی زبان میں بعض سوالات پوچھتے ہیں۔ مثلاً ہمارا حال و احوال، گھر والوں اور دوسرے برادران کی خیریت دریافت کرتے ہوئے عربی زبان میں بات کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بات ایک طرح سے ابتدائے رہبری سے ان کے ساتھ طے ہے۔ میں فارسی سمجھتا ہوں لیکن شوریٰ میں ہمارے بعض دوست کسی حد تک فارسی سمجھتے ہیں، اسی وجہ سے حضرت آقا، اپنے ہمراہ مترجم لایا کرتے تھے۔ ایک ملاقات میں جہاں حضرت آقا، لبنانی اور کچھ ایرانی بھی شریک تھے، حضرت آقا نے فرمایا کہ اس کے بعد مترجم نہیں لاؤں گا۔ ایرانی، ہر صورت عربی سیکھیں اور خود سمجھیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، اسی طرح لبنانی حضرات، فارسی سیکھیں تاکہ انہیں مترجم کی ضرورت نہ رہے۔ اس کے بعد حضرت آقا کے ساتھ کسی بھی ملاقات میں مترجم نہ تھا۔
سوال: یقیناً حضرت آقا کے ساتھ آپ کی ملاقاتوں کی بہت سی یادیں آپ کے ذہن میں ہونگی۔ یہ یادیں سیاسی میدان اور فوجی حکمت عملی وغیرہ سے متعلق ہونگی، جن کے بارے میں آپ نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اب اس گفتگو کے اختتام پر ہم چاہتے ہیں کہ جناب عالی، اُن دسیوں، سینکڑوں یادوں میں سے کوئی ایک جو آپ کے لیے بہت پُر کیف اور دلچسپ ہو، بیان فرما دیں کہ وہ کونسی ہے؟
سید حسن نصراللہ: تمام یادیں بہت دلچسپ ہیں، انتخاب مشکل ہے۔ ۹۰ کی دہائی میں ۱۹۹۷، ۹۸ کی بات ہوگی کہ جب ہم مشکلات، سازشوں اور بہت سے خطرات کی وجہ سے تنگی و سختی میں زندگی گزار رہے تھے اور تھک چکے تھے۔ لبنان میں ہمارے اندرونی حالات اور بیرونی معاملات بہت خراب تھے، اسرائیل اور اطراف کے مسائل میں ہم اُلجھ چکے تھے۔ اُس وقت میں جوان تھا، میری داڑھی ابھی مکمل کالی تھی، اور میرے کندھوں پر جو بوجھ تھا وہ میری طاقت سے زیادہ تھا۔ ایک مرتبہ جب میں ایران گیا۔ حضرت آقا سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے ہمارے سردار! کیا کروں؟ اُس وقت حضرت آقا نے مجھ سے کہا کہ تم ابھی جوان ہو اور ابھی تمہاری ساری داڑھی کالی ہے، میں اپنی تھکاوٹ کا کیا کہوں کہ میری ساری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ واضح ہے کہ انسان اپنے راستے میں سازشوں، مشکلات، پریشانیوں، کبھی دشمنوں کی جانب سے اور کبھی اپنے ہی دوستوں کی جانب سے سامنا کرتا ہے۔ اکثر دوستوں کی دی ہوئی اذیت، دشمنوں کی دی ہوئی اذیت سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں انسان کو زیادہ تحمل و برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آخر کار، بہت سے معاملات میں انسان کو محدود ہونا پڑتا ہے۔
کبھی انسان روحی طور پر تھک جاتا ہے، اور اُسے کسی کی ضرورت ہوتی ہے، جو اُس کی رہنمائی کرے اور اسے راستہ دکھائے۔ کبھی کسی انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑے کہ کبھی کسی کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اُسے سکون دے۔ روحی اور معنوی لحاظ سے اُسے سکون و اطمینان دے۔ کبھی کسی کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس کی طاقت کو بڑھا دے اور اس کے ارادوں کو تقویت دے۔ جب ہمیں ان تمام امور میں کسی کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے پاس خدا ہے، ہمیں دوسروں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس خداوند متعال ہے۔ خداوند متعال نے اپنے لطف و کرم سے ہمیں اجازت دی ہے کہ ہم اُسے پکاریں۔ ہر وقت ہر جگہ اُس سے بات کرسکیں۔ یہ ساری گفتگو حضرت آقا کی تھی، جس میں کوئی رکھ رکھاؤ نہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لہذا جب بھی تھکاوٹ محسوس کرو، مشکلات محسوس کرو، نصیحت کرتا ہوں کہ اسے آزماؤ۔ ایک کمرے میں چلے جاؤ، کچھ دیر کے لیے، حتیٰ پانچ منٹ، دس منٹ یا پندرہ منٹ کے لیے خلوت میں بیٹھو اور خداوند متعال سے گفتگو کرو۔ ہمارا ایمان ہے کہ پرردگار عالم موجود ہے، سنتا ہے، دیکھتا ہے، جانتا ہے، وہ قادر، غنی اور حکمت والا ہے۔ یعنی ہمیں اس سے جو کچھ چاہیے، اُس کے پاس ہر چیز ہے۔
بس، اُس کے ساتھ گفتگو کرو، یاد رکھو، اس وقت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی دعائیں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی زبان میں، عام لوگوں کی زبان میں، جو کچھ تمہارے ذہن اور دل میں ہے، کہہ دو، پروردگار سن رہا ہے، دیکھ رہا ہے، وہ عطا کرنے والا، کریم، بخشنے والا، لطف و کرم، مغفرت و ہدایت کرنے والا، علم عطا کرنے والا ہے۔ اگر اس کام کو انجام دو گے تو پروردگار عالم تجھے سکون، اطمینان اور طاقت عطا فرمائے گا۔ تمہارا ہاتھ پکڑ لے گا اور تمہاری رہنمائی فرمائے گا۔ میں یہ بات اپنے تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ تم آزماؤ اور اس کا نتیجہ دیکھو۔ پھر میں نے اِن سے کہا کہ ان شاء اللہ میں ایسا کروں گا۔ اے میرے سردار۔ اُس وقت سے میں کبھی کبھار یہ کام انجام دیتا ہوں اور رہبر معظم کی اس نصیحت اور رہنمائی کی برکات کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ مشکلات جتنی بھی ہوں، اگر میں اس طریقہ سے متوسل ہوتا ہوں تو ہم پر خداوند متعال کی عظیم اور وسیع برکات کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ۳۳ روزہ جنگ میں جو سب سے اہم کام ہم انجام دیتے رہے ہیں، وہ یہی کام ہے۔ میں بھی اور ہمارے تمام دوست بھی، گوشہ خلوت میں بیٹھ جاتے تھے، پروردگار عالم سے متوسل ہو جاتے تھے، اُسی سے رہنمائی، مدد، ارادے کی پختگی، طاقت اور ہمت و شجاعت مانگتے تھے۔ اللہ بہت کریم ہے۔ (ختم شد)
خبر کا کوڈ: 823918