آپس میں نا اتفاقی نے اسلام دشمن قوتوں کو حوصلہ دیا ہے
دشمن نے مکاری سے مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان بھائیوں کو ملیا میٹ کروایا ہے، ڈاکٹر فرید پراچہ
کشمیر سیاسی نہیں پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے
22 Oct 2019 10:47
جماعت اسلامی کے نائب امیر کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ جہاد کے نام سے گھبرانے والے عالمی طاقتوں سے مرعوب ہیں، کتوں و بلیوں کے حقوق کی بات کرنے والے مغرب، موم بتی مافیا سمیت حقوق انسانی کے ادارے دو ماہ سے محصور کشمیریوں پر بھارتی مظالم پر کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ دنیا کو دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد میں فرق کرنا پڑے گا۔ فوج کشمیریوں کو بھارتی چنگل سے آزاد کرانے کےلئے آگے بڑھے پوری قوم ان کے ساتھ ہوگی۔
نائب امیر جماعت اسلامی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اپریل 1950ء کو سرگودھا کے ایک اعلیٰ علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے رکن اور جمعیت اتحاد العلماء پاکستان کے مرکزی صدر تھے، ڈاکٹر صاحب نے جامعہ قاسم العلوم سرگودھا سے دینی تعلیم حاصل کی اور ادیب عربی اور عالم عربی کے امتحانات لاہور بورڈ سے پاس کیے۔ پنجاب یونیورسٹی سے 1975ء میں ایل ایل بی اور 1976ء میں علوم اسلامیہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ہی پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی ڈگری بھی حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں جمعیت طلبہ عربیہ اور اسلامی جمعیت طلبہ میں فعال کردار ادا کیا۔ 1990ء میں لاہور سے ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ مختلف آمریتوں کے خلاف 16 مرتبہ پابند سلاسل رہے۔ 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کی طرف سے لاہور کے حلقہ این اے 121 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بحثیت رکن اسمبلی، قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سوالات، تحاریک التوا، توجہ دلاؤ نوٹس، قراردادیں اور پرائیویٹ بل پیش کرنے والے رکن قرار پائے۔ اپنے حلقہ میں 22 کروڑ روپے کے ترقیاتی کام کرائے، حلقہ کے عوامم کی خوشی و غم میں ہمیشہ شریک رہتے ہیں اور مسلسل رابطہ رکھتے ہیں۔ علماء اکیڈمی منصورہ لاہور سمیت متعدد تعلیمی اداروں کے سربراہ بھی ہیں جبکہ WAMY (ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ) سعودی عرب کے ممبر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سعودی عرب، ترکی، چین، بنگلہ دیش، ایران اور کینیڈا کے سفر نامے لکھ چکے ہیں، تدریس القرآن، تدریس الحدیث، عربی زبان و ادب، مطالعہ مذاہب عالم، ایک تحریک ایک انقلاب، سید مودودیؒ کے سیاسی افکار (مقالہ پی ایچ ڈی) بھی آپ کی تصانیف میں شامل ہیں۔ مسئلہ کسمیر، اندرونی سیاسی کشمکش اور عمران خان کے ثالثی مشن سمیت اہم ایشوز پر انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی متحدہ اپوزیشن کیساتھ مل کر حکومت کے خاتمے کیلئے ہونیوالے مارچ اور دھرنے کا حصہ نہیں بن رہی تو کیا آپ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟
ڈاکٹر فرید پراچہ: دھرنے اوراحتجاج کے متعلق ہم نے پہلے سے ہی یہ کہہ دیا تھا جب متحدہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی بنی اور آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تھی، لیکن ہم سیاست میں بھرپور کردار ادا کرینگے اور جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات میں بھر پور طریقہ سے حصہ لے گی، عوام نے نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد پی ٹی آئی کو بھی آزما لیا ہے، عوام اب کسی کے دھوکہ میں نہیں آئیں گے، ہم قوم کی امیدوں پر پورا اتریں گے، آئین حکومت کے خلاف احتجاج کے جمہوری حق سے کسی کو نہیں روکتا۔ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ ریاست کی طاقت سے کسی کے احتجاج کو ملیا میٹ کرے۔ اس وقت کوئی ایک جماعت نہیں، بلکہ تمام اپوزیشن جماعتیں اور عوام حکمرانوں کی نااہلی پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے ملک کو ناچ خانہ کے بعد لنگر خانہ بنا دیا ہے۔ ناکام اور انسان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے عوام ڈیپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔
حکمرانوں کا رویہ ظاہر کر رہاہے کہ وہ ایوان اقتدار میں نہیں پاگل خانہ میں ہیں۔ عوام کی برداشت ختم ہورہی ہے۔ وقت قریب ہے جب تمام اپوزیشن اور قوم کا مارچ اسلام آباد کی طرف ہوگا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ یہی اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں بھی اقتدار میں رہ چکی ہیں، موجودہ حکومت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا مجموعہ ہے، یہ ایک ہی اصطبل کے گھوڑے ہیں، موجودہ حکمران بھی ملک و قوم کے ساتھ وہی کھیل کھیل رہے ہیں، جو سابقہ حکومتوں نے کھیلا، سابقہ حکمرانوں نے عوام کے ہاتھوں میں قرضوں کی ہتھکڑیاں پہنائیں اور آج کے حکمران بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ہم کسی بھی حوالے سے موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، وزیراعظم نے پاکستان کو مدینہ کی طرز پر اسلامی ریاست بنانے، سب کے بے لاگ احتساب، کشکول اٹھانے پر موت کو ترجیح دینے، ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ بے گھر لوگوں کو گھر دینے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔
اب یہ تمام دعوے ہوا میں بکھر اور فضاؤں میں گم ہو چکے ہیں، اقتصادی محاذ پر حکومت چاروں شانے چت ہوچکی ہے، معاشی اور اقتصادی زبوں حالی نے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کیاہے، جس کی وجہ سے عوام کے اندر سخت مایوسی اور بے چینی پائی جارہی ہے۔ حکومت اپنے کسی ایک وعدے کو بھی پورا نہیں کر سکی جس کی وجہ سے حالات پہلے سے بھی بدترین ہو گئے ہیں۔ ملک غیر سنجیدہ لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے، اسٹیٹس کو کی محافظ قوتوں نے ملک و قوم کے مسائل میں اضافہ کیا ہے، حکمران عوام کو ریلیف دینے اور ملک میں استحکام لانے کی بجائے بوجھ ثابت ہوئے ہیں۔
اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی کشمیر پالیسی کے حوالے سے سخت معترض ہے، حکومت نے لڑنے کیلئے کشمیر جانیوالے کو کشمیر کاز کا دشمن قرار دیا ہے، بہتر حل کیا ہے؟
ڈاکٹر فرید پراچہ: اقوام متحدہ میں بہت ساری یادداشتیں دستخط کر لی گئی ہیں اور 70 سالوں سے تقریروں کا سلسلہ بھی جاری ہے، اب وقت جہاد آن پہنچا ہے، حکومت جتنی جلدی ہوسکے جہاد کا اعلان کرے، تحریک انصاف کی حکومت اقوام متحدہ کی تقریر کے سحر اور لذت بے عمل کے ماحول سے باہر آئے، کب تک عوام کو تقریروں میں بیوقوف بنایا جاتا رہے گا، حکومت سے مطالبہ ہے کہ عالمی برادری اور عالم اسلام کے عدم تعاون کی فکر کریں چالاک دشمن نے پہلے ہمارے کشمیری بھائیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا اور پھر ہمارے بھائیوں کو بڑی چالاکی سے ایک بڑی جیل میں بند کر رکھا ہے، مقبوضہ کشمیر میں جو قتل عام ہو رہا ہے وہ ظلم کی المناک داستان ہے، انڈیا مقبوضہ کشمیر کے عوام کو نہیں دبا سکا۔
آزاد کشمیر کے عوام تو کسی بھی صورت گھبرانے والے نہیں، لیکن کشمیر کو اب جلنے سے بچائیں گے مکار دشمن ہمیں تقسیم کر کے ناپاک عزائم پورے کرنا چاہتا ہے، جو کسی صورت ہم پورا نہیں ہونے دیں گے۔ دشمن کے عزائم کو خاک میں ملائیں گے، حکومت مشکل کی اس گھڑی میں عوام کے مسائل کی طرف توجہ دے، عوام اپنی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار ہیں، ایل او سی پر موجود نوجوانوں کو ابتدائی دفاعی ٹریننگ دی جائے تاکہ بوقت ضرورت اپنی دھرتی کا دفاع کر سکیں، ہر گاوں میں ابتدائی طبی امداد سینٹر قائم کیا جائے اور لوگوں کو first aid کی تربیت دی جائے، فوری طور پر بنکرز بناکر دیے جائیں تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو، متاثرین کی فور امداد کا بندوبست کیا جائے۔
اسی طرح جو کشمیر کیلئے لڑنے کی بات ہے، اس میں گھبرانے والی کونسی چیز ہے، کشمیر ہمارا دھڑکتا دل ہے، جو کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا ہے، اس لئے تو بانی پاکستان قائداعظمؒ نے اس کو شہ رگ کہا تھا۔ کشمیر کے بغیر پاکستان نا مکمل ہے۔ جہاد کے خلاف فتوے دینے اور مظلوم کشمیریوں کی مدد کی بجائے بزدلی دکھانے والے وزیراعظم، ٹیپوسلطان کیسے ہوسکتے ہیں، جماعت اسلامی نے آزادی کشمیر کے لئے ہر موقع پر بڑی سے بڑی قربانی دی، آج بھی ہم مظلوم کشمیری عوام کے پشتیبان ہیں۔ ایوان اقتدار میںغیرتمند حکمرانوں کی ضرورت ہے جونہ صرف پاکستان بلکہ کشمیرکے بارے میں جرات سے فیصلے کریں۔
اسلام ٹائمز: کیا عالمی سطح پر حالات اس کے متقاضی نہیں کہ پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے الزامات سے کشمیر کاز کو نقصان نہ پہنچایا جائے؟
ڈاکٹر فرید پراچہ: یہ سب عالمی طاقتوں سے مرعوب ہونے والے کہتے ہیں، کتوں و بلیوں کے حقوق کی بات کرنے والے مغرب، موم بتی مافیا سمیت حقوق انسانی کے ادارے دو ماہ سے محصور کشمیریوں پر بھارتی مظالم پر کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ دنیا کو دہشت گردی اور آزادی کی جدوجہد میں فرق کرنا پڑے گا۔ فوج کشمیریوں کو بھارتی چنگل سے آزاد کرانے کےلئے آگے بڑھے پوری قوم ان کے ساتھ ہوگی۔ کشمیری تاجروں کا 5 اگست سے ابتک 6 ہزار کروڑ کا نقصان ہوچکا ہے۔ ڈھائی ماہ سے گھروں میں بند لوگ، عالمی امن کے علمبرداروں، این جی اوز اور انسانی حقوق کا دم بھرنے ولاے ممالک کے منہ پر بڑا طمانچہ ہے۔ سرینگر سینٹرل جیل میں ہزاروں نوجوان قید ہیں۔ اگر دنیا یہ سمجھتے اور قابل اعتماد ہوتی تو انہیں یہ کیوں نہیں سمجھ آتا کہ کشمیریوں کو آئینی و قانونی حقوق سے محروم رکھنا خطرناک ہوگا۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام بغیر کسی لیت ولعل کے اپنے مظلوم بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ جہاں سفارتی کوشش کے ذریعے یہ بات کرنیکی ضرورت ہو موثر انداز میں کرے کہ جہاد تو فوج اور عوام مل کر کرینگے، یہ ہماری سلامتی اور کشمیریوں کے بنیاد حق کا مسئلہ ہے، دہشت گردی کیسے کہہ سکتے ہیں۔ کس ملک کے لوگ اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے نہیں ہوتے۔
اسلام ٹائمز: یمن سمیت مختلف معاملات پہ ایران سعودیہ کشیدگی کو کم کروانے کیلئے وزیراعظم کی کوششوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر فرید پراچہ: حیرانگی اس میں ہے کہ جن ممالک کے درمیان ثالثی یا سہولت کاری کا نعرہ لگایا جا رہا ہے وہ کیا سوچ رہے ہونگے کہ کیسے حکمران اور لیڈر ہیں پاکستان کے، جو اپنے گھر میں لگی آگ کی پرواہ ہی نہیں کر رہے، ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ وزیراعظم سب سے پہلے اپنے گھر کی فکر کریں، جس پر مودی کی انتہا پسند حکومت حملہ آور ہے۔ ایران اور سعودی عرب کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قومی موقف سے آگاہ کریں۔ خطے میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ بدقسمی سے حکومت اور ان کے وزراء کے اعصابوں پر اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے اور مخالفین کے ساتھ نبرد آزمائی کی دھن سوار ہے۔
مسئلہ کشمیر پر حکومت نے ایک مرتبہ بھی قومی اتفاق اور یکجہتی پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ جب خود کشمیر کے حوالے سے وزیراعظم کو ایسی کسی کوشش کی توفیق نصیب نہیں ہوئی تو اسکا کیا مطلب ہے؟۔ مسلمانوں کے درمیان صلح صفائی قائم کروانا، یہ ایک اچھا کام ہے، لیکن یہ کیسی غیر ذمہ دارانہ بات ہے کہ ملک کے اندر اور بالخصوص کشمیریوں کے لیے حکمران بیانات سے آگے کچھ نہیں کرتے، نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، نہ ہی انہیں کچھ سمجھ آتا ہے، تو اسکا مطلب یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا جو ٹھیکہ عمران خان نے لیا ہے، یہ کام وہ کسی کے اشارے پہ کر رہے ہیں، جس کے نتائج کا اندازہ بھی اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: اگر پاکستان کو عالم اسلام کے مسائل میں کردار ادا کرنیکی ضرورت نہیں تو امت مسلمہ سے یہ توقع کیوں رکھی جانی چاہیے کہ وہ کشمیر پہ پاکستان سے بڑھ کر کوئی کردار ادا کریں؟
ڈاکٹر فرید پراچہ: عمران خان کے کردار کی بات ہو رہی ہے نہ کہ امت مسلمہ اور پاکستان کے درمیان تعلق کی، مسلمانوں کو تو اللہ نے ایک جسم کی مانند بیان فرمایا ہے، مگر یہ کون سے بین الاقوامی قوانین ہیں کہ مسلمان کو ہرجگہ بربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کشمیر میں بڑھتی ہوئی بھارتی جارحیت کو نہ روکا گیا تو پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے گا، ایسی اسلام دشمن قوتوں کو لگام ڈالنے اور ان سے نپٹنے کے لئے مسلم امہ کو اتحادو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بے شک کشمیری مسلمانوں کی مدد کرنے کے اپنی اپنی حد تک کردار ادا کرنا چاہئے۔ کشمیر میں انسانیت کے ساتھ ہوشربا انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ ظلم رواں رکھا جا رہا ہے، اسے کوئی درد دل رکھنے والا شخص نہیں دیکھ سکتا، اس کئے جانے والے ظلم کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، انسانیت کے ساتھ جو بھارتی فوج کی طرف سے ظلم و بربریت کی جا رہی ہے۔
جسے دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اسلامی ممالک اور ان میں بسنے والے مسلمانان عالم اس وقت کہاں ہیں؟، یہ ایک سوالیہ نشان ہے، تاریخ تو ہمیں بھول جائے مگر ہمارا رب ہم سے ضرور پوچھے گا، جب زمین پر فساد برپا کیا گیا تھا تو تم نے اس فساد کو ختم کرنے میں کیا حصہ ڈالا تھا۔ کشمیر پرعالمی برادری سمیت کسی مسلمان حکمران کا ضمیر نہ جاگ سکا، بس سب نے اقوام متحدہ میں آکر تقریریں کی اور چلے گئے، کسی نے بھی اس حوالے سے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا، کشمیر سمیت متعدد مسلم ممالک میں مسلمانوں کے خلاف انسانیت سوز کاروائیاں کی جارہی ہیں اور کوئی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں۔ اس ظم کو جاری ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے، مگر کسی اسلامی ریاست کے نمائندوں کی طرف سے کوئی ایک مذمتی لفظ بھی نہیں کہا گیا۔
مسلمانوں کی آپس میں نا اتفاقی کی بدولت طاغوتی قوتوں نے دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے ہاتوں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر وا رکھا ہے اور ایسے مظالم روا رکھے جا رہے ہیں، جنہیں دیکھ کر انسانیت بھی شرما جاتی ہے، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا قتل عام روز کا معمول بن چکا ہے، بچوں بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر خون مسلم کی ندیاں بہائی جارہی ہیں، خواتین اور نو عمر بچیوں کی عصمت دری کی جارہی ہے، مسلمانوں کی آپس میں نا اتفاقی نے اسلام دشمن قوتوں کو حوصلہ دیا ہے، مکار دشمنوں نے مسلمانوں کو ہی آلہ کار بنا کر ان کے ہاتھوں مسلمان بھائیوں کو ملیا میٹ کروایا ہے، ان تمام حالات میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر مسلم امہ کا اتحاد وقت اہم ضرورت ہے اور مصیبتوں، پریشانیوں سے چھٹکارے کا حل اسلامی تعلیمات میں عمل پیرا ہونے پر مضمر ہے۔
اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی کو باقاعدہ وزارت خارجہ کی بنائی گئی کشمیر کمیٹی میں رکنیت دی گئی ہے، حکومت کو احساس دلانے اور کشمیریوں کی حمایت کیلئے مزید کیا ہوسکتا ہے؟
ڈاکٹر فرید پراچہ: قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں اگر بروقت فیصلہ نہ کیا جائے تو صدیوں سزا ملتی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ تاریخ کے سنگین لمحات سے گزر رہا ہے۔ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا مطالبہ جو بھارت کی قیادت سمیت دنیا نے تسلیم کیا تھا اس پر بھارت نے خود کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے پانی پھیر دیا ہے، جس سے کشمیری نئی آزمائش کا شکار ہیں، بھارت کے اس فیصلہ سے 80 لاکھ کشمیری یرغمال ہیں۔ کشمیری اجتماعی قبر میں ہیں، جہاں سانس لینا بھی مشکل ہے۔ بھارت کی سیاسی قیادت سمیت 80 دنوں سے کسی کو بھی مقبوضہ کشمیر جانے نہیں دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے، دنیا کو اس کا علم نہیں ہے۔ کشمیر سیاسی نہیں پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ بھارت کا اگلا ہدف مظفرآباد اور اسلام آباد ہوگا۔
بھارتی مسلمانوں کی شناخت کو بھی خطرہ ہے۔ آر ایس ایس کہتی ہے کہ جس نے بھارت میں رہنا ہے اس کو ہندو بن کر رہنا ہوگا۔ بھارت وہ اژدہا ہے جس سے خطے کے تمام ممالک کو خطرہ ہے۔ کشمیر کے چاروں طرف ایٹمی ممالک موجود ہیں، دنیا کا امن کشمیر سے وابستہ ہے۔ 5 اگست کو جب بھارت نے کشمیر کی مخصوص حیثیت کو ختم کیا ہے، جماعت اسلامی پاکستان نے پوری دنیا میں اس کے خلاف احتجاج اور لوگوں کو متحرک کیا ہے۔ برطانیہ کے 40 ارکان اسمبلی نے ہمارے پروگرام میں شرکت کی۔ پوری مسلم امہ کا فرض ہے کہ کشمیریوں کی پشت پر کھڑی ہوکر ان کو آزادی دلائے۔ قومی وحدت کو قائم رکھنا، حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن موجودہ حکومت کے رویوں نے قومی وحدت کو تارتار کیا ہے۔ کشمیر پر قبضہ کے لیے بھارتی ایک اور ہم منتشر ہیں۔ 18 ہزار کشمیریوں کو قید کرکے کشمیر سے باہر کردیا ہے۔ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اسلام آباد میں کشمیر پر بین الاقوامی کانفرنس بلائے، مگر اب تک اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
مودی کے اعلانات اور لالچ کے باوجود کشمیری کہتے ہیں کہ موت قبول ہے، مگر بھارت کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت کشمیر پر روڈ میپ دے، کشمیر کے مسئلے پر حکومت نے سنجیدگی نہیں دکھائی، 27 اکتوبر کو جماعت اسلامی گجرات میں عظیم الشان کشمیر مارچ کرے گی۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ حکومت نے کشمیر کا سودا کرلیا ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ حکومتی اقدامات کشمیر کی آزادی کے لیے نہیں سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے والے ہیں۔ حکومت نے اپنے رویے کو ٹھیک نہیں کیا۔ کشمیریوں کو وزیراعظم سے مایوسی ہوئی ہے۔ ہر مشکل گھڑی میں اسلامی دنیا نے پاکستان کا ساتھ دیا، پہلی مرتبہ ہماری حکومت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ کمزور حکومت کی وجہ سے بھارت نے کشمیر کی حیثیت ختم کی ہے۔ جماعت اسلامی نے طے کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے 3، 4 نومبر کو اسلام آباد میں دو روزہ بین الاقوامی کشمیر کانفرنس منعقد کرے گی۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے سیاسی رہنماء اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شرکت کریں گی۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کو مدعو کریں گے۔ 27 اکتوبر کو صرف کشمیر پر بات ہونی چاہیے۔
اسلام ٹائمز: قومی وحدت وقت کی ضرورت ہے، اس لیے جماعت اسلامی اپوزیشن اور حکومت کو ایک پیج پہ لانے کیلئے کردار ادا کریگی؟
ڈاکٹر فرید پراچہ: ہم مدںظر اس وقت کشمیر کا مسئلہ ہے، اس کے لیے حکومت اور اپوزشین دونوں سے بات کی جا سکتی ہے، لیکن ثالثی کے لیے دونوں طرف سے رضامندی ضروری ہے، حکومت اسلام آباد کے لیے راستے بند نہ کرے، ماحول کا نارمل بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، جس میں باقی شعبوں کی طرح موجودہ حکومت بری طرح ناکام رہی ہے، اسی لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی میں اب مزید تبدیلی ناگزیر ہے، قوم کاسمیٹک تبدیلی کی بجائے حقیقی تبدیلی چاہتی ہے، چند وزراء کی تبدیلی مسئلے کا حل نہیں، پی ٹی آئی حکومت کو مکافات عمل کا سامنا ہے، تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، جب ترقی کا پہیہ الٹا گھومتا ہے تو حکومتوں کی الٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔ گلا سڑا فرسودہ نظام دکھوں کا مداوہ نہیں کرسکتا، خالی نعروں اور پھیکی سیاست سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا۔
اپوزیشن کے موقف کو بھی سامنے رکھنا ہوگا، وزیراعظم کو اپنی کابینہ اور رویئے دونوں میں تبدیلی لانا ہوگی، پارلیمنٹ میں آنا ہوگا، تاکہ وہ ثابت کریں کہ بحیثیت حکمران وہ اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہیں، ان کے انداز سے دو متضاد رویئے جھلکتے ہیں ایک طرف وہ کٹھ پتلی نظر آتے ہیں، دوسری طرف اپنے آپ کو مطلق العنان بھی سمجھتے ہیں، جیسا کہ باتیں تو ٹیپو سلطان والی کرتے ہیں اور ٹیم میں سارے شاہ محمد رنگیلے بھر لیے ہیں، خود پاکستان میں جو سیاسی تناؤ ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان جیسے پیچیدہ مسائل ہیں، اسوقت پاکستان میں بھی سیاسی دھاروں اور حکومت کے درمیان گتھیاں سلجھانا آسان کام نہیں، البتہ یہ کام اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پہ نہیں ہونا چاہیے، سیاستدانوں کو موقع ملا ہے، احتساب کا عمل باہمی طور پر جاری رہے، تو کسی طالع آزماء کو سسٹم ڈی ریل کرنیکا موقع نہیں ملے گا۔
خبر کا کوڈ: 823338