عمران خان کو یہودی لابی کا ایجنٹ کہنے والے خود بھارت کے ایجنٹ ہیں
اپوزیشن مولانا فضل الرحمان کو اور مولانا مدراس کے بچوں کو استعمال کر رہے ہیں، شوکت محمود بسراء
موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کریگی
7 Oct 2019 23:01
حکمران جماعت کے صوبائی رہنماء کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہمیں جس پر اعتراض ہے وہ یہ کہ وہ اسکولوں اور مدرسے کے بچوں کو اپنی سیاست بچانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں، اسی لیے واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اگر مدراس کے بچوں کو مذہبی کے نام پر سیاسی جلوسے جلوسوں کیلئے استعمال کیا گیا تو حکومت اس کی اجازت نہیں دیگی، مولانا فضل الرحمان ان بچوں کو غلط استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس سے انکی تعلیم کا بھی نقصان ہوتا ہے، والدین جس مقصد کیلئے بچوں کو مدارس میں بھیجتے ہیں وہ مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے، اس طرح اگر استحصال ہوتا ہے بچوں کا اور غریب والدین کا تو یہ روکنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے رہنماء چوہدری شوکت محمود بسراء 1966ء میں بہاولنگر میں پیدا ہوئے، کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا، 2008ء میں پی پی 283 سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انکے ساتھ اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ اور مولانا فضل الرحمان کی طرف سے لاک ڈاون کی تیاریوں اور حکومتی رد عمل سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: مولانا طاہرالقادری کے بعد اب مولانا فضل الرحمان اسلام آباد بند کرنے آ رہے ہیں، کیا ان خبروں میں صداقت ہے کہ اب کی بار ایمپائر انکے حق میں انگلی اٹھائے گا؟
شوکت محمود بسراء: جو مارچ اور احتجاج ڈاکٹر طاہر القادری نے کیا اسکی وجہ تھی، انکے لوگ شہید کیے گئے تھے، مولانا فضل الرحمان تو سیاسی مفادات کو زندہ رکھنے کیلئے واویلا مچا رہے ہیں، انکا خیال ہے کہ وہ اس طرح اپنی سیاست بچانےمیں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن انکی کوئی چال نہیں چلے گی، نہ انکی دال گلے گی۔ اگر جلسے جلوس کرنا چاہیں تو یہ انکا جمہوری حق ہے، البتہ جو ایمپائر یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے انہیں کسی قسم کے اشارے کی بات ہے، اس میں کوئی صداقت نہیں، پاکستان میں حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں، اگر وہ اسلام آباد آئیں گے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ وہ سب کو ہی چیلنج کر رہے ہیں، انہیں سب پر اعتراض ہے۔ یہ اپوزیشن جماعتوں کی ایک چال ہے۔
یہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام اور میڈیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ حکومت کمزور ہے اور ریاستی اداروں اور موجودہ حکومت کے درمیان فاصلے موجود ہیں، تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ اب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے اور غیر یقینی کی صورتحال ہے، لیکن یہ اس میں کامیاب نہیں ہونگے۔ جو لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ انکی پشت پناہی کر رہی ہے، اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح مولانا کی مذہبی حیثیت کو استعمال کرنا چاہ رہے ہیں، جس طرح مولانا مدارس کے بچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بات مولانا فضل الرحمان سمجھ رہے ہیں کہ کیونکہ وہ اس سارے کام میں لیڈنگ رول پلے کر رپے ہیں اس لیے انکی سیاست دوبارہ لوٹ آئیگی،حالنکہ اس کے بالکل برعکس ہونے جا رہا ہے، جو انکی بچی کچھی سیاست ہے اسکا بستر بھی گول ہو جائیگا۔
اسلام ٹائمز: اگر مارچ، احتجاج اور دھرنا دینا انکا جمہوری حق ہے تو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وفاقی وزراء اسے طاقت کے بل بوتے پر روکنے کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟
شوکت محمود بسراء: یہ تو سب جانتے ہیں کہ انکی کوئی سیاسی حیثیت اب ہے، نہیں تو ہمیں جس پر اعتراض ہے وہ یہ کہ وہ اسکولوں اور مدرسے کے بچوں کو اپنی سیاست بچانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں، اسی لیے واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اگر مدراس کے بچوں کو مذہبی کے نام پر سیاسی جلوسے جلوسوں کیلئے استعمال کیا گیا تو حکومت اس کی اجازت نہیں دیگی، مولانا فضل الرحمان ان بچوں کو غلط استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس سے انکی تعلیم کا بھی نقصان ہوتا ہے، والدین جس مقصد کیلئے بچوں کو مدارس میں بھیجتے ہیں وہ مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے، اس طرح اگر استحصال ہوتا ہے بچوں کا اور غریب والدین کا تو یہ روکنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، یہ قابل قبول نہیں۔
یہ بات ہر ذی شعور کو سمھ آتی ہے کہ کم عمر بچوں کا تحفظ اور انکے حقوق کو پائمالی سے روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم شروع سے ہی کہہ رہے ہیں کہ مذہب کارڈ استعمال نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی مدراس کو سیاست کیلئے استعمال کرنا چاہیے، پہلے بھی بچوں کو جہاد کے نام پر ملّاؤں نے استعمال کیا پھر سیاست میں ان غریب بچوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ فضل الرحمٰن، تحریکِ لبیک جیس سیاسی مذہبی جماعتیں ہیں، جن کے لیڈر بچوں کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم مدارس میں اصلاحات لا رہے ہیں، انشا اللہ ایک دفعہ مدارس اُن کے ہاتھ سے نکل گئے اور بچے غلامی کی زندگی سے شعور کے نظام میں داخل ہوگئے تو ان کی دُکانیں مستقل طور پر بند ہو جائیں گی۔
آہستہ آہستہ یہ عمل کامیاب ہو جائے گا اور پاکستانی معاشرے اور سیاست کو اس مصیبت سے چھٹکارا مل جائیگا۔ اسی لیے مولانا فضل الرحمان مدارس کیلئے ہونیوالی اصلاحات کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن بات الیکشن کی کرتے ہیں، نعرے ناموس رسالت کے لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب انکے پاس کچھ بھی نہیں بچا، الیکشن وہ ہار جاتے ہیں، انکی طاقت جو سمجھی جاتی ہے وہ مدراس کے بچے، جسے وہ ناجائز استعمال کر رہے ہیں، عوام میں سے تو لوگ یہ کام کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں، وہ بچوں کا استحصال کر کے ان سے سڑکیں بلاک کروانا چاہتے ہیں، جو قانون اور اخلاق کے منافی ہے۔ اسکا تدارک ضروری ہے، اسکی حوصلہ شکنی ہونا چاہیے۔
اسلام ٹائمز: اسکو کیسے روکا جا سکتا ہے، پی ٹی آئی بھی ان مدارس کو کروڑوں کے فنڈز دے چکی ہے؟
شوکت محمود بسراء: ہم تو اس انکار نہیں کرتے، جہاں مین اسٹریم اور رسمی تعلیم کے اداروں میں بہتری اور ترقی کیلئے اصلاحات کی ضرورت ہے اسی طرح مدارس کو بھی بطور تعلیمی ادارہ اصلاحات کی ضرورت ہے، اس مقصد کیلئے جتنی فنڈنگ کی ضرورت ہو وہ دی جانی چاہیے، والدین اور مدارس کی انتظامیہ کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم دلوائیں اور طلبہ کو سیاست سے دور رکھیں ورنہ اس میں انکا مستقبل اور مدارس کی ساکھ میں بہتری نہیں آئیگی۔ جس طرح کوئی کالج، اسکول چاہے وہ سرکاری ہے یا غیر سرکاری ان سرگرمیوں کا سوچ بھی نہیں سکتا، پی ٹی آئی سمیت سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔
لیکن انکے طلبہ اور اساتذہ کو کبھی سیاست یا ذاتی مفادات کیلئے استعمال نہیں کیا گیا، کیا اس اصول کی پابندی دینی مدارس کی طرف سے نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں یہ درست ہے کہ اگر کوئی مذہب کیخلاف جاتا ہے تو اس کے خلاف ہر پاکستانی کو ہر مسلمان کو حق حاصل ہے آواز اٹھائے، لیکن یہ مخصوص ہاتھوں میں مدرسوں کے بچوں کو یرغمال بنا کر ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنیکی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جتنے وفاق المدارس ہیں سب اس بات کو یقینی بنائیں کہ مولانا فضل الرحمان جیسے لوگ بچوں کا استحصال نہ کر سکیں۔ وزارت تعلیم اب تمام مدراس کو اسی طرح تعلیمی ادارے سمجھی گی جس طرح اسکول اور کالجز ہیں۔
اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی سمیت سب سیاسی جماعتیں بھی مدارس کے علماء سے سیاسی تعاون حاصل کرتی ہیں، کیا اب آپ کے کہنے سے مولانا فضل الرحمان کا ساتھ نہیں دینگے؟
شوکت محمود بسراء: ہاں یہ درست ہے کہ سیاسی جامعتیں علماء سے تعلقات رکھتی ہیں، ان سے ووٹ سے بھی ملتے ہیں، لیکن پھر وہی بات ہے کہ ہم نے کبھی کسی احتجاج کیلئے مدارس کے بچوں کو سڑکوں پہ لانے کیلئے استعمال نہیں کیا، لیکن یہ لوگ جو مدارس کے استادوں کو استعمال کرتے ہیں، یہ دراصل پہلے ہی مدرسوں پر پیسہ لگاتے ہیں اور انہیں اپنی گرفت میں رکھتے ہیں، انکی مجبوریوں سے کھیلتے ہیں، اب اسی مقصد کیلئے مسلم لیگ نون اور بلاول بھٹو زرداری صاحب نے بڑے پیسے دیئے ہیں، حالانکہ وہ میڈیا میں مذہب کارڈ کیخلاف بیانات بھی دے رہے ہیں، لیکن اندر خانے اس ساری سازش کا حصہ بھی ہیں، اسی طرح کچھ بیرونی قوتیں بھی ہیں جو یہ کام کروانا چاہتی ہیں۔
اب مولانا فضل الرحمان کے پاس اپنے تو پیسے اتنے زیادہ نہیں ہیں، اور اپوزیشن کی جماعتوں کے پاس اپنی افرادی قوت نہیں ہے، اس لیے یہ دونوں ملکر یہ کھیل کھیلنے کی کوششوں میں ہیں۔ ہم بھی سیاست کے کھلاڑی ہیں، ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں گے، انہیں کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ یہ ایک اس کا نیا پہلو ہے، یہ دھرنے اور سیاسی نعرے اپنی جگہ لیکن اب یہ لگ رہا ہے کہ پیسے کی گیم بھی بن گئی ہے، اس تماشے سے مولانا فضل الرحمان بہت بڑا سرمایہ بھی سمیٹنا چاہتے ہیں۔ یہ ملک کی سیاست کیلئے بڑا خطرناک رجحان ہوگا۔ کوئی کچھ کہ رہا ہے کوئی کچھ، بعض بتا رہے ہیں کہ ایک ارب روپے نواز شریف نے دیئے ہیں، کچھ پیسے باہر سے بھی آ رہے ہیں۔ اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔ یہ ملک کے مستقبل کیلئے خطرناک ہے۔
اسلام ٹائمز: مسلم لیگ نون کیخلاف جب دھرنے دیئے گئے تو انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے ملک دشمن عناصر ہیں، اب آپ کہہ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن جماعتوں بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر چل رہی ہیں؟
شوکت محمود بسراء: یہ تو طے ہے کہ کہ جہاں پیسہ ملوث ہو، وہاں مفادات کا کھیل اتنا زیادہ اثر دکھاتا ہے کہ ملکی اور قومی مفادات پیچھے رہ جاتے ہیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں ملکی سیاست میں اتنے نازک حالات کے باوجود ایجیٹیشن کی بات کی جا رہی ہو، اسکا فائدہ دشمن کو ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی محب وطن کیسے اطمینان حاصل کر سکتا ہے۔ وہ نام تو مذہب کا لے رہے ہیں اور لیکن اعتراض الیکن پر کر رہے ہیں، الیکشن کے فوری بعد بھی مولانا فضل الرحمان نے اسمبلیوں کے بائیکاٹ کی بات کی تھی، لیکن دوسری اپوزیشن جماعتوں نے اسکی تائید نہیں کی، اب جب انکی لیڈرشپ کرپشن کیسز میں جیل میں بند ہے۔
وہ بھی صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق، مولانا کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں اور دھرنے کی مخالفت میں بیان دیکر اس میں اسٹیج پر آنے کی باتیں بھی کرتے ہیں، سیاسی عدم استحکام کی راہ ہموار کرنیکی کوشش ہے، جس سے ملک کو نقصان ہو سکتا ہے، اسی خدشے کے پیش نظر تاجر برادری نے آرمی چیف سے ملاقات کی ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کریگی یا نہیں، اس بات کی ضمانت دیں، لیکن آرمی چیف نے نہ صرف جمہوری حکومت کے تسلسل کی حمایت کی بلکہ اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر کی بھی تعریف کی گئی ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے جب یہ کوشش کی جا رہی ہو کہ ملک کا مستقبل اب غیر یقینی ہے، ورنہ تاجروں کو آرمی چیف کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے، وہ چیئرمین ایف بی آر، چیئرمین نیب اور وزیراعظم کو براہ راست اپنے تحفطات سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: اس تناظر میں کوئی امکان ہے کہ قبل از وقت انتخابات کروا دیئے جائیں؟ سال کے شروع میں اسکا عندیہ عمران خان نے بھی دیا تھا۔
شوکت محمود بسراء: وزیراعظم نے جو بات کی تھی اسکا تناظر اس سے بالکل الگ تھا، انہوں اپوزیشن کی حکمت عملی ناکام بنانے کی بات کی تھی، لیکن جب ہمیں عوام نے پانچ سال کیلئے منتخب کیا ہے، پھر ہم نے بہت سارے کام شروع کیے ہیں، ان کے لیے زیادہ وقت لگے گا، معیشت کا بگاڑ ہے، ہم نے آتے ہی پچھلی حکومتوں کی طرف سے لیے گئے قرض میں سے ایک ہی سال میں دس ارب ڈالر ادا کیے ہیں، جو کھربوں روپے بنیں گے، یہ ملک کی معیشت کو تباہ کر کے گئے ہیں، اب برآمدات پہلے سے بڑھ گئی ہیں، ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، ٹیکس پہلے کی نسبت زیادہ جمع ہو رہا ہے، ہماری بہتر منصوبہ بندی اور محنت سے معاشی اشاریئے بہت بہتر ہو گئے ہیں۔
سال دو سال میں یہ سب کچھ دوبارہ سے ٹھیک ہو جائیگا، لیکن عارضی طور پر جو تکلیف ہے، اسکا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ انتخابات پہ انتخابات کروائے جائیں، انہوں نے تو روپے کی قیمت ٹھیک رکھنے کی بجائے، غیر ملکی زرمبادلہ کو ہی خرچ کرنا شروع کر دیا تھا، یہ معیشت کی حالت تھی۔ انہوں نے کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا، اس صورتحال سے نکالنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہم ملک کو اس سے نکال کے رہیں گے۔ یہ مہنگائی اور بے روزگاری وقتی طور پر ہے، لیکن اسکا ہمیں احساس ہے، تمام شعبوں میں اصلاحات کر رہے ہیں، اس کیلئے متعلقہ محکموں اور شعبوں کے اہم لوگوں سے مشاورت بھی کرنا ہوتی ہے، منصوبے شروع کرنے اور مکمل بھی کرنا ہوتے ہیں، اسی لیے حکومت کی مدت پانچ سال رکھی جاتی ہے، ہم بھی یہ مدت پوری کرینگے۔
اسلام ٹائمز: بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی بالخصوص یہودی لابی سے تعلقات کا الزام تو عمران خان کیخلاف لگایا جاتا ہے، اسی کو تو ایشو بنایا جا رہا ہے؟
شوکت محمود بسراء: یہ پروپیگنڈہ اب بکنے والا نہیں، انہوں نے جب دیکھا ہے کہ اقوام متحدہ میں عمران خان نے تاریخی تقریر کی ہے اور اقوام عالم کو مبہوت کر دیا ہے، عالم اسلام کی مشکلات، اسلام کیخلاف نفرت پہ مبنی اسلاموفوبیا اور ناموس رسالت پر جو مقدمہ پیش کیا ہے، یہ کوئی مولوی سوچ بھی نہیں سکتا، اب انکی زبانیں بند ہو چکی ہیں، اسی طرح کشمیر کو ایک دفعہ دنیا کے منظر پر اجاگر کیا ہے، اب شاید کوئی فرد ہو دنیا میں جو سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا ہو، اخبار ٹی وی دیکھتا ہو اور اس تک یہ حالات نہ پہنچے ہوں کہ بھارت اور بالخصوص مودی کشمیر میں کیا کر رہے ہیں، ان لوگوں نے کہا کہ کشمیر پہ حق ادا نہیں ہوا اور تقریر سے کیا ہوتا ہے۔
اسی دن آسیہ اندرابی کے بیٹے نے کہا کہ آج تک کسی نے اس طرح کشمیر کا مقدمہ پیش نہیں کیا، دوسری طرف کشمیر میں نوجوان سڑکوں پر آ گئے، بھارتی فوج کی فائرنگ کے باوجود انہوں نے احتجاج کیا اور پوری ھریت قیادت نے عمران خان کا شکریہ ادا کیا، یہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے یہ الفاظ اقوام متحدہ میں بولے ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے، دفتر خارجہ اور ساتھ جو ماہرین تھے، وہ خود کہتے ہیں کہ ہم نے کوشش کی کہ عمران خان لکھا ہوا بولے، لیکن انہوں حقائق پہ مبنی گفتگو کی، جس سے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتا، یہ جو دھربے دے رہے ہیں، اس سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا لیکن یہ الزام سارے کا سارا عمران خان کو دینگے، انکا کام ہی یہی ہے۔ اگر عمران خان کو یہودی لابی کا ایجنٹ کہنے والے خود بھارت کے ایجنٹ ہیں، یہ پورا پاکستان دیکھ رہا ہے، کون کیا کر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ: 820684