ہماری خارجہ پالیسی مظلوم کیساتھ نہیں بلکہ مفادات کیساتھ ہے
مسلمان ممالک ہی کشمیر میں بربریت کا مظاہرہ کرنیوالے کو اعزازات سے نواز رہے ہیں، صاحبزادہ حامد سعید کاظمی
یمن کے مسلمانوں پر جنگ مسلط کرنیوالے اسلام کے نام لیوا نہیں ہوسکتے
28 Sep 2019 10:36
''اسلام ٹائمز'' کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں سابق وفاقی وزیر مذہبی اُمور کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کسی بے گناہ پر حملہ کرنے کا حکم دے؟ ہمارے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہیئے کہ ایسے ممالک کا ساتھ نہ دیں جو اسلام کو مسخ کرنے کے درپے ہے، بلکہ ہمیں مظلوموں کا ساتھ دینا چاہیئے، یمن کے نہتے مسلمان اب طاقتور ہوچکے ہیں اور اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی حقیقت کی بجائے مصلحت کا شکار ہے، ہماری خارجہ پالیسی مظلوم کیساتھ نہیں بلکہ مفادات کیساتھ ہے، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری امداد نہ بند ہو جائے۔
علامہ حامد سعید کاظمی 3 اکتوبر1957ء کو اولیاء اللہ کے شہر ملتان میں برصغیر کے معروف مذہبی گھرانے (کاظمی) میں پیدا ہوئے۔ علامہ حامد سعید کاظمی کے والد کا نام علامہ احمد سعید کاظمی تھا جو کہ برصغیر پاک و ہند کے ممتاز رہنما تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں مذہبی امور کے وزیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 1985ء میں بہاالدین زکریا یونیورسٹی سے ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ حامد سعید کاظمی شادی شدہ ہیں اور انکی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ 2010ء میں حامد سعید کاظمی سعودی عرب میں پاکستانی حاجیوں کی سہولیات کے سلسلے میں ایک بدنام بدعنوانی کے اسکینڈل میں ملوث ہوئے۔ بھارت کیجانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری جارحیت اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، عالم اسلام کے کردار کے حوالے سے گذشتہ دنوں ''اسلام ٹائمز''نے انکے ساتھ ایک نشست کی، جسکا احوال حاضرخدمت ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: عالم اسلام کی موجودہ صورتحال پر کیا کہیں گے۔؟
صاحبزادہ حامد سعید کاظمی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس وقت عالم اسلام ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، غیر مسلم طاقتیں متحد جبکہ عالم اسلام کے حکمران منتشر نظر آتے ہیں سوائے چند حکمرانوں کے، عالم اسلام کی موجودہ ابتر حالت میں مسلم حکمرانوں کا کردار اہم ہے، جن کے پس پردہ دشمنوں سے تعلقات اور خاموشی اسلام کے لیے خطرہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں مصلحتوں سے بالاتر ہوکر بُرے کو بُرا کہنا چاہیئے اور جو اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اُنہیں بے نقاب کرنا چاہیئے، گذشتہ ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں جو کرفیو لگایا گیا ہے، اس میں صرف بھارت ملوث نہیں بلکہ بھارت جن کی شہہ پر یہ سب کچھ کر رہا ہے، اصل ذمہ دار وہ ہیں۔ بھارت کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور بعض خلیجی ممالک کھڑے ہیں، جنہیں کبھی بھی مسلمانوں کے مفادات عزیز نہیں رہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ انسان جنگ اُس وقت ہارتا ہے، جب گھر کے بھیدی ہوں، کشمیر کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا، جب کشمیر میں ایک قاتل بربریت کا مظاہرہ کر رہا تھا تو ہمارے ہی مسلمان ممالک اُسے اعزازات سے نواز رہے تھے، جس سے گجرات کے قصاب کو شہہ مل رہی تھی۔ لیکن تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور مفادات ختم ہونے پر یہی ممالک عتاب میں بھی آئیں گے، ان کی شہنشاہیت کی کشتی بھنور میں آچکی ہے، بہت جلد ہچکولے اور کشمیر سمیت یمن، بحرین، شام، فلسطین کے مسلمانوں کی آہوں سے سمندر بُرد ہوگی۔ کل بھی نعرہ تکبیر کے ساتھ اسلام کا گلا کاٹا گیا، آج بھی اُسی نعرے کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔
آپ دیکھیں مسلمان حکمرانوں نے یمن، فلسطین، برما، شام کے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، وہاں کی شورش کے لیے ہر قسم کی کوشش کی، اغیار کو ہر طرح کے مواقع فراہم کیے کہ آئیں اور ان مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں ترکی اور ایران کو جنہوں نے نہ صرف مظلوم مسلمانوں کی بات کی بلکہ ہر موقع پر ان کی مدد بھی کی، کاش یہ مسلم حکمران ان دو ممالک کی پیروی کرتے تو آج اُمت مسلمہ زیرعتاب نہ ہوتی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان، ایران اور ترکی کے سربراہان نے جس طرح دوٹوک بیانات دیئے ہیں، وہ قابل ستائش ہیں، ہمیں اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کرنی ہے نہ کہ اپنے مفادات کی، آج اُمت مسلمہ کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں کشمیر سمیت اُمت مسلمہ کے حوالے سے عالمی رہنمائوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔؟
صاحبزادہ حامد سعید کاظمی: عالم اسلام کے چالیس سے زائد ممالک ہیں، لیکن اقوام متحدہ میں سوائے ترکی، ایران اور پاکستان کے کسی نے کوئی خاطر خواہ بیان نہیں دیا، جس سے عالم اسلام کو تقویت حاصل ہو، سب ممالک اپنے اپنے مفادات اور اپنے اپنے آقائوں کو خوش کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں، جنہیں صرف اپنی تجارت اور تعلقات عزیز ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا فورم ایک ناکام ادارے کی شکل اختیار کرچکا ہے، جہاں طاقتور اپنے فیصلے منواتے ہیں اور مظلوم ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، اقوام متحدہ کے اجلاس میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی تھی کہ عالم اسلام کو درپیش مشکلات پر بات کی جاتی، خاص طور وہ مسلم ممالک جن کی آواز میں وزن ہے اور توانا آواز رکھتے ہیں، وہ اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی کرتے، لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ اُنہوں کسی مصلحت کے تحت چپ سادھ رکھی ہے، جو کہ قابل مذمت ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا پاکستان حکومت کشمیریوں کی ترجمانی کا حق ادا کر رہی ہے۔؟
صاحبزادہ حامد سعید کاظمی: میں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے اور پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کشمیر کے معاملے کو اتنی پذیرائی ملی ہے، لیکن میں پھر کہوں گا کہ عالمی مغربی طاقتوں کی حمایت بھارت کو حاصل ہے، جس کی بناء پر مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کرنے دیا جا رہا، آج اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل، او آئی سی، سلامتی کونسل، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، امریکی کانگریس اور برطانوی دارالعوام میں کشمیر کی حمایت میں بات ہو رہی ہے، لیکن یہ سب ادارے محکوم اور مجبور ہیں، جس کی وجہ سے کشمیر میں پچاس سے زیادہ دنوں سے جاری کرفیو برقرار ہے، میں سمجھتا ہوں کہ عالمی سطح پر پاکستانی حکومت نے مسئلہ کشمیر کو اُٹھایا ہے، لیکن ابھی ہماری وزارت خارجہ کمزور ہے، ہماری خارجہ پالیسی کسی مصلحت کا شکار ہے، ہم اپنے اور پرایوں دونوں کو خوش کرنے کے چکر میں ہیں، جسے میں منافقت اور کشمیر کاز کے ساتھ ظلم و زیادتی قرار دوں گا۔
آج جو ممالک مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں، ہمارے حکمرانوں کو بھی ان کی گود سے نکل کر اپنے دوستوں کا ساتھ دینا چاہیئے، آج ترکی، ایران، انڈونیشیا، چین اور روس پاکستان کے لیے ایک نئی راہ موجود ہے، لیکن ہم زخم کھانے کے باوجود ابھی تک بھی امریکہ پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں مودی کے ساتھ ٹرمپ نے تقریب میں شرکت کرکے پاکستان اور عالم اسلام کو واضح پیغام دیا ہے کہ میری ہمدردیاں کشمیریوں کی بجائے ہندوستان کے ساتھ ہیں۔ ٹرمپ ثالثی کا ڈھونگ رچا کر مسئلے کو طول دے رہا ہے، ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور ٹرمپ جیسے فاترالعقل کی باتوں میں نہیں آنا چاہیئے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے سارک وزرائے خارجہ کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ کی تقریر کا بائیکاٹ کرکے اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے۔
اسلام ٹائمز: سعودی عرب کیجانب سے یمن پر جارحیت پانچ سالوں سے جاری ہے، جس پر عالم اسلام خاموش ہے، لیکن حوثی قبائل کیجانب سے جوابی کارروائی کو سعودی عرب کی بجائے عالم اسلام پر حملہ قرار دیا جاتا ہے۔؟
صاحبزادہ حامد سعید کاظمی: میں سمجھتا ہوں کہ یہاں بھی سیاست اور منافقت کی جا رہی ہے، جس ملک پر آپ نے چڑھائی کر رکھی ہو اور پانچ سالوں سے اُس ملک کو تباہ و برباد کر دیا ہو، اُسے اپنے دفاع کا حق بھی نہیں ہے؟، ہمارے حکمران منافقانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، کیونکہ اُن کے مفادات عرب ممالک کے ساتھ وابستہ ہیں، پاکستان سمیت تمام ممالک کو اب سوچنا ہوگا کہ اسلام کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کو جو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، اُس کے خلاف آواز بلند کی جائے، گذشتہ پانچ سالوں سے یمن کے مسلمانوں پر جنگ مسلط کرنے والے اسلام کے نام لیوا نہیں ہوسکتے، یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کسی بے گناہ پر حملہ کرنے کا حکم دے؟ ہمارے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہیئے کہ ایسے ممالک کا ساتھ نہ دیں، جو اسلام کو مسخ کرنے کے درپے ہے بلکہ ہمیں مظلوموں کا ساتھ دینا چاہیئے۔
یمن کے نہتے مسلمان اب طاقتور ہوچکے ہیں اور اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی حقیقت کی بجائے مصلحت کا شکار ہے، ہماری خارجہ پالیسی مظلوم کے ساتھ نہیں بلکہ مفادات کے ساتھ ہے، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہماری امداد نہ بند ہو جائے۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، جب سعودی عرب یمن کو تباہ کرے گا، شادی، جنازے، ہسپتال، سکول، بازار محفوظ نہیں ہوں گے تو یمن کے حوثی بھی اپنا دفاع کریں گے، دنیا اب سمجھ چکی ہے کہ حرمین شریفین کو کوئی خطرہ مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ ان نام نہاد قابض حکمرانوں سے ہے، جو حرمین شریفین کی آڑ میں دنیا میں اسلام کی غلط ترجمانی کر رہے ہیں، دنیا کا ہر مسلمان حرمین شریفین کے تقدس کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن آل سعود کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا کام نہیں ہے، جب آپ کسی ملک کی املاک کو نقصان پہنچائیں گے تو آپ کو جواب بھی ملے گا۔
اسلام ٹائمز: کیا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عرب اور خلیجی ممالک اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ ان ممالک کے کردار سے کشمیر کے ایشو کو کتنی طاقت ملے گی۔؟
صاحبزادہ حامد سعید کاظمی: دو الگ الگ سوال ہیں، پہلا سوال کہ خلیجی ممالک اور عرب ممالک اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ کر تو سکتے ہیں، لیکن کریں گے نہیں، اگر عرب ممالک اور خلیجی ممالک متحد ہوکر کشمیر سمیت دیگر مظلوموں کی حمایت کریں تو حالات یکسر تبدیل ہوسکتے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف دیوانے کا خواب ہوگا، کیونکہ ان ممالک سے اس اقدام کی توقع نہیں ہے، کیونکہ ان ممالک نے بھارت کے ساتھ اپنے مفادات کو پروان چڑھانا ہے، اب دوسرا سوال کہ ان کی حمایت سے کوئی فائدہ ہوگا تو یقینی فائدہ ہوگا، جسے روکنے کے لیے بھارت مسلسل ان ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ مفادات اس کے ساتھ وابستہ ہوں اور یہ مسلمان باہم متحدہ نہ ہوں۔
یہ ایجنڈا صرف بھارت کا نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل بھی یہی چاہتے ہیں، اسرائیل چاہتا ہے کہ اس کے تعلقات سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ استوار ہوں، تاکہ یہ کبھی فلسطین کے مسئلے پر اس کی مخالفت نہ کریں، امریکہ چاہتا ہے کہ وہ ایران کے خلاف ان ممالک کو اُکسائے، تاکہ وہ کبھی بھی اُمت مسلمہ کی بات نہ کرسکیں اور کبھی بھی متحدہ نہ ہوسکیں، یہی وجہ ہے آج اسلام کے ان تینوں دشمنوں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے تعلقات عرب ممالک کے ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں اور یہ حکمران انہیں اپنا مسیحا سمجھ رہے ہیں، لیکن یہ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں، امریکہ پر انحصار کرنے والے طالبان کے ساتھ کیا ہوا؟، امریکہ پر انحصار کرنے والے شہنشاہ ایران کے ساتھ کیا ہوا؟، امریکہ پر انحصار کرنے والے صدام حسین کے ساتھ کیا ہوا؟، امریکہ پر انحصار کرنے والے لیبیا کے معمر قذافی کے ساتھ کیا ہوا؟ اور اب آپ دیکھیں گے کہ امریکہ پر انحصار کرنے والے مصری ڈکٹیٹر جنرل سیسی اور نام نہاد عرب حکمرانوں کے ساتھ کیا ہوگا۔؟
خبر کا کوڈ: 818775