میڈیا پر پابندی جمہوریت کا قتل ہے
بھارت ظلم و تشدد سے ہمارے دلوں پر حکومت نہیں کرسکتا ہے، غلام رسول نقوی
نریندر مودی آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں
25 Sep 2019 13:22
لداخ ہِل کونسل کے ایگزیکٹیو کونسلر کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ آج خود بھارت کی بڑی بڑی پارٹیاں بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ وہ پارٹیاں دفعہ 370 کو ختم کرنے کے خلاف بھی ہیں۔ جموں کے ہندو بھی اس فیصلے کے خلاف ہیں، بودھ حضرات بھی اس کے خلاف ہیں۔ کشمیری مسلمان بھی اس کے خلاف ہیں۔ لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود بھاجپا اس چیز کو لاگو کرنے کی کوشش تو کرے گی، جس کا وعدہ انہوں نے اپنے ووٹروں سے کیا تھا۔ آج خود نریندر مودی اور راجناتھ سنگھ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ فرقہ واریت آر ایس ایس کا ہی ایجنڈا ہے۔
غلام رسول نقوی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے سرحدی ضلع کرگل سے ہے، وہ کرگل خطے کے معروف سیاسی لیڈر ہیں۔ وہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے اہم ممبر ہیں۔ غلام رسول نقوی گذشتہ آٹھ برسوں سے کرگل میں سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، لداخ ہِل کونسل میں اہم عہدوں پر فائز ہونے کے بعد آج بحیثیت کونسلر اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں، انکا ماننا ہے کہ ہم کشمیری عوام اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرسکتے ہیں، لیکن کسی کو اپنی سرزمین کو تقسیم کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دینگے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے غلام رسول نقوی سے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: اولاً آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے اور پوچھنا چاہیں گے کہ ابھی کرگل خطے کے کیا حالات ہیں۔؟
غلام رسول نقوی: آپ خطے کے حالات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دو مہینے سے صورتحال بہت ہی تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ جب سے بھارتی پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ دفعہ 370 کو ہٹایا گیا ہے تو اس کے نتیجے میں کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ کرگلی عوام بھی سخت ناراض ہے۔ ہم ہرگز نہیں چاہتے ہیں کہ ہماری ریاست کی شناخت کو مٹایا جائے، ہم ساتھ ہی ساتھ جموں و کشمیر کو مختلف ڈویژنوں میں تقسیم کرنے کو بھی برداشت نہیں کرسکتے اور اس تقسیم کاری کی پُرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ہمیں مرکز کا یہ فیصلہ کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کو مذہب، ذات پات اور قبائل کے نام پر تقسیم کیا جائے، اس فیصلہ کے خلاف کرگلی عوام نے کئی بار ہڑتال بھی کی اور احتجاج بھی درج کروایا۔ آج دو مہینے سے ہم مشکلات میں ہیں، لیکن ان مشکلات اور قید و بند سے ہم اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے والے نہیں ہیں۔
اسلام ٹائمز: بھاجپا کی شدت پسندی اس قدر زیادہ ہے، آپکو نہیں لگتا کہ بھاجپا کے سامنے اس احتجاج کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے۔؟
غلام رسول نقوی: بی جے پی کی حکومت تمام کشمیریوں کو مار کر یا جیلوں میں بھر کر کوئی قانون نافذ کرنا چاہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم دل سے مرکز کے ان فیصلوں کو قبول نہیں کرسکتے ہیں، وہ ظلم و تشدد کے ذریعے یہ اقدام کرے تو دوسری بات ہے، لیکن ظلم و زیادتی سے وہ ہمارے دلوں پر حکومت نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے دل و دماغ سے کشمیر کی تقسیم کاری کو کبھی بھی قبول نہیں کرسکتے ہیں۔ کشمیر بھر میں دو مہینے سے جس قدر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا گیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوا ہے کہ بھارتی حکومت زبردستی اور اپنی من مانی سے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ورنہ اگر اس فیصلہ کو لاگو کرنے میں عوامی جذبات و احساسات کا لحاظ رکھنا مطلوب ہوتا تو ہمارے سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں بند نہ رکھا جاتا اور عوام کو گھروں میں محصور نہ رکھا جاتا۔ غرض ان قوانین اور لہہ لداخ نام سے کرگل لہہ کو یونین ٹئریٹری میں تقسیم کرنا ہم برادشت نہیں کرسکتے۔
اسلام ٹائمز: مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کو کیوں مختلف ڈویژنوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔؟
غلام رسول نقوی: دیکھیئے یہ تقسیم کاری بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں شامل ہے کہ مسلمانوں کی طاقت کو توڑا جائے۔ یہ اسی منشور کو لاگو کر رہے ہیں۔ آج خود بھارت کی بڑی بڑی پارٹیاں بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ وہ پارٹیاں دفعہ 370 کو ختم کرنے کے خلاف بھی ہیں۔ جموں کے ہندو بھی اس فیصلے کے خلاف ہیں، بودھ حضرات بھی اس کے خلاف ہیں۔ کشمیری مسلمان بھی اس کے خلاف ہیں۔ لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود بھاجپا اس چیز کو لاگو کرنے کی کوشش تو کرے گی، جس کا وعدہ انہوں نے اپنے ووٹروں سے کیا تھا۔ آج خود نریندر مودی اور راجناتھ سنگھ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ فرقہ واریت آر ایس ایس کا ہی ایجنڈا ہے۔ اب اس ایجنڈے کو پورے کرنے کیلئے یہ طاقت کا استعمال کرے یا قتل و غارتگری عام کرے، ہم احتجاج کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں۔ کرگل کے بارے میں ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ خطہ ہمیشہ پُرامن ترین خطہ رہا ہے۔ ہم نے کبھی بھی تشدد و انتہا پسندی کو پسند نہیں کیا ہے، لیکن یہ بی جے پی ہی ہے جو ہمیں پرامن رہنے نہیں دیتی ہے۔ ہم پرامن رہ کر بھارتی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ہر جگہ صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں گے۔
اسلام ٹائمز: بھارتی حکومت کے اس فیصلے کیخلاف احتجاج کے طور پر آئندہ کیا لائحہ عمل اپنایا جائیگا۔؟
غلام رسول نقوی: ہم پہلے انتظار کریں گے کہ جب ہمارے سیاسی قائدین کو رہا کیا جائے گا، تو ہم مل بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کریں گے۔ جب تک ہمارے سینیئر سیاسی قائدین کو رہا نہیں کیا جائے گا، تب تک ہم کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ تمام چھوٹے بڑے سیاسی رہنما جیلوں میں بند ہیں تو ایسے میں ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ہمیں اگر کشمیر کے تشخص کو بچانا ہے تو اسکے لئے مشترکہ طور پر کاوشیں کرنا پڑیں گی۔ ہم تنہا کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے ہیں۔ ہمارا فیصلہ عوامی فیصلہ ہوگا۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بھی یہی طے کیا ہوا ہے کہ مشترکہ طور پر مل بیٹھ کر اپنے وقار اور تشخص کی بازیابی ممکن بنائی جائے گی۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں کرگل خطے کے علماء کرام اور بڑے سیاسی لیڈران شامل ہیں، اس لئے ایک امید یہاں پائی جاتی ہے۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا واضح موقف ہے کہ دفعہ 370 کا تعلق ہماری آنی والی نسل سے ہے، اس لئے ہم اسے برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ گورنر صاحب کے سامنے جو مطالبات ہم نے رکھے، وہ شاید پورے ہونے والے نہیں ہیں، اگر حکومت کو ہمارے حقوق بحال کرنے ہوتے تو ہمارے حقوق تلف ہی نہیں کرتی۔ کشمیری لیڈروں نے کبھی بھی کسی ایک خطے کے مسائل کو اجاگر نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ متحدہ جموں و کشمیر کے عوام کی بات کی ہے، قیادت رہا ہوگی تو ہمارے مشترکہ مسائل حل ہونگے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جموں کے ہندو لیڈران بھی دفعہ 370 اور یونین ٹئرٹریز کے خلاف ہیں، تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارے مشترکہ مسائل ہیں تو ہم مشترکہ طور پر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے۔
اسلام ٹائمز: آپ اس قدر مایوس کیوں ہوئے ہیں۔؟
غلام رسول نقوی: میں مایوس ہرگز نہیں ہوں بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک لمبی جدوجہد کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ ہم اپنی بات کو اتنی آسانی سے منوا نہیں سکتے ہیں۔ ہم جس چیز کا بھاجپا سے مطالبہ کرتے ہیں، وہ ہمارا مطالبہ کیوں پورا کرے۔ بی جے پی کو ہماری کوئی فکر نہیں ہے بلکہ اسے اپنے ووٹ بنک کی فکر ہونی چاہیئے۔ جس قدر بھاجپا جموں و کشمیر میں ظلم کرے گی، اتنا ہی ان کا ووٹ بنک مضبوط ہو جائے گا۔ یہ ظلم و تشدد اور کشمیری عوام کو گھروں میں محصور کرنا بھاجپا کے مفاد میں ہے۔ جب فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ جیسے لیڈروں کو جیلوں میں رکھا گیا ہے تو ہماری کیا حیثیت ہے۔ اب اگر ہمیں کوئی امید ہے تو وہ بھارت کی سپریم کورٹ سے ہے، اگر بھارت کے تمام ادارے جمہوریت اور انصاف سے فرار اختیار کریں تو عدلیہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیئے، ہمیں بھی سپریم کورٹ سے یہی امید ہے کہ وہ حق کا ساتھ دے گی۔ سپریم کورٹ یہ بات سمجھ سکتی ہے کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی بنیاد دفعہ 370 ہے۔ سپریم کورٹ ہمیں انصاف فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
اسلام ٹائمز: کرگل خطے میں بھی بی جے پی نے اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے ہیں اور کرگلی عوام کو تقسیم کرنیکا آغاز ہوچکا ہے، آپ اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں۔؟
غلام رسول نقوی: دیکھیئے بھارتیہ جنتا پارٹی کا کرگل خطے میں خاص نشانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی پر ہے۔ بھاجپا نے کمیٹی کو توڑنے کی کوشش پہلے بھی کی اور اب بی جے پی کے آلہ کار یہاں پر فعال ہوگئے ہیں، اس لئے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو مزید طاقت سے توڑنے یا کچلنے کی کوششیں ہونگی۔ اب اگر ایکشن کمیٹی کو توڑا بھی جاتا ہے، پھر بھی کرگل کے عوام کی اکثریت کو کچلا نہیں جاسکتا ہے۔ یہاں کی اکثریت بھاجپا اور اس کے غلط فیصلوں کے خلاف ہے۔ یہ شیخ محمد عبداللہ کے زمانے سے ہی ہوتا آیا ہے کہ کسی ایک لیڈر کو کچلنے یا قابو میں کرنے کے لئے حکومت کسی اور لیڈر کو اپنی آلہ کاری کے لئے منتخب کر لیتی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ اگر یہاں کچھ افراد بھاجپا میں شامل ہوگئے ہیں۔ اب یہاں ڈر قائم کرکے ہماری آواز کو دبانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔
این آئی اے اور سی بی آئی کی کارروائیوں سے عوام میں ڈر کا ماحول ایک گہری سازش کے ذریعے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ ہمیں اگر پھانسی پر بھی لٹکایا جائے، جیلوں میں بند رکھا جائے، لیکن ہم اپنی قوم کے ساتھ غداری نہیں کرسکتے ہیں۔ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے، امیت شاہ اور مودی کے ہاتھ میں نہیں۔ ہم ان ظالموں سے ہرگز نہیں ڈرتے ہیں۔ ہمارے جدوجہد ہندوستان کے آئین کے عین مطابق ہے، ہم اس چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کا وعدہ ہندوستان کے آئین میں ہم سے کیا گیا ہے۔ آج اگر بھاجپا این آئی اے کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرکے عوام میں ڈر پیدا کر رہی ہے تو یہ ڈر کب تک جاری رہے گا۔ ظالم زیادہ دیر تک ظلم کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا ہے، ظلم کا خاتمہ ایک نہ ایک دن ہونا ہی ہے۔
اسلام ٹائمز: کب تک ڈتے رہیں گے۔؟
غلام رسول نقوی: ہم آخری سانس تک جموں و کشمیر کی بقا و سلامتی کے لئے لڑتے رہیں گے۔ ایک سچا مسلمان چٹان کی طرح ڈٹے رہنے پر یقین رکھتا ہے۔ مودی حکومت ہمیں وقتی طور پر کمزور تو کرسکتی ہے، لیکن ہماری حق پر مبنی آواز کو ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہم میدان میں رہیں گے، ہم آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہیں گے۔ سرنڈر اور خود سپردگی ایک مسلمان کا شیوہ ہرگز نہیں ہے۔ آج میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں تو یہ حکومت کس جمہوریت کی بات کرتی ہے، یہ میڈیا پر پابندی تو جمہوریت کا قتل ہے۔ اس ظلم کے خلاف بھارت کی تمام ریاستوں کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیئے، کیونکہ آج جموں و کشمیر کی باری ہے تو کل کسی اور ریاست کی باری آئے گی۔ یہ ظلم پھر ایک جگہ پر اکتفا نہیں کرتا ہے۔
اسلام ٹائمز: کرگل کی عوام پر بھارتی حکومتوں نے سالہا سال تک یہ کوشش کی کہ انہیں کشمیر سے الگ رکھا جائے، آپ کرگل کے عوام کی امنگوں کی کن الفاظ میں ترجمانی کرنا چاہیں گے۔؟
غلام رسول نقوی: ہمارا مستقبل کشمیر سے ہرگز جدا نہیں ہے، ہماری ایک ہی آواز ہے کہ ’’کشمیر کے مظلوموں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ ہمیں کوئی طاقت کشمیر سے الگ نہیں کرسکتی ہے۔ ظلم و تشدد کے خلاف ہم ملکر لڑیں گے۔ دشمن کی کوششیں ہمیشہ رہی ہیں کہ ہمیں تقسیم کیا جائے، دشمن کب خاموش بیٹھ سکتا ہے، دشمن کی آج بھی کوشش و سازش ہے کہ جموں و کشمیر کی عوام میں تفرقہ پھیلایا جائے، منافرت عام کی جائے اور ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنایا جائے۔ ہم نے ہمیشہ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنایا ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی باہمی اتحاد و اتفاق سے ہم دشمن کے عزائم خاک میں ملائیں گے۔ وقت آنے والا ہے کہ بھارت کے باشعور افراد بھی ہماری حق پر مبنی آواز کا ساتھ دیں گے۔ آئندہ ہم تنہا نہیں رہیں گے۔ بھارت کا ایک طبقہ یہ بات سمجھتا ہے کہ کشمیر میں اربوں ڈالر کی مالیت فوج پر صرف ہوتی ہے، اگر یہ سرمایہ بھارتی عوام پر خرچ کیا جائے تو بھارت ترقی و کامرانی کے مراحل طے کرسکتا ہے، یہ طبقہ چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیا جائے اور کشمیری عوام کو امن و چین سے رہنے دیا جائے۔
خبر کا کوڈ: 818273