پاکستان، چین اور ایران ایک قدرتی بلاک کا حصہ ہیں
امریکہ نے ہر دور میں زرخرید لوگوں کے ذریعے پاکستان کی سمت درست نہیں ہونے دی، طلال چوہدری
ایران اور سعودیہ کے درمیان کشیدگی کم کروانے کی کوشش کرنی چاہیئے
24 Sep 2019 09:43
سابق وفاقی وزیر اور پی ایم ایل این فیصل آباد کے رہنماء کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ اسد عمر اور رزاق داؤد نے ہمیشہ سی پیک منصوبوں پر تنقید کی اور انہیں مشکوک بنایا ہے، کالی بھیڑیں اگر تلاش کریں تو وزیراعظم ہاوس بھرا نظر آئیگا۔ انہوں نے بیانات دیئے تھے کہ ہم یہ ری وزٹ کرینگے، اس کے بعد چین کے ڈپٹی پرائم منسٹر کا بیان آیا تھا کہ ہاں، پاکستان اگر چاہے تو ان پر نظرثانی کرسکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ فیصل آباد کے رہنماء محمد طلال چوہدری 1973ء میں پیدا ہوئے، 2008ء میں پہلی دفعہ نون لیگ کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر آزادانہ حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا، لیکن کامیاب نہیں ہوئے، 2013ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سانئس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی پارلیمانی سیکرٹری رہے، وزیر مملکت برائے داخلہ رہے، 2018ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ سابق وزیر مملکت کیساتھ سی پیک منصوبے کے متعلق خدشات، ملکی سیاست، خارجہ تعلقات، ایران سعودی عرب کشیدگی، کشمیر کی صورتحال اور غیر یقینی کی کیفیت سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: سی پیک ایک اسٹریٹیجک منصوبہ ہے، لیکن موجودہ حکومت اسے ختم کرنیکی حد تک غیر سنجیدہ ہے، اس پر آپکا کیا موقف ہے۔؟
طلال چوہدری: یہ موجودہ حکومت سے بعید نہیں کہ یہ لوگ سی پیک بند کر دیں، لیکن یہ کر نہیں سکتے، کیونکہ یہ ایک قومی نوعیت کا منصوبہ ہے، البتہ اس میں سست روی موجود ہے، جو نہیں ہونی چاہیئے، باقی شعبوں کی طرح یہاں بھی ان کی نااہلی اور کمزوری ہی اس کی وجہ ہے، ہمارے دور میں نہ صرف گوادر تک بڑی بڑی شاہراہوں کو مکمل کیا گیا بلکہ ملک بھر میں چینی کمپنیوں کیساتھ مل کر چھوٹے چھوٹے منصوبوں پر بھی کام جاری تھا، جو انہوں نے بند کر دیا ہے، پھر یہ ہے کہ ہمارے معاہدے ہیں چین اور چینی کمپنیوں کیساتھ، اگر وہ مکمل نہیں کیے جائیں گے تو ملک کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچے گا، یہ کسی صورت میں نہیں ہونا چاہیئے کہ منصوبے نامکمل رہ جائیں یا ان پر کام کی مطلوبہ رفتار سے کام نہ ہو پائے، رہی بات اس حکومت کی تو کچھ نہ کچھ نہ تو ہے، جس کی وجہ سے حکومت میں آنے سے پہلے بھی انہوں نے سی پیک کی مخالفت کی اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا، جس کی وجہ سے چین کی طرف تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔
اسلام ٹائمز: ایسے کیا عوامل ہیں جنکی وجہ سے موجودہ حکومت کے متعلق یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انہیں سی پیک سے دلچسپی نہیں ہے، کیا اسکے پس پردہ کوئی عالمی سازش ہے۔؟
طلال چوہدری: ایک تو انہیں علم نہیں کہ ملک کے مفاد اور ترقی کا راستہ کیا ہے، دوسرا یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ان کا جھکاؤ امریکہ کی طرف ہے، حالانکہ کسی بھی دور میں یہ ہمارے مفاد میں نہیں رہا، لیکن چین نے ہمیشہ متوازن پالیسی رکھی ہے، چین خاموشی سے کام کرتا ہے، تعاون جاری رکھتا ہے، ابھی کشمیر پر بھی مکمل حمایت کا اظہار کیا گیا ہے، لیکن یہ حکومت دوسرے عالمی اداروں کو ڈیل کرنے کے حوالے سے گھبراہٹ کا شکار ہے، جیسے آئی ایم ایف ہے یا دوسرے ادارے ہیں، یہ امریکہ کا اور آئی ایم ایف کا پریشر برداشت نہیں کر پا رہے، ان کے آگے ڈھیر ہوگئے ہیں، اسی لیے پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ خاتوں نے کہا ہے کہ پاکستان نے سی پیک کے متعلق جتنی دستاویزات تھیں، وہ ہمیں دے دی ہیں، اس ناکام حکمت عملی وجہ سے شارٹ ٹرم مقصد کی وجہ سے لانگ ٹرم جو اہداف ہیں، ان کا نقصان ہو رہا ہے، جس کے اثرات آنا شروع ہوچکے ہیں، لیکن اگر یہ حکومت رہتی ہے تو بہت زیادہ نقصان ہوگا، اگر یہ پالیسیاں جاری رہتی ہیں، بلکہ یہ جو پالیسی کا فقدان ہے، کچھ عرصے میں پانی سر سے گذر جائیگا، ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
اسلام ٹائمز: چین اور امریکہ کے مفادات کا ٹکراؤ تو جاری رہیگا، پاکستان امریکہ کیخلاف کھڑے ہونیکی پوزیشن میں نہیں، نہ ہی چین ایسا چاہتا ہے، تو بہترین راستہ کیا ہے۔؟
طلال چوہدری: ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ ہمارا قومی مفاد ہماری ترجیح ہے، دوسرے نمبر پہ یہ کہ تنہا کوئی ملک ترقی کا سفر طے نہیں کرسکتا، اس لیے علاقائی طور پر اعتماد کی فضاء پیدا کرنا ہر ملک کیلئے ضروری ہے، جب ہم اپنے خطے میں دیکھیں تو چین، ایران اور پاکستان قدرتی طور پر اکٹھے ہیں، ابھی چین نے ایران میں چار کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا ہے، یہ ہماری اصل پوزیشن بنتی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ یا کسی اور طاقت کیساتھ مخاصمت جاری رکھی جائے، لیکن امریکی مفادات اپنی جگہ پر ہیں، دیکھیں تو وہ اعلانیہ یہ کہہ چکے ہیں کہ سی پیک بند کر دیا جائے، اس کو بہانہ بنا کر انہوں پاکستان کیخلاف سخت پالیسی اپنائی، امداد اور فنڈنگ ختم کی، اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ پاکستان کے اندر بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا ہے، تاکہ ان کی مرضی کے مطابق حالات کو رخ دیا جا سکے۔
ہماری حکومت کیخلاف جو تحریک چلائی گئی، اس کے متعلق کئی ایشے شواہد موجود تھے اور ہیں کہ عالمی طاقتیں ہماری حکومت سے نالاں تھیں، اس میں سرفہرست معاملات میں سے سی پیک بھی تھا، لیکن پی ایم ایل این کی قیادت نے اس پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا، اب یہ حقائق آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں، پی ٹی آئی کے دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا اور کئی معاہدے تاخیر کا شکار ہوئے، جس کی وجہ سے منصوبوں میں تاخیر ہوئی، جو ہماری حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک تعطل کا شکار ہیں، اب یہی کام احتساب کے نام پر نظام مملکت کو مفلوج بنا کر کیا جا رہا ہے، اس میں اندرونی سیاست کا عمل دخل بھی ہے، اور بیرونی طاقتیں بھی اپنا کام دکھا رہی ہیں، اس کا حل صرف عوام کی منتخب شدہ حقیقی قیادت کے پاس ہے، کٹھ پتلی حکمرانوں کے بس کی بات نہیں۔
اسلام ٹائمز: کیا پاکستانی اداروں میں امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کیلئے کام کرنیوالی کالی بھیڑوں کی موجودگی کیوجہ سے ملک مشکلات کا شکار ہے، کیا ارباب اقتدار اس سے بے خبر رہتے ہیں۔؟
طلال چوہدری: یہ تو ہم جانتے ہیں کہ داخلہ امور کا بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے، بیرون ملک تعلقات کیساتھ، جیسے بھارت نے کراچی کو تباہ کرنیکے لیے وہاں سیاسی اور نسلی فسادات کا بازار گرم رکھا، اسی طرح خارجہ امور، اقتصادی شعبہ اور ملکی دفاع کا باہمی تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، پھر چین کیساتھ ہمارے تعلقات اقتصادی بھی ہیں اور معاشی بھی، کوئی مذہبی تعلق تو ہے نہیں، لیکن چینی منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے پورے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد بھی کروایا جاتا رہا اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ذریعے بھی ملک کی اقتصاد کو تباہ کیا گیا ہے، بظاہر یہ معاملہ امن و امان سے مربوط نظر آتا ہے، جس کی ذمہ داری داخلہ امور کے اداروں کی بنتی ہے، لیکن یہ اتنا گھمبیر ہوگیا کہ جس سے ملکی سلامتی داؤ پہ لگ گئی، پھر دفاعی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑا، اسی کو نئے دور کی جنگ کہا جا رہا ہے، اسی طرح خارجہ امور کو لے لیں۔
جو عالمی ادارے پاکستان کیخلاف دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال ہو رہے ہیں، وہ بھی اقتصادی پالسییوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، یہ چیلنجز ہر ملک کو درپیش رہتے ہیں، جن سے ملک کو نکالنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان سب امور کو ایک سمت میں لیکر چلانے کی ذمہ داری ایک ہی شخص کے پاس ہوتی ہے، جو سب سے اعلیٰ منصب پر فائز ہوتے ہیں، ہمارے ملک میں وہ وزیراعظم ہوتے ہیں، سکیورٹی اس دور کا سب سے اہم مسئلہ ہے، لیکن کوئی مشیر ہی نہیں، بلکہ یہ ذمہ داری آرمی چیف ادا کر رہے ہیں، یہ بھی نظر آرہا ہے کہ ان اہم ترین چاروں شعبوں کو آگے بڑھانے اور ایک سمت میں رکھنے میں وزیراعظم سے زیادہ آرمی چیف کا رول ہے، پھر قیادت کہاں ہے، وزیراعظم کا نہ ہونا ہی بہتر ہے، اب ان شبہات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ فارن آفس جیسی جگہوں پر ایسے بااثر افراد موجود ہیں، جو غیر ملکی طاقتوں کیلئے کام کر رہے ہیں، اسی طرح معاشی اداروں میں بھی ایسے افراد ہیں، جو پاکستان کو مغربی طاقتوں کے چنگل سے نکلنے نہیں دے رہے، چین کیطرف عملی طور پر بڑھنے نہیں دے رہے۔
اداروں میں ایسے افراد کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ہماری آرمڈ فوسرز میں بھی مسلح افواج اور ملک کی مایہ ناز ایجنسیوں دفاعی اداروں میں بالکل ٹاپ پہ بیٹھے ہوئے ایجنٹوں کو گرفتار کیا گیا، انہیں انجام تک پہنچایا گیا۔ اسی وجہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ باقی اداروں میں بھی چھان بین ہونی چاہیئے کہ پالیسی کو ایک سمت دینے میں بنیادی رکاوٹ کیا ہے، یہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ غیر ملکی مفادات کی نگرانی ہمارے اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ کی جا رہی ہو۔ اپنا گھر درست کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے، ایسے افراد کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے، جو ہماری پالیسی کو درست سمت میں جانے ہی نہیں دے رہے۔ اس کی مثال سی پیک کے اہم شعبوں اور ذرائع کا بند ہونا ہے۔ اربوں روپے کی زمین بیچ دی گئی ہے، لیکن کوئی انفراسٹرکچر نہیں بنایا گیا ہے، کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ چین ہمیشہ پاکستان کیساتھ کھڑا رہا، لیکن ہم ان کے معیار کے مطابق کسی بھی کام کا آغاز نہیں کرسکے، ہم تو گوادر کو پانی اور بجلی نہیں دے سکے، گوادر میں استعمال ہونے والی بجلی ایران سے آرہی ہے، جب یہ پوزیشن ہے تو چین نے کیوں سرمایہ کاری نہیں کرنی ایران میں، ایران کو پاکستان کی نسبت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے، انکا ایجنڈا بھی پاکستان سے وسیع ہے، جس پر وہ ہمہ جہت انداز میں کام کر رہے ہیں، ہمیں بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔ اسد عمر اور رزاق داؤد نے ہمیشہ سی پیک منصوبوں پر تنقید کی اور انہیں مشکوک بنایا ہے، کالی بھیڑیں اگر تلاش کریں تو وزیراعظم ہاوس بھرا نظر آئیگا۔ انہوں نے بیانات دیئے تھے کہ ہم یہ ری وزٹ کرینگے، اس کے بعد چین کے ڈپٹی پرائم منسٹر کا بیان آیا تھا کہ ہاں، پاکستان اگر چاہے تو ان پر نظرثانی کرسکتا ہے، پھر شہباز شریف پر الزام لگایا گیا، چینی وزارت خارجہ نے اس کی مذمت کی، جس کے بعد چین نے پاکستان میں جاری تمام منصوبوں پر کام کی رفتار سست کر دی۔
اسلام ٹائمز: وزیراعظم کی معاشی پالسییوں اور دورہ امریکہ کے متعلق آرمی چیف بھی اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں، اسکے باوجود یہ خدشات موجود ہیں۔؟
طلال چوہدری: موجودہ وزیراعظم تو وائٹ ہاوس کی ایک چائے پہ بک جاتے ہیں، صدر ٹرمپ کی ایک چائے پہ انہوں نے کشمیر کو کاٹ کر مودی کے حوالے کر دیا، جب ہوش آیا تو ایٹمی جنگ کی باتیں شروع کر دیں، اب امریکہ گئے ہیں تو کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ سے کہہ رہا ہوں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، جب وہ امریکہ کو بار بار کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں مسئلے کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہیں تو کشمیر پر بھی انکی یہی پالیسی ہے، پوری وفاقی کابینہ یہ کہہ رہی ہے کہ چین ہمارا قابل اعتماد دوست ہے، وزیراعظم وائٹ ہاوس میں کیوں کہہ رہے کہ سپر پاور ہونیکے ناطے امریکہ مسئلہ کشمیر حل کروائے، خطے کو جنگ کی لپیٹ میں نہیں آنا چاہیئے، پھر انہوں نے ٹرمپ سے مودی کیساتھ جلسہ کرنے پر کوئی احتجاج نہیں کیا، نہ اس کی مذمت کی۔ یہ اندر سے ڈرپوک ہیں۔ اس پر ہم جتنی جلدی قوم کو آگاہ کرینگے، بہتر ہوگا، جتنی تاخیر کرینگے، اتنی ہی تباہی آئے گی، جو گھناونا کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس سے پاکستان کا مستقبل مخدوش ہوسکتا ہے، اس پر بات کرنا قومی فریضہ ہے، اس پر تامل کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: عمران خان نے امریکہ جانے سے قبل سعودی عرب کا دورہ بھی کیا ہے، حالانکہ عرب ممالک نے ایران اور ترکی کیطرح کشمیر پر بات ہی نہیں، کیا کہیں گے۔؟
طلال چوہدری: سعودی عرب ہمارا دوست ملک ہے، لیکن کشمیر پر بھارت کی ہمنواء نہیں بھی ہیں تو پاکستان کو ٹھنڈا کرنیکی کوشش کرینگے، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سی پیک کے مخالف ممالک میں سب سے زیادہ عرب ممالک ہی ہیں، جسکا ہمیں احساس نہیں، یہ بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے قریب ہیں، یہ تینوں ممالک پاکستان کے دشمن اور چین کے حریف ہیں، اسی لیے تو یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سی پیک اگر کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کو لگام ڈالنا مشکل ہو جائیگا، میں پھر کہوں گا کہ پی ایم ایل این کی حکومت کا خاتمہ اسی لیے کیا گیا کہ جس رفتار کیساتھ ہماری حکومت نے اس پر کام کیا اور چین نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا، وہ دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا، بھارت ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے، جس کا نام ہے Destroy CPEC، کشمیر پر جو ملک بھارت کیساتھ کھڑا ہے یا مودی کیساتھ اسٹیج پہ تقریریں کی جا رہی ہیں، ان سے کیا توقع ہوسکتی ہے۔
ہاں ایران اور سعودیہ کے درمیان کشیدگی کم کروانے کی کوشش کرنی چاہیئے، ایران پاکستان کا ہمسایہ دوست ملک ہے، جنگ سے مزید نقصان ہوگا، لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے، جیسے چین اور امریکہ میں سے حکومت کا جھکاو امریکہ کی طرف ہے، یہاں ہمارا جھکاؤ کسی ایک طرف نہیں ہونا چاہیئے، مصالحت کروانے کی کوشش کرنی چاہیئے، یہ تب ہوسکتا ہے، جب وزرات خارجہ کی باگ ڈور قابل اعتماد لوگوں کے ہاتھ میں ہو اور جہاں آپ جائیں، انہیں علم ہو کہ ان کے پاس کشکول نہیں ہے، یہ برابری کی سطح پر بات کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جو صورتحال ابھی ہے، یہ قابل شرم ہے، جو لوگ سی پیک کے مخالف ہیں اور حکومت میں براجمان ہیں، ان کی موجودگی میں یہ تصور کرنا ممکن نہیں کہ کشمیر پہ سودا بازی نہیں کرینگے۔ کشمیر میں جو کھیل شروع کیا گیا ہے، اس کا اصل نشانہ سی پیک ہے، بدقسمتی سے اس ایشو پر عرب ممالک بھارت کے ساتھ ہیں۔ سی پیک کو سست روی کا شکار کرکے ختم کرنیکی باتیں بے بنیاد نہیں ہیں، موجودہ حکومت اسی راستے پہ چل رہی ہے۔
خبر کا کوڈ: 817975