عالم اسلام میں اسوقت صرف دو ہی ممالک ہیں جنہوں نے اسلام کی لاج رکھی ہے، ایک ایران ہے اور دوسرا ترکی
پاکستان کے بعد ایران وہ واحد ملک ہے جسکی پارلیمنٹ میں کشمیریوں کیساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد پاس کی گئی ہے، صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
21 Sep 2019 17:54
''اسلام ٹائمز'' کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس وقت ثالثی کی رٹ لگانے والا ٹرمپ کشمیریوں یا مسلمانوں کا خیرخواہ نہیں ہے، جو اُسے مسلمانوں کا خیرخواہ سمجھ رہے ہیں، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، جن ممالک نے امریکہ پر بھروسہ کر رکھا ہے، وہ بہت جلد اپنے انجام کو پالیں گے۔
ملی یکجہتی کونسل اور جمعیت علمائے پاکستان (نوارنی) کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا شمار ملک کے اہم مذہبی و سیاسی رہنمائوں میں ہوتا ہے، ملک میں نظام مصطفیٰ (ص) کا نفاذ انکی جماعت کا مشن ہے۔ اسلام ٹائمز نے صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر سے ملتان آمد پر مسئلہ کشمیر اور عالم اسلام کے کردار پر ایک انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے پاکستانی حکومت کی کارکردگی کس حد تک قابل اطمینان ہے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: بسم اللہ الرحمن الرحیم، حالیہ بھارتی دراندازی میں پاکستانی حکومت کا کردار افسوسناک ہے اور کسی بھی طرح تسلی بخش یا قابل اطمینان نہیں ہے، پاکستان کو سفارتی محاذوں پر جس طرح اقدامات کرنے تھے وہ یکسر ناکام نظر آتے ہیں، نریندر مودی ظلم کے باوجود دنیا میں اپنی سفارتی کامیابیاں حاصل کر رہا ہے، دنیا میں کشمیری مسلمان مظلوم ہونے کے باوجود بھی اپنی حمایت حاصل نہیں کرسکے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت نے مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی صحیح معنوں میں ترجمانی نہیں کی، وزارت خارجہ میں ڈیسک کے بنانے سے یا کمیٹیاں تشکیل دینے سے کشمیریوں کے لیے حمایت حاصل نہیں کی جاسکتی، اس کے لیے جہد مسلسل کی ضرورت ہے، پاکستان کو جن ممالک پر ناز تھا آج پاکستان اُن کی حمایت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہا ہے جو کہ خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اسلام ٹائمز: مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم پر عالم اسلام کا کردار کیسا ہے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر عالم اسلام کا کردار مجرمانہ ہے، مسئلہ کشمیر پر عالم اسلام کا کردار ویسے ہی جیسے مسئلہ فلسطین، شام، عراق، بحرین اور یمن کے لیے ہے، بدقسمتی کے ساتھ عالم اسلام سے زیادہ غیرمسلم ممالک کا کردار مسئلہ کشمیر پر بہتر نظر آتا ہے، عالم اسلام میں اس وقت صرف دو ہی ممالک ہیں جنہوں نے اسلام کی لاج رکھی ہے، ایک ایران ہے اور دوسرا ترکی، ان دو ممالک نے کھل کر پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کی حمایت کی ہے، پاکستان کے بعد ایران وہ واحد ملک ہے جس کی پارلیمنٹ میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد پاس کی گئی ہے، پاکستان کے بعد ایران ہی وہ پہلا ملک ہے جس کے مختلف شہروں میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ریلیاں نکالی گئیں، حالانکہ ایران کے بھارت کے ساتھ چاہ بہار بندرگاہ پر معاشی اور تجارتی تعلقات ہیں لیکن ایرانی قوم اور لیڈرشپ نے ان تمام تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی ہمدردیوں کا اظہار کشمیریوں کے ساتھ کیا ہے۔ کاش دنیا میں موجود مسلم ممالک کشمیری مسلمانوں کے حق میں ایک ایک بیان بھی دے دیتے تو آج دنیا میں مسئلہ کشمیر اس طرح بے یارومددگار نہ ہوتا۔
اسلام ٹائمز: عالم اسلام کشمیر میں ہونیوالے مظالم پر کیوں خاموش ہے، کیا تجارتی و معاشی تعلقات آڑے ہیں یا کچھ اور۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: صرف معاشی تعلقات ہی نہیں بلکہ منافقانہ اور آمرانہ تعلقات بھی ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کے عرب ممالک اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاشی معاہدے اور تعلقات موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کی خواہش بھی یہی ہے کہ یہ عرب ممالک کشمیر کی بجائے بھارت کا ساتھ دیں، اس وقت ثالثی کی رٹ لگانے والا ٹرمپ کشمیریوں یا مسلمانوں کا خیرخواہ نہیں ہے اور جو اُسے مسلمانوں کا خیرخواہ سمجھ رہے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، جن ممالک نے امریکہ پر بھروسہ کر رکھا ہے وہ بہت جلد اپنے انجام کو پالیں گے۔ یہ معاشی تعلقات عارضی ہیں لیکن اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سید علی گیلانی کی دہائی ان کو لے ڈوبے گی اور آہستہ آہستہ ان کا معاشی زوال شروع ہو جائے گا۔
اسلام ٹائمز: سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے 39 ممالک کے اسلامی اتحاد نے ابھی تک عالم اسلام کے کسی مسئلہ کو حل کرنیکی کوشش کی ہے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی اسلامی ممالک کا اتحاد نہیں تھا صرف مختلف ممالک کی حمایت حاصل کرکے ایک ایسی فوج بنائی گئی تھی جو صرف آل سعود کی حفاظت کرے، بھلا ایسے اسلامی اتحاد سے آپ مدد کی کیا توقع رکھیں گے جس کی افتتاحی تقریب میں ٹرمپ مہمان خصوصی ہوں؟ مجھے تو پہلے دن سے ہے معلوم ہوگیا تھا کہ اس کا وجود ذاتی مفاد اور بچائو کے لیے ہے نہ کہ کسی مسلم ملک کی حفاظت کے لیے، آج کشمیر میں جاری کرفیو کو 40 سے زیادہ دن ہوگئے ہیں لیکن اس اتحاد نے چُپ سادھ رکھی ہے، ہر جمعہ کو فلسطینی زخمی اور شہید ہوتے ہیں لیکن یہ اسلامک ملٹری الائنس خاموش ہے، اسی طرح شام، عراق، روہنگیا، برما، بحرین اور یمن میں انسانی قدروں کی پامالی ہو رہی ہے لیکن یہ اسلامی ملٹری الائنس خاموش ہے، آپ اس حوالے سے بے فکر رہیں کہ یہ الائنس کبھی بھی نہیں بولے گا کیونکہ اسے اجازت ہی نہیں ہے۔
اسلام ٹائمز: امریکی صدر ٹرمپ بار بار مسئلہ کشمیر میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہہ رہے ہیں، کیا پاکستان کو امریکی صدر کی ثالثی قبول کرلینی چاہیئے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: ٹرمپ کی ثالثی کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے ہٹلر کو نوبل انعام دیا جائے، ٹرمپ جیسے شاطر اور غیرمستقل مزاج لیڈر کوئی نہیں ہے، امریکیوں نے کبھی بھی اسلام، مسلمان اور پاکستان کے ساتھ وفاداری نہیں کی اور اب بھی ہمیں اس سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے، یہ فاشسٹ انسان ہمیشہ بھارتی مفادات کو ترجیح دے گا، پاکستانی حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینے ہوں گے اور ٹرمپ کے بیانات کو سنجیدہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ٹرمپ جیسا انسان قابل اعتبار نہیں ہے اور اس کے پس پردہ بھارت کے ساتھ مفادات ہیں، اس وقت نرنیدر مودی، بنیامین نیتن یاہو اور امریکی صدرکا گٹھ جوڑ ہوچکا ہے، ان اسلام دشمن حکمرانوں کا اگلا شکار کشمیر ہے ہمیں مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر سے ملاقات پر بغلیں بجانے والے افراد اپنے ایمان کا سودا نہ کریں بروز محشر وہ کیا جواب دیں گے۔
اسلام ٹائمز: بعض عرب ممالک کیجانب سے بھارتی وزیراعظم کو ایوارڈ اور تمغہ سے نوازا گیا ہے، کیا ایسے وقت میں یہ تقاریب کشمیری مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر نہیں ہیں۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: میں سمجھتا ہوں کہ جن ممالک نے گجرات کے قصائی کو ایوارڈ اور تمغوں سے نوازا ہے اُنہوں نے اسلام اور مسلمان دشمنی کا کھل کر ثبوت دیا ہے، ایک طرف کشمیر جل رہا ہے، کرفیو ہے، خوراک اور ادویات کی قلت سے لوگ مر رہے ہیں دوسری طرف عرب کے حکمران اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مصروف ہے، یہی وقت ہے جب اُنہوں نے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کا استوار کرنا ہے، آج کشمیریوں سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں یہ کیسے اسلامی ممالک ہیں جو اسلام کا راگ بھی الاپتے ہیں اور مسلمانوں کے قاتل کو ایوارڈ بھی دیتے ہیں، ایک طرف عرب کے یہ حکمران مودی کو ایوارڈ دے رہے تھے تو دوسری طرف شہداء کی مائوں کے دلوں پر خنجر چل رہے تھے۔ کاش پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو آج اس بات کا احساس ہو جائے کہ ملک کا اور قوم کا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے، پاکستان میں ان عرب ممالک کی فنڈنگ سے چلنے والے افراد آج کیوں خاموش ہیں؟ آج اُن کی حب الوطنی کہاں ہے؟ آج ہمیں اور ہمارے پالیسی ساز اداروں کو سوچنا ہوگا کہ ''سب سے پہلے پاکستان''، جن ممالک نے مشکل کی اس گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ہے ہمیں اُن کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ: 817532