ہم اسلام آباد میں دھرنا دیکر عمران خان کو جانے کا راستہ دینا چاہتے ہیں
چند سرمایہ داروں نے کٹھ پتلی وزیراعظم کے ذریعے پاکستانی قوم کو یرغمال بنا لیا ہے، سائرہ افضل تارڑ
19 Sep 2019 21:42
پی ایم ایل این کی رہنماء اور سابق وفاقی وزیر کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ملک کی کیا صورتحال ہو جاتی ہے، جب اسلام آباد کا لاک ڈاون ہو جاتا ہے تو، لیکن یہ کسی کے اشارے پہ نہیں ہو رہا، نہ ہمیں اسکا شوق ہے، لیکن یہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ پی ایم ایل این ایک جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعت ہے، خود پی ٹی آئی نے ایک نیا کلچر دیا ہے، اب ہم انہی کے بتائے راستوں پہ چلنے کیلئے مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون پاکستان کی رہنماء سائرہ افضل تارڑ 1966ء میں پیدا ہوئیں، 2008ء سے 2018ء تک حافظ آباد سے رکن قومی اسمبلی رہیں، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ کے ادوار میں صحت کی وزیر رہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال، نیب کیطرف سے اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں، مولانا فضل الرحمان کی طرف سے اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی کال، موجودہ حکومت کی کارکردگی، مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی سمیت اہم ایشوز پر انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: جو اپوزیشن رہنماء نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں، انکی جائیدادوں کی طویل فہرست سامنے آتی ہے، کیا اس لوٹ مار کو روک کر شفافیت سے سیاست کرنا ممکن نہیں۔؟
سائرہ افضل تارڑ: کرپشن پوری دنیا میں ہوتی ہے، اس سے انکار نہیں، لیکن نیب کی موجودہ کارروائیاں مکمل طور پر تعصب پہ مبنی ہیں، کرپشن تو یہ حکومت کر رہی ہے، انہوں نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بااثر صنعت کاروں، کھاد فیکٹریوں، سی این جی اسٹیشنز اور پاور پلانٹس کے مالکان کو 208 ارب روپے معاف کیے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ رقم مختلف کمپنیوں اور صنعت کاروں نے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں غریب کسانوں اور عوام سے پانچ سال کے دوران وصول کی تھی۔ حکومتی اقدامات سے لگتا یہی ہے کہ سارے دکھ اٹھانے کے لئے ملک میں صرف غریب طبقہ ہی رہ گیا ہے۔ بڑے مگرمچھ تو کسی نہ کسی طرح اپنی گردن چھڑا لیتے ہیں۔ کیا عوام پوچھ سکتے ہیں کہ ان بڑے مگرمچھوں کو اتنی بڑی رقم معاف کیوں کی گئی؟ حالانکہ ان سے ملنے والی اس رقم کو ایران پاکستان گیس پائپ لائن، ٹاپی منصوبے اور توانائی کے دیگر شعبوں میں صرف کیا جانا تھا، اب ان منصوبوں کے لئے عوام پر کون سا سرچارج لگایا جائے گا۔؟
خبر تو یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم کی معافی کے ساتھ ان بااثر کمپنیوں کے مالکان کے لئے گیس سرچارج کے نرخ بھی 50 فیصد کم کر دیئے جائیں گے، بڑے سرمایہ داروں کو اس طرح کی معافیاں دینے سے پہلے غریب عوام کا سوچ لینا چاہیئے، جو ٹیکسوں اور مختلف سرچارجوں کی مدوں میں بہت کچھ حکومت کو پہلے ہی ادا کر رہے ہیں، لیکن اس حکومت کو اپنی کرپشن نظر نہیں آرہی، اس قسم کے آرڈیننس جاری کرنے سے پہلے عوام کی حالت زار پر توجہ کر لینی چاہیئے تھی کہ بڑے مگرمچھوں کو معافیاں دینے کی بجائے ان سے رقوم نکلوا کر اسے قومی خزانے میں جمع کرائی جائیں اور اسے ملکی تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے، تاکہ امیروں کی بجائے ملک کے غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، چند صنعتکاروں اور سرمایہ داروں نے کٹھ پتلی وزیراعظم کے ذریعے پاکستانی قوم کو یرغمال بنا لیا ہے۔
اسلام ٹائمز: نواز شریف بھی ڈیل سے انکار کر رہے ہیں، وزیراعظم بھی، کیا یہ درست ہے یا پہلے کیطرح جب اپوزیشن رہنماؤں کے جہاز بیرون ملک اتریں گے تو عوام کو پتہ چلے گا کہ ایک نیا معاہدہ ہوگیا ہے۔؟
سائرہ افضل تارڑ: دیکھیں جی ہم نے تو کوئی بھی ڈیل کی بات نہیں کی، یہ باتیں شروع سے ہی پی ٹی آئی کے لوگ کر رہے ہیں، اگر ہماری قیادت نے ڈیل کرنا ہوتی تو وہ اب تک جیلوں میں کیوں ہوتے، شریف خاندان کے تین بچے اور خود میاں نواز شریف جیل میں قید ہیں، جہاں تک عمران خان کی طرف سے ڈیل اور این آر او کی باتوں کا تعلق ہے، ان کے پاس اب کہنے کیلئے کچھ ہے ہی نہیں، اس لیے وہ شور مچاتے ہی رہتے ہیں، انکا مقصد ہی صرف میڈیا کو کسی نہ کسی طرف لگائے رکھنا ہے، لیکن اب عوام ان کی باتوں اور ان شوشوں میں نہیں آنے والے، ہر طرف سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ حکومت نہیں چل رہی، ہمارا بھی یہ موقف ہے کہ ان کو اب گھر جانا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: کیا اس مقصد کیلئے نون لیگ مولانا فضل الرحمان کے حکومت مخالف مارچ اور وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے کیساتھ کھڑی رہیگی۔؟
سائرہ افضل تارڑ: ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اور ہم یہ طے کرچکے ہیں کہ کسی سیاسی اور جمہوری حکومت کو گھر نہیں بھیجنا چاہیئے، اب جو استعفے اور نئے الیکشن کی بات ہو رہی ہے، یہ ہماری سیاسی پالیسی سے زیادہ عوام کا پریشر ہے، جس کی وجہ سے ہم اس مارچ اور احتجاج کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اب ایک عوامی نمائندہ جماعت ہونے کی حیثیت سے اگر ہم باہر نہیں نکلتے اور لوگوں کو اس کٹھ پتلی حکومت سے نجات دلانے کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو قوم ہمیں کبھی معاف نہیں کرے، یہ ہماری سیاسی مجبوری بھی اور قومی ذمہ داری بھی۔ ان کی غلطیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے لوگ دلبرداشتہ ہوچکے ہیں، لیکن لوگ خود کچھ نہیں کرسکتے، بطور سیاسی ورکر اور ایک عوامی جماعت ہونیکے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ لوگوں کیلئے، عوام کے حقوق کیلئے آواز اٹھائیں، باہر نکلیں، نہ صرف عوام کیلئے بلکہ پاکستان کی بقاء اور سلامتی کیلئے۔
عام آدمی کی صورتحال جاننے والا ہر شخص یہ بتا سکتا ہے کہ یہ احتجاج کتنا ضروری ہے اور اس کی شدت کا اندازہ حکمرانوں کو نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ملک کی کیا صورتحال ہو جاتی ہے، جب اسلام آباد کا لاک ڈاون ہو جاتا ہے تو، لیکن یہ کسی کے اشارے پہ نہیں ہو رہا، نہ ہمیں اسکا شوق ہے، لیکن یہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ پی ایم ایل این ایک جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعت ہے، خود پی ٹی آئی نے ایک نیا کلچر دیا ہے، اب ہم انہی کے بتائے راستوں پہ چلنے کیلئے مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، ہم نے جب بھی ساتھ مل کر کام کرنے اور ملک کی ابتر صورتحال بہتر بنانے کیلئے بات کی ہے، حکومت نے واویلا شروع کر دیا ہے کہ یہ لوگ ڈیل اور ڈھیل چاہتے ہیں، حالانکہ یہ خود مانگ رہے ہیں، یہ این آر او کر ہی نہیں سکتے، پھر کیسے یہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن ان سے مانگ رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: یہ جو 15 لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، کیا یہ ممکن ہے، اسلام آباد تو چند ہزار لوگوں کے جمع ہو جانے سے ہی بند ہو جاتا ہے۔؟
سائرہ افضل تارڑ: بات یہ ہے کہ اس کی وضاحت جے یو آئی بھی کرچکی ہے کہ پورے ملک میں موجودہ مہنگائی اور بے روزگاری کا زور ہے، لیکن حکومت میڈیا پہ قدغن لگا رہی ہے کہ اخبارات اور چینلز اس صورتحال کو اس طرح پیش کریں جیسے ملک میں مکمل سکون ہے، اسی طرح ملک کے ہر ضلع میں جو ملین مارچ ہوئے ہیں، وہ کسی کو نظر ہی نہیں آئے، مریم نواز نے جگہ جگہ ریلیاں نکالیں، کنونشن کیے، ان کی کسی کو خبر نہیں ہوئی، وہ لوگ کیسے گھروں سے نکلے تھے، اسی طرح اسلام آباد میں لاکھوں لوگوں کا آنا کوئی مشکل نہیں اور جب ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اس کی کال دے رہی ہوں تو کوئی مشکل نہیں۔ ملین مارچ کی جب بات ہوتی ہے تو یہ تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، جو طرز عمل پی ٹی آئی کا ہے، اس سے ہمیں یہ امید ہے کہ لوگوں کی تعداد 15 لاکھ سے بھی زیادہ ہوگی، ابھی یہ صورتحال ہے کہ کوئی حکومتی وزیر، رکن اسمبلی یا رہنماء حلقے میں جانے کی پوزیشن میں نہیں۔
یہ ایک گو عمران گو کا خاموش نعرہ ہے، جو وزیراعظم کو سنائی دے رہا ہے، ہم صرف اسلام آباد میں دھرنا دیکر انہیں راستہ دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا ٹارگٹ یہ پوری حکومت اور دھاندلی زندہ نظام ہے، جو چوری شدہ مینڈیٹ کے ذریعے پاکستانی عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ان کا اقتدار میں رہنا 22 کروڑ عوام کیلئے ہلاکت خیز ہے اور ہم آئیں گے تو ایک دن سے لیکر سال تک بیٹھیں گے، کسی بھی صورت میں چھوڑیں گے نہیں۔ پورا اسلام آباد ایک تعلیمی ادارہ بنائیں گے، پی ٹی آئی کی روش نہیں اپنائیں گے۔ یہ حکومت جبر کے ذریعے آئی ہے، جبری طور پر مسلط ہے، ان کا ہٹایا جانا ضروری ہے، اور یہ جو شوشا چھوڑا جا رہا ہے کہ ختم نبوت کے نام کو استعمال کیا جا رہا ہے، حکومت کیخلاف احتجاج کیلئے، ایسا نہیں ہے، اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں ایسی کوئی چیز طے نہیں ہوئی، ہمارا موقف بھی یہ ہے کہ دھاندلی زدہ حکومت کو جانا چاہیئے۔
نہ کوئی معاشی پالیسی ہے، یہ اقتصادی منصوبہ بندی ہے، روزگار کا برا حال ہے، تجارت اور صنعت تباہ ہوچکی ہے، پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے، اسکو تباہ کیا جا رہا ہے، لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ موجودہ حکومت غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے، انہیں پاکستان کی کوئی فکر نہیں، نہ ہی کوئی منتخب آدمی ان کے پاس موجود ہے، کشمیر پہ یہ غداری کے مرتکب ہوچکے ہیں، خارجہ پالیسی نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ لائن آف کنٹرول کے قریب رہنے والے افراد بہت پریشان ہیں، کیونکہ آئے روز وہاں گولہ باری ہو رہی ہے اور اگر حکومت نے کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی تو وہاں کے لوگ حکومت کے خلاف اسلام آباد کی طرف مارچ کرسکتے ہیں، اصل صورتحال تو یہ ہے، ریاستی ادارے بھی اسی تناظر میں صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: عمران خان دورہ سعودی عرب کے بعد امریکہ جائیں گے، اقوام متحدہ کے اجلاس میں کشمیر پہ بات کرینگے اور صدر ٹرمپ کی دعوت پہ کھانا بھی کھائیں گے، اس سے خطے کی صورتحال میں فرق پڑیگا۔؟
سائرہ افضل تارڑ: یہ پہلے بھی اسکو کامیابی قرار دے رہے تھے، اب پاکستانیوں اور کشمیریوں کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں کہ مسئلہ حل کروا دینگے، کوئی کشمیر نہ جائے، لیکن جو ذلت اور رسوائی عمران خان کی ہو رہی ہے، یہ دورہ امریکہ کا نتیجہ ہے، یہ پاکستان کی ستر سال کی تاریخ میں نہیں ہوا۔ اتنی ذلت اور رسوائی کسی جرنیل یا ساستدان کے حصہ میں نہیں آئی۔ پاکستان بین الاقوامی برادری کا حصہ ہے اور ہمارے ساتھی ہم سے ذمہ دارانہ رویئے کی توقع کرتے ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر ایٹمی جنگ کی باتیں کرنا ملک کے مفاد میں نہیں اور اس سے گریز کرنا چاہیئے۔ مسئلہ کشیمر کو اجاگر کرنے کا سہرا مودی کے سر ہے، عمران خان کے نہیں۔ کشیمر کا معاملہ مودی کی وجہ سے دنیا کے سامنے آیا۔ مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب اور عرب امارات ہمارے دوست ہیں، لیکن ہماری حکومت صرف ٹوئٹر پر متحرک رہی۔
جب پاکستانی قوم کشمیر آور کے تحت کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے سڑکوں پر کھڑی تھی، عین اسی روز پاکستان اور بھارت کے وفود کرتارپور راہداری پر تکنیکی سطح کی گفتگو میں مصروف تھے۔ حالانکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی کشیدگی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے، اس کے اثرات ہر سطح کے معاملات پر پڑتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سرحدوں پر گولہ باری بھی ہو رہی ہے اور کراسنگ پوائنٹ پر ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس صورتحال میں عوام کا مخمصے کا شکار ہونا اور تنقید میں وزن دکھائی دینا فطری امر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر بظاہر سخت ردعمل کا اظہار ہو رہا ہے، لیکن ساتھ ہی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا عمل اور عملی اقدامات کے تقاضے ایسے کیوں ہیں؟ جس سے کسی مفاہمت کا شبہ ہو۔
اس حکومت کی وجہ سے عملی طور پر مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہماری ہمدردی کمزور اور ناکافی ہے۔ دوسری جانب اس معاملے پر وہ یکجہتی و یگانگت، جس کا مظاہرہ ہمارا خاصا رہا ہے، نظر نہیں آیا، وزیراعظم کسی پاکستانی کیساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، اس سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے، بطور ذمہ دار پاکستان حکومت کیخلاف آواز اٹھانا ہمارا فرض ہے۔ آج دنیا کشمیر پر جو بھی کہہ رہی ہے، وہ بھارت کی وجہ سے ہے اور پاکستانی حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات اور میڈیا ٹاکس حقیقت میں سول حکومت کی سفارتی ناکامی کا اعتراف ہے۔
اسلام ٹائمز: حکومت کا دعویٰ ہے کہ مشکل معاشی صورتحال میں خسارہ کم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس لیے معاشی بحران کو سرے سے ختم کرنے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا۔؟
سائرہ افضل تارڑ: خسارے میں کمی کی وجہ حکومتی معاشی پالیسیاں نہیں بلکہ معاشی سرگرمیوں میں کمی اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی سست روی ہے۔ حکومت اب تک پیداوار یا آمدن بڑھانے میں ناکام رہی ہے۔ تنازعہ کشمیر نے ہماری معیشت کیلئے نئے چیلنجز پیدا کئے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے اپنے اخراجات نہ بڑھانے کا اعلان کیا، مگر بھارت نے کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرکے حالات کشیدہ بنا رکھے ہیں۔ اس کشیدگی میں تازہ اضافہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرکے کیا گیا۔ اس سے کاروباری افراد کیلئے بھارت کی جانب سے جارحیت کا خطرہ تشویش کا باعث ہے، مگر حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کے ناگہانی بحران میں بھی حواس درست نہیں، اس لیے معاشی نمو میں اضافہ جاری نہیں رہ سکتا۔ اللہ نہ کرے کہ جنگ ہو۔ جنگ ہمارا انتخاب نہیں، لیکن اگر ایسا ہوا تو فوجی سپلائز بڑھ جاتی ہیں، ضروریات کی مختلف چیزوں کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور معیشت کے بہت سے خوابیدہ سیکٹر بیدار ہو جاتے ہیں، ساتھ ہی مسائل بھی جنم لیتے ہیں، جن مسائل کا حل موجودہ حکمرانوں کے پاس نہیں، یہ رہے تو مسائل میں مزید اضافہ ہوگا، پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائیگا۔
اسلام ٹائمز: اپوزیشن کیطرف سے مقدمات کی واپسی کی باتیں بھی چل رہی ہیں، ساتھ ہی شریف برادران کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی بھی آرہی ہیں۔؟
سائرہ افضل تارڑ: شہباز شریف کے جب بھائی کے خلاف جانے کے امکانات تھے تو وہ نہیں گئے، اس لیے اب وہ نواز شریف کے مخالف کبھی کھڑے نہیں ہوں گے۔ جہاں تک مقدمات کی بات ہے تو ان تمام افراد کے خلاف تحقیقات ہونی چاہیئیں، جن پر مقدمات ہیں، صرف چند افراد کو نشانہ بنانا ٹھیک نہیں ہے، یہ حکومت کے خلاف نقصان دہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے وعدے کیے گئے تھے کہ حکومتی خرچے کم ہوں گے، کابینہ محدود ہوگی، پسند نہ پسند کا معاملہ نہیں ہوگا، لیکن کسی پر بھی عمل نہیں کیا گیا اور وہ سب کیا جا رہا ہے، جو گذشتہ حکومتیں کرچکی ہیں اور عمران خان جن کے خلاف تھے۔ ہر آنے والا وزیراعظم چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ جی حضور کرنے والے افراد ہوں اور وہی افراد انہیں پھنسا بھی دیتے ہیں، لیکن وہ وزیراعظم آنے کے بعد پھر یہی غلطی دہراتے ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں کوئی حکومت نہیں گئی، اس لیے موجودہ حکومت کو بھی فرق نہیں پڑے گا۔ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی صفر ہے، سوائے گرفتاریوں کے کوئی کام نہیں کیا گیا۔
خبر کا کوڈ: 817184