QR Code
عراقی قومی تنظیم "حکمت" کے رکن کیساتھ خیبر کی گفتگو
اسرائیل کی نابودی حسینیوں کے ہاتھوں ہوگی، امام حسین (ع) کے پرچم تلے عالمی حشدالشعبی کی تشکیل ممکن ہے
12 Sep 2019 12:18
عراق کی قومی اسلامی تنظیم "حکمت" کی جنرل اسمبلی کے سربراہ ’’شیخ حمید معلہ الساعدی‘‘ کا اپنے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ اربعین مارچ عام لوگوں پر بہت اثرانداز ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوگا اور ایثار و فداکاری جیسے اقدار کی مثالیں پیش کرتا رہے گا۔ اربعین مارچ نہ صرف اسلامی مزاحمتی تحریک بلکہ غیر اسلامی تحریکوں پر بھی اثر انداز اور انکے عزم و ارادوں کو مضبوط بنا رہا ہے اور ثبات و ترقی کے مختلف دروس انہیں دے رہا ہے، یہاں تک کہ جب مزاحمتی قوتیں اس ملین مارچ کو دیکھتی ہیں تو احساس کرتی ہیں کہ بشریت کا ایک سیلاب انکے ساتھ ہے اور ہمیشہ انکے ساتھ رہیگا، یہ چیز انقلابیوں کے ارادوں کو مضبوط بناتی ہے اور وہ تیزی کیساتھ اپنے مقاصد کیطرف بڑھتے ہیں۔ صہیونی ریاست کو یہ یقین ہے کہ اسے حسینی راہ اور مشن پر چلنے والوں اور اربعین مارچ کرنیوالے عزاداروں کے ہاتھوں ہی نابود ہونا ہے۔
ایام، سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے ایام ہیں، دنیا کے کونے کونے میں یاحسین یاحسین کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ پورے عالم اسلام میں عزا و ماتم کا ماحول ہے، لیکن ان عزاداریوں کے اسلامی معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس بارے میں خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے عراق کی قومی اسلامی تنظیم "حکمت" کی جنرل اسمبلی کے سربراہ ’’شیخ حمید معلہ الساعدی‘‘ کے ساتھ ایک گفتگو کی ہے۔
سوال: عالم اسلام کے موجودہ حالات میں مکتب عاشورا سے کیا درس حاصل کیا جا سکتا ہے؟ ظالموں اور ستمگروں کے خلاف برسرپیکار افراد جیسے یمنیوں نے اہلبیت (ع) اور امام حسین (ع) کو کس حد تک نمونہ عمل بنایا ہے۔؟
شیخ حمید معلہ الساعدی: واقعہ کربلا انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم اور بے مثال واقعہ ہے، جس میں بے شمار دروس اور عبرتیں موجود ہیں، ہم اس واقعہ سے حاصل ہونے والے تین بنیادی دروس کو یہاں پر بیان کرسکتے ہیں؛
1۔ حق کی باطل پر کامیابی: یہ حماسہ عاشورہ میں سب سے زیادہ نمایاں اور عمیق درس ہے، جو نہ صرف یمنی بلکہ پوری دنیا کے تمام انقلابیوں نے یہ درس حاصل کیا ہے۔ تلوار پر خون کی کامیابی یعنی آزاد اور حق کے ارادے کی عالمی سامراجی طاقتوں پر کامیابی۔ یہ درس یقینی ہے، اسے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔
2۔ صبر و استقامت: ہر کامیابی اور کامرانی کے لیے یہ دو بنیادی ستون ہیں۔ حسینی صبر و استقامت اس قدر واضح تھا کہ دشمن مبہوت و پریشان ہو کر رہ گئے۔ اگر صبر نہ ہوتا تو شجاعت کے جوہر نظر نہ آتے اور استقامت نہ ہوتی تو فداکاری اور جانثاری نظر نہ آتی۔ لہذا انقلابیوں کو درک کرنا چاہیئے کہ صبر کامیابی کی کنجی ہے۔
3۔ عدالت: قوموں کے عادلانہ مسائل طولانی زمانے تک باقی رہیں گے، اگرچہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ختم ہوچکے ہیں۔ یہ وہ دروس ہیں جو سرنوشت ساز ہیں، جو حق کو باطل پر فوقیت دیتے ہیں۔ لہذا جو افراد اور قومیں ان دروس کو اپنی تحریک کا سرلوحہ قرار دیں گی، وہ یقیناً کامیابی سے ہمکنار ہوں گی اور تاریخ انہیں اپنے دامن میں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھے گی۔
سوال: ابا عبد اللہ الحسین (ع) کی انقلابی تحریک اور موجودہ مزاحمتی تحریک میں مزاحمت کا عنصر کس حد تک نمایاں ہے۔؟
شیخ حمید معلہ الساعدی: امام حسین علیہ السلام کا قیام سارے کا سارا انحراف اور باطل کے مقابلے میں مزاحمت تھا، تاکہ اس طریقے سے خالص اسلام محمدی کو بچایا جاسکے، جیسا کہ خود امام علیہ السلام نے فرمایا: (واني لم اخرج أشرا ولا بطرا، ولا ظالما ولا مفسدا، وانما خرجت لطلب الأصلاح في أمة جدي، اريد ان آمر بالمعروف، وانهى عن المنكر، وأسير بسيرة جدي رسول الله وابي علي بن ابي طالب الخ ..). امام کا یہ بیان آپ کی نہضت کے مقصد اور روش کو بیان کرتا ہے۔ درحقیقت امت پیغمبر میں پائے جانے والے انحراف کی اصلاح کرنا امام کا مقصد تھا اور روش امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھی، جو پیغمبر اور امام علی علیہما السلام کی سیرت تھی۔ لہذا ہر طرح کی مزاحمت کے لیے حماسہ حسینی کا بہترین درس یہ ہے کہ سب سے پہلے مزاحمت کے مقاصد کو واضح کیا جائے، تاکہ عوام الناس انہیں سمجھ سکے۔ دوسرے اس کی روش اور طریقہ کار کو بھی متعین کیا جائے، اس لیے کہ باطل وسیلہ سے مقصد حق تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ تیسرے ایک سماجی اور سیاسی مستقبل کا نقشہ کھینچا جائے، تاکہ مجاہد اور مبارز دلیل کے ساتھ قدم اٹھائے اور لوگ جان سکیں کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے، تاکہ اس کا ساتھ دے سکیں۔
سوال: کیا شمر کی شخصیت اور کردار کا عالمی سامراج خصوصاً امریکہ اور صہیونیوں کے افکار و اقدامات کیساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے۔؟
شیخ حمید معلہ الساعدی: نہیں، شمر کی فکر کا عالمی سامراج کی فکر و کردار سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ شمر خود ایک بڑے مستکبر جسے یزید کہتے ہیں، کا آلہ کار تھا۔ شمر اور اس کے جیسے افراد جیسے عمر سعد اور ابن زیاد پست صفت آلہ کار کی مثالیں ہیں، جو پیسے اور مقام کی خاطر اپنے ایمان اور دین کو بیچ ڈالتے ہیں اور انحرافات کے مقابلے میں سرتسلیم خم ہو جاتے ہیں۔ عالمی سامراج شمر اور شمر جیسے نہیں تھے بلکہ عالمی سامراج یزیدی حکومت اور معاویائی فکر تھی، جو یقیناً آج کے سامراج کے اندر بھی پائی جاتی ہے۔
سوال: اربعین کا پیدل مارچ مزاحمتی تحریک کی طاقت میں اضافے اور اسرائیل کی نابودی کیلئے زمینہ سازی میں کتنا اثر انداز ہوسکتا ہے۔؟
شیخ حمید معلہ الساعدی: اربعین کا عظیم مارچ عصر حاضر کا ایک حیران کن کرشمہ ہے اور ہمارے میڈیا اور مواصلاتی چینلز کو اسے منعکس کرنے اور اس کے پیغام کو دنیا میں پہنچانے کے لیے آگے بڑھنا چاہیئے۔ اربعین مارچ عام لوگوں پر بہت اثرانداز ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوگا اور ایثار اور فداکاری جیسے اقدار کی مثالیں پیش کرتا رہے گا۔ اربعین مارچ نہ صرف اسلامی مزاحمتی تحریک بلکہ غیر اسلامی تحریکوں پر بھی اثر انداز اور ان کے عزم و ارادوں کو مضبوط بنا رہا ہے اور ثبات و ترقی کے مختلف دروس انہیں دے رہا ہے، یہاں تک کہ جب مزاحمتی قوتیں اس ملین مارچ کو دیکھتی ہیں تو احساس کرتی ہیں کہ بشریت کا ایک سیلاب ان کے ساتھ ہے اور ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا، یہ چیز انقلابیوں کے ارادوں کو مضبوط بناتی ہے اور وہ تیزی کے ساتھ اپنے مقاصد کی طرف بڑھتے ہیں۔ صہیونی ریاست کو یہ یقین ہے کہ اسے حسینی راہ اور مشن پر چلنے والوں اور اربعین مارچ کرنے والے عزاداروں کے ہاتھوں ہی نابود ہونا ہے۔
سوال: کیا امت اسلامی کے دشمنوں کیخلاف امام حسین (ع) کے پرچم تلے ایک عالمی حشد الشعبی کی تشکیل کا امکان پایا جاتا ہے۔؟
شیخ حمید معلہ الساعدی: کیوں نہیں، امام حسین (ع) ایک ایسا مشترکہ عامل ہیں، جو تمام مومنین اور مسلمانوں کے دلوں میں موجود ہیں اور حریت پسندوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس موضوع پر اسپیشل طور پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ: 815784
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.com