ہماری قیادت کو ملت و معاشرے کو ایک صحیح سمت دینی چاہیئے
لوگ آگاہ ہوجائینگے تو ذاتی مفادات رکھنے والے عناصر کی خود بخود چھٹی ہوجاتی ہے، جسٹس حکیم امتیاز
لوگوں کو شعور و فہم و فراصت سے کام لینا چاہیئے
31 Aug 2019 12:02
جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سابق جج کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ اس حوالے سے کوئی سروے ہوئی ہے جو مستند ہو۔ میری نظر میں کوئی ایسی تحقیق نہیں گزری ہے۔ ہاں کچھ اشخاص نے انفرادی طور پر اور بعض تنظیموں نے بھی اس حوالے سے کوششیں کی ہیں جیسے غلام علی گلزار صاحب بھی اس حوالے سے کام کرچکے ہیں۔ جب میں ایجوکیشنل ٹرسٹ سے وابستہ تھا تب میں نے بھی اپنے دوستوں سے ملت کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنیکے حوالے سے ایک سروے کرنا چاہی تھی لیکن بعد میں وہ کام مکمل نہیں ہوا۔ اب کسی ایک شیعہ ادارے کو اس حوالے سے منظم کام کرکے سروے کرنا چاہیئے۔ بھارت اور کشمیر میں ایسے بھی علاقے ہیں جہاں شیعہ کھل کر سامنے نہیں آتے تاکہ وہاں سروے کیا جاسکے، یہ بھی ایک رکاوٹ سامنے آسکتی ہے۔ میری جانکاری پندرہ فیصد کی ہے۔
جسٹس حکیم امتیاز حسین کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے۔ آپ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔ حکیم امتیاز حسین ریاستی احتساب کمیشن کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ جموں و کشمیر میں نجی اسکولوں کے فیس اسٹریکچر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں مسلم لاء اینڈ کسٹم، سروس لاء اِن جموں و کشمیر، جموں و کشمیر کے زمینی قانون، جموں و کشمیر کے اہل تشیع خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے جسٹس حیکم امتیاز حسین سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: کشمیر کی تاریخ نے ایک ایسا بھی زمانہ دیکھا ہے کہ جب علماء نے لوگوں کو عصری علوم سے دور رکھا، اس عمل پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
جسٹس حکیم امتیاز حسین: دیکھیئے میں آپ کو اس حقیقت کا پس منظر بتاتا ہوں، جس وقت انگریز ہندوستان میں وارد ہوئے، اس وقت یہاں مغلوں کا دور تھا۔ اُس وقت مسلمان اہم ترین سیاسی و علمی عہدوں پر فائز تھے، سرکاری زبان فارسی تھی، مسلمان فارسی اور اردو جانتے تھے۔ اس وجہ سے مسلمان اہم منصبوں پر فائز تھے، یہ حال جموں و کشمیر میں بھی تھا۔ جموں و کشمیر میں مہاراجوں کو اگر فارسی و اردو جاننے والے نہیں ملتے تھے تو وہ پنجاب سے ماہرین کو لاتے تھے اور انہیں اہم عہدوں پر تعینات کرتے تھے۔ لیکن جب یہاں انگریز آئے تو پھر ایک ایسا دور بھی آیا کہ جب وارنگ ہسٹنگ نے برطانیہ کی حکومت کو لکھا کہ اگر ہندوستان پر مکمل قبضہ کرنا ہے تو ہمیں یہاں اہم عہدوں پر اپنے آدمیوں کو رکھنا چاہیئے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہاں اردو و فارسی کی جگہ انگریزی زبان کو رائج کریں۔
اس وقت ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد پڑھے لکھے تھے اور انگریزی بھی جانتے تھے، انہوں نے اس فیصلہ کا استقبال کیا اور اہم عہدوں پر فائز ہوئے جبکہ مسلمانوں کو اہم عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ راتوں رات مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن گئے اور انگریزی زبان جاننے والے پہلے درجے کے شہری۔ اس عمل سے مسلمان سخت ناراض ہوگئے اور وہ سمجھے کہ انکے خلاف ایک گہری سازش رچی گئی۔ ہمارے علماء نے بھی اسے مسلمانوں کے خلاف ایک سازش سمجھا۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھے کہ علم بہرحال علم ہوتا ہے، ہمیں عصری علوم حاصل کرکے اس دوڑ کا حصہ بننا ہے۔ انگیزوں کے اس عمل کو مسلمانوں کے خلاف سازش سمجھ کر انہوں نے انگریزی زبان اور عصری علوم کی مخالفت کی، شاید یہاں وہ غلطی کرگئے، شاید انکے پاس وہ دور اندیشی نہیں تھی کہ وہ آگے کی چیزوں کو سمجھ سکتے۔ وہ آئندہ دور کے عصری علوم کے انقلاب کو نہیں دیکھ پارہے تھے۔
اسلام ٹائمز: آج کشمیر میں اہل تشیع علمی میدان میں کہاں کھڑے ہیں۔؟
جسٹس حکیم امتیاز حسین: آج اگر اہل تشیع دیگر مسالک و مذاہب سے آگے نہیں ہے تو پیچھے بھی ہرگز نہیں ہے۔ کشمیر میں اہل تشیع علمی میدان میں آگے آنے کی بہت زیادہ کوشش کررہے ہیں۔ شہر و گام میں ہونہار بچے سامنے آرہے ہیں جو اعلٰی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اگر کشمیر میں تعلیم و ہنر کے مواقع کم ہیں تو لوگ اپنے بچوں کو کشمیر سے باہر قسمت آزمائی کے لئے بھیجتے ہیں۔ کچھ ادارے بھی ملت کے بچوں کی کونسلنگ میں سرگرم رول ادا کئے ہوئے ہیں۔ غرض لوگوں کی حتی الامکان کوشش ہے کہ انکے بچے آگے جائیں اور ملت کا نام روشن کریں۔ انشاء اللہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل بہت تابناک دیکھتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: آپ کی تازہ تصنیف ’’جموں و کشمیر میں اہل تشیع‘‘ کے پیش نظر مقبوضہ کشمیر میں اہل تشیع کی تعداد کے بارے میں جاننا چاہیں گے، کیا کوئی سروے اس حوالے سے ہوئی ہے۔؟
جسٹس حکیم امتیاز حسین: مجھے یقین نہیں ہے کہ اس حوالے سے کوئی سروے ہوئی ہے جو مستند ہو۔ میری نظر میں کوئی ایسی تحقیق نہیں گزری ہے۔ ہاں کچھ اشخاص نے انفرادی طور پر اور بعض تنظیموں نے بھی اس حوالے سے کوششیں کی ہیں جیسے غلام علی گلزار صاحب بھی اس حوالے سے کام کرچکے ہیں۔ جب میں ایجوکیشنل ٹرسٹ سے وابستہ تھا تب میں نے بھی اپنے دوستوں سے ملت کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے حوالے سے ایک سروے کرنا چاہی تھی لیکن بعد میں وہ کام مکمل نہیں ہوا۔ اب کسی ایک شیعہ ادارے کو اس حوالے سے منظم کام کرکے سروے کرنا چاہیئے۔ بھارت اور کشمیر میں ایسے بھی علاقے ہیں جہاں شیعہ کھل کر سامنے نہیں آتے تاکہ وہاں سروے کیا جاسکے، یہ بھی ایک رکاوٹ سامنے آسکتی ہے۔ میں پھر وہی بات کروں گا کہ اگر کوئی ادارے سامنے آئے تو وہ یہ کام انجام دے سکتا ہے، اگر اسے سو فیصد ڈیٹا ہاتھ نہیں آتا ہے پھر بھی اسے ایک بڑی چیز کا انکشاف ضرور ہوگا۔ میری جانکاری پندرہ فیصد کی ہے۔
اسلام ٹائمز: اگر دیکھا جائے تو ہماری موجودہ قیادت نے ہمیں مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ہوا ہے، اس پر آپکی رائے کیا ہے۔؟
جسٹس حکیم امتیاز حسین: دیکھیئے اس حوالے سے میری رای مختلف ہے، اگر اس قیادت کو ہم رد کرتے ہیں تو ہمارے پاس کیا ہے۔ کیا ہمارے پاس کوئی متبادل موجود ہے۔ ہمیں اس موجودہ سسٹم کو ٹھیک ضرور کرنا ہے لیکن ختم نہیں۔ لوگ اسی قیادت کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں، اگر یہ قیادت نہیں رہتی ہے تو لوگ مزید سرکش اور منحرف ہوجائیں گے۔ اگر آج لوگ دو یا چار گروہوں میں تقسیم ہے تو کل ہزاروں گروپ سامنے آسکتے ہیں۔ ہمیں موجودہ قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر اس کی اصلاح کرنی چاہیئے اور اگر اصلاح ہوتی ہے تو ٹھیک نہیں تو متبادل لوگوں کے سامنے رکھنا ہوگا۔ میں نے علماء کرام سے بارہا اس حوالے سے گفتگو کی اور انہیں کہا کہ آپ کے پاس بہترین پلیٹ فارم ہے، لوگ آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے ہیں اس ضائع نہ کریں، اس میں تبدیلی لائیں۔ ہمارے علماء کرام کی بات پر لوگ جان قربان کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں تو کیوں نہ اس جذبہ کو ذاتی مفادات کے بجائے دین اسلام کے لئے استعمال کیا جائے۔ ہماری قیادت کو ملت و معاشرے کو ایک صحیح سمت دینی چاہیئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ موجودہ قیادت اور انکی روش ٹھیک ہی ٹھیک ہے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قیادت کا ہونا اور قیادت پر لوگوں کا اعتماد اچھی چیز ہے لیکن طریقہ کار میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: آپ نے ذاتی مفادات کی بات کی، کیا ایسا ممکن ہے کہ یہ موجودہ قیادت ذاتی مفادات کو خیرباد کہہ کر دیگر چیزوں کی طرف توجہ دیں گے۔؟
جسٹس حکیم امتیاز حسین: اس کے لئے لوگوں کو بیدار ہونا چاہیئے، لوگوں کو شعور و فہم و فراصت سے کام لینا چاہیئے، لوگ آگاہ ہوجائیں گے تو ذاتی مفادات رکھنے والے عناصر کی خود بخود چھٹی ہوجاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں متبادل تیار رکھنا ہوگا، جید علماء کرام کو سامنے آںے کی ضرورت ہے، آج ایران فارغ التحصیل باصلاحیت علماء کرام کشمیر آرہے ہیں انہیں اپنی ذمہ داروں کا احساس کرنا چاہیئے۔ اگر ہم متبادل کے بغیر موجودہ سسٹم کو ختم کرنے کی بات کریں گے تو معاشرے میں مزید انتشار بڑھ سکتا ہے، یہ تھوڑا بہت جو ہمارے سامنے ہے بھی ختم ہوجائے گا اگر حکمت عملی نہ اپنائی گئی۔ اور یہ بھی ہمیں ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ حکمت عملی اور متبادل ایک رات کا کام نہیں ہے، اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ جب تک ہمیں متبادل تلاش کرتے ہیں تب تک کم سے کم ایک رای عامہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی راہ کا اظہار کرنا چاہیئے اور ہم خیال افراد کو جمع کرنا چاہیئے۔ ہمیں ایران سے فارغ التحصیل علماء کرام سے امید رکھنی چاہیئے کہ انہوں نے واقعاً صحیح علم حاصل کیا ہوگا جس کی روشنی میں وہ قوم کو متحد کریں گے۔ تعلیم اس معاملے میں بہت ہی اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ تعلیم یعنی نوکری نہیں بلکہ تعلیم یعنی تبدیلی۔
خبر کا کوڈ: 813657