علامہ ارشاد علی کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو سے ہے، انکا شمار مجلس وحدت مسلمین کے دیرینہ مسئولین میں ہوتا ہے، علامہ صاحب اسوقت ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ملی و قومی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، جبکہ اس سے قبل ایم ڈبلیو ایم ضلع ہنگو کے سیکرٹری جنرل اور صوبائی سیکرٹری تربیت کی مسئولیت پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے صوبہ کی صورتحال اور دیگر قومی و ملی امور پر علامہ ارشاد علی کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا۔ جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: صوبہ خیبر پختونخوا میں ملت تشیع شدید مسائل و مشکلات کا شکار رہی ہے، صوبہ کے حالات میں اب تک کتنی بہتری آئی ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: ﷽۔ سب سے پہلے تو آپ اور آپ کے ادارے کا شکریہ، جو ملی و قومی مسائل اجاگر کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ واقعی خیبر پختونخوا کے عوام خاص طور پر ملت تشیع دہشتگردی کا بری طرح شکار رہی ہے، تاہم اب خدا کے فضل اور ہمارے شہداء کی قربانیوں کے نتیجے میں حالات کافی بہتر ہوئے ہیں، تاہم دہشتگردی کے بعد اب بھی ہمارے کئی مسائل موجود ہیں، جو ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل میں شاہو خیل ہنگو کی آبادکاری کا مسئلہ ہے، اسی طرح پاراچنار میں بالش خیل کا مسئلہ ہے، ڈیرہ اسماعیل خان میں اب بھی حالات بہتر نہیں، اس کے علاوہ کوٹلی امام حسین علیہ السلام کا مسئلہ موجود ہے، ہماری صوبائی حکومت سے اپیل اور مطالبہ ہے کہ ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔
اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کی ملک بھر میں تنظیم نو کا عمل جاری ہے، خیبر پختونخوا میں تنظیم سازی کی کیا پوزیشن ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: جی بالکل، خیبر پختونخوا میں درحقیقت گذشتہ ادوار میں مخصوص حالات کے پیش نظر ہمیں اس طرح تنظیم سازی کا موقع نہیں مل سکا تھا، جس طرح سے اب میسر ہے۔ ماضی میں دشمن نے ہمیں مسائل میں الجھائے رکھا۔ تاہم اب الحمد اللہ اضلاع کی تنظیم نو کا عمل بہت اچھے طریقہ سے جاری ہے، پاراچنار اور کوہاٹ میں تنظیم نو ہوچکی ہے، ڈی آئی خان اور ہنگو میں آرگنائزنگ کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں۔ اس مرتبہ موثر تنظیم سازی کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ جماعت کو نچلی سطح یعنی یونٹ تک مضبوط کیا جائے۔ اب محرم الحرام کی آمد ہے، تاہم 10 محرم کے بعد ان شاء اللہ باقی ماندہ اضلاع میں بھی تنظیم نو کی جائے گی۔
اسلام ٹائمز: لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی ممکن نہیں ہو پا رہی، بلکہ اب بھی اہم شیعہ شخصیات کو غائب کیا جا رہا ہے، جسکی ایک مثال ایڈووکیٹ یافث ہاشمی ہیں، یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا۔؟
علامہ ارشاد علی: یہ مسئلہ واقعی بہت سنگین ہوتا جا رہا ہے، ہماری مرکزی قیادت مسلسل حکومت کیساتھ اس مسئلہ کو اٹھا رہی ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے کئی لوگ بحفاظت گھروں کو واپس بھی آئے ہیں، معلوم نہیں ہمارے لوگوں کو کیوں اور کون اٹھا رہا ہے، بہرحال جو بھی ہو، یہ ذمہ داری ریاست کی ہے، اگر کوئی شخص کسی منفی سرگرمی میں ملوث ہے تو اسے عدالتوں کے سامنے پیش کرنا چاہیئے، اس طرح خاموشی سے غائب کر دینا، دنیا کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بھارت کیساتھ حالات کشیدہ ہونیکے بعد حکومت قوم کو ایک پیج پر لانے کیلئے مطلوبہ اقدامات کر پائی ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسا مسئلہ ہے، جس پر قوم خود بخود متحد ہو جاتی ہے، تاہم پھر بھی قیادت حکومت نے کرنی ہوتی ہے، اب تک وہ کچھ ہم حاصل تو نہیں کر پائے، جو ہمیں اس صورتحال میں حاصل کرنا چاہیئے تھا۔ اپوزیشن بھی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر رہی، دوسرا حکومت کی بھی کمزوری ہے، اس کے علاوہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی جانب سے بھی سوائے ایران کے، ہمیں وہ سپورٹ نہیں ملی، جس کی ہماری حکومت توقع کر رہی تھی۔
اسلام ٹائمز: کیا عرب حکمرانوں کے حالیہ رویہ کے بعد حکومت کو دوست، دشمن کا احساس ہوگیا ہوگا۔؟
علامہ ارشاد علی: ہو تو جانا چاہیئے، انہوں نے ہماری پیٹھ پر چھرا مارا ہے، ان سے ہم یہی توقع کرسکتے ہیں، تاہم اب ہمارے حکمرانوں اور ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اب کم از کم ہماری قوم اپنے دوست اور دشمن کو پہچان گئی ہے، رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے کشمیر کے مظلومین کے حق میں بیان دیکر حق ادا کر دیا، اس کے بعد ایرانی حکومت کے بھی ہم شکرگزار ہیں کہ انہوں نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا۔
اسلام ٹائمز: ٣٩ ملکی اسلامی فوجی اتحاد کے رول کو کشمیر کے تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ ارشاد علی: اس نام نہاد اسلامی اتحاد کا رول انتہائی شرمناک ہے، اب دنیا پر واضح ہوگیا ہے کہ یہ اتحاد کن مقاصد کیلئے بنایا گیا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ مسلم ممالک امریکہ و اسرائیل کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال میں راحیل شریف نے پاکستان کی عزت خاک میں ملا دی، محض کچھ پیسوں کی خاطر وہ یمن کے مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہو رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ اگر بھارت جنگ مسلط کرتا ہے تو پاکستانی قوم بالخصوص ملت تشیع کا کیا ردعمل ہوگا۔؟
علامہ ارشاد علی: اول تو مودی ایسی حرکت کرنے کا سوچے کا بھی نہیں، تاہم اگر ایسا ہوا تو پاکستانی قوم فوج کے شانہ بشانہ لڑے گی، ملت تشیع پاکستان جنگ کی صورت میں ہراول دستہ ہوگی اور ہندوستان کو وہ سبق سکھائے گی کہ مودی کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ ہمارا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، اگر ہندوستان جنگ کی غلطی کرتا ہے تو یہ اس کی آخری غلطی ہوگی اور ہندوستان کئی حصوں میں تقسیم ہو جائے گا، پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا تھا، اور ان شاء اللہ تا قیامت قائم رہے گا۔