حزب اللہ، ڈرون اور اسرائیل
12 Oct 2012 09:33
اسلام ٹائمز: قائد مقاومت نے کہا کہ یہ ڈرون طیارہ ایرانی ساخت ہے، جسے حزب اللہ کے ماہرین نے اپنی ضرورت کے مطابق ڈیزائن کیا ہے، اس طیارے نے اسرائیل کے تمام سکیورٹی باڈرز اور ریڈارز کو چکما دیا اور اپنی مہم پوری کی، لیکن اسرائیلی حکومت اپنی عوام سے جھوٹ بول رہی ہے کہ اسے وقت سے پہلے ہی گرا دیا گیا ۔۔۔۔ ابھی تو امریکی ڈرون اتارے ایران کو ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ حزب اللہ کا ڈرون طیارہ جدید ترین ریڈاروں کو دھوکہ دے کر اسرائیلی حدود کے اندر سینکڑوں کلومیٹر دور تک گیا ۔۔۔۔۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکی و اسرائیلی برتری ختم ہوچکی ہے۔
تحریر: سید رضا نقوی
انجان سمت سے آئے ہوئے ڈرون طیاروں کا خوف کچھ اسطرح ذہنوں پر مسلط ہوگیا تھا کہ سب کے ذہنوں میں یہ تاثر تھا کہ ریڈار کی آنکھوں سے اوجھل طیاروں کو مار گرایا نہیں جا سکتا، یا دوسرے لفظوں میں امریکی و اسرائیلی ٹیکنالوجی کے حامل یہ ڈرون طیارے ناقابل تسخیر ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن یہ سحر اس وقت ٹوٹا جب ایران نے جدید ترین امریکی ڈرون طیارے آر۔کیو۔170 سینٹینل کو ایرانی حدود میں اتار لینے کا اعلان کیا ۔۔۔۔۔۔ یہ ٹیکنالوجی کی جنگ میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف بہت بڑی کامیابی تھی ۔۔۔۔۔ امریکی و اسرائیلیوں کو جیسے سکتہ ہوگیا ہو۔۔۔۔ پہلے تو انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ امریکی ڈرون طیارہ ایرانی حدود میں فنی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہوگیا ہے ۔۔۔ لیکن جب ایران نے صحیح سالم 50 کروڑ سے زائد مالیت کے ڈرون کو میڈیا کے سامنے پیش کیا تو امریکیوں اور اسرائیلیوں کو بھی قبول کرنا پڑا۔۔۔۔لیکن یہ بات ایک معمہ سے کم نہیں تھی کہ جدید ترین ڈرون کو ایران نے کیسے قابو کیا ۔۔۔۔۔۔ امریکہ و اسرائیل تو ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بمباری کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے، لیکن ایرانی ماہرین نے جدید امریکی ڈرون اتار کر ثابت کر دیا کہ وہ غافل نہیں بیٹھے اور ان کا دِفاع خوب مضبوط ہے۔
امریکی ڈرون اتارنے کے لیے ایرانی ماہرین کو تین بنیادی کام کرنا پڑے
(1) سینٹینل کی شناخت
(2) ڈرون میں موجود مواصلاتی سیارے (سیٹلائٹ) کے سگنل جام کرنا اور
(3) حقیقی سگنل کی جگہ اپنا جعلی سگنل ڈالنا، تاکہ ڈرون کے سبھی اندرونی نظام پر کنٹرول حاصل ہوسکے۔
یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر ڈرون کے سسٹم میں کوئی خرابی ہو تو ڈرون کا خودکار پائلٹ کام کرنے لگتا ہے اور ڈرون کو وہیں لے جاتا ہے جہاں سے اڑا تھا یا اگر واپسی کا سفر ممکن نہ ہو تو خودکار دھماکے سے طیارے کو تباہ کر دیا جاتا ہے، تاکہ ٹیکنالوجی کا پتہ نہ لگایا جاسکے ۔۔۔۔ دوسرے لفظوں میں ڈرون اتارنے کا کام اتنی مہارت سے کیا گیا کہ خود طیارے کے خودکار سسٹم کو بھی احساس نہیں ہو پایا کہ اسے امریکی نہیں بلکہ ایرانی ماہرین کنٹرول کرنے لگے ہیں ۔۔۔۔۔ امریکیوں کیلئے ڈرون کا تباہ ہو جانا زیادہ بہتر تھا بہ نسبت اسکے کہ انکی ٹیکنالوجی کسی کے بھی ہاتھ لگے ۔۔۔۔ لیکن امریکہ و اسرائیل کو ناکامی ہوئی۔
یہاں اس بات کا بھی تذکرہ کرتے چلیں کہ 2006ء میں اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ پر مسلط کردہ جنگ میں اسرائیل کو میدان میں تو شکست اٹھانا ہی پڑی تھی، لیکن ساتھ ساتھ ہی امریکیوں اور اسرائیلیوں کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی منہ کی کھانی پڑی تھی ۔۔۔۔۔ حزب اللہ پر حملہ آور ہونے سے قبل اسرائیلی فوج نے لبنانی فضائوں میں ڈرونیں اور خصوصی طیارے بجھوا دیئے تھے۔ ان طیاروں میں ہر قسم کے برقی پیغام رسانی کرنے والے آلات مثلاً ریڈیو، موبائل، وائرلیس وغیرہ جام کرنے والے آلے (جامر) نصب تھے۔ لہٰذا جب اسرائیلیوں کو یقین ہوگیا کہ مختلف علاقوں میں موجود حزب اللہ کی فوج کا آپس میں رابطہ منقطع ہو چکا ہوگا تو وہ مزے سے دندناتے لبنان میں داخل ہو گئے۔ لیکن اسرائیلی جہاں پہنچتے، حزب اللہ کےجوانوں کے ہتھیار ان کا استقبال کرتے اور راہ روک لیتے۔ یہ اس امر کی نشانی تھی کہ اسرائیل کی جانب سے مواصلاتی نظام کو جام کرنے کیلئے کئے جانے والے حملے ناکام بنا دیئے گئے تھے اور حزب اللہ کی پیغام رسانی نہ صرف بحال تھی، بلکہ وہ اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اس حقیقت نے نہ صرف اسرائیلی حکومت بلکہ امریکیوں کو بھی بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔
یہ تو تھی روداد دسمبر 2011ء کی ۔۔۔۔ جبکہ ماہ اکتوبر 2012ء میں بین الاقوامی میڈیا میں ایک خبر آتی ہے کہ اسرائیل نے ایک ایسے ڈرون کو مار گرایا ہے جسکے بارے میں یہ نہیں معلوم ہو پا رہا کہ کس کا ہے اور کہاں سے اڑا ہے ۔۔۔۔۔ اسرائیلی میڈیا یہ سوال اٹھا رہا تھا کہ ایک ڈرون طیارہ جس کی شناخت بھی نہیں معلوم کیسے اسرائیلی حدود میں داخل ہوا ۔۔۔۔ اسرائیلی حکومت کے اچھوں کو بھی نہیں پتا چل پا رہا تھا کہ ڈرون کہاں سے آیا ہے اور کس کا ہے۔
اسرائیلی حکومت کی یہ مشکل آج حزب اللہ کے قائد اور کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں یہ کہہ کر کر دی کہ اسرائیل نے جو ڈرون کچھ دن قبل مار گرایا ہے، وہ حزب اللہ کی طرف سے بھیجا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ امریکہ و اسرائیل کے منہ پر ایک اور طمانچہ ۔۔۔۔۔ بابصیرت و شجاع رہبر کی مدبرانہ قیادت کا ایک اور ثمر ۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ قائد مقاومت سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یہ ڈرون طیارے کی نہ تو پہلی پرواز تھی اور نہ ہی آخری۔ قائد مقاومت نے کہا کہ ڈرون طیارے نے نہ صرف اسرائیلی حدود کو کامیابی سے پار کیا بلکہ سینکڑوں کلومیٹر اسرائیلی حدود میں پرواز کی اور اہم معلومات ارسال کیں ۔۔۔۔ یعنی وہ اسرائیل جس کی سرحدوں کو ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا تھا ۔۔۔۔ وہ امریکی و اسرائیلی ٹیکنالوجی جسے دنیا میں جدید ترین تصور کیا جاتا تھا ۔۔۔۔ حزب اللہ کے ڈرون طیارے کے سامنے محض روئی کے پہاڑ ثابت ہوئی۔
قائد مقاومت نے کہا کہ یہ ڈرون طیارہ ایرانی ساخت ہے، جسے حزب اللہ کے ماہرین نے اپنی ضرورت کے مطابق ڈیزائن کیا ہے، اس طیارے نے اسرائیل کے تمام سکیورٹی باڈرز اور ریڈارز کو چکما دیا اور اپنی مہم پوری کی، لیکن اسرائیلی حکومت اپنی عوام سے جھوٹ بول رہی ہے کہ اسے وقت سے پہلے ہی گرا دیا گیا ۔۔۔۔ ابھی تو امریکی ڈرون اتارے ایران کو ایک سال بھی پورا نہ ہوا تھا کہ حزب اللہ کا ڈرون طیارہ جدید ترین ریڈاروں کو دھوکہ دے کر اسرائیلی حدود کے اندر سینکڑوں کلومیٹر دور تک گیا ۔۔۔۔۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکی و اسرائیلی برتری ختم ہوچکی ہے۔
کہاں ہیں وہ جو امریکی و اسرائیلی ٹیکنالوجی کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے ۔۔۔۔ کہاں ہیں وہ جو اسرائیل و امریکہ سے ٹکر لینے کو خودکشی گردانتے ہیں ۔۔۔۔ کہاں ہیں وہ نام نہاد دفاعی ماہرین جو امریکہ و اسرائیل کی فوج کو دنیا کی سب سے مضبوط و ناقابل شکست فوج گردانتے ہیں ۔۔۔۔۔ آئو دیکھ لو ۔۔۔۔۔ خدا پر توکّل، قوت ایمانی اور بابصیرت قیادت کے ذریعے کچھ بھی تسخیر کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔ رہبر معظم کی مدبرانہ، بابصیرت، شجاعانہ قیادت نے وقت کے نمرود و شداد کی ناک زمین پر رگڑ دی ۔۔۔۔۔ ولایت سے تمسک خدا کے خوف کے علاوہ ہر خوف کو دل سے نکال پھینکتا ہے ۔۔۔۔۔ ولایت سے تمسک 313 کو ہزاروں پر اور 72 بہتر کو لاکھوں پر فتح عنایت کرتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ فتوحات یقیناً تمسک ولایت کا ثمر ہیں۔
آئے دن ہم پاکستان میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ افغانستان میں موجود امریکی فوجی اڈوں سے اڑنے والے ڈرون طیارے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ جانے کتنے لوگوں کو ابدی نیند سلا دیتے ہیں، ہم اس بات کا بھی مشادہ کرتے رہتے ہیں کہ حکومت پاکستان کتنی نحیف اور کمزور آواز میں امریکی حکومت سے ہر ڈرون حملے کے بعد احتجاج کرتی ہے اور واشنگٹن بڑی رعونت کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کو دھتکارتے ہوئے ڈرون حملوں کو جاری رکھنے کا اعلان کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ کتنی بے بس ہے ہماری حکومت ۔۔۔ کتنے بے بس ہیں امریکی غلام ۔۔۔۔۔ جو امریکی ڈرون کو اتارنے کا تو دور کی بات بلکہ تباہ کرنے کا سوچ بھی نہیں پاتے ۔۔۔۔ غلامی کا طوق انکے گلوں میں پڑا ہے ۔۔۔۔ کاش کہ ہماری حکومت بھی کسی مردانہ اقدام کرنے کا فیصلہ کر لے اور اپنے گلے میں پڑی غلامی کی امریکی زنجیروں کو توڑ دے ۔۔۔ کاش
خبر کا کوڈ: 202924