ایران اور پاکستان فطری اتحادی
4 Feb 2025 17:36
اسلام ٹائمز: ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل باقری کا پاکستان کا دورہ پاکستان اور ایران کے مابین اسٹریٹیجک نوعیت کے قریبی تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے ان قریبی تعلقات کو فطری طور پر دونوں ممالک کے دشمن برداشت نہیں کر پاتے اور وہ کسی ایسے بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی آڑ میں وہ اپنے مزموم مقاصد کو پایہء تکمیل تک پہنچا سکیں لیکن دونوں ممالک کے تعلقات جن بنیادوں پر استوار ہیں وہ اتنی مضبوط اور پاٸیدار ہیں کہ ان دشمن طاقتوں کی تمام کوششیں آخرکار دیوار سے سر ٹکرانے کی صورت میں ہی ظاہر ہوتی ہیں۔
تحریر: سید تنویر حیدر
پاکستان اور ایران اگرچہ دو برادر ہمسایہ ممالک ہیں لیکن ان کے مابین باہمی تعلقات کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ عالم مشرق کی یہ دونوں اقوام نہ صرف مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور لسانی رشتوں کی ایک مضبوط لڑی میں پروئی ہوئی ہیں بلکہ یہ ایک ایسے خطہء ارضی میں آباد ہیں جس کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آج کے بدلتے ہوئے بین الاقوامی منظرنامے میں ان دو ممالک کی حیثیت اور مقام کو دنیا کی کوئی طاقت نظرانداز نہیں کر سکتی۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کی بعض تسلط پسند طاقتیں ان دو برادر ہمسایوں کے مابین کسی بھی سطح پر فروغ پاتے ہوئے تعلقات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ہم اگر ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے اور اس کے بعد کے ادوار میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات کے اب تک کے طے کردہ سفر کا مختصر جائزہ لیں تو ہم باور کریں گے کہ اس راہ میں آمدہ بعض پیچیدگیوں اور اغیار کی ریشہ دوانیوں کے باوجود دونوں ممالک نے اپنا سفر بخوبی جاری رکھا ہے اور اپنے تعلقات کو بلند تر سطح پر رکھنے کے لیے اساسی نوعیت کے اقدامات کیے ہیں۔
مثلاً قیام پاکستان کے فوراً بعد وہ ملک جس نے سب سے پہلے پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو تسلیم کیا وہ اسلامی جمہوری ایران ہی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندو سامراج کے سینے پر متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا لگنے والا زخم ابھی تازہ تھا۔ بھارت یہ نہیں چاہتا تھا کہ ملک خداداد پاکستان دنیا کی دوسری اقوام میں اپنی الگ شناخت قائم کر سکے۔ پاکستان نے بھی ایران کے اس اقدام کو ہمیشہ یاد رکھا اور اسے اپنی خارجہ پالیسی میں سرفہرست رکھا۔ یہی وجہ ہےکہ جب 1979ء میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو اس انقلاب کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا۔ نئی اسلامی حکومت سے اپنے تعلقات استوار کرنے کے لیے اس وقت کے وزیر خارجہ آغا شاہی نے فوری طور پر ایران کا سرکاری دورہ کیا اور اپنے ہم منصب ڈاکٹر کریم سنجابی کے ساتھ ملاقات میں اس بات کا عندیہ دیا کہ دونوں ممالک ایک شاندار مستقبل کی جانب محو سفر ہیں۔ اگلے روز آغا شاہی نے امام خمینیؒ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گفتگو کی گئی۔
ایران کا یہ انقلاب ایک نظریاتی انقلاب تھا جو درحقیقت ایران میں حددرجہ مغربیت کے پھیلاؤ اور امریکہ کے تسلط پسند عزائم کے مقابلے میں ایک ردعمل تھا۔ اس انقلاب نے ایران میں اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے بت کو زمیں بوس کر دیا تھا۔ انقلاب مخالف بعض قوتوں نے اس انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے اسے ایک خاص قسم کی مذہبیت کا رنگ دیا اور اسے مسلمانوں کے مختلف مسالک کے مابین فروعی اختلافات کو فروغ دینے کا ایک سبب بنانے کی کوشش کی۔ پاکستان میں بعض فرقہ پرست عناصر نے پاکستان میں مذہبی آہنگی اور روادری کی مثالی فضا میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن پاکستان کے باشعور عوام اور ذمے دار علماء نے اپنے اتحاد سے اس سازش کو ناکام بنا دیا اور پاک ایران تعلقات کو زہر آلود ہونے سے بچا لیا۔ ایران کے علماء اور باالخصوص امام خمینیؒ نے اس قسم کی تفرقہ بازی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ امام خمینیؒ نے شیعہ اور سنی کو اسلام کے دو بازو قرار دیا اور دونوں بھائیوں کے مابین تفرقہ ڈالنے والوں کو صیہونی ایجنٹ قرار دیا۔
ایران کے موجودہ رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی اپنے ایک فتوے میں واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ مسلمانوں کے کسی فرقے کے مذہبی شعار اور ان کی مقدس شخصیات کی توہین کرنا قطعاً حرام ہے۔ کسی دوست ملک کی دوستی اس وقت کڑی آزمائش سے گزرتی ہے جب کسی ملک پر کسی جانب سے جنگ مسلط کر دی جائے۔ قوموں کی زندگی میں یہ انتہائی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگیں پاکستان کی سلامتی اور بقاء کی جنگیں تھیں۔ ان دونوں جنگوں میں پاکستان کی مالی، فوجی، سیاسی، اخلاقی، طبی اور تیل کی ترسیل کے حوالے سے مدد کا سب سے بڑا ذریعہ ایران ہی تھا۔ ایران کی لاجسٹک سپورٹ کی وجہ سے پاکستان اس قابل ہوا کہ اس نے انڈیا کی جارحیت کا مؤثر جواب دیا۔ ان جنگوں میں پاکستانی فضایہ کے طیارے اپنے تحفظ کے لیے ایرانی سرزمین استعمال کیا کرتے تھے۔ 1965ء کی جنگ میں اخباری رپورٹس کے مطابق تہران شہر میں جنگ کے پاکستانی زخمیوں کو خون کے عطیات دینے والوں کی قطاریں لگ گئی تھیں۔ تعاون کا یہ سلسلہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بھی جاری رہا۔
راجیو گاندھی کے دور میں ایک دفعہ پاکستان اور ہندوستان بالکل جنگ کے دھانے پر پہنچ چکے تھے تو اس وقت امام خمینیؒ کے اس بیان نے ہندوستان کو مخمصے میں ڈال دیا تھا کہ ”کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ ایران پر حملہ تصور کیا جائے گا“۔ اہل ایران کی پاکستان سے جذباتی وابستگی کا ایک مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب پاکستان نے ہندوستان کے مقابلے میں کئی ایٹمی دھماکے کیے۔ پاکستان کے اس جرأت مندانہ اقدام کی خبر جب تہران میں نماز جمعہ کے شرکاء تک پہنچی تو تہران یونیورسٹی کا میدان نعرہء تکبیر سے گونج اٹھا۔ اس پرافتخار موقع پر وہ واحد ملک جس کا وزیر خارجہ اہل پاکستان کی عوام کو مبارک باد دینے پاکستان پہنچا وہ ایران کا وزیر خارجہ تھا۔ ایران پاکستان سے اپنے تعلقات کو اس حد تک لے جانا چاہتا تھا کہ ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی جب پاکستان آئے تو انہوں نے پاکستان اور ایران کے مابین دفاعی معاہدے کی تجویز پیش کی۔
جو لوگ ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ ترجیح دیتا ہے انہیں چاہیئے کہ ترازو کے ایک پلڑے میں ایران کے ہندوستان سے قائم کیے گئے تمام تعلقات کو رکھیں اور دوسرے پلڑے میں ایران کی دفاعی معاہدے کی صرف اس پیشکش کو رکھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کس پلڑے میں وزن زیادہ ہے۔ گیس کی پائپ لائن کی شکل میں ایران نے کب سے پاکستان کی سرحد پر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ہوا ہے اور ابھی تک اس کے جواب کے انتظار میں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ نہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ایران کا موقف ہمیشہ اصولی رہا ہے۔امام خمینیؒ کی طرح ایران کے موجودہ رہبر سید علی خامنہ ای نے ہمیشہ کشمیر کے مسلم عوام کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف ردعمل میں تہران میں منعقدہ شب معراج کے حوالے سے ایک تقریب میں ایک دفعہ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ ”امید ہے کشمیری عوام تشدد کے ذریعے حکومت کرنے والوں کو پیچھے دھکیل دیں گے اور مستقبل قریب میں دشمن کو نیچا دکھائیں گے“۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” تحریک حریت اور عزم و استقلال کے نتیجے میں قابضین کا پسپا ہونا قدرت کی نشانی ہے“۔
کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی اس پیمانے پر حمایت آج تک کسی مسلم حکمران کے حصے میں نہیں آئی۔ پاکستان کی حکومت اور عوام نے بھی برادر اسلامی ملک ایران کے ہر مشکل وقت میں اپنی ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ ایران کی عراق سے آٹھ سالہ جنگ میں بعض طاقتوں کے دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان نے اس جنگ میں عراق کی حکومت کا ساتھ نہیں دیا بلکہ دو اسلامی ممالک کے مابین صلح کروانے کے لیے بھرپور کوشش کی۔ 2003ء میں جب ایران کے شہر بم میں ایک تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں ہزاروں افراد لقمہء اجل بن گئے تو اس مشکل وقت میں اہل پاکستان نے سرکاری اور عوامی سطح پر اسلامی بھائی چارے کا ثبوت دیتے ہوئے آفت زدہ ایرانی بھائیوں کی دل کھول کر مدد کی۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین تنازعے میں بھی پاکستان نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے مابین اختلافات کو ختم کرنے کے لیے حتی المقدور کوشش کی۔ ایران کے ساتھ پاکستان کے مذہبی، ثقافتی اور انسانی رشتوں کی ایک تاریخ ہے۔
ایران کی فارسی زبان اور ایران سے تعلق رکھنے والے صوفیائے کرام اور شعراء کا پاکستان کی زبان، تہزیب اور مذہبی روایات پر گہرا اثر ہے۔ شیخ سعدی ہوں یا حافظ و رومی، اہل ایران اور اہل پاکستان کی مشترکہ مقتدر شخصیات ہیں۔ اسی طرح ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال اہل ایران کے نزدیک بھی نہایت قابل احترام ہیں۔ اہل ایران انہیں اقبال لاہوری کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ان کے انقلابی پیغام سے استفادہ کرتے ہیں۔ عالم اسلام کی بزرگ اور روحانی شخصیت شیخ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی معروف کتاب ”کشف المحجوب“ بھی فارسی میں لکھی گئی۔ ایران کے ایک معروف اسکالر اور شاعر ڈاکٹر تسبیحی نے اس پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے جو غالباً حضرت داتا گنج بخش پر اپنی نوعیت کا پہلا مقالہ ہے۔ ایران اور پاکستان کے مابین اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے بھی وسیع امکانات ہیں جن سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے مابین گیس پائپ لائن کے معاہدے کی تکمیل پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اسی طرح پاکستان کی گوادر پورٹ اور ایران کی چابہار پورٹ دونوں ممالک کے مابین باہمی اشتراک کا مضبوط ذریعہ بن سکتی ہیں۔ دفاعی حوالے سے بھی دونوں ممالک کی مسلح افواج کے سربراہ ایک دوسرے کے ممالک کے دورے کر چکے ہیں اور علاقائی سیکیورٹی کے حوالے سے آپس میں ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ خطے کی موجودہ اسٹریٹیجک صورت حال کے تناظر میں دونوں ممالک کے مابین زیادہ سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے موجودہ سربراہ نے اپنی ذمے داریاں سنبھلانے کے بعد روایت سے ہٹ کر اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے امریکہ کی بجائے ایران کو منتخب کیا جو یقیناً ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کسی غیر ملکی طاقت کے دباؤ کی پروا نہیں کرتا۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی مرحوم جب آخری بار پاکستان تشریف لائے تو اس موقع پر دونوں ممالک کے سربراہوں نے کئی اہم اقتصادی نوعیت کے معاہدوں پر دستخط کیے جو نئے بین الاقوامی منظر نامے میں دونوں ممالک کی برادرانہ حیثیت کی غمازی کرتے ہیں۔
کچھ ہفتے قبل پاکستان اور ایران کی حکومتوں نے دونوں ممالک کے خلاف سرگرم عمل دہشت گردوں کے خلاف ایسی کاروائی کی جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں کچھ بدمزگی اور تناؤ کی صورت حال نے جنم لیا جس سے بعض دشمن طاقتوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت نے کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صورت حال کو بگڑنے نہیں دیا اور کچھ ایسے اقدامات کیے جس کی وجہ سے دونوں ممالک باہم ایک دوسرے کے اور قریب آگئے۔ حال ہی میں ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل باقری کا پاکستان کا دورہ پاکستان اور ایران کے مابین اسٹریٹیجک نوعیت کے قریبی تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے ان قریبی تعلقات کو فطری طور پر دونوں ممالک کے دشمن برداشت نہیں کر پاتے اور وہ کسی ایسے بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی آڑ میں وہ اپنے مزموم مقاصد کو پایہء تکمیل تک پہنچا سکیں لیکن دونوں ممالک کے تعلقات جن بنیادوں پر استوار ہیں وہ اتنی مضبوط اور پائیدار ہیں کہ ان دشمن طاقتوں کی تمام کوششیں آخرکار دیوار سے سر ٹکرانے کی صورت میں ہی ظاہر ہوتی ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1188583