اتحاد کی مثالیں
31 Jan 2025 12:22
اسلام ٹائمز: 1974ء میں قادیانیت کیخلاف تمام مسالک نے مشترکہ موقف اپنایا اور قومی اسمبلی میں متفقہ لائحہ عمل پیش کرکے قادیانیوں کو کافر قرار دیا۔ 1977ء کی نظام مصطفیٰ تحریک میں شیعہ و سنی ایک دوسرے کے دست و بازو بنے۔ 1995ء میں ملک میں فرقہ واریت کیخلاف تمام مسالک کی جماعتوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم، ملی یکجہتی کونسل تشکیل دیا، جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ متحدہ مجلس عمل کو بھی اسی کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وحدت امت کے حوالے سے ایک بات ملحوظ رکھیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال اور اپنے دور کے اعمال کا جواب دہ ہونا ہے کہ ہم امت محمدی کی وحدت کے طلب گار تھے یا اس امت میں اختلاف و افتراق کی وجہ بنے تھے۔
تحریر: سید نثار علی ترمذی
1857ء وہ سال ہے، جسے ایک لحاظ سے آپ سنگ میل قرار دے سکتے ہیں۔ اس سے آپ تعین کرسکتے ہیں کہ 1857ء سے پہلے کیا حالات تھے اور بعد میں کیا ہوا۔ میری دلچسپی اس سے بعد کے حالات سے ہے، کیونکہ اس سے امت محمدی پر ابدی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اثرات کے متعدد پہلو ہیں، مگر میرا مطمع نظر تو وحدت و اتحاد امت کی سرزمین ہے۔ آئیے اسی حوالے سے جائزہ لیتے ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں کسی طرف سے فرقہ وارانہ تعصب کی بو بھی نہیں آتی بلکہ برصغیر کے مسئلے کو اجتماعی مشکل سمجھتے ہوئے وحدت کے رجحانات نظر آتے ہیں۔ اس کی مثال برصغیر کے پہلے شہید صحافی مولانا علامہ سید باقر دہلوی ہیں، جو علامہ محمد حسین آزاد کے والد ہیں اور مسلمہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے جنگ آزادی میں اپنا صحافیانہ کردار جس خوبی سے ادا کیا، وہ ایک مثال ہے۔"
بی بی سی کے سابق صحافی قربان علی نے کہا کہ مولوی محمد باقر نے 1857ء کی جنگ آزادی میں قلم سے تلوار کا کام لیا اور ان کے "دہلی اردو اخبار" نے آزادی کے متوالوں میں جوش و خروش پیدا کیا۔" 1857ء میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا اعلان کیا تو اس اخبار کا نام ”اخبار الظفر“ رکھ دیا گیا، تاکہ تحریک آزادی کو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مناسبت سے تقویت مل سکے۔ ”اخبار الظفر“ میں انگریز سرکار کے خلاف کھل کر بغاوت اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حمایت کی جانے لگی۔ اخبار میں انگریزوں کے مختلف علاقوں میں ڈھائے جانے والے مظالم سے بھی پردہ اٹھایا جانے لگا۔ اسی جرم کی پاداش میں مولانا کو توپ کے دھانے پر رکھ کر اڑا دیا گیا تھا۔
اس جنگ آزادی کے بعد بڑی اجتماعی سرگرمی سر سید احمد خان کی تعلیمی تحریک کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ جدوجہد بھی اتحاد اسلامی کا مرقع ہے۔ گو کہ اس بزرگوار پر ہر طرف سے تنقید کی گئی بلکہ اب بھی ہو رہی ہے، مگر اس میں کہیں تفریق بین المسالک بات نظر نہیں آئے گی۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں مسالک کے احساس کا خیال رکھا گیا۔ طلاب میں بھی یہ مسلکی تفریق کہیں نظر نہیں آتی۔شیعہ تھیالوجی اور مشترکہ مسجد اس کی مثالیں ہیں۔" اس تقریب میں تقریر کرتے ہوئے سر سید احمد خاں نے انکشاف کیا کہ ایک دن انھوں نے ایک دوست کے بازو پر حضرت امام ضامن کی نیاز کا روپیہ بندھا ہوا دیکھا اور ان سے سوال کیا کہ کیا مسلمانوں کی قوم سے زیادہ اور کوئی قوم محتاج ہے۔ ان الفاظ کا دوست کے دل پر اثر ہوا۔ انھوں نے وہ سبز کپڑا جس میں وہ نذر بندھی ہوئی تھی، مجھے دے دیا۔ اس میں سے ایک چاندی کا روپیہ اور دو منصوری پیسے نکلے۔ پس یہ پہلا سرمایہ تھا، جو ہماری کمیٹی (خزینہ البضاعہ) کی تھیلی میں ڈالا گیا۔ میں بھی سوچتا ہوں کہ وہ بھی کیا بابرکت ایک روپیہ تھا کہ جس سے شروع کیا ہوا تعلیمی ادارہ آج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نام سے جانا جاتا ہے۔(مختار مسعود، حرف شوق، 34، 2019ء، لاہور)
جسٹس امیر علی، برصغیر کا وہ کردار ہے کہ جس کے معترف ہونے کے باوجود، اسے وہ اہمیت نہیں دی گئی، جس کے وہ مستحق ہیں۔ امیر علی بہت دور اندیشی اور غیر معمولی سیاسی فہم و بصیرت کے مالک تھے۔ وہ انگریزوں کے فکری رجحانات، سیاسی نظریات اور حکمت عملی سے خوب واقف تھے اور ان کے عہد حکومت میں ہندوستان کے سیاسی مستقبل کا واضح شعور رکھتے تھے۔ تمام حالات کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ہندوستان میں عنقریب سیاسی جدوجہد کا دور شروع ہو جائے گا۔ اہل ہند کو رفتہ رفتہ سیاسی حقوق دیئے جائیں گے اور جمہوری اصولوں پر مبنی حکومتی ادارے قائم کیے جائیں گے اور ان حقوق اور اداروں سے وہی قومیں فائدہ اٹھا سکیں گی، جو سیاسی اعتبار سے باشعور اور منظم و متحد ہوں گی۔ اگرچہ اس زمانے میں ہندوستان میں کوئی بڑی سیاسی تنظیم نہیں تھی اور کانگریس ابھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ جب آپ انگلستان میں تھے تو وہاں سر سید سے ایک سیاسی تنظیم کے قیام پر بات کی، مگر وہ بھی اس تجویز سے متفق نہ ہوئے تھے۔
آپ نے 1870ء میں ہی نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن قائم کر دی تھی، جب اس کی شاخیں ملک کے دیگر حصوں میں قائم ہوگئیں تو اس کا نام سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن رکھ دیا۔ آپ اس کے پچیس سال سیکریٹری رہے، جبکہ صدر نواب امیر علی تھے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے قیام سے نو سال قبل یہ تنظیم تشکیل دی، اس سے آپ کی دور اندیشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس ایسوسی ایشن کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و ترقی کے لیے کام کرنا تھا۔ اس کی ملک بھر میں 36 سے زائد شاخیں قائم ہوئی تھیں۔ مسلمانوں میں زیادہ تر ادبی و علمی انجمنیں قائم تھیں۔ مسلمان قوم فرقوں گروہوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اس لیے عام مسائل کو حل کرنے اور معاشرہ کی اصلاح و ترقی کے لیے اجتماعی اقدام کرنے کے تمام امکانات بھی ختم ہوگئے تھے چنانچہ مسلمانوں کو درپیش مشکلات کو ختم کرنے اور ان کے قومی مفادات کی حمایت و حفاظت کرنے کے لیے اس ایسوسی ایشن نے اس کمی کو پورا کیا۔
1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے لیے سر آغا خان سوئم نے ابتدا کی۔ آپ پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس اجلاس میں جسٹس امیر علی بھی شامل تھے اور آپ نے اپنی تنظیم کو بھی نوزائیدہ مسلم لیگ میں ضم کر دیا تھا۔ جمعیت علمائے ہند کی 1919ء میں تاسیس ہوئی۔ اس کی پہلی چھ رکنی آرگنائزنگ کمیٹی بنی تو اس کے چھٹے رکن مولانا انیس دہلوی تھے، جو کہ شیعہ تھے۔ (جمعیت علمائے ہند، جلد اول، 1919ء تا 1945ء، تالیف۔ روزینہ پروین، ناشر قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافت‘‘ اسلام آباد 1981ء)، انیس دہلوی، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی (ناظم جمعیت علمائے ہند) کے تذکرہ میں لکھتے ہیں: ’’فساد دلی کے بعد تعزیہ داری ختم ہوچکی تھی۔ آپ نے اپنی ذاتی کوششوں سے 1951-52ء میں تعزیہ کا جلوس دوبارہ نکلوانے کا بندوبست کیا۔‘‘
مجلس احرار 1929ء میں قائم ہوئی، جس کے سربراہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری تھے۔ اس کے بانی اراکین میں شامل و مرکزی جنرل سیکریٹری مولانا مظہر علی اظہر تھے، جو شیعہ تھے اور ان کا جنازہ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم نے پڑھایا تھا۔ خاکسار تحریک میں مرحوم خاکسار پروفیسر کرار حسین صاحب کی شمولیت 1930ء کے عشرے میں ہوئی تھی اور مرحوم اپنی جوانی کے ایام میں خاکسار تحریک کی صفوں میں کافی عرصہ سرگرم عمل رہے، بانی خاکسار تحریک حضرتِ علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کے ساتھ ان کے روابط کس حد تک تھے، اس کے بارے میں کوئی حتمی ریکارڈ اس وقت موجود نہیں، لیکن ان کا ایک قابل صد ستائش عمل آج بھی خاکسار تحریک کے ریکارڈ روم میں محفوظ ہے۔ وہ عمل یہ تھا کہ مرحوم پروفیسر صاحب نے خاکسار تحریک کے اغراض و مقاصد پر لکھی گئی بانی خاکسار تحریک کی کتاب "قول فیصل" جو کہ 1930ء ہی کے عشرے میں منظرِ عام پر آئی تھی، کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور ان کا وہ ہاتھ سے تحریر شدہ نسخہ آج بھی خاکسار تحریک کے ریکارڈ روم میں ایک اثاثہ کے طور پر محفوظ ہے۔
جماعت اسلامی کی تاسیس 1941ء میں ہوئی۔ اس کے دستور کے مطابق کسی بھی دینی مسلک کا فرد رکنیت حاصل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی میں متعدد مسالک کے افراد شامل ہوئے۔ کئی اضلاع کے امیر بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ جب 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو ہماری مذہبی جماعتوں نے بھی مشاورت شروع کر دی تھی، جس کے نتیجہ میں تمام مسلم تنظیموں نے مسلم لیگ کے بجائے کانگریس کے موقف کی حمایت کی تھی۔ ان میں جمعیت علمائے ہند مجلس احرار، خاکسار تحریک، جماعت اسلامی اور آل انڈیا شیعہ کانفرنس شامل ہیں۔ ان جماعتوں میں کئی باتیں مشترک ہیں۔ ان کے نام غیر فرقہ وارانہ ہیں۔ ان میں دیگر مسالک کے شامل ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ ان اغراض و مقاصد میں اسلام کے آفاقی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا عزم جھلکتا ہے۔
1947ء جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کے بعد وحدت کی ایک نئی فضا سامنے آتی ہے۔ مسلم لیگ میں تو تمام مسالک کے لوگ شامل تھے اور حکومت بھی مسلم لیگ کی تھی۔ ان جماعتوں نے پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے حکومت کا ساتھ دیا۔ قرارداد مقاصد کا مرتب و منظور ہونا ایک بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں دیگر مسالک کے علماء کے ساتھ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی خدمات بھی شامل ہیں۔ 1951ء میں تمام مسالک کے علماء کرام نے حکومت کی تشکیل کے لیے بائیس نکات پر اتفاق کیا، جو آج بھی ایک سیدھے راستے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کے خلاف 1953ء تحریک ختم نبوت تشکیل پائی تو اس کے آغاز سے ہی تمام مسالک کے علماء ایک پلیٹ فارم تشکیل دینے پر رضامند ہوگئے۔ تحریک ختم نبوت کی اس جدوجہد میں علامہ حافظ کفایت حسین مرحوم گرفتار ہوئے۔ سید عباس گردیزی جو کہ اسمبلی کے رکن تھے، انہوں نے احتجاجاً استعفیٰ دیا۔ جب ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین ترتیب پا رہے تھے تو اس وقت بھی تمام مسالک نے مشترکہ موقف اپنایا۔
1974ء میں قادیانیت کے خلاف تمام مسالک نے مشترکہ موقف اپنایا اور قومی اسمبلی میں متفقہ لائحہ عمل پیش کرکے قادیانیوں کو کافر قرار دیا۔ 1977ء کی نظام مصطفیٰ تحریک میں شیعہ و سنی ایک دوسرے کے دست و بازو بنے۔ 1995ء میں ملک میں فرقہ واریت کے خلاف تمام مسالک کی جماعتوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم، ملی یکجہتی کونسل تشکیل دیا، جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ متحدہ مجلس عمل کو بھی اسی کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وحدت امت کے حوالے سے ایک بات ملحوظ رکھیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے اعمال اور اپنے دور کے اعمال کا جواب دہ ہونا ہے کہ ہم امت محمدی کی وحدت کے طلب گار تھے یا اس امت میں اختلاف و افتراق کی وجہ بنے تھے۔
خبر کا کوڈ: 1187801