سیدنا امام جعفر الصادق علیہ السلام
29 Jan 2025 19:16
اسلام ٹائمز: بعض لوگوں نے ابن تیمیہ صاحب کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ، امام جعفر صادق ؑ کے کبھی شاگرد نہیں رہے۔ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے۔ انھوں نے امام جعفر صادقؑ کا زمانہ پایا تھا اور ان سے خوب علمی و روحانی استفادہ کیا تھا، جیسا کہ بہت سے نامور محققین نے لکھا۔ ہمیں انصاف سے کام لینا چاہیئے۔ کسی مسلک کی دشمنی ہمیں اس بات پر مجبور نہ کر دے کہ ہم حقائق سے آنکھیں بند کرلیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے سیرۃ النعمان میں بالکل درست لکھا ہے کہ ’’حضرت امام ابو حنیفہ لاکھ مجتہد سہی، لیکن امام جعفر صادقؑ کے شاگرد تھے۔‘‘ اگر تعصب کی پٹی آنکھوں سے اتار کر دیکھا جائے تو بالکل واضح طور پر یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام آسمان علم و حکمت کے ایسے آفتاب تھے کہ جن سے ہر چاند اور ستارہ ان کے دور میں ضیاء پاتا تھا۔
تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
خاندان رسالت کی دل آویز کہکشاں کے روشن ستارے، فخر ِمصطفیٰؐ و زہراء سلام اللہ علیہما، سیدی و مولائی امام جعفر الصادق علیہ السلام کی ذاتِ والا صفات جیسی شخصیت کے حوالہ سے کچھ لکھنا محض حصولِ خیر و برکت اورعزت و شرف کے سوا اور کچھ نہیں۔ میں کہاں اور وہ فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہاں۔
کیا نسبت خاک را با عالم پاک
امام جعفر صادقؑ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہ نہایت رنج و الم کا ماحول تھا۔ آپؑ کی ولادتِ باسعادت کے وقت واقعہ کربلا کو محض 22 برس گزرے تھے۔ امام زین العابدین (امام سجاد) علیہ السلام آپ کے دادا تھے، جو ہر وقت اپنے والد ماجد شہید کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے غمِ جدائی میں گریہ و زاری میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کے والد گرامی حضرت امام محمد الباقر علیہ السلام نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی تربیت انہی نقوش پر کی، جو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور سے چلے آرہے تھے۔
آپ نے اپنے والد گرامی سے وہ تمام علوم حاصل کیے، جو نسلاً بعد نسل خاندان نبوت میں منتقل ہو رہے تھے۔ آپؑ کے اندر خاندان رسالت کے تمام اوصاف حمیدہ موجود تھے۔ آپ غرباء و مساکین کی حاجت روائی میں نہایت فیاضانہ رویہ رکھتے تھے۔ مہمان نوازی میں کمال رکھتے تھے۔ عفو و درگزر اور صبر و تحمل آپ کی شخصیت کا لاینفک پہلو تھا۔ آپ کی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو علوم و فنون کی ترویج و اشاعت تھی۔ آپ نے جلیل القدر مفسرین، محدثین، فقہاء، علماء اور دانشور پیدا کیے۔ اسی طرح آپ نے علم کیمیا، ریاضی اور الجبراء کے میدانوں میں بھی بہت ہی مستند اور عظیم سائنسدان پروان چڑھائے۔ علم کیمیا کے عظیم موجد جابر بن حیان، الجبراء کے بانی ابو موسیٰ الخوارزمی آپ ہی کے تلامذہ میں سے تھے۔ ان کے علاوہ محمد بن مسلم، ہشام بن سالم، ہشام بن حکم جیسے نابغہ روزگار بھی آپ کے تلامذہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔
فقہ میں مشہور مذاہب اربعہ کے بانیان بلاواسطہ یا بالواسطہ آپ ہی کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ فقہ حنفی کے بانی سراج الائمہ امام اعظم ابو حنیفہؒ آپ کے براہ راست شاگرد تھے۔ امام ابوحنیفہؒ نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ میں نے جعفر ابن محمد جیسا عالم اور کوئی نہیں دیکھا۔ امام مالکؒ بھی امام اعظم ابو حنیفہؒ کی طرح براہ راست حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے علمی استفادہ کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ امام مالک نے امام جعفرؑ کی علمی اور اخلاقی جلالت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک مدت تک امام جعفر صادقؑ سے علمی خوشہ چینی کرتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے سینکڑوں کی تعداد میں علمی رسائل لکھے، جنھیں جابر بن حیان نے جمع کرکے ایک ہزار صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب مرتب کی۔
میں یہاں ضمناً ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں نے ابن تیمیہ صاحب کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ، امام جعفر صادق ؑ کے کبھی شاگرد نہیں رہے۔ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے۔ انھوں نے امام جعفر صادقؑ کا زمانہ پایا تھا اور ان سے خوب علمی و روحانی استفادہ کیا تھا، جیسا کہ بہت سے نامور محققین نے لکھا۔ ہمیں انصاف سے کام لینا چاہیئے۔ کسی مسلک کی دشمنی ہمیں اس بات پر مجبور نہ کر دے کہ ہم حقائق سے آنکھیں بند کرلیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے سیرۃ النعمان میں بالکل درست لکھا ہے کہ ’’حضرت امام ابو حنیفہ لاکھ مجتہد سہی، لیکن امام جعفر صادقؑ کے شاگرد تھے۔‘‘ اگر تعصب کی پٹی آنکھوں سے اتار کر دیکھا جائے تو بالکل واضح طور پر یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام آسمان علم و حکمت کے ایسے آفتاب تھے کہ جن سے ہر چاند اور ستارہ ان کے دور میں ضیاء پاتا تھا۔
اہل سنت اور اہل تشیع کے جلیل القدر صاحبان فکر و دانش نے آپ سے علمی استفادہ کیا تھا۔ امام جعفر صادق ؑسے علمی استفادہ قابل فخر تھا۔ اسی لیے امام اعظم ابو حنیفہؒ نے فرمایا تھا ’’لَولا السَنَتان لَهَلَکَ النُعمان‘‘، "اگر میری زندگی کے آخری دو سال (جو امام کی صحبت میں گزارے) نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔" امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے اجداد کی طرح ہمیشہ حق و صداقت کا علم اٹھائے رکھا۔ کسی جابر کے سامنے کبھی نہ جھکے۔ عباسی خلیفہ منصور دوانیقی نے آپ کو منظر عام سے ہٹانے کی بہت کوشش کی، مگر خاندان نبوت کے اس عظیم چشم و چراغ نے منصور کا اللہ کی مدد و نصرت اور اپنے نور ایمانی سے مقابلہ کیا اور اسے شکست دی۔ منصور نے کئی دفعہ امام کو شہید کرنے کی غرض سے بلایا، مگر اللہ نے ہمیشہ امام کی غیر مرئی طاقتوں سے نصرت فرمائی اور اس کے تمام منصوبے خاک میں ملتے رہے۔ علامہ ابن جوزی اور دیگر جلیل القدر علماء کی آراء موجود ہیں، جن میں انھوں نے امام کے مستجاب الدعوات ہونے کا قول کیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کا شاندار ماضی بنو امیہ اور بنو عباس کی فتوحات کا مرہون منت نہیں ہے بلکہ یہ تزک و اہتشام اس علمی و فکری تحریک کی وجہ سے ہے، جو خاندان نبوت کے عظیم فرزندان نے بپا کی تھی۔ امت پر امام جعفر صادقؑ اور آپ جیسی عظیم شخصیات کا احسان ہے، ورنہ اسلام کی نورانی تعلیمات جہاں عالم کو یوں مستنیر نہ کرتیں۔ بنو امیہ اور پھر بنو عباس کے جبر و استبداد پر پردہ ڈالنے والی یہ علمی اور روحانی تحریک ہی تھی۔ اگر یہ لوگ نبوی تعلیمات کو محفوظ نہ فرماتے تو آج اسلام اپنی تعلیمات کی وجہ سے نہیں بلکہ بنو امیہ اور بنو عباس کے ظلم و ستم اور جور و جفا کی وجہ سے مشہور ہوتا۔ مسلمانوں نے پوری دنیا کے اکثر حصہ پر حکومت انہی ہستیوں کی برکت کی وجہ سے کی، جنھوں نے اجسام پر حکومت کی بجائے قلوب پر حکومت کی۔
میں آخر میں اپنے قارئین کی خدمت میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے عظیم اقوال میں سے چند پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
* ایمان کی تکمیل کے لیے چار چیزوں کی ضرورت ہے۔ (۱) اچھے اخلاق ہونا۔ (۲) نفس میں سخاوت۔ (۳) زیادہ باتونی نہ ہونا۔ (۴) اپنے اضافی مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔
* آپ نے فرمایا: جو تعوذ (اعوذ باللہ پڑھنا) پڑھے تو اس کی زبان جھوٹ، بہتان اور غیبت سے پاک ہو کر تلاوت قرآن مجید کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے۔
* آپ نے فرمایا: کسی صاحب ایمان اور عقلمند کو دنیاوی مال و اسباب کے حصول پر خوش نہیں ہونا چاہیئے۔ دنیا کا مال کمزور پرندوں کا جال ہے اور اخروی نعمتیں شریف پرندوں کا جال ہیں۔
* آپ نے فرمایا: سب سے پہلے اللہ نے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو تخلیق فرمایا اور سب سے پہلے جناب رسالت مآب نے اللہ کی توحید کو بیان فرمایا۔
خبر کا کوڈ: 1187439