ریاستِ کشمیر۔۔۔ ریاست سے روٹی میں تبدیل ہونے تک
29 Jan 2025 19:39
اسلام ٹائمز: کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1540ء میں مغلوں کو کشمیر کے مقامی مذہبی جنونیوں مولوی قاضی ابراہیم اور قاضی عبدالغفور نے ریاست پر حملے کی دعوت دی۔ انہوں نے چک خاندان کیخلاف مسلکی کارڈ استعمال کرتے ہوئے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے سے کشمیر میں مذہبی منافرت کا آغاز ہوا اور بعد ازاں ہندو مسلم فسادات اور ناامنی کا دروازہ بھی کھلا۔ 1540ء میں منگول کمانڈر مرزا محمد حیدر دوغلات بیگ نے پہلی مرتبہ کشمیر کو ایک ریاست سے روٹی میں تبدیل کیا اور آج تک اس ریاست کو روٹی کی مانند نوچا اور چبایا جا رہا ہے۔ 5 فروری کو ضرور منائیں، لیکن عوام کو یہ بھی بتائیں کہ کشمیر جو ایک خود مختار، مہذب، متمدن اور باوقار ریاست تھی، وہ کیسے ایک روٹی میں تبدیل ہوئی۔! تاریخ کشمیر کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ جب مذہب دوسروں کا حق تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کی حق تلفی کیلئے استعمال ہونے لگے تو پھر وہ ایک ریاست کو بھی ایک روٹی میں تبدیل کر دیتا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
(سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم)
5 فروری نزدیک ہے۔ تمام عزیز ہم وطن اس روز چھٹی منائیں گے۔ کچھ کو اس روز کشمیر کی آزادی کے نعرے لگانے کا شوق بھی ہے۔ ان نعرے لگانے والوں میں سے اکثر کو یہ خبر بھی نہیں ہوگی کہ ابھی چند دن پہلے تاریخ میں پہلی بار بھارتی ٹرین دہلی سے کشمیر کے سری نگر ریلوے اسٹیشن پہنچ گئی ہے۔ کبھی ہم کہتے تھے کہ کشمیر اور ہندوستان کے درمیان صرف جغرافیائی فاصلہ ہی نہیں بلکہ تاریخ، زبان، کلچر اور تہذیب و ثقافت کا فرق بھی قابلِ مشاہدہ ہے۔ ہم آج بھی باتیں کرنے تک ہی محدود ہیںو جبکہ بھارت ان فاصلوں کو سمیٹتا جا رہا ہے۔ بہرحال مذکورہ فاصلہ اور تفریق مطالعہ پاکستان کے علاوہ اب اور کہیں بھی حائل نہیں۔ یہ کریڈٹ اہلِ کشمیر کو جاتا ہے کہ وہ جدوجہدِ آزادی کو اپنی بصیرت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی تیسری نسل میدان میں تنِ تنہاء کھڑی ہے اور اس کے چہرے پر تھکاوٹ اور خوف کے کوئی آثار نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اُن کی جرات و بصیرت کے ساتھ پاکستانی سفارتکاری ہم آہنگ ہو جائے۔
اپنے ماضی کی تاریخ میں کشمیریوں نے اقوامِ عالم پر یہ ثابت کیا ہے کہ مظلوم کی طاقت اُس کی جدوجہد میں مضمر ہوتی ہے۔ جب کوئی مظلوم ہوتا ہے تو اس کی جدوجہد سے اُس کی بصیرت، ایمانداری، ہمت اور عزم کا پتہ چلتا ہے۔ مظلوم اپنی مشکلات کے باوجود سخت اور نامساعد حالات میں صبر کرتا ہے اور اپنے حقوق کے لئے سچائی کے ساتھ کھڑا رہتا ہے، اسی کھڑے رہنے کا نام ہی جدوجہد اور اسی کا نام مظلوم کی طاقت ہے۔ کشمیر کے لوگ دہائیوں سے ظلم، جبر، روزانہ کی بنیاد پر تشدد، گمشدگیوں، ناانصافی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے 1948ء میں کشمیر اور فلسطین دونوں ریاستوں سے حقِ خود ارادیت کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب بغیر حقِ خود ارادیت کے دونوں کو تقسیم کرکے دو دو ریاستیں بنانے کی تیاری مکمل کی جا چکی ہے۔ اس دوران دنیا کے کئی ممالک نے فلسطین کیلئے موثر آواز بلند کی ہے، لیکن کشمیریوں کو عالمی سطح پر مسلسل بے حسی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بے حسی بے سبب نہیں، اس کے پسِ پردہ محرکات پر توجہ دی جانی چاہیئے۔
گذشتہ دنوں یہ ٹرین دہلی سے سری نگر نہیں پہنچی بلکہ یہ حقِ خود ارادیت کے انکار کے بعد، اب کشمیریوں کی شناخت پر ایک بڑا اور کارگر حملہ ہے۔ اب یہ رونا رونے کا کوئی فائدہ نہیں کہ بھارتی حکومت انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیا، سائبر ٹیکنالوجی سوفٹ وار اور دہشت گردی کو کشمیریوں کے خلاف ہائبرڈ ٹولز کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنی شہ رگ کیلئے کیا کر رہا ہے۔؟ جب ہم یہ جانتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کسی کو بھی اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کیلئے مجبور نہیں کرسکتی تو پھر یہ عملدرآمد کیسے ہوگا۔؟ جذباتی نعرے کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچاتے اور زمینی حقائق کو عقلمند کبھی بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ عصرِ حاضر میں بات صرف پاکستان اور ہندوستان کی نہیں بلکہ چین بھی اس مسئلے کا ایک مضبوط فریق ہے۔ کئی سالوں سے مذکورہ تینوں ممالک کے درمیان کشمیر ایک تھالی میں پڑی ہوئی روٹی کی مانند تقسیم ہونے کو ہے۔ اس تقسیم کے راستے میں رکاوٹ فقط اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ اب کشمیری لوگ اقوام متحدہ کا شکریہ ادا کریں یا اقوامِ متحدہ کو بُرا بھلا کہیں۔؟
کشمیر پر مغلوں کے قبضے سے پہلے اپنی تاریخ میں کشمیر کبھی غلام اور بے بس نہیں رہا اور کشمیر میں کبھی بھی نفرت، تعصب اور مذہبی جنون نے راج نہیں کیا۔ آج کشمیر پر غیروں کے خوف کے سائے کیوں ہیں اور یہاں اپنوں سے نفرت کا بیج کس نے بویا ہے۔؟ کشمیر میں اسلام کا ظہور بھی کسی خون خرابے کے بغیر ہوا۔ سید شرف الدین موسوی المعروف بلبل شاہ ایک مبلغ تھے نہ کہ کوئی عسکری سپہ سالار۔ وہ رنچن شاہ کے دور حکومت میں 724 قمری بمطابق 1324ء عیسوی میں خراسان سے تبلیغِ اسلام کی غرض سے کشمیر آئے۔ رنچن آبائی طور پر ایک بدھ مت حکمران تھا۔ وہ بدھ مت تھا لیکن ظالم نہیں۔ اس کے دربار میں مذاہب و فرق کا علمی مباحثہ و مکالمہ اور مناظرہ روزانہ کا معمول تھا۔ بلبل شاہ بھی اسی دربار میں بادشاہ کی توجہ کا مرکز بنے۔ ان کے معقول دلائل نے بادشاہ کے تصوّر روحانیت کو دگرگوں کر دیا۔ بلبل شاہ کے علمی دلائل سے بادشاہ کے قدیمی مذہبی اعتقادات میں رخنہ پڑا اور اُس نے اپنے لئے جدید مذہب یعنی اسلام کا اعلان کر دیا۔
گویا بادشاہ کو جس حقیقت اور سچائی کی تلاش تھی، وہ بادشاہ کو مل گئی۔ اس خوشی میں بادشاہ کی رعایا بھی شکرانے کے طور پر مسلمان ہوگئی۔ یوں تبدیلی مذہب کیلئے ساری ریاست میں نہ خون کا ایک قطرہ گرا اور نہ کسی کی گردن اُڑائی گئی۔ یہ ایک مذہبی مکالمہ تھا، جو تہذیبی تبدیلی اور ایک نئے تمدّن کا باعث بنا۔ بعد ازاں جتنے بھی مبلغین ِاسلام کشمیر میں داخل ہوئے، انہوں نے کبھی بھی لشکر کشی یا عسکریت پسندی کا سہارا نہیں لیا۔ رفتہ رفتہ اسلام کو فروغ ملتا رہا اور ایک شعوری بلوغ کے طور پر اسلامی تمدّن جوان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اسلامی تمدّن کی آغوش میں سلطان زین العابدین بڈشاہ (عظیم بادشاہ) جیسا بے مثال حکمران تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ ان میں سے کسی نے بھی حصولِ اقتدار کیلئے مذہبی کارڈ نہیں کھیلا۔ رعایا سب کی رعایا اور حکمران سب کے حکمران تھے۔ زمانے کے نشیب و فراز میں کئی کشمیری خاندان یونہی سماجی ارتقاء اور مقامی تبدیلیوں کے مطابق برسرِ اقتدار آتے رہے۔
اسی طرح بغیر کسی مسلکی یا مذہبی نعرے کے 1561ء میں چک خاندان بھی برسرِ اقتدار آیا اور اُس نے 1586ء تک کشمیر پر کسی نہ کسی شکل میں حکومت کی۔ چک خاندان 927 ھ، 928 ھ اور 929 ھ میں مغلوں کو تین دندان شکن شکستیں دے چکا تھا۔ کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1540ء میں مغلوں کو کشمیر کے مقامی مذہبی جنونیوں مولوی قاضی ابراہیم اور قاضی عبدالغفور نے ریاست پر حملے کی دعوت دی۔ انہوں نے چک خاندان کے خلاف مسلکی کارڈ استعمال کرتے ہوئے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے سے کشمیر میں مذہبی منافرت کا آغاز ہوا اور بعد ازاں ہندو مسلم فسادات اور ناامنی کا دروازہ بھی کھلا۔ 1540ء میں منگول کمانڈر مرزا محمد حیدر دوغلات بیگ نے پہلی مرتبہ کشمیر کو ایک ریاست سے روٹی میں تبدیل کیا اور آج تک اس ریاست کو روٹی کی مانند نوچا اور چبایا جا رہا ہے۔ 5 فروری کو ضرور منائیں، لیکن عوام کو یہ بھی بتائیں کہ کشمیر جو ایک خود مختار، مہذب، متمدن اور باوقار ریاست تھی، وہ کیسے ایک روٹی میں تبدیل ہوئی۔! تاریخ کشمیر کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ جب مذہب دوسروں کا حق تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کی حق تلفی کیلئے استعمال ہونے لگے تو پھر وہ ایک ریاست کو بھی ایک روٹی میں تبدیل کر دیتا ہے۔
خبر کا کوڈ: 1187438