60 دن بعد بھی اسرائیل کا جنوبی لبنان سے انخلا نہ کرنا
کیا حزب اللہ اور اسرائیل نئی جنگ کیلئے تیار ہیں؟؟؟
29 Jan 2025 18:16
اسلام ٹائمز: اسرائیل کیلئے جنوبی لبنان پر طویل مدت تک قبضہ برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوگا، کیونکہ اسوقت وہ نہ تو داخلی طور پر مضبوط ہے، نہ ہی حزب اللہ کو فیصلہ کن شکست دینے کی پوزیشن میں ہے۔ اگر اسرائیل نے حزب اللہ کیخلاف مکمل جنگ چھیڑی تو یہ ایک طویل، مہنگی اور تباہ کن جنگ بن سکتی ہے، جو آخرکار اسرائیل کیلئے نقصان دہ ہوگی۔ اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ اسرائیل فوجی دباؤ کے باوجود جلد یا بدیر جنوبی لبنان سے نکلنے پر مجبور ہوگا۔
تحریر و تجزیہ: سید نوازش رضا
حالیہ جنگ بندی معاہدے کے باوجود، اسرائیل اور لبنان کے درمیان کشیدگی برقرار ہے۔ معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج کو جنوبی لبنان سے انخلا کرنا تھا، لیکن اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ فی الحال انخلا نہیں کرے گا۔ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے جنوبی لبنان میں کم از کم 15 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ انخلا کا عمل لبنانی فوج کی تعیناتی اور معاہدے پر عمل درآمد پر منحصر ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اسرائیل کو جنوبی لبنان سے انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید مزاحمت کی دھمکی دی ہے۔ حزب اللہ کو ایک مضبوط عسکری تنظیم سمجھا جاتا ہے، جس کے پاس جدید ہتھیار اور تربیت یافتہ جنگجو موجود ہیں۔
اسرائیل کی فضائی طاقت حزب اللہ کے مقابلے میں زیادہ ہے، لیکن حزب اللہ کی زمینی مزاحمت اور گوریلا جنگ کی صلاحیتیں قابلِ ذکر ہیں۔ حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اگر اسرائیل جنوبی لبنان میں اپنی موجودگی برقرار رکھتا ہے تو حزب اللہ کی جانب سے مزید مزاحمت کا امکان موجود ہے۔ موجودہ صورتحال میں، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تنازعہ کسی بھی وقت شدت اختیار کرسکتا ہے، اور خطے میں امن و استحکام کے لیے یہ ایک سنگین خطرہ ہے۔
کیا حزب اللہ اسرائیل کے خلاف دوبارہ مؤثر جنگی مزاحمت کرسکتی ہے؟
عمومی پروپیگنڈا اور تاثر یہ پیدا کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اسرائیلی حملوں کے بعد بہت کمزور ہوچکی جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے، حزب اللہ کے پاس اب بھی اتنی عسکری طاقت اور اسٹریٹجک صلاحیت موجود ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ایک مؤثر مزاحمت کھڑی کرسکے۔ اس کے چند بنیادی اسباب یہ ہیں:
1۔ عسکری طاقت اور تجربہ
حزب اللہ کے پاس ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو ہیں، جنہوں نے شام اور دیگر تنازعات میں جنگی تجربہ حاصل کیا ہے۔ اس کے پاس جدید ہتھیار، ڈرونز، میزائل سسٹمز اور اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائلز موجود ہیں، جو وہ ایران اور شام سے حاصل کرتا رہا ہے۔ اسرائیلی خفیہ اداروں کے مطابق، حزب اللہ کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ راکٹ اور میزائل موجود ہیں، جن میں بعض انتہائی دور مار صلاحیت رکھتے ہیں، جو اسرائیل کے اندر تک حملے کرسکتے ہیں۔
2۔ اسٹریٹجک برتری اور گوریلا جنگ
حزب اللہ روایتی جنگ کی بجائے گوریلا جنگ میں مہارت رکھتا ہے، جو 2006ء کی جنگ میں ثابت ہوچکی ہے۔ وہ سرنگوں، بنکروں اور چھپنے کی بہترین حکمت عملی اپناتا ہے، جو اسرائیلی فضائی حملوں کے اثر کو کم کرتی ہے۔ جنوبی لبنان میں اس کا گہرا اثر و رسوخ ہے، جس کی وجہ سے اسے عوامی سپورٹ بھی حاصل ہے، جو جنگی استحکام کے لیے اہم ہے۔
3۔ سیاسی اور عوامی حمایت
لبنان میں حزب اللہ کو ایک مضبوط عوامی اور سیاسی حمایت حاصل ہے، جو اسے ایک نیم ریاستی فوج جیسا درجہ دیتی ہے۔ ایران اور شام کی مکمل حمایت کے باعث اسے مسلسل عسکری، مالی اور لاجسٹک سپورٹ ملتی رہتی ہے۔
4۔ اسرائیل کی مشکلات
اسرائیل اس وقت داخلی سیاسی بحران، عالمی دباؤ اور غزہ جنگ کے اثرات کی وجہ سے کمزور پوزیشن میں ہے۔ حزب اللہ کو یہ برتری حاصل ہوسکتی ہے کہ اسرائیل دو محاذوں پر لڑنے کی سکت نہیں رکھتا (یعنی غزہ اور لبنان دونوں محاذوں پر)۔ اگر حزب اللہ نے حملے بڑھائے تو یہ اسرائیل کو دفاعی پوزیشن پر جانے پر مجبور کرسکتا ہے، جیسا کہ 2006ء میں ہوا تھا۔
نتیجہ
حزب اللہ کے پاس عسکری طاقت، تجربہ اور وسائل موجود ہیں اور اگر اسرائیل جنوبی لبنان سے پیچھے نہیں ہٹتا، تو حزب اللہ دوبارہ مؤثر مزاحمت کھڑی کرسکتا ہے۔ تاہم، مکمل جنگ کا انحصار خطے کی مجموعی صورتحال، ایران کی حمایت اور اسرائیل کی ردعمل کی پالیسی پر بھی ہوگا۔
کیا اسرائیل جنوبی لبنان پر قبضہ برقرار رکھتے ہوئے حزب اللہ سے جنگ لڑنے کے قابل ہے؟
اسرائیل اس وقت ایسی پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ جنوبی لبنان پر قابض رہنے کے لیے حزب اللہ کے ساتھ ایک بڑی جنگ چھیڑ سکے۔ اس کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ اسرائیل کی داخلی کمزوری
سیاسی بحران:
اسرائیل کی داخلی سیاست شدید انتشار کا شکار ہے۔ نتن یاہو کی حکومت پر دباؤ ہے اور عوامی سطح پر بھی جنگ کے حوالے سے تقسیم ہے۔
اقتصادی دباؤ:
غزہ جنگ کے بعد اسرائیل کی معیشت متاثر ہو رہی ہے اور مسلسل فوجی کارروائیاں اسے مزید کمزور کرسکتی ہیں۔
عوامی تھکن:
اسرائیلی عوام اور فوج غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے تھک چکے ہیں اور دوسرا بڑا محاذ کھولنا عوامی مخالفت کو بڑھا سکتا ہے۔
2۔ غزہ جنگ میں الجھاؤ
اسرائیل اب بھی حماس کے خلاف مکمل کامیابی حاصل نہیں کرسکا اور غزہ جنگ اس کے لیے مسلسل چیلنج بنی ہوئی ہے۔ اگر اسرائیل حزب اللہ کے خلاف مکمل جنگ چھیڑتا ہے تو اسے دو محاذوں پر لڑنا پڑے گا، جو اس کی فوجی اور اقتصادی صلاحیت کو مزید کمزور کر دے گا۔
3۔ حزب اللہ کی مضبوطی
حزب اللہ کے پاس طاقتور میزائل سسٹم ہے، جو شمالی اسرائیل کے بڑے شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ 2006ء کی جنگ میں اسرائیل حزب اللہ کو ختم کرنے میں ناکام رہا اور اب حزب اللہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور جنگی تجربہ رکھتا ہے۔ لبنان میں عوامی حمایت اور مضبوط نیٹ ورک کی وجہ سے حزب اللہ کو شکست دینا مشکل ہوگا۔
4۔ عالمی دباؤ اور سفارتی مشکلات
اسرائیل پہلے ہی عالمی برادری کی تنقید کی زد میں ہے اور جنوبی لبنان میں ایک نئی جنگ شروع کرنے سے مزید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ اور یورپی ممالک بھی اسرائیل کو حزب اللہ کے ساتھ مکمل جنگ چھیڑنے سے روکنے کی کوشش کرسکتے ہیں، کیونکہ اس سے پورے خطے میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔
نتیجہ
اسرائیل کے لیے جنوبی لبنان پر طویل مدت تک قبضہ برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوگا، کیونکہ اس وقت وہ نہ تو داخلی طور پر مضبوط ہے، نہ ہی حزب اللہ کو فیصلہ کن شکست دینے کی پوزیشن میں ہے۔ اگر اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف مکمل جنگ چھیڑی تو یہ ایک طویل، مہنگی اور تباہ کن جنگ بن سکتی ہے، جو آخرکار اسرائیل کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ اسرائیل فوجی دباؤ کے باوجود جلد یا بدیر جنوبی لبنان سے نکلنے پر مجبور ہوگا۔
خبر کا کوڈ: 1187425