تحریرالشام کی حقیقت آشکار
25 Jan 2025 21:35
اسلام ٹائمز: اسی تناظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اور ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے ٹیلیفونی گفتگو میں دوطرفہ تعلقات اور شام میں پیشرفت سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔ عباس عراقچی نے شیعہ اور علوی علاقوں میں نہتے عام شہریوں اور شامی عوام کیخلاف مسلح گروہوں کی من مانی کارروائیوں کی خبریں منظر عام پر آنے پر تشویش کا اظہار کیا اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا۔
تحریر: سید رضی میر عمادی
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو پینتالیس دن گزر چکے ہیں۔ شام سے موصولہ خبروں کے مطابق اس ملک کے شیعہ مسلمانوں کے خلاف تحریر الشام سے وابستہ مسلح عناصر نے مختلف طرح کے تشدد میں اضافہ کر دیا ہے۔ شامی صوبے حمص کے گاؤں الکنیسہ میں مسلح عناصر کے حملے میں دس شیعہ شہری شہید ہوگئے۔ مسلح عناصر نے اس گاؤں میں پانچ شامی شہریوں کو بھی گرفتار کیا اور اس گاؤں کے مکینوں کو سخت ہراساں کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے تریین گاؤں میں تین شیعہ شہریوں کو گرفتار کرکے تین دیگر شہریوں کو گولیوں سے زخمی کر دیا۔ تحریر الشام گروپ سے وابستہ مسلح عناصر نے کفرنان گاؤں پر حملے میں 27 افراد کو گرفتار اور متعدد رہائشیوں کو زخمی کیا۔ الجولانی سے وابستہ مسلح عناصر نے الغزیلہ اور الحمام کے دو دیہاتوں میں چار افراد کو کھلے عام قتل، پانچ کو گرفتار اور 10 کو زخمی کیا۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق دو روز قبل الجولانی سے وابستہ مسلح عناصر مغربی حمص کے الغور قصبے میں داخل ہوئے اور چار شہریوں کو براہ راست سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ان فورسز نے دو دیگر شہریوں کو بھی ان کے ساتھ تنازعہ میں ملوث ہونے کے الزام میں قتل کیا۔ یہ تشدد صرف صوبہ حمص تک محدود نہیں ہے۔ حمص، حما اور شام کے ساحلی علاقوں میں بھی نوجوانوں کو شہر کے مرکز میں اکٹھا کرکے پھانسیاں دی گئی ہیں۔ ملک کے اندر اور خاص طور پر مسلح اور دہشت گرد عناصر کے خوف سے شیعوں کی ایک بڑی تعداد بے گھر ہوگئی ہے اور ان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ متاثرین میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ان اقدامات نے شام کے مقامی لوگوں کے مصائب میں اضافہ کر دیا ہے۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ یہ تشدد یا تو ابو محمد الجولانی کی اجازت سے کیا گیا یا وہ مسلح گروپوں کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہے۔ دہشت گرد گروہوں کی ایک بڑی تعداد تحریر الشام کے ساتھ تعاون میں ہے۔ وہ اقتدار میں حصہ لینے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ دوسرا نکتہ شیعہ علاقوں کے مکینوں پر مسلح عناصر کے حملے نہ صرف فوجی کارروائی کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں بلکہ ان علاقوں میں خوف اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے بھی ہیں۔ یہ گروہ شام کے شیعوں پر نئی حکومت کی اطاعت کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تیسرا تجزیہ یہ ہے کہ یہ حملے اسد حکومت کی افواج کا مقابلہ کرنے کے بہانے کیے جا رہے ہیں اور نئی حکومت سے وابستہ عناصر اسد حکومت کی قریبی قوتوں کو پاک کرنے اور انہیں ملک سے بھاگنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ یہ تشدد شام کی نازک اور غیر مستحکم صورتحال اور حمص سمیت مختلف صوبوں میں شیعہ برادری پر اس کے گہرے اثرات کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ یہ حملے شام میں مذہبی اور نسلی کشیدگی کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ تنازعات میں اضافے اور انسانی بحران کا باعث بن سکتے ہیں۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ شیعوں کے خلاف تشدد میں اضافے اور گذشتہ 45 دنوں کے دوران سینکڑوں افراد کی شہادت اور زخمی ہونے کے باوجود (حالانکہ یہ شام کے شیعہ آبادی والے علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور انسانی بحران کی نشاندہی کرتا ہے) عالمی برادری بالخصوص انسانی حقوق کی دعویدار طاقتیں ابھی تک خاموش ہیں، حالانکہ اس سے پہلے وہ بشار الاسد کو جن خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ٹھراتے تھے، ان کی صورت حال بہت ہی گھمبیر ہے۔
اس حاموشی کی وجہ سے اس تشدد کو روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ اسی تناظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی اور ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے ٹیلیفونی گفتگو میں دوطرفہ تعلقات اور شام میں پیشرفت سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔ عباس عراقچی نے شیعہ اور علوی علاقوں میں نہتے عام شہریوں اور شامی عوام کے خلاف مسلح گروہوں کی من مانی کارروائیوں کی خبریں منظر عام پر آنے پر تشویش کا اظہار کیا اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا۔
خبر کا کوڈ: 1186590