این جی اوز، سوشل ویلفیئر کے ادارے، اوزار یا پاور پولیٹکس کے ٹُولز؟
23 Jan 2025 14:17
اسلام ٹائمز: اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ این جی اوز ان لوگوں کی خدمت کر رہی ہیں یا ان مقاصد کی ایڈووکیسی کر رہی ہیں، جنکی وہ نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں، یا وہ آج بھی جیوپولیٹکل کھیل کی بڑی بساط کا حصہ ہیں۔؟ ہر انسان کی زندگی قیمتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک ملک کی تحریک میں ایک شخص کی ہلاکت پورے عالمی میڈیا اور این جی اوز کو متحرک کر دیتی ہے، لیکن کبھی کسی اور ملک میں درجنوں افراد کی ہلاکت بھی عالمی ضمیر بیدار نہیں کرتی ہے۔ اب کہیں اسلامی شدت پسند دہشتگرد کہلاتا اور کہیں وہی لوگ مجاہدین یا حریت پسند بنا دیئے جاتے ہیں۔
تحریر: ثقلین امام
کیا آج کے نوجوان جانتے ہیں کہ سرد جنگ کے دوران انٹرنیشنل این جی اوز امریکی جیوپولیٹکل مفادات کو آگے بڑھانے کے سب سے طاقتور ٹولز میں سے ایک تھیں۔؟ جمہوریت اور فری ورلڈ کے نظریات کا “فروغ” تو سنہ 50 کی دہائی سے سرد جنگ کے دوران امریکی-قیادت والی دنیا کی خارجہ پالیسی کے ٹولز چلے آرہے تھے، مگر صدر ریگن کے دور میں نیشنل انڈاؤمنٹ فار ڈیموکریسی جیسے ادارے بنائے گئے، جن کا مقصد بظاہر جمہوریت اور انسانی حقوق کا فروغ تھا۔ لیکن ایک راز یہ بھی تھا کہ ان تنظیموں میں کئی افراد سی آئی اے جیسی انٹیلیجنس ایجنسیوں سے وابستہ یا ان کے ایجنٹوں کے تجویز کنندہ تھے، جو انھیں خفیہ طریقوں سے امریکی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران کیا ہوا؟
• این جی اوز نے سوشلسٹ یا “آمرانہ” حکومتوں کے خلاف اپوزیشن گروپس کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کی اور سوویت یونین کی اتحادی یا اس کے ساتھ جڑی حکومتوں کو کمزور کیا۔ دراصل ہر وہ ملک جہاں آزاد منڈی کا نظام نہیں ہوتا تھا، اُسے سوشلسٹ یا آمریت کہا جاتا تھا اور جو تحریکیں استعماریت (کالونی ازم) سے آزادی چاہتی تھیں، انھیں بھی سوشلسٹ یا کمیونسٹ تحریکیں کہا جاتا تھا۔
• میڈیا کیمپینز کے ذریعے امریکہ مخالف ممالک میں انسانی حقوق کی حقیقی یا گھڑی گئی مبینہ خلاف ورزیوں کی کہانیوں یا خبروں کو اُچھالا جاتا تھا، لیکن امریکی اتحادی ممالک میں ایسی ہی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کر دیا جاتا تھا۔ پاکستان کے جنرل ایوب خان یا جنرل ضیاء الحق جب تک امریکی مفادات پورے کرتے رہے، اُن کے ہر غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کو درگزر کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق جب تک امریکی مفادات پورے کرتے رہے، اُن کے ہر غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کو درگزر کیا گیا۔
• ثقافتی تبادلے اور تعلیمی پروگراموں کے ذریعے اہم خطوں میں مغرب نواز اشرافیہ کو تیار کیا گیا۔ اس کے بارے میں فرانٹز فینن کی کتاب (ریچڈ دی ارتھ) میں ژاں پال سارترے نے اپنے پیش لفظ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی اشرافیہ کے لوگ استعماری طاقتوں کے نظریات اور خیالات کے بہترین آلۂِ کار ثابت ہوتے ہیں۔
• انسانی ہمدردی کی امداد بعض اوقات اینٹی کمیونسٹ باغیوں کی مدد کا ایک بہانہ ہوتی تھی، جس کی مثالیں خاص طور پر لاطینی امریکہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ چلی میں آلیندے کی حکومت کے بعد سوشلسٹوں کے قتل عام کی خبریں بہت بعد میں سامنے آئیں۔ ارجنٹائین میں جمہوری عناصر کی گمشدگی اور ہلاکتوں کی تفصیلات بھی بعد میں سامنے آئیں۔ مشرق وسطیٰ میں وہ ممالک جو امریکہ کے حامی ہیں، وہاں کی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر ہی نہیں آتیں، لیکن امریکہ مخالف حکومتوں کو ہٹلر سے بھی زیادہ انسان دشمن بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ اسی طرح مشرق بعید کے ممالک میں کسی مبینہ سوشلسٹ ملک میں معمولی سا واقعہ بھی مغربی پریس کی ہیڈ لائین بن جاتا تھا، مگر انڈونیشیا میں جنرل سوہارتو کے کُو کے بعد پانچ لاکھ مبینہ “کمیونسٹوں” کے قتل عام کو فرنٹ پیج پر جگہ نہیں ملی تھی۔
• خفیہ ایجنسیوں سے منسلک این جی اوز آزاد اور خود مختار ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی تھیں۔ اس قسم کی مداخلتوں کو سوویت اثر و رسوخ کے خلاف ضروری کارروائی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ این جی اوز کے اس طرح کے استعمال سے حقیقی ویلفیئر آرگنائزیشن کے کام اور خفیہ آپریشنز کے درمیان فرق دھندلا ہو جاتا ہے۔ مثلاً تقریباً تیرہ برس پہلے پولیو ویکسینیشن کی ایک کیمپین کو اسامہ بن لادن کا سراخ لگانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد پولیو ویکسین کا عملہ انتہاء پسندوں کا جائز ہدف بن گیا۔
آج کے دور میں کیا ہو رہا ہے؟
سرد جنگ کے دوران تیار کیے گئے طریقے آج بھی استعمال ہو رہے ہیں: وینزویلا، ایران اور اس طرح کے دیگر ممالک جنھیں امریکہ کا مخالف سمجھا جاتا ہے، اُن کے خلاف امریکی فنڈڈ این جی اوز اب بھی جمہوریت کے فروغ کے نام پر وہاں کی حکومتوں کے خلاف گروپس کی حمایت کرتی ہیں اور دیگر اقسام کی معاونت بھی مہیا کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا پروپیگنڈہ:
جدید دور کی کیمپینز سرد جنگ کے میڈیا حربوں کی طرح مغربی مفادات کے حق میں بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔ کلر ریولوشنز اور عرب اسپرنگ کے دوران بیرونی فنڈنگ نے ان تحریکوں کو تقویت دی، جس سے ان کی حقیقی حیثیت پر سوالات اٹھے۔ ان مبینہ ریولوشنز کو سوشل میڈیا کی سہولت کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا۔ ان کے “کلسٹرز” بنانے سے لے کر ان کا بیانیہ تشکیل دینے تک مدد دی گئی۔
ہائبرڈ جنگ:
آج کے دور میں این جی اوز اقتصادی پابندیوں اور سائبر آپریشنز کے ساتھ مل کر امریکہ مخالف ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ جعلی یا سچی کہانیوں پر مشتمل امریکہ مخالف حکومتوں کے خلاف بیانیہ تشکیل دیتی ہیں، تاکہ اُنھیں ظالم، انسان دشمن، عورت دشمن یا آزادی دشمن ثابت کیا جا سکے۔ تاہم روس اور چین جیسے ممالک ایسی غیر ملکی این جی اوز کی سرگرمیوں پر سخت کنٹرول کرتے ہیں، انھیں “غیر ملکی ایجنٹ” قرار دے کر ان کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگاتے ہیں۔
بیرونی چیریٹی فنڈنگ ویلفیئر کیلئے ہے یا جیوپولیٹکل کنٹرول کا ٹول؟
جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن سرد جنگ کے دوران مداخلتوں کے حربوں کے واقعات کی کہانیاں آج بھی این جی اوز کے جیوپولیٹکل مقاصد کے لیے استعمال ہونے کی تاریک حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس وجہ سے شام اور یمن جیسی آج کی جنگوں والے علاقوں میں این جی اوز اکثر ضرورت مند لوگوں کی خدمت اور عالمی طاقتوں کے جیوپولیٹکل مفادات کے درمیان فٹ بال بن کر رہ جاتی ہیں۔
سرد جنگ کے اختتام کے دنوں ہی سے این جی اوز کی روایتی سرکاری فنڈنگ میں ایک نئے سورس کا بھی اضافہ ہوا: کارپوریٹ فنڈنگ اور بہت باوسائل تھنک ٹینکس جو عالمی دنیا کے امور کو چلانے کے لیے ایک اپنا ویژن رکھتے ہیں، جن میں سرِفہرست اوپن ڈیموکریسی فاؤنڈیشن، بل اینڈ میلنڈا فاونڈیشن، فورڈ فاؤنڈیشن، کارنیگی فاؤنڈیشن، راک گیلر فاؤنڈیشن، بلومبرگ فاؤنڈیشن جیسے اربہا ڈالر کے وسائل رکھنے والے ادارے ہیں، جو دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے کی کیمپینز چلاتے ہیں۔ ایل جی بی ٹی کیؤ کی تحریک بھی اسی قسم کی ایک تحریک ہے، جس کی نہ صرف امریکی حکومت سرپرستی کرتی ہے بلکہ یہ نجی ادارے بھی اس کی فنڈنگ کرتے ہیں۔
ہمارے لیے اسکا کیا مطلب ہے؟
اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ این جی اوز ان لوگوں کی خدمت کر رہی ہیں یا ان مقاصد کی ایڈووکیسی کر رہی ہیں، جن کی وہ نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں، یا وہ آج بھی جیوپولیٹکل کھیل کی بڑی بساط کا حصہ ہیں۔؟ ہر انسان کی زندگی قیمتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک ملک کی تحریک میں ایک شخص کی ہلاکت پورے عالمی میڈیا اور این جی اوز کو متحرک کر دیتی ہے، لیکن کبھی کسی اور ملک میں درجنوں افراد کی ہلاکت بھی عالمی ضمیر بیدار نہیں کرتی ہے۔ اب کہیں اسلامی شدت پسند دہشت گرد کہلاتا اور کہیں وہی لوگ مجاہدین یا حریت پسند بنا دیئے جاتے ہیں اور یہ وہاں کا “آزاد میڈیا” اور این جی اوز اپنی ریاستوں کی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر کرتے ہیں! بہرحال سرد جنگ ختم ہوچکی ہے، لیکن اس کے متعارف کردہ حربے آج بھی پوری قوت سے جاری ہیں۔ یعنی عملی طور پر سرد جنگ جاری ہے اور شاید این جو اوز کا استعمال بھی!
(معروف صحافی ثقلین امام لاہور پریس کلب کے صدر رہے ہیں، آج کل ثقلین بی بی سی لندن سے وابستہ ہیں، کہنہ مشق صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ امریکہ کے استعماری ایجنڈے کی تکمیل کے لئے دُنیا بھر اور خصوصاً تیسری دنیا میں غیر سرکاری تنظیموں کے نام پر سول سوسائٹی کی تنظیمیں، جو ہمارے ہاں این جی اوز کے نام سے معروف ہیں، اس بارے میں ثقلین امام کی چشم کشا تحریر قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر)
خبر کا کوڈ: 1186120