ڈونلڈ ٹرمپ اور طاقت کا وہم
22 Jan 2025 18:39
اسلام ٹائمز: لیکن اگر امریکہ کے نو منتخب صدر نے طاقت کے وہم کا شکار ہو کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات انجام دینے کی کوشش کی تو فطری بات ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت ایسے اقدامات کو برداشت نہیں کرے گی۔ ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کی شاندار تاریخ نے اچھی طرح ثابت کیا ہے کہ ملت ایران کسی بھی عالمی اور علاقائی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتی لیکن اگر مغربی طاقتوں نے ایران سے احترام کی بنیاد پر رویہ اپنایا تو اس طرح دونوں کے درمیان مثبت فضا پیدا ہونے کا زمینہ فراہم یو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق امریکہ اور مغرب کے رویوں میں تبدیلی کا مطلب ایران کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، خطے کی مسلمان اقوام کے ارادے کا احترام اور امریکہ کی جانب سے شدت پسندانہ رویوں سے پرہیز ہے۔ ایران کی جانب سے گذشتہ جوہری معاہدے کے اندر رہتے ہوئے مغربی ممالک سے تعاون کی یہی شرائط ہیں۔
تحریر: حسن ہانی زادہ
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی کانگریس میں ایک عوام فریبی پر مبنی لمبی تقریر کی جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ قاتلانہ حملے میں ان کے زندہ بچ جانے کا صرف ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ یہ ایک معجزہ ہے جس کا مقصد امریکہ کو نجات دلانا اور اس کی ماضی کی شان و شوکت دوبارہ بحال کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی تقریر میں مزید کہا: "امریکہ کا سنہری دور آج سے شروع ہو چکا ہے، امریکہ پہلی ترجیح ہو گا، ہم اپنے ملک میں سیکورٹی، حکومتی رٹ اور انصاف بحال کریں گے، امریکہ عنقریب ہمیشہ سے زیادہ طاقتور اور مستحکم ہو جائے گا، ہمیں ان چیلنجز کے بارے میں صادق ہونا چاہیے جن سے ہم روبرو ہیں اور ہمارے دشمن بہت سے امور میں ہم پر اثرگذار ہونا چاہتے ہیں، اس لمحے سے امریکہ کا انتشار رک گیا ہے۔"
امریکہ کے نو منتخب صدر، 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے دوران تاریخ کی شدید ترین سیکورٹی تدابیر انجام پائیں جن کے تحت امریکی کانگریس کی عمارت "کیپیٹول" میں تقریباً 12 ہزار کے لگ بھگ سیکورٹی اہلکار موجود تھے۔ امریکہ کے 47 ویں صدر نے اپنے نائب جی ڈی وینس کے ہمراہ حلف برداری کی رسم ادا کی اور اس کے بعد وائٹ ہاوس میں جانے کے بعد چند دستاویزات پر دستخط بھی کیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد اپنے سب سے پہلے اقدام کے طور پر ان 1600 افراد کو عام معافی دے دی جن پر 2020ء میں کانگریس کی عمارت پر حملہ کرنے کا الزام تھا اور اس الزام کے تحت ان کے خلاف عدالتی کاروائی چل رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس میں اپنی پہلی تقریر میں ملک کے اندرونی مسائل، اقتصادی مشکلات اور مہاجرین جیسے موضوعات پر بات کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس سے پہلے 2016ء سے 2020ء تک بھی امریکہ کے صدر رہ چکے ہیں اور ان کی پہلی مدت صدارت بہت زیادہ چیلنجز، اتار چڑھاو اور مہم جوئی پر مبنی تھی۔ اب وہ ایسے وقت دوبارہ وائٹ ہاوس میں داخل ہو رہے ہیں جب گذشتہ تقریباً ڈیڑھ برس کے دوران غزہ جنگ میں اسرائیل کی بھرپور مدد اور پشت پناہی کے باعث امریکی حکومت عالمی رائے عامہ میں شدید نفرت اور گوشہ نشینی کا شکار ہو چکی ہے۔ حلف برداری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس میں جو پہلی تقریر کی ہے وہ بہت ہی غم انگیز اور غیر سیاسی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوسرے دور صدارت میں پہلے دور سے مختلف قسم کی پالیسیاں اختیار کریں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی نئی مدت صدارت میں زیادہ تر اندرونی مسائل پر توجہ دیں گے۔
اس وقت جو ایشوز ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پہلی ترجیح کے حامل ہیں ان میں اقتصادی مسائل، غیر قانونی مہاجرین کا مسئلہ اور عالمی سطح پر تناو کم کر کے امریکہ کی پوزیشن مضبوط بنانے جیسے امور شامل ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نئی کابینہ میں ایسے چہرے شامل نہیں کیے ہیں جو ان کی گذشتہ مدت صدارت میں متنازعہ ثابت ہوئے تھے جس کی ایک مثال سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی بھی ماضی کی نسبت بہت مختلف ہو گی۔ امریکہ کے ارب پتی ایلن ماسک کا خصوصی مشیر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی کابینہ میں موجود ہونا ظاہر کرتا ہے کہ نئے امریکی صدر کی نظر میں اقتصاد اور معیشت پہلی ترجیح رکھتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو اور صیہونی لابی کے دباو میں آ کر ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ اقدام عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنا تھا۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی پالیسیاں کبھی بھی امریکی صدور مملکت کی ترجیحات اور پالیسیوں کو مدنظر قرار دے کر تشکیل نہیں دیں لیکن امریکہ کی جانب سے ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والے جوہری معاہدے میں ممکنہ واپسی ایران اور مغرب کے درمیان تعلقات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ایرانی قوم کی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک نفرت انگیز اور مجرمانہ چہرہ رکھتے ہیں اور یہ تصور یونہی باقی رہے گا لیکن ایرانی عوام سے متعلق امریکی رویے میں تبدیلی نئے حالات کو جنم دے سکتی ہے۔
لیکن اگر امریکہ کے نو منتخب صدر نے طاقت کے وہم کا شکار ہو کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات انجام دینے کی کوشش کی تو فطری بات ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت ایسے اقدامات کو برداشت نہیں کرے گی۔ ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کی شاندار تاریخ نے اچھی طرح ثابت کیا ہے کہ ملت ایران کسی بھی عالمی اور علاقائی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتی لیکن اگر مغربی طاقتوں نے ایران سے احترام کی بنیاد پر رویہ اپنایا تو اس طرح دونوں کے درمیان مثبت فضا پیدا ہونے کا زمینہ فراہم یو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق امریکہ اور مغرب کے رویوں میں تبدیلی کا مطلب ایران کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، خطے کی مسلمان اقوام کے ارادے کا احترام اور امریکہ کی جانب سے شدت پسندانہ رویوں سے پرہیز ہے۔ ایران کی جانب سے گذشتہ جوہری معاہدے کے اندر رہتے ہوئے مغربی ممالک سے تعاون کی یہی شرائط ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1185917