ٹرمپ کی صدارت، یورپ کی تباہی ہے؟
21 Jan 2025 13:55
اسلام ٹائمز: بہت سے یورپی ممالک میں تو برائے نام ہی فوج موجود ہے، جہاں فوج موجود ہے، وہاں اسکا بجٹ بہت کم تھا، جرمنی میں تین سال پہلے فوج کو بہتر بنانے کا کام شروع ہوا اور اس سال اس کیلئے بڑا بجٹ رکھا جا رہا ہے کہ اسے وسائل فراہم کیے جائیں۔ فوج کو ترقی دینا ایک رات میں ہونیوالا کام نہیں ہے۔ امریکی صدر یہ بات جانتے ہیں اور اب وہ یورپ کی اس کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں۔ یورپ کے پاس اب یہی چوائس رہ جائے گی کہ وہ امریکی شرائط پر اپنی حفاظتی گارنٹی یورپ کو فراہم کرے۔ ایک دوسرا راستہ بھی ہے، مگر ابھی یورپ اس کیطرف جانا ہی نہیں چاہتا اور نہ ہی وہاں ایسی آوازیں موجود ہیں، جو امریکی کردار کو ختم کرکے یورپ کا سوچیں۔
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ اور امریکہ جڑواں بہنوں کی طرح ہر معاملے میں ساتھ ساتھ ہیں۔ جو امریکہ کہتا ہے، یورپ کی طرف سے قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے کہ صدائیں آنے لگتی ہیں۔ برطانیہ کی پالیسی کو دیکھتے ہوئے تو یوں لگتا ہے، جیسے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی دوڑ میں ہے۔ ہر معاملے میں امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ امریکہ کا افغانستان پر حملہ تو یورپ ہاتھ باندھے کھڑا نظر آتا ہے، امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو بھی پورا یورپ دست بستہ امریکہ کی جی حضوری کر رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ لندن میں لاکھوں لوگ جنگ کے خلاف سڑکوں پر تھے، مگر پھر بھی یورپی حکومتوں نے انسانیت کو شرمندہ کر دینے والی جنگوں میں شرکت کی۔ دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے بعد یورپ گر چکا تھا، معاشی حالات ابتر تھے، ابھی ہمیں یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے، مگر جرمنی نے پاکستان سے قرضہ لیا تھا۔
ایسے میں امریکی پیکج سے یورپ کی تعمیر نو ہوئی، یہی وجہ ہے کہ یورپی امریکہ کے اتحادی سے بڑھ کر ہی رہے۔ امریکی قیادت میں نیٹو اہم اتحاد تھا، اس نے روس سے یورپ کو تحفظ فراہم کرنے کے نام پر یورپ کو ڈرائے رکھا کہ اگر میرے چھتری سے باہر نکلے تو سرخ جن پکڑ لے گا۔ ٹرمپ کوئی جمہوری سوچ رکھنے والا آدمی نہیں ہے اور نہ ہی اسے انسانی حقوق اور دیگر نعروں میں کوئی دلچسپی ہے۔ وہ تاجر ہے، تمام معاملات کو تجارت کی نظر سے دیکھتا ہے، اس کی نظر میں ہر معاملے میں نقد فائدہ ہونا چاہیئے۔ شام کے معاملے پر بات کرتے ہوئے اس نے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ دیا تھا کہ وہاں تیل کے کنویں ہیں اور ہمیں تیل آ رہا ہے۔ کل ملا کر بات یہی تھی کہ ہم نے وسائل لوٹنے ہیں، وہاں سے فری میں تیل مل رہا ہے، لہذا ہم یہاں ہیں اور زبان حال و قال کہا اسے لوٹ رہے ہیں۔ اس نے کوئی سفارتی کور نہیں لیا، جو ہے وہ اعلانیہ کہہ دیا۔
اب یورپ کو بھی تجارتی پیمانوں پر تولا جائے گا، کیونکہ یورپ امریکہ کا بڑا تجارتی پاٹنر ہے، اس لیے تھوڑی بہت تبدیلی بھی براہ راست یورپ کو بری طرح متاثر کرسکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کو عظیم بنائیں گے، جس میں ہم درآمدات پر بڑے ٹیکس عائد کرکے مقامی انڈسٹری کو اٹھائیں گے۔ یہ بڑا دلکش نعرہ ہے، مگر چین کی آڑ میں یورپ کے لیے بھی بھیانک خواب ہے۔ وصی بابا نے لکھا تھا، ٹرمپ دوستوں کے لیے بھی ڈرونا خواب ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ امریکی اور یورپی دوستی کو گرہن لگنے والا ہے۔ یورپ یوکرین جنگ میں روس سے ڈرا ہوا ہے اور امریکی صدر نعرہ مستانہ لگا رہے ہیں، روس یوکرین جنگ جانے اور یورپ والے جانے، ہمیں کیا ہے۔؟یوکرین تو خیر، کہیں کا نہیں رہے گا، اس کے اتحادی بھی اگلے چار سال اندھیر نگری دیکھ رہے ہیں۔ یورپ کو اس طرح کا چیلنج پہلی بار درپیش ہوا ہے۔ ایک طرف یوکرین جنگ اس کے دروازے پر پہنچ چکی ہے اور دوسری طرف امریکہ سر سے دست شفقت اٹھا رہا ہے۔
یورپ سے بھی ہلکی ہلکی ڈھولکی بجنی شروع ہوچکی ہے۔ فرانس کے وزیراعظم فرانسوا بائیرو نے خبردار کیا ہے کہ فرانس اور یورپ کو مل کر امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی پالیسیوں کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا، دوسری صورت میں یورپ کو "کچلا" جا سکتا ہے۔ ’’امریکہ نے ڈالر کے ذریعے، اپنی صنعتی پالیسی کے ذریعے، اس حقیقت کے ذریعے کہ وہ دنیا کی سرمایہ کاری اور دنیا کی تحقیق پر قبضہ کرسکتا ہے، سیاست کی ایک انتہائی جابرانہ شکل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ فرانسوا بائیرو کے بقول، ''اور اگر ہم کچھ نہیں کرتے ہیں، تو ہماری قسمت بہت سادہ ہے۔ ہم پر غلبہ ہو جائے گا، ہمیں کچل دیا جائے گا، ہمیں دیوار سے لگا دیا جائے گا۔‘‘ کچلنا، قبضہ، جابرانہ اور غلبہ جیسے الفاظ ہمیشہ ایشیاء اور افریقہ کے پسے ہوئے ممالک کے رہنماء امریکہ کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اب وہی الفاظ فرانس کا وزیراعظم امریکہ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔
لگ یوں رہا ہے کہ یورپ نے محسوس کر لیا ہے کہ اگلے چار سال میں ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔؟ اگر یورپی رہنماء غور کریں تو یہ وہی کچھ ہے، جو وہ امریکہ کے ساتھ ملکر تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ یورپ نے امریکہ کے ساتھ ملکر ہر اس آواز کو کچلنے کی کوشش کی ہے، جس نے امریکی تسلط کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب نیٹو اتحاد بھی خطرے میں ہے۔ اگر پچھلے دور حکومت کا بھی مشاہدہ کریں تو یہ بات دیکھنے کو ملے گی، جسے میڈیا بار بار ریورٹ بھی کرتا رہا ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ کو نیٹو اتحاد سے نکالنے کی دھمکی دی تھی۔ ان کا دعویٰ رہا ہے کہ نیٹو میں شامل ممالک دفاعی اخراجات میں اپنا حصہ ادا نہیں کرتے اور امریکہ کی عسکری قوت ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اب یہ دھمکی عملی جامہ پہن سکتی ہے، یورپ کی نیندیں اسی لیے حرام ہوئی پڑی ہیں۔
جب یوکرین جنگ عروج پر ہے اور روس کے ساتھ اقتصادی جنگ چل رہی ہے، ساتھ میں پورا یورپ یوکرین کے پیچھے کھڑا ہے، ایسے میں اگر امریکہ نیٹو سے نکل جاتا ہے تو یہ ایسے ہی ہے، جیسے یورپ کی ایک دفاعی لائن ہی ختم ہوگئی۔ اس کا ردعمل بھی آ رہا ہے، فرانسی صدر نے کہا ہے کہ یورپی فوجی بجٹ کے اربوں یورو امریکی ہتھیار خریدنے پر خرچ نہیں ہونے چاہئیں، ہم یورپ کے قرضے نہیں بڑھا سکتے، دوسرے براعظموں کی صنعت، دولت اور ملازمتوں کو سبسڈی دینے کے لیے اپنے دفاع پر زیادہ خرچ نہیں کرسکتے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ "آئیے اپنی افواج کے لیے زیادہ خرچ کریں" تو بہت سے ممالک میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ "زیادہ سے زیادہ امریکی ساز و سامان خریدیں۔"
دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ لفظی جنگ کیا رخ اختیار کرتی ہے۔؟ یہ بات طے ہے کہ یورپ کو بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے کہ اس وقت یورپ کوئی بڑی فوجی قوت نہیں ہے۔ بہت سے یورپی ممالک میں تو برائے نام ہی فوج موجود ہے، جہاں فوج موجود ہے، وہاں اس کا بجٹ بہت کم تھا، جرمنی میں تین سال پہلے فوج کو بہتر بنانے کا کام شروع ہوا اور اس سال اس کے لیے بڑا بجٹ رکھا جا رہا ہے کہ اسے وسائل فراہم کیے جائیں۔ فوج کو ترقی دینا ایک رات میں ہونے والا کام نہیں ہے۔ امریکی صدر یہ بات جانتے ہیں اور اب وہ یورپ کی اس کمزوری کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں۔ یورپ کے پاس اب یہی چوائس رہ جائے گی کہ وہ امریکی شرائط پر اپنی حفاظتی گارنٹی یورپ کو فراہم کرے۔ ایک دوسرا راستہ بھی ہے، مگر ابھی یورپ اس کی طرف جانا ہی نہیں چاہتا اور نہ ہی وہاں ایسی آوازیں موجود ہیں، جو امریکی کردار کو ختم کرکے یورپ کا سوچیں۔
خبر کا کوڈ: 1185733