QR CodeQR Code

اسرائیل کی تباہی ناگزیر ہے

18 Jan 2025 21:30

اسلام ٹائمز: نیتن یاہو اور انکے حامی انتہاء پسند صیہونیوں کو غزہ جنگ میں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور امریکہ اور مغرب کیطرف سے صیہونی حکومت کی ہر طرح کی مالی اور اسلحہ کی حمایت کے باوجود تل ابیب کو جنگ بندی قبول کرنی پڑی ہے۔ جنگ بندی کے بعد مقبوضہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کیوجہ سے، نیتن یاہو اور انکے حامیوں کو آنیوالے دنوں میں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جائیگا۔ مقبوضہ علاقوں میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد بھی اس بحران کی شدت کو تبدیل نہیں کرسکے گا اور تل ابیب میں سیاسی تباہی ناگزیر ہے۔


تحریر: احسان شاہ ابراہیم

غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد صیہونی حکام نے غزہ جنگ میں فلسطینی مزاحمت کے خلاف اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے اعلان سے صیہونی حکام نے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے خلاف صیہونی فوج کی شکست کا اعتراف کیا ہے اور وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور کابینہ کے دیگر ارکان کے درمیان تنازعہ میں اضافہ ہوا ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیر خارجہ جدعون سائر نے حماس کے خلاف شکست اور غزہ میں اپنے قیدیوں کی رہائی میں حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم حماس کے خلاف جنگ کے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اسرائیل کے وزیر تعلیم یووا کیش نے بھی غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے حماس کے ساتھ معاہدے کے لیے بھاری قیمت ادا کی ہے۔ صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ صیہونی کابینہ نے طویل اجلاسوں کے بعد غزہ میں قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری  دی ہے۔ اسرائیل کے وزیر برائے داخلی سلامتی اتمر بن گوہر نے جنگ بندی کے معاہدے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے۔ قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی سے طے پانے والے اس معاہدے کا اطلاق اتوار 19 جنوری سے ہوگا۔ اس معاہدے کے اہم نکات میں قیدیوں کے تبادلے اور مستقل جنگ بندی اور ہلاک ہونے والے تمام صیہونی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ صیہونی قیدی جو فلسطینی مزاحمت کے قبضے میں تھے انہیں بھی صیہونی حکومت کے حوالے کیا جائے گا۔

اس کے برعکس صیہونی حکومت نے بھی فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق کیا ہے۔ یہ تبادلہ جنگ بندی کے اس دن سے شروع ہوگا، جسے معاہدے میں "یوم اول" کہا گیا ہے۔ غزہ سے صیہونی فوج کا انخلا بھی اس معاہدے کا ایک اہم حصہ ہوگا۔صیہونی حکومت کے فوجی ذرائع نے آج صبح اعلان کیا ہے کہ اس کی فوج کی 99 ویں بریگیڈ  غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت نتسرم محور سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ جائے گی۔ غزہ کے شمالی اور وسطی حصوں میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنے کے لئے صیہونی حکومت کی فوج نتسرم محور کا استعمال کرتی تھی۔ غزہ شہر اور شمالی غزہ کے درمیان واقع سرحدی علاقوں سے صیہونی حکومت کی فوج نے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت غزہ اور مصر کی سرحد پر واقع فلاڈیلفیا محور سے بھی فوج کو نکال دیا جائے گا۔

7 اکتوبر 2023ء کو صیہونی حکومت نے امریکہ کی حمایت سے غزہ کے باشندوں کے خلاف تباہ کن جنگ شروع کی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی اور مہلک قحط کی وجہ سے ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ ان تمام جرائم کے باوجود، صیہونی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ کے باشندوں کے خلاف ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے بعد، وہ حماس کو ختم کرنے سمیت جنگ کے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے سامنے شکست کا اعتراف جنگ بندی کے پہلے نتائج میں سے ایک تھا۔ ان حالات میں، مقبوضہ علاقوں میں انتہا پسند صیہونیوں اور نیتن یاہو کے مابین سیاسی بحران جاری رہے گا بلکہ مزید شدت آنے کی توقع کی جارہی ہے۔

نیتن یاہو کی کابینہ میں دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی اور انتہاء پسند صیہونیوں سے وابستہ جماعتیں شامل ہیں۔ یہ جماعتیں حماس کے ساتھ کسی بھی معاہدے کے مخالف ہیں اور غزہ میں جنگ جاری رکھنے کی حمایت کرتی ہیں۔ بین گوئیر اور وزیر خزانہ سموٹریچ انتہاء پسند صیہونی ہیں، جنہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر غزہ میں جنگ بندی نافذ کی گئی تو وہ نیتن یاہو کی کابینہ سے دستبردار ہو جائیں گے۔ صیہونی حکومت کے وزیراعظم نے وزیر خزانہ اسموٹریچ اور سکیورٹی کے وزیر ایتمر بن گوئر کی طرف سے استعفیٰ کے اعلان کے بعد ان کے ساتھ ہنگامی ملاقاتیں کی ہیں۔ اس جنگ بندی کے نفاذ سے نیتن یاہو کی کابینہ کی حیثیت مزید غیر مستحکم ہو جائے گی اور اگر انتہاء پسند صیہونیوں کے ساتھ کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں کیا جاتا ہے تو قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے لیے حالات پیدا ہو جائیں گے۔

نیتن یاہو اور ان کے حامی انتہاء پسند صیہونیوں کو غزہ جنگ میں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور امریکہ اور مغرب کی طرف سے صیہونی حکومت کی ہر طرح کی مالی اور اسلحہ کی حمایت کے باوجود تل ابیب کو جنگ بندی قبول کرنی پڑی ہے۔ جنگ بندی کے بعد مقبوضہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کی وجہ سے، نیتن یاہو اور ان کے حامیوں کو آنے والے دنوں میں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ مقبوضہ علاقوں میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد بھی اس بحران کی شدت کو تبدیل نہیں کرسکے گا اور تل ابیب میں سیاسی تباہی ناگزیر ہے۔


خبر کا کوڈ: 1185144

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1185144/اسرائیل-کی-تباہی-ناگزیر-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com