QR CodeQR Code

نیل سے فرات تک، گریٹر اسرائیل کا تصور 

18 Jan 2025 16:50

اسلام ٹائمز: "صدی معاہدہ" یا سینچری ڈیل کے بعد، جو ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر کے ذریعے پیش کیا گیا تھا، یروشلم کو امریکی حمایت سے اسرائیلی پایۂ تخت قرار دیدیا گیا، جسکو اب تک اکثر مسلمان ملکوں نے تسلیم نہیں کیا۔ اس راہ میں صہیونی کاز مسلسل کوششیں کر رہا تھا اور کامیابی کے آثار بھی نمایاں ہونے لگے تھے، مگر طوفان الاقصیٰ نے اسکی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مسئلۂ فلسطین جو صہیونیوں کی سازشوں اور منصوبہ بندی کی بنا پر فراموشی کی نذر ہو رہا تھا، حماس نے ایک بار پھر اسکو دنیا کے سامنے زندہ کر دیا۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ مسئلۂ فلسطین کے حل پر گفتگو ہو رہی ہے، جسکا اسرائیل کو بھی شدت سے احساس ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تازہ نقشہ اسکے عدم تحفظ اور نفسیاتی کشمکش کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی اس توسیع پسندانہ فکر کیخلاف عرب ملک اپنی غیرت کا مظاہرہ کرینگے یا نہیں۔


تحریر: عادل فراز

رواں ہفتے اسرائیلی وزیراعظم نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کرکے تمام ہم نوا عرب ملکوں کو حیران کر دیا۔ اب تک جو عرب ملک اسرائیل کی حمایت میں کمربستہ اور اس کو بحیثیت ایک ریاست کے تسلیم کرچکے تھے ، اُن سے بھی جواب دیتے نہیں بن رہا ہے۔ خاص طور پر اُردن، مصر، عرب امارات اور ترکی جیسے ملکوں کے لئے سخت گھڑی ہے، جو اسرائیل کے ناجائز وجود کو جائز ٹھہراتے رہے ہیں۔ شام میں اقتدار کی کایا پلٹ چکی ہے اور اب ہئیت تحریر الشام کے روح رواں الجولانی کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہے، انہوں نے بھی اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اُن سے زیادہ توقع بھی نہیں رکھنی چاہیئے، کیونکہ بشار الاسد کے شام سے فرار ہونے کے بعد جب اسرائیلی فوجیں شامی سرحدوں میں نفوذ کر رہی تھیں، اس وقت الجولانی خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔ اسی طرح اُردن جو اسرائیل پر حملے کے لئے اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دینے کے خلاف تھا، اس کا وجود ہی زیر سوال آگیا۔

گریٹر اسرائیل کے تازہ نقشے میں فلسطین، شام، لبنان اور اُردن کے کچھ علاقوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ فی الوقت جنگ اسی خطے میں جاری ہے، لہذا تازہ نقشے میں "گریٹر اسرائیل" کے اصل تصور کو شامل نہیں کیا گیا، جس میں ترکی، ایران، مصر، عراق اور عرب امارات بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے 2023ء میں اسرائیلی وزیر بیزلیل سموٹریچ نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ نشر کیا تھا، جس میں اُردن کو اسرائیل کا حصہ بتایا گیا تھا۔ اس کے باجود اُردن کے حکمران خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے اور اسرائیل کی پشت پناہی کرتے رہے۔ البتہ اُردن کے عوام اب مقاومتی محاذ کے ساتھ کھڑے ہیں اور غرب اُردن میں مزاحمتی تحریک پنپ رہی ہے۔

"گریٹر اسرائیل" کے نقشے کا جاری ہونا تھا کہ عرب ملکوں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اسرائیل جو اس وقت بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے، اس سے اس اقدام کی توقع نہیں کی جارہی تھی۔ مگر دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ نقشہ جلد یا بدیر جاری تو ہونا ہی تھا۔ دوسرا یہ مکمل نقشہ نہیں ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تصور تو نیل سے فرات تک ہے، لہذا یہ نقشہ نہ تو پہلا ہے اور نہ آخری ہوگا۔ سعودی عرب نے اس اقدام کو انتہاء پسندانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خود مختاری پر اعلانیہ حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ فلسطین اور اُردن کی حکومتوں نے بھی اس نقشے کی مذمت کی ہے۔ لیکن کیا ان کے مذمتی بیانات سے ڈر کر اسرائیل اپنے اس منصوبے سے دستبردار ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں!

اسرائیل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عرب ملکوں میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ اس کے فیصلوں کے خلاف سخت اور حتمی موقف اختیار کرسکیں۔ غزہ جنگ کے دوران اس نے مسلم حکمرانوں کی بے غیرتی اور بزدلی کا اچھی طرح مشاہدہ کیا ہے۔ اس نقشے میں فلسطین کے ہونے پر تعجب نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ اصل جھگڑے کی جڑ تو فلسطین کی سرزمین ہی ہے، جہاں اسرائیل بھی موجود ہے اور غزہ بھی۔البتہ فلسطینی صدر محمود عباس، جو کہ اسرائیل نوازی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، ان کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف جہاں غزہ کے عوام مسلسل اسرائیلی جارحیت کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہیں محمود عباس استعماری طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔

طوفان الاقصیٰ کے بعد حماس کا مقابلہ براہ راست عالمی طاقتوں سے تھا، مگر اس دوران اس کے جنگجوئوں کو محمود عباس کی فوج نے بھی مارا، جس کی تصدیق خود حماس کے ترجمان نے کی۔ غزہ کے عوام کی جنگ فقط غزہ کے لئے نہیں ہے۔ وہ فلسطینی سرزمین کی آزادی اور مظلوموں کی نجات کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ مگر محمود عباس کی حکومت نے غزہ کو ایک الگ ملک تصور کرتے ہوئے اس کے مزاحمتی گروہ کو اپنا دشمن سمجھ کر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر محمود عباس کی یہی پالیسی رہی تو فلسطین اسی طرح اسرائیل کے توسیع پسندانہ نظام کی زد میں رہے گا۔ سیاسی حریفوں کے خاتمے کے لئے پورے ملک کو اپنی خواہشوں کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیئے، یہ بات محمود عباس کو سمجھنی ہوگی۔

"پرومسڈ لینڈ" کا افسانوی تصور
اب آئیے سمجھتے ہیں کہ "گریٹر اسرائیل" کا تصور کیا ہے۔ "گریٹر اسرائیل دراصل دی پرومسڈ لینڈ" کے تصور پر مبنی ہے۔ اس تصور نے یہودیوں کے بجائے صہیونیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق "پرومسڈ لینڈ" میں نیل سے فرات تک کے علاقے شامل ہیں۔ اس طرح فلسطین، اُردن، مصر، لبنان، عراق، ترکی، ایران، شام اور سعودی عرب جیسے ملک بھی "گریٹر اسرائیل" کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ترک صدر اور خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کے خواب دیکھنے والے طیب اردوگان کو بھی اس پر واضح موقف اختیار کرنا چاہیئے۔ یا پھر ترک صدر نے شام کو الجولانی کے حوالے کرنے میں اسی لئے مدد کی ہے، تاکہ اس کو گریٹر اسرائیل میں شامل کر دیا جائے۔ تو کیا اب اگلا ہدف ترکیہ نہیں ہوگا؟ خیر! یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا کہ شام کے سقوط کے نتائج کیا ہوں گے اور آیا ترکیہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ نظام کی زد میں آئے گا یا نہیں۔

صہیونیوں کا ماننا ہے کہ ان کی مذہبی کتاب "بائبل" اور قدیم تاریخی حوالوں کے تناظر میں نیل سے فرات تک کے تمام علاقوں پر ان کا حق ہے، جبکہ بعض دانشور "گریٹر اسرائیل" کو افسانوی تصور مانتے ہیں۔ اُن کے مطابق گریٹر اسرائیل سے مراد مشرق وسطیٰ میں موجود وہ تمام قدیمی علاقے ہیں، جو سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے اور جہاں یہودی بستے تھے۔ غرض کہ "گریٹر اسرائیل" کا تصور متنازعہ بھی ہے اور موجب فتنہ و فساد بھی۔ اسرائیل نے جو نقشہ سرکاری اکائونٹ پر جاری کیا، اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست تقریباً تین ہزار سال قبل قائم ہوئی تھی۔ اس کے پہلے تین بادشاہوں میں شاہ شاؤول، شاہ داؤد اور شاہ سلیمان شامل ہیں، جنہوں نے مجموعی طور پر ایک سو بیس سال تک حکومت کی۔ انہی کے دور میں یہودی تہذیب و ثقافت اور معیشت میں ترقی ہوئی، جس کی بازیافت کی کوشش اس وقت اسرائیل کر رہا ہے۔

صہیونیوں کا کہنا ہے کہ نو سو اکتیس سال قبل مسیح شاہ سلیمان کی وفات کے بعد داخلی تنازعات اور بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے مملکت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی: شمال میں مملکت اسرائیل اور جنوب میں مملکت یہودہ۔ شمالی مملکت اسرائیل 209 سال بعد آشوریوں کے ہاتھوں (722 قبل مسیح) اور جنوبی مملکت یہودہ 345 سال بعد بابل کے بادشاہ بخت النصر کے ذریعے (568 قبل مسیح) ختم ہوگئی۔ یہ تقسیم صدیوں تک تنازعات کا شکار رہی اور یہودی جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے۔مگر 1948ء میں انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر مختلف حیلوں اور سازشوں کے ذریعے قبضہ کرکے اپنی مستقل ریاست کا اعلان کر دیا۔ فلسطین اور اسرائیل کی اس تقسیم کو آج تک مسلمان تسلیم نہیں کرسکے ہیں۔ فلسطینی بھی 1947ء میں ہوئی اس تقسیم کو قبول نہیں کرتے۔ فلسطینی کاز کے حامی اسرائیل کو ناجائز ریاست مانتے ہیں، جس کے خلاف اس کے قیام کے فوراً بعد جدوجہد شروع ہوگئی تھی، مگر عرب ملکوں کی منافقت اور استعمار نوازی نے اسرائیل کے وجود کو جواز بخشا۔

"صدی معاہدہ" یا سینچری ڈیل کے بعد، جو ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز کے ذریعے پیش کیا گیا تھا، یروشلم کو امریکی حمایت سے اسرائیلی پایۂ تخت قرار دیدیا گیا، جس کو اب تک اکثر مسلمان ملکوں نے تسلیم نہیں کیا۔ اس راہ میں صہیونی کاز مسلسل کوششیں کر رہا تھا اور کامیابی کے آثار بھی نمایاں ہونے لگے تھے، مگر طوفان الاقصیٰ نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مسئلۂ فلسطین جو صہیونیوں کی سازشوں اور منصوبہ بندی کی بنا پر فراموشی کی نذر ہو رہا تھا، حماس نے ایک بار پھر اس کو دنیا کے سامنے زندہ کر دیا۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ مسئلۂ فلسطین کے حل پر گفتگو ہو رہی ہے، جس کا اسرائیل کو بھی شدت سے احساس ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تازہ نقشہ اس کے عدم تحفظ اور نفسیاتی کشمکش کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل کی اس توسیع پسندانہ فکر کے خلاف عرب ملک اپنی غیرت کا مظاہرہ کریں گے یا نہیں۔


خبر کا کوڈ: 1185115

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1185115/نیل-سے-فرات-تک-گریٹر-اسرائیل-کا-تصور

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com