QR CodeQR Code

غزہ میں جنگ بندی کے بارے میں مختلف شخصیات اور اداروں کے بیانات و اثرات

16 Jan 2025 18:31

اسلام ٹائمز: مختلف شخصیات اور اداروں کیجانب سے بیانات اور تاثرات اپنی جگہ، لیکن کیا غاصب صیہونی حکومت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایسا سوال ہے، جسکا صجیح جواب کسی کے پاس نہیں۔ ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق غزہ میں جنگ کے بعد اسرائیل غزہ کا انتظام حماس کو دینے کے حق میں نہیں ہے اور اس نے اسکے اتنظامی امور فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے، جو کہ غربِ اردن میں اسرائیل کے قبضے میں موجود متعدد علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ اسرائیل موجودہ تنازع کے اختتام کے بعد بھی غزہ کا سکیورٹی کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے۔


ترتیب و تنظیم: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد KHAMENEI.IR کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے رہبر انقلاب اسلامی کا ایک بیان مختلف زبانوں میں شائع کیا، جس کا متن حسب ذیل ہے: "آج پوری دنیا یہ سمجھ چکی ہے کہ غزہ کے عوام کے صبر اور فلسطینی مزاحمت کی ثابت قدمی نے صیہونی حکومت کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔" مورخین کتابوں میں لکھیں گے کہ ایک دن صہیونی مافیا نے انتہائی گھناؤنے جرائم کے ساتھ ہزاروں عورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور آخرکار انہیں شکست ہوئی۔" قارئین غزہ میں فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے موقع پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس کا متن کچھ یوں ہے۔ "إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا، لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیْکَ وَیَهْدِیَکَ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا وَ یَنْصُرَکَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِیزًا"

خداوند متعال کا شکر ادا کرتے ہیں کہ "طوفان الاقصیٰ" شاندار، تاریخی اور باعث افتخار آپریشن کے 16 ماہ بعد اور غاصب صہیونی حکومت کے وحشیانہ، قرون وسطیٰ کی طرز کے مظالم اور نسل کشی کے باوجود حماس اور اسلامی مقاومت نے مظلوم اور بے دفاع فلسطینی خواتین، بچوں اور مردوں کے قاتل صہیونی حکومت پر اپنی برتری ثابت کردی۔ وہ عناصر جو مکمل امریکی حمایت، یورپی اور علاقائی اتحادیوں کی مدد اور استعماری میڈیا کی پشت پناہی کے ذریعے اپنے اہداف کے حصول کے خواہاں تھے، جن میں "قیدیوں کو بغیر کسی قیمت کے اور عسکری کارروائیوں کے ذریعے آزاد کرانا، حماس کا مکمل خاتمہ اور شمالی بستیوں کے آباد کاروں کو واپس لانا" شامل تھا۔ آج 463 دن کے ظلم و بربریت کے بعد شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے جرائم کی وجہ سے 50 ہزار کے قریب مظلوم فلسطینی شہید ہوگئے۔

غزہ کے لاکھوں مکین زخمی اور 80 فیصد سے زیادہ بنیادی ڈھانچے اور رہائشی عمارتیں تباہ ہوگئیں، لیکن غزہ کے بہادر عوام کے بے مثال صبر و استقامت اور مقاومت کے فولادی ارادے کے سامنے وہ جھکنے پر مجبور ہوگئے۔ آج جنگ کا خاتمہ اور صہیونی حکومت پر جنگ بندی کی شرائط کا نفاذ، فلسطین کے لیے ایک واضح فتح اور عظیم کامیابی ہے، جبکہ صہیونی شیطانی حکومت کے لیے ایک اور بڑی شکست ثابت ہوئی ہے۔ یہ کامیابی غزہ کے بہادر عوام کو خوش اور مزاحمت کے جذبے سے سرشار کرے گی۔ دوسری طرف جعلی کابینہ کے قاتل اور ظالم سربراہ کو صہیونی معاشرے کے اندرونی تنازعات، شدید تنقید اور احتجاج کے طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان پر ایک بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان کے ایک حصے میں کہا گيا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ غزہ پٹی میں جنگ بندی پر جو پوری تاریخ میں سب سے بڑی نسل کشی کے سامنے فلسطین و غزہ کے عوام کی بے مثال استقامت کا نتیجہ ہے مبارک باد پیش کرتی ہے۔ 15 ماہ سے زائد عرصے سے، غاصب اور نسل کشی کرنے والی اسرائیلی حکومت تمام بین الاقوامی قوانین و انسانی حقوق کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسانیت کے خلاف وحشیانہ انداز میں جرائم کا سلسلہ جاری رکھا جو دراصل سامراجی طاقتوں کی خاموشی کے سائے میں 8 عشرے قبل شروع ہوا تھا۔

غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے ساتھ ہی عالمی برادری کو چاہیئے کہ وہ باریک بینی اور حساسیت کے ساتھ ، غرب اردن میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے مسجد الاقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی پر توجہ دے اور پورے مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکومت کی سرکشی کے موثر اور سنجیدگی کے ساتھ سد باب کرنے کے ساتھ ہی بدترین جرائم کے ارتکاب کی وجہ سے صیہونی حکام کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلائے جانے کے حالات سازگار بنائے۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ گذشتہ 15 مہینوں کے دوران فلسطینی عوام اور غزہ کے بہادر جانبازوں کی شاندار مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ حماس نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ اور لڑائی کا خاتمہ فلسطینی عوام، مزاحمتی قوتوں، امت اسلامیہ اور دنیا بھر کے آزاد منش انسانوں کی کامیابی ہے۔

بیان میں آیا ہے کہ یہ معاہدہ غزہ کے صبر اور استقامت کے حامل لوگوں کے دفاع، اس قوم کے خلاف صیہونی دشمن کی جارحیت اور جنگ بند کرانے اور ان کے خلاف جاری خونریزی، قتل و غارت اور نسل کشی کے سیلاب کو روکنے کے حوالے سے حماس کے احساس ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بیان میں حماس نے غزہ کے ساتھ یکجہتی، فلسطینی عوام کی حمایت اور صیہونی غاصب دشمن کے جرائم کو بے نقاب کرنے اور جنگ بندی کے حصول میں اپنا کردار ادا کرنے والے تمام عرب اور اسلامی ملکوں کی حکومتوں اور عوام کا شکریہ ادا کیا گيا ہے۔ طویل تناؤ اور جنگ کے بعد، غزہ کے بچوں نے جنگ بندی کے معاہدے اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے اعلان پر خوشی کا اظہار کیا۔

فلسطینی قیدیوں کے تبادلے اور غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد، اس خطے کے بچوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ وہ بھی دنیا کے دیگر بچوں کی طرح اپنے بچپن کا لطف اٹھا سکیں گے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ جنگ بندی ہونے والی ہے، تو وہ خوشی سے چلّائے اور ان کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے۔ ایک وائرل ویڈیو میں غزہ کے بچوں کی وہ ناقابل بیان خوشی دکھائی گئی ہے، جب وہ دنیا کے دیگر بچوں کی طرح ایک پرامن بچپن گزارنے کی امید میں چیخ اٹھے۔ یہ منظر اس وقت سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی فوج کے بے ہدف بمباریوں کی وجہ سے ہزاروں بچے شدید نقصان کا شکار ہوچکے ہیں۔

دنیا میں شاید ہی کوئی بچہ فلسطینی بچوں، خاص طور پر غزہ اور ویسٹ بینک کے بچوں جتنا جنگ کے مصائب کا شکار ہوا ہو۔ اسرائیلی فوج نہ صرف فلسطینی مردوں اور عورتوں کی جان لے رہی ہے اور ان کے گھروں کو تباہ کر رہی ہے، بلکہ جان بوجھ کر معصوم بچوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔ اسی دوران، جنگ بندی کے اعلان پر غزہ کے ہزاروں فلسطینیوں نے جشن منایا اور گلیاں اور مرکزی چوک خوشی سے گونج اٹھے۔ غزہ کے لوگوں نے اپنے دکھوں اور غموں پر قابو پاتے ہوئے نعرہ تکبیر اور قومی نغموں کے ساتھ جشن منایا۔ القسام بریگیڈز نے بھی ان جشنوں میں شرکت کی اور شہریوں نے فلسطینی پرچم لہرائے، ایک دوسرے کو گلے لگایا اور یادگاری تصاویر بنائیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، کچھ نوجوانوں نے جنگ بندی کے اعلان کے بعد ایک اجتماع منعقد کیا، اس مرکزی اجتماع میں مزاحمت کی حمایت میں نعرے لگائے، جبکہ دیگر لوگوں نے اپنے کیمرے سے ان مناظر کو ریکارڈ کیا۔ فلسطینی عوام نے جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان پر، جو کہ اتوار سے نافذ ہونے والا ہے، خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ بدھ کی رات قطر نے حتمی معاہدے کا اعلان کیا، لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ ابھی بھی کئی معاملات حل طلب ہیں۔ تاہم، غزہ میں جشن کا آغاز ہوچکا ہے اور لوگوں نے ان لمحات کو اپنے کیمرے سے ریکارڈ کیا۔ دیر البلح میں واقع الشہداء الاقصیٰ ہسپتال کے باہر، جہاں جنگ کے متعدد متاثرین کو لایا گیا تھا، سینکڑوں فلسطینی جمع ہوئے، نعرے لگائے، قومی ترانے گائے اور فلسطینی پرچم لہرایا۔

رندا سمیح، ایک 45 سالہ خاتون جو غزہ سے النصیرات کیمپ میں منتقل ہوئیں، انہوں نے کہا: "میں یقین نہیں کرسکتی کہ یہ ایک سال سے زیادہ عرصے کا ایک ڈراؤنا خواب آخرکار ختم ہو رہا ہے، ہم نے بہت سے لوگوں کو کھو دیا ہے، ہم نے سب کچھ کھو دیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "ہمیں بہت زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔ جیسے ہی جنگ بندی شروع ہوگی، میں قبرستان جاؤں گی، تاکہ اپنے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد سے مل سکوں۔ ہم نے انہیں دیر البلح کے قبرستان میں مناسب قبر کے بغیر دفن کیا تھا۔ ہم ان کے لیے نئی قبریں بنائیں گے اور ان کے نام لکھیں گے۔" مرکزی اجتماع میں کچھ نوجوانوں نے مزاحمت کی حمایت میں نعرے لگائے، جبکہ دیگر لوگوں نے اپنے کیمرے سے ان مناظر کو ریکارڈ کیا۔

ستائیس سالہ عبدالکریم نے کہا: "اس کے باوجود کہ ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہے، میں خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں آخرکار اپنی بیوی اور دو بچوں کو دیکھوں گا۔ وہ تقریباً ایک سال پہلے جنوب چلے گئے تھے۔ مجھے امید ہے کہ وہ بے گھر لوگوں کو جلدی واپس آنے کی اجازت دیں گے۔" خان یونس میں بھی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اور فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ مصر، قطر اور امریکہ نے ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیا کہ غزہ میں تنازعہ کے دونوں فریقین اپنے قیدیوں کے تبادلے پر متفق ہوگئے ہیں اور مستقل امن کی طرف واپس لوٹ آئے ہیں، تاکہ دونوں طرف سے مستقل جنگ بندی قائم کی جا سکے۔

جنگ بندی کے معاہدے کے اعلان نے بین الاقوامی ردعمل کو جنم دیا ہے۔ دنیا بھر کے رہنماؤں نے دونوں فریقین سے اپنے وعدوں پر قائم رہنے اور معاہدے کے مکمل نفاذ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے غزہ میں انسانی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اس اقدام کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ رامی خوری، امریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ممتاز محقق نے کہا کہ یہ تقریباً مضحکہ خیز ہے کہ بائیڈن اور ٹرمپ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی ذمہ داری کے دعوے پر ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں، جبکہ ان کا اصل کردار "اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی مکمل حمایت" رہا ہے۔ امریکی-اردنی تجزیہ کار رامی خوری نے جنگ بندی کے معاہدے پر بائیڈن اور ٹرمپ کے رویئے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا اصل کردار اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی مکمل حمایت رہا ہے۔ خوری نے مزید کہا: "یہاں تک کہ آج کے اپنے بیانات میں بھی، وہ فلسطینیوں کو حقیقی انسانوں کے طور پر نہیں دیکھتے۔"

انہوں نے زور دے کر کہا: "امریکی میڈیا تقریباً مکمل طور پر غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر مرکوز ہے، جو جنگ بندی کا نتیجہ ہے۔" اس تجزیہ کار نے مزید کہا: "صدر کا رویہ، کانگریس کے اقدامات اور امریکہ میں ماس میڈیا کا کردار ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ معاملہ درحقیقت اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے انصاف اور مساوات کے بارے میں نہیں ہے؛ یہ معاملہ امریکی طاقت کے استعمال اور اس حقیقت کے بارے میں ہے کہ امریکہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خطے میں فیصلے کرسکتا ہے۔" خوری نے اس بات پر زور دیا کہ قتل عام اسرائیلی فوج کا ورثہ ہے۔ انہوں نے کہا: "اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کے اعلان کے باوجود بدھ کے روز درجنوں افراد کو شہید کیا ہے اور وہ اتوار (جنگ بندی کے نفاذ) تک قتل عام جاری رکھیں گے۔ وہ لبنان میں بھی ہر جنگ بندی سے پہلے یہی کرتے تھے۔"

مجمع نمایندگان طلاب و فضلائے حوزہ علمیہ قم نے جہاد مقاومت کی مسلسل کامیابیوں، خاص طور پر غزہ میں جنگ بندی اور حماس و جہاد اسلامی کی جانب سے غاصب اسرائیل پر شرائط مسلط کرنے کے موقع پر ایک بیان جاری کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جہاد مقاومت، حماس، جهاد اسلامی اور فلسطین کی مقاومت کرنے والی قوم، خاص طور پر بچوں کی قاتل حکومت پر جنگ بندی مسلط کرنے کی کامیابی، حضرت زینب کبریٰ (س) کی شہادت کے موقع پر، کربلا سے غزہ تک ایک تاریخی پیغام لے کر آئی ہے۔ یہ کامیابی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خون تلوار پر غالب ہے۔ شہید مقاومت سید حسن نصراللہ، شہید اسماعیل ہنیہ، شہید یحییٰ السنوار اور حاج قاسم سلیمانی کے چہرے آسمانِ مقاومت پر اس کامیابی پر مسکراتے ہوئے نظر آرہے ہیں، جیسا کہ حضرت زینب کبریٰ (س) نے یزید اور یزیدیوں کے سامنے فرمایا تھا: "ما رایت الا جمیلا" (میں نے سوائے خوبصورتی کے کچھ نہیں دیکھا)۔ یہ حق بات تمام سردارانِ مقاومت کی ہے اور ہم بھی اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امتِ اسلامی کو دونوں حسن (شہادت اور کامیابی) عطا فرمائے ہیں۔

امتِ اسلامی کے رہبر اور امام المسلمین حضرت امام خامنہ ای (دامت برکاتہ) کے حکیمانہ کلمات ہمیشہ راہنمائی اور امید کا باعث رہے ہیں اور فلسطین کی مقاومت اور کامیابی کے میدان میں انہوں نے حکمت اور تدبیر کی بلندیوں کو نمایاں کیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ہمیشہ فتح یاب یمن نے امریکہ اور اسرائیل کے جنگی جہازوں کو سمندر میں تباہ کرکے کس طرح ہلچل مچا دی۔ یہی جہاد مقاومت کی عظیم کامیابی ہے۔ بے شک، ولی امر مسلمین اور جہاد مقاومت کے عظیم رہبر، امام زمانہ (عج) کے نائب حقیقی، موجودہ دنیا میں تحریک چلا رہے ہیں، دشمن کے منصوبوں کو تباہ کر رہے ہیں اور قرآن کی آیات اور معصومین (ع) کے کلمات کی امید بخش فضاؤں کے ساتھ مقاومت، ایران اور امتِ اسلامی کے لیے کامیابی لے کر آرہے ہیں۔

یقیناً، جہاد مقاومت کا مضبوط محاذ، امام المسلمین حضرت امام خامنہ ای (مدظلہ العالی) کی حکیمانہ رہنمائی کی پیروی کرتے ہوئے، مکتبِ مقاومت کے پرچم تلے، ہر اس منصوبے کا ہوشیاری سے مقابلہ کرے گا، جو مقاومت کو کمزور کرنے اور خطے کی طاقتوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ یہ محاذ اپنی ترقی اور خود انحصاری کو امریکہ کے خطے سے اخراج اور قدس شریف کی آزادی اور فلسطینی قوم کی نجات کے لیے ایک مضبوط بنیاد بنائے گا۔ آپریشن طوفان الاقصیٰ تلوار پر خون کی فتح اور صہیونی رژیم کی تاریخی اور حکمت عملی کی شکست کو ظاہر کرتا ہے، جسے فلسطین کی اسلامی مقاومت اور حماس و جہاد اسلامی کے مجاہدین نے دشمن کو چکھائی۔ یہ آپریشن امتِ اسلامی کے مقدس غضب اور عزم کی عکاسی کرتا ہے، جو جعلی صہیونی ریاست کے خاتمے اور اس کے سب سے بڑے حامی، یعنی امریکہ، کے خطے سے اخراج کے لیے کوشاں ہے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے ایکس پیچ پر ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا اعلان کیا تھا، آج اسی حماس کے سامنے جھک کر جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا ہے۔ امیرِ جماعتِ اسلامی نے کہا کہ یہ صرف اسرائیل کی نہیں بلکہ امریکا کی بھی شکست ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ نیتن یاہو نے مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کی خونی جنگ کا آغاز کیا تھا، آج اہلِ غزہ سرخرو ہوگئے ہیں، اس جنگ کے 47 ہزار شہداء بھی زندہ رہیں گے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار اپنے بھائیوں کی جیت کا نظارہ کر رہے ہیں ہوں گے، شہداء اہلِ غزہ کے جشن کا نظارہ کر رہے ہوں گے، شہید زندہ رہتے ہیں۔

قطر کے وزیرِاعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی نے قطر میں بدھ کو رات گئے ایک پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے کا آغاز اتوار 19 جنوری سے ہوگا اور اس کی مخصوص ٹائمنگ پر تاحال فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ "امید ہے کہ یہ جنگ کے اختتام کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔" دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کی ہے۔ نائب صدر کملا ہیرس اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کے نتیجے میں "غزہ میں لڑائی رک سکے گی، فلسطینی شہریوں کو انسانی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی اور قیدیوں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ 15 ماہ کی قید کے بعد ملنے کا موقع ملے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے تک پہنچنا "آسان نہیں تھا اور ان کے تجربے کے مطابق یہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔"

مختلف شخصیات اور اداروں کی جانب سے بیانات اور تاثرات اپنی جگہ، لیکن کیا غاصب صیہونی حکومت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایسا سوال ہے، جس کا صجیح جواب کسی کے پاس نہیں۔ ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق غزہ میں جنگ کے بعد اسرائیل غزہ کا انتظام حماس کو دینے کے حق میں نہیں ہے اور اس نے اس کے اتنظامی امور فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے، جو کہ غربِ اردن میں اسرائیل کے قبضے میں موجود متعدد علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ اسرائیل موجودہ تنازع کے اختتام کے بعد بھی غزہ کا سکیورٹی کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے۔ تاہم اسرائیل امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ تشکیل دینے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے، جو فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات ہونے تک غزہ کا انتظام چلائے گی۔

اس وقت حماس شاید اس پریشانی کا بھی شکار ہو کہ کہیں جنگ بندی کا پہلا فیز مکمل ہونے کے بعد اسرائیل کسی مستقل معاہدے سے انکار ہی نہ کر دے۔ اگر اسرائیلی وزیراعظم حماس کے ساتھ کسی امن عمل کے لیے راضی بھی ہو جاتے ہیں، تب بھی ہوسکتا ہے کہ شاید وہ اپنی کابینہ کو اس بات پر راضی نہ کرسکیں۔ جنگ بندی کے اعلان کے بعد اسرائیلی کابینہ کو اس معاہدے کی منظوری دینی تھی، مگر ابھی تک اسرائیلی کابینہ نے جنگ بندی معاہدے کی منظوری نہیں دی۔ رپورٹ کے مطابق جنگ بندی معاہدے کے لیے ہونے والی اسرائیلی کابینہ کی میٹنگ بھی اب تک نہیں ہوسکی ہے اور اس حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس آخری وقت میں معاہدے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ اس حوالے سے حماس کے ایک رہنماء نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حماس جنگ بندی سے متعلق اپنی باتوں پر قائم ہے۔

 اس سے قبل جنگ بندی اعلان کے بعد اسرائیلی حکومتی اتحاد میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے تھے اور نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دی ہے۔ غزہ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے میں نیتن یاہو کی حیران کن لچک سے اسرائیل کے دائیں بازو کے حلقوں کو پریشانی لاحق ہوگئی تھی۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدہ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے نمائندے اسٹیون وٹکوف کے نیتن یاہو پر براہ راست دباؤ کے بعد ممکن ہوا۔ دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیلی حملے تاحال جاری ہیں اور سیز فائر اعلان کے بعد اب تک اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 1184765

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1184765/غزہ-میں-جنگ-بندی-کے-بارے-مختلف-شخصیات-اور-اداروں-بیانات-اثرات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com