QR CodeQR Code

پاراچنار محاصرہ کی آڑ میں کارفرما بین الاقوامی مقاصد

کرم محاصرے کے پیچھے کارفرما چار سالہ منصوبہ بندی(2)

16 Jan 2025 11:46

اسلام ٹائمز: قتل اور جوابی قتل سے معاملہ آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کی طرف منتقل ہوگیا۔ حتی احتجاجی جلسوں میں ایک دوسرے کے مقدسات کو نشانہ بنانا شروع ہوا۔ اسکی ابتداء مقبل کے ایک لڑکے سے شروع ہوئی، جس نے ویڈیو میں اہلبیت علیھم السلام نیز شیعوں کے مقدسات کی اہانت کی۔ جواب میں ایک شیعہ نے بیرون ملک سے ویڈیو کرکے اہل سنت کے مقدسات کو نشانہ بنایا۔ شیعہ عمائدین اور اہم ذمہ داران نے دونوں کی کھلی مذمت کےساتھ ساتھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ دونوں کو گرفتار کرکے سزا دے۔


تحریر: استاد ایس این حسینی

سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور دھمکیوں کی سیاست:
قتل اور جوابی قتل سے معاملہ آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کی طرف منتقل ہوگیا۔ حتی کہ احتجاجی جلسوں میں ایک دوسرے کے مقدسات کو نشانہ بنانا شروع ہوا۔ اس کی ابتداء مقبل کے ایک لڑکے سے شروع ہوئی، جس نے ویڈیو میں اہلبیت علیھم السلام نیز شیعوں کے دیگر مقدسات کی اہانت کی۔ جواب میں ایک شیعہ نے بیرون ملک سے ویڈیو کرکے اہل سنت کے مقدسات کو نشانہ بنایا۔ شیعہ عمائدین اور اہم ذمہ داران نے دونوں کی کھلی مذمت کے ساتھ ساتھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ دونوں کو گرفتار کرکے سزا دے۔ مگر حکومت اسے روکنے کی بجائے مزید ہوا دینا چاہتی تھی۔ حتی کہ خود حکومتی ذمہ داران ہی کے بعض فیک اکاونٹ سے ایسے اقدامات ہوتے رہے۔

نجی سطح پر یہ اقدام ویسے اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ مگر صدہ میں عید میلاد النبی جلوس میں اہل سنت کے اکابرین اور اہم شخصیات نے شیعہ کافر اور شیعوں کے مذہبی اقدار کی کھلم کھلا اہانت کی۔ پھر یہ سلسلہ روکا نہیں بلکہ بڑھتا گیا۔ قتل اور جوابی قتل سے بات آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے دیہات پر حملوں پر منتج ہوگئی۔ اپر کرم میں تری کے منگل اور غوز گڑھی کے مقبل نیز بوشہرہ میں آباد منگل و مقبل اپنے مفادات کی جنگ اور آگ لوئر کرم منتقل کرنے کی سازش میں ہمہ وقت مگن تھے، جس میں انہیں بالآخر کامیابی حاصل ہوگئی۔ جس کی وجہ سے لوئر کرم کے شیعہ سنی عوام اور علاقوں کو بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا۔

دلاسا گاؤں کا سقوط:
تری منگل کے نخرے جب حد سے بڑھ گئے تو بغدے کے دوپرزئی قبیلے نے اس کے ملکیتی علاقے میں آباد اور ناجائز قابض منگل قبیلے کے گاؤں دلاسا پر حملہ کیا اور انہیں اپنے علاقے سے بے دخل کر دیا۔ اس کے کچھ ہی روز بعد مقتولین کے ورثاء میں سے کچھ افرد نے بوغرہ میں آباد گیدو کے منگل قبیلے کے گاؤں ہندو کلے کو نذر آتش کر دیا، جبکہ منگل قبیلے کے تمام افراد کو کچکینہ کے طوری قبیلے نے پناہ دیکر بچا لیا۔

منگل مقبل کا پشاور میں دہشتگردی کا بڑا منصوبہ:
منگل اور مقبل کے کچھ شرپسندوں نے ایک تنظیم بنائی، انہوں نے اندرون اور بیرون ملک بھرپور چندہ مہم چلائی، تاکہ اس سے شیعہ شخصیات اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ یوں اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اپر اور لوئر کرم میں حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چنانچہ 23 اکتوبر 2023ء کو شلوزان تنگی میں منگل کے افراد نے لقمان خیل کے کچھ افراد کو بجری لاتے ہوئے اپنے ٹریکٹر کے ساتھ نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق اور دو زخمی ہوگئے۔ اگلے ہی روز یعنی 24 اکتوبر کو پشاور کوہاٹ روڈ پر ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ جس میں چار سال بعد قطر سے آنے والا کڑمان کا ایک مسافر جاں بحق جبکہ دیگر دو زخمی ہوگئے۔ جس کے ملزمان پکڑے جاچکے ہیں اور انہوں نے پوری منصوبہ بندی کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔

اگلے دن 25 اکتوبر کو کوہاٹ کے علاقے محمد زئی میں ایک فلائنگ کوچ کو نشانہ بنایا گیا۔ جس میں پاراچنار کا ایک شخص جبکہ مزدوری کی خاطر پاراچنار آنے والا چراٹ کا ایک سنی مزدور بھی جاں بحق ہوگیا۔ ان پے درپے واقعات کے ساتھ ہی پشاور پاراچنار کے راستے پر خطر ٹھہر کر گاڑیوں کی آمد و رفت متاثر ہوگئی۔ یوں مسافر گاڑیاں سرکاری قافلے کی صورت میں آنے لگیں۔ چنانچہ اگلے روز 26 اکتوبر کو پشاور سے مسافر روانہ ہوکر ٹل پہنچ گئے۔ ٹل سے سرکاری سکیورٹی میں 6 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ پاراچنار روانہ ہوا۔ لیکن جیسے ہی یہ قافلہ چار خیل مندوری پہنچا تو اس پر مسلح افراد نے فائرنگ شروع کر دی۔ جس کے نتیجے 6 افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ جن میں سے ایک زیڑان، دو پاراچنار جبکہ دو سگے بھائیوں (مظفر حسین اور ابرار حسین) کا تعلق کنج علی زئی سے تھا۔

سقوط غوزگڑھی: 
کرم کے اہل تشیع خصوصاً انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی نے ہر واقعے کی، خواہ نشانہ شیعہ ہوں یا سنی، بھرپور مذمت کی ہے، مگر یہاں کے اہل سنت کی منطق کچھ عجیب ہے، وہ کسی بھی واقعے کی مذمت یا اس لاتعلقی ظاہر کرنے کی بجائے اس کے دفاع میں صدہ میں احتجاج کرواتے ہیں یا کم از کم سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ چنانچہ ان پے درپے واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کرنے یا اس کی مذمت کرنے کی بجائے مقبل کے کچھ افراد نے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو واقعے کی مبارکباد دی اور اس پر فخر و مباہات کیا۔ یہی نہیں بلکہ اگلے روز 27 اکتوبر کو تجہیز و تدفین کے دوران پہاڑوں سے جنازے پر مارٹر گولے پھینکنے شروع کئے، جس کیوجہ سے 27 ہی کو جنگ چھڑ گئی۔

جنگ میں شدت آتی گئی، گھروں میں گولے لگنے سے متعدد بچے اور خواتین نشانہ بن گئیں۔ مقبل قوم کی جانب سے بار بار جارحیت کے جواب میں 29 اکتوبر کو کنج علی زار غوزگڑھی میں گھمسان کی جنگ لڑی گئی۔ جس کے نتیجے میں لر غوز گڑھی (گاؤں) جل گیا۔ اس خونریز معرکہ میں فریقین میں سے ہر ایک کے تیرہ تیرہ افراد بھی جاں بحق ہوگئے۔ اگلے دن افغانستان کے سلطک اور زیگاڑ علاقے سے مقبل کے ہم قبیلہ افغانوں نے ایک بڑا لاو لشکر تیار کرکے باڑ کاٹ کر سرحد عبور کی اور رات کو ساڑھے بارہ بجے کنج علی زئی پر حملہ کیا۔ تاکہ بدلے میں علی زئی کے کسی گاؤں کو جلا سکیں۔ دیہات کو کوئی نقصان تو نہ پہنچا، تاہم علی زئی کے 3 افراد جاں بحق ہوگئے۔

غوز گڑھی لڑائی کے بعد 
اس کے بعد لڑائی جھگڑوں اور قتل اور جوابی اقدامات کا یہ سلسلہ آج تک یونہی جاری رہا۔ لوئر کرم میں متعدد مقامات پر حملے ہوتے رہے۔ صدہ کے درمیان ایک شیعہ فلائنگ کوچ گاڑی پر حملہ ہوا۔ جس میں بیٹھے افراد میں سے ایک شیعہ جبکہ ایف سی کے 2 نان لوکل افراد جو چھٹیوں پر گھر جا رہے تھے، جاں بحق ہوگئے۔ اس کے کچھ ہی دن بعد صدہ اور خار کلے کے درمیان بائی پاس کے دھانے پر حملہ ہوگیا۔ جس میں دو نان لوکل مزدوروں کے علاوہ شنگک کی لیڈی ڈاکٹر رقیہ اور ایک اور شخص جاں بحق ہوگیا۔ اس کے دو ہفتے بعد صدہ بائی پاس پر چار پانچ مسافر فلائنگ کوچ گاڑیوں کو روک کر فائرنگ کی گئی۔ جس میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ تاہم منیر حسین طوری نے اپنے لائسنس یافتہ پستول سے جوابی کاروائی کی۔ حملہ آور بھاگ گئے۔ متعدد طوریوں نے گاڑیوں سے اتر کر ان کا پیچھا کیا۔ پولیس اور ایف سی پہنچ گئی، تاہم انہوں نے کوئی مناسب کارروائی نہیں کی۔

اس دوران کئی بار صدہ کے محاذ پر لڑائی چھڑ گئی، لیکن جیسے ہی صدہ میں لڑائی چھڑ جاتی، ارد گرد کے تمام اہل سنت قبائل لڑائی کا دائرہ پھیلا کر اپر کرم سے لیکر سنٹرل اور لوئر کرم تک ہر محاذ پر لڑائی شروع  کروا دیتے۔ اس دوران دو دفعہ بوشہرہ مالی خیل اور مادگی کلی کے مابین زمین نیز جوزک اور ڈنڈر کے مابین پرانی دشمنی کی بنا پر لڑائی چھڑ گئی۔ لیکن اسے مسلکی رنگ چڑھا کر آناً فاناً اس کا دائرہ پورے کرم تک بڑھایا گیا۔ سنی اقلیت گاوں بوشہرہ میں اہل سنت کی حفاظت کیلئے پولیس، ایف سی اور فوج کی بھاری نفری موجود ہے۔ جو ان کی حفاظت سے زیادہ انہیں جنگ کی ترغیب دلاتے ہیں۔ ان کی جانب سے سکول کے بچوں کو بڑے ہتھیاروں کی تربیت دینے کی تصاویر میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ ان کی اسی پالیسی کے باعث اگست 2023ء میں بوشہرہ پر وہاں کے شیعہ قبائل نے حملہ کیا۔ تاہم حملہ ناکام ہونے کے علاوہ شیعہ قبائل کے 20 افراد جاں بحق ہوگئے۔

اکتوبر 2024ء میں صدہ اور بالش خیل کے درمیان جنگ چھڑ گئی، جو کئی دن تک جاری رہی۔ جس میں فریقین کے 50 کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی دوران مقامی قبائل نے طالبان کے تعاون سے بالش خیل اور سنگینہ پر بھاری حملے کئے۔ جس میں سنگینہ میں طوری قبائل کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ تاہم گاؤں یا کسی مورچہ پر قبضہ کرنے میں طالبان ناکام رہے۔ چنانچہ پاراچنار کے محاصرے، قتل و غارت، معاشی بحران کا سبب اور محرک کوئی ایک خاص واقعہ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے سالوں سے پڑے زمینی مسائل ہیں، جبکہ ان زمینی مسائل سے توجہ ہٹانے کی خاطر منگل و مقبل اور ان کی پشت پر کھڑی سرکار لوئر کرم کے غیر وابستہ سنی قبائل کا سہارا لیتی ہے۔

سرکار کے اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد:
سرکار کے اپنے بھی کافی مقاصد ہیں۔ سی پیک کے منصوبہ کو دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر منصوبہ اختتام کو نہیں پہنچتا۔ چین کا یہ منصوبہ امریکہ بہادر کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وطن عزیر کی بعض مفاد پرست سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں دونوں چکمہ دے رہی ہیں۔ قومی اور بین الاقومی میڈیا کے مطابق ہماری سرکار چین اور امریکہ دونوں کو چکمہ دینے کی خاطر علاقے میں امن نہیں چاہتی۔ سی پیک کے مین کاریڈور کرم کو بدامنی کا شکار قرار دیکر منصوبے میں روکاوٹ قرار دیتے ہوئے چین کو چکمہ دے رہی ہے، جبکہ دوسری جانب امریکہ کو یوں قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ منصوبے پر عمل نہ کروانے اور اپنے ہمسایہ دوست ملک چین کو قائل کرنے کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ علاقے کی بدامنی ہے۔


خبر کا کوڈ: 1184638

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1184638/کرم-محاصرے-کے-پیچھے-کارفرما-چار-سالہ-منصوبہ-بندی-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com