کوہاٹ معاہدہ کی آڑ میں ناجائز حکومتی مقاصد
کرم محاصرے کے پیچھے کارفرما چار سالہ منصوبہ بندی(1)
قتل اور جوابی قتل کے مسلسل واقعات کا پیش خیمہ
15 Jan 2025 15:39
اسلام ٹائمز: حکومت فوری حل طلب مسائل کی بجائے طالبان نواز فریق کے مطالبات کو زبردستی منوانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یوں کہ وہ معاہدہ کوہاٹ کی پہلی 11 شقوں کو چھوڑ کر بارہویں شق کو عملی کروانے پر تلی ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ 12ہویں شق بنکرز کی مسماری پر مشتمل ہے۔ حکومت گذشتہ دو روز سے اسی شق کو عملی کروانے پر مصر تھی، بالآخر مشران کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں پیر 13 جنوری کو بالش خیل میں دونوں جانب سے ایک ایک بنکر کو مسمار کرنے پر اتفاق ہوگیا، چنانچہ شام 4 بجے ان بنکروں کو بم سے اڑا کر مسمار کر دیا گیا۔
رپورٹ: استاد ایس این حسینی
ضلع کرم کے شیعہ سنی قبائل کے مابین کوہاٹ میں ہونے والے معاہدہ پر اتفاق ہونے کو پورے دو ہفتے ہوچکے ہیں۔ جو کہ متعدد شقوں پر مشتمل ہے۔ معاہدے کی پہلی شقوں میں روڈ کو پرامن بنا کر کھولنے کی بات کی گئی ہے۔ معاہدے کے مطابق دو روز بعد ہفتہ 4 جنوری کو 80 گاڑیوں کے قافلے میں اشیائے خورد و نوش اور دیگر ضروریات زندگی لیکر پاراچنار پہنچانا تھا، مگر روڈ کھولنا تو درکنار اسے مزید کٹھن بنا دیا گیا۔ وہ یوں کہ اسی روز مین شاہراہ پر لوئر کرم بگن کے مقام پر صبح 10 بجے ڈی سی کرم جاوید اللہ محسود کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کرایا گیا کہ یہ علاقہ عوام تو کیا خواص اور کسی کیلئے بھی محفوظ نہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایک صوبائی مشیر بیرسٹر سیف نے اس واقعے کو ایک معمولی حادثہ قرار دیا۔ معلوم یہی ہو رہا ہے کہ جنگ سے لیکر معاہدہ تک کہیں بھی کوئی سنجیدگی نہیں پائی جاتی، بلکہ سب کچھ بنا بنایا کھیل ہے۔
کوہاٹ میں ہونے والے معاہدے کی رو سے سب سے پہلے روڈ کھلوانا ہے، کیونکہ سب سے بڑی ضرورت روڈ ہی تو ہے۔ وہ یوں کہ اس وقت حکومت کو سب سے بڑی رکاوٹ اور کھلا چیلنج روڈ کھلوانا ہے۔ کرم میں اس وقت کہیں پر بھی کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کہ اسے روکنے اور ختم کروانے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے پڑیں۔ یا یہ کہ اسلحہ کی نمائش کا کوئی مسئلہ موجود ہو، جس کی وجہ سے کہیں کوئی خوف و ہراس پھیلنے کا اندیشہ ہو، جبکہ سب سے بڑا اور حل طلب مسئلہ اپر کرم کو اشیائے خورد و نوش بالخصوص ادویات نیز دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی ترسیل ہے اور ساتھ یہ کہ دونوں جانب سے پھنسے ہوئے لوگوں کو اپنی منزل تک پہنچانا ہے۔ جن میں پاراچنار میں پھنسے سکول و کالج کے طلبہ، بیرونی ممالک جانے والے مسافر، شدید بیمار افراد نیز پشاور اور کوہاٹ میں پاراچنار کے پھنسے افراد شامل ہیں۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مقامی، صوبائی حتیٰ مرکزی حکومت طالبان نواز جارح فریق کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔ جس نے کرم کے سب سے بڑے انتظامی افسر یعنی ڈی سی کو نشانہ بنایا اور جس نے مین شاہراہ بند کرکے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ہے۔ جو سرکاری گاڑیوں کی تلاشی لیکر ان سے اپنے مطلوب افراد کو اتارنے کی جسارت کر رہا ہے۔ حکومت فوری حل طلب مسائل کی بجائے طالبان نواز فریق کے مطالبات کو زبردستی منوانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یوں کہ وہ معاہدہ کوہاٹ کی پہلی 11 شقوں کو چھوڑ کر بارہویں شق کو عملی کروانے پر تلی ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ 12ہویں شق بنکرز کی مسماری پر مشتمل ہے۔ حکومت گزشتہ دو روز سے اسی شق کو عملی کروانے پر مصر تھی۔ بالآخر مشران کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں پیر 13 جنوری کو بالش خیل میں دونوں جانب سے ایک ایک بنکر کو مسمار کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ چنانچہ شام 4 بجے ان بنکروں کو بم سے اڑا کر مسمار کیا گیا۔
فریقین کے تحفظات اور مطالبات:
اہل سنت کا مطالبہ:
اس وقت اہل سنت قبائل 22 دسمبر کو بگن کے گھیراو اور جلاو کو زیادتی سمجھتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جب تک بگن کو دوبارہ آباد نہیں کرایا جاتا، بلکہ کھلی دھمکی دیتے ہوئے یہاں تک کہتے ہیں کہ جب تک بگن کا بدلہ نہیں لیا جاتا، روڈ محفوظ نہیں ہوسکتا۔
طوری بنگش کا موقف اور مطالبہ:
طوری بنگش قبائل کا موقف یہ ہے کہ بگن کا واقعہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نہیں بلکہ یہ 21 دسمبر کو بگن کے مقام پر ان کے 100 گاڑیوں پر مشتمل قافلے نیز ان میں موجود مسافروں کو نشانہ بنانے کا ردعمل ہے۔ جس میں 50 کے قریب لوگ جان بحق ہونے کے علاوہ ان کا سامان بھی لوٹا گیا، نیز گاڑیوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور یہ کہ اپر کرم کے مقبل اور منگل قبائل نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے اس علاقے کو استعمال کیا۔ حالانکہ اس علاقے اور یہاں آباد اقوام کا منگل و مقبل قوم کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔ اہل سنت کا موقف ہے کہ گاڑیوں پر حملہ 12 اکتوبر کو مقبل کے کانوائے پر حملے کا ردعمل تھا۔ جس میں 18 افراد جاں بحق جبکہ 5 گاڑیوں کو نقصان پہنچا تھا۔
جواب میں طوری بنگش اقرار کرتے ہیں کہ بیشک یہ افسوس ناک واقعہ ہوا تھا۔ تاہم اس کی مذمت طوری بنگش کے عوام اور خواص نے کی تھی اور یہ کہ یہ کارروائی کنج علیزئی نستی کوٹ کے مقام پر ہوئی تھی، جبکہ کنج علی زئی و نستی کوٹ (شیعہ) قبائل اور مقبل (سنی) قبائل کی آپس میں زمین اور پہاڑوں پر تنازعہ اور دشمنی چلی آرہی ہے، جبکہ اسی دن جنگل میں مقبل کی طرف سے طوری قبیلے کے شکاریوں پر حملہ ہوا، جس میں دو افراد زخمی ہوئے تھے، مگر افواہ یہ پھیلی کہ 5 افراد کو مقبل زندہ گرفتار کرکے لے گئے ہیں۔ جس کے ردعمل میں غلط فہمی سے کانوائے پر حملہ عمل میں آیا، تاہم یہ بات ناقابل فہم ہے کہ مسئلہ وہاں کے مقامی قبیلے مقبل کے ساتھ علی زئی و نستی کوٹ کا تھا، جبکہ اس کا بدلہ غیر متعلقہ مقام یعنی بگن میں غیر متعلقہ قبائل تمام طوری بنگش قبائل سے لیا گیا۔ جس میں متعلقہ علیزئی و نستی کوٹ کی بجائے دیگر علاقوں کے لوگ نشانہ بنے۔
موجودہ محاصرہ کی صورتحال کہاں سے شروع ہوئی
اب یہ بتاتے چلیں کہ اس مسئلہ کی بنیادی 12 اکتوبر کو نہیں پڑی، بلکہ یہ بہت پیچھے جاتا ہے اورر اس کے بہت پیچھے دیگر کافی عوامل کارفرما ہیں۔ وہ یوں کہ 12 اکتوبر سے پہلے بھی روڈ بند تھے۔ لوگ کانوائے میں آتے جاتے تھے۔ اسی دوران طوری قبائل کی متعدد گاڑیوں کو صدہ، بگن، مندوری کوہاٹعلا اور پشاور میں نشانہ بنایا گیا۔ جس میں طوری قبائل کی ایک لیڈی ڈاکٹر سمیت دیگر کئی مرد و خواتین، نیز پاراچنار میں محنت مزدوری کرنے والے مزدوروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ جن میں سے ایک نوشہرہ، ایک چارسدہ اور ایک چراٹ کا تھا۔ نیز ایک گاڑی میں دو فوجی جوان بھی نشانہ بنے۔ جن کے ورثاء کے پاس جاکر اہل تشیع عمائدین نے دعائے مغفرت کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ حتی المقدور مالی معاونت بھی کی۔
اس کہانی کی اصل ابتداء
کرم میں لڑائی جھگڑوں، کشت و خون، قتل و مقاتلوں اور جوابی کارروائیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تاہم پرانی سے صرف نظر کرکے ماضی قریب پر روشنی ڈالتے ہیں۔
23 اکتوبر 2021ء
کرم کی موجودہ صورتحال کا بنیادی سبب:
کرم کی موجودہ صورتحال، پکڑ دھکڑ، محاصرے، ایک دوسرے کو قتل اور جوابی قتل، حملوں اور جوابی حملوں کے پیچھے کارفرما وجوہات کچھ اور ہیں۔ ان تمام کے پیچھے کارفرما اصل عنصر پیواڑ اور گیدو تنازعہ ہے۔
پیواڑ اور گیدو تنازعہ
گیدو اور پیواڑ کے مابین شاملات نیز پہاڑ کی ملکیت پر عرصہ دراز سے تنازعہ چلا آرہا ہے، جس پر کورٹ میں فیصلے بھی ہوچکے ہیں۔ کیونکہ ضلع کرم میں ریونیو ریکارڈ موجود ہے اور ہر فرد کی انفرادی نیز قبائلی حیثیت معلوم ہے۔ تاہم سرکار دولتمدار عملاً قانون کو نافذ نہیں کرواتی، جس سے مسئلہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کاغذات مال میں پیواڑ کے طوری علیزئی قبیلے کے ملکیتی پہاڑ پر گیدو کے منگل قبائل مدعی ہیں اور گذشتہ بارہ تیرہ سال سے اہلیان پیواڑ کو وہاں سے لکڑی کاٹنے نہیں دے رہے۔ طویل بندش کے بعد 23 اکتوبر2021ء کو اہلیان پیواڑ لکڑی کاٹنے کی غرض سے اپنے پہاڑ گئے۔ راستے میں پہلے سے تاک میں بیٹھے گیدو کے منگل قبیلے نے نہتے علیزئی کو گولیوں سے بھون ڈالا، جنکے پاس صرف کلہاڑے اور گدھے تھے۔ نتیجے میں پیواڑ کے 11 افراد، جن میں سے 4 عمائدین بھی تھے، جاں بحق ہوگئے۔ ان کی کمک کیلئے دیگر ہم قبیلہ لوگ پہنچے، جوابی فائرنگ میں 5 منگل بھی جاں بحق ہوگئے۔
اس سانحے پر مسئلہ مزید بڑھ گیا۔ اہلیان پیواڑ نے حکومت سے ملزمان کی گرفتاری اور انہیں سزا دینے کی اپیل کی، مگر جب ان سے کچھ نہ بنا تو، خود ہی بدلہ لینے کی بار بار کوشش کی، مگر موقع ہاتھ نہ لگنے کی وجہ سے ناکام ہوگئے۔ اس دوران گیدو کے 3 اور پیواڑ کے دو افراد کو گرفتار کرکے زبردستی صلح کروانے کی کوشش کی، تاہم اہلیان پیواڑ کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ لکڑیاں کاٹنے کیلئے پہاڑ کو فورا کھولا اور محفوظ کیا جائے، جبکہ اہلیان گیدو پہاڑ سے قطع نظر صرف راستے کو محفوظ بنانے کا مطالبہ رکھتے تھے۔ پیواڑ والے 2011ء کے ایک معاہدے کی رو سے روڈ، نہر اور پہاڑ کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔ مگر سرکار پیواڑ کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھی، بلکہ الٹا پیواڑ والوں کو گرفتار کرکے مجبور کرنے پر تلی تھی۔ مسئلہ جون کا توں رہا۔ دشمنی کم نہ ہوئی۔
پھر ڈیڑھ سال بعد 4 مئی 2023ء کو علیزئی قبیلے میں سے کسی ایک خاندان کے دو افراد نے تری سے تعلق رکھنے والے محمد شریف نامی شخص کو پاراچنار سے تری جاتے ہوئے شلوزان نورکی کے پاس دن کو 12:45 بجے روڈ پر گاڑی میں قتل کیا۔ مگر اس کے کچھ ہی منٹ بعد یعنی 13:10 کو تری میں سرکاری ہائی سکول میں سرکاری ڈیوٹی پر موجود 4 اساتذہ اور اس سکول میں مزدوری کرنے والے 3 ٹریکٹر ڈرائیور کو علاقے کے لوگوں نے پکڑ کر کلہاڑیوں اور چاقوں کے ساتھ بے دردی سے قتل کر دیا۔ پھر ان کی لاشوں کو بری طرح مسخ کرنے کے علاوہ جلا بھی ڈالا، جبکہ تمام مقتولین کا تعلق پیواڑ سے تو کیا، سرے سے طوری قبیلے سے نہیں تھا، بلکہ ان کا تعلق شلوزان، علی شاری اور کڑمان کے بنگش قبیلے سے تھا۔ اس سانحے پر پورے علاقے میں ہلچل مچ گئی۔ سکولوں کی سطح پر اساتذہ اور طلبہ نے احتجاجی تحریک شروع کی۔ کئی روز تک سکول بند رہے۔
مسلسل دو ہفتوں تک سکولوں کے اساتذہ اور طلباء نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا، بنیادی مطالبہ یہی تھا کہ اساتذہ نیز محمد شریف کے قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔ تاہم حکومت نے ملزمان کے فرار ہونے کو بہانہ بنا کر کسی کو بھی گرفتار نہ کیا۔ حالانکہ حکومت کو محمد شریف اور اساتذہ کے تمام قاتل معلوم تھے۔ محمد شریف کو تو دشمنی کی بنا پر پیواڑ والوں نے قتل کیا تھا، جبکہ اساتذہ کو سکول کی دیگر انتظٖامیہ کے سامنے علاقے کے لوگوں اور ناخلف طلبہ نے ملکر قتل کیا تھا۔ اس مسئلے نے علاقے کے تعلیمی نظام کو درہم برہم کر دیا۔ ایک دوسرے کے سکولوں میں کام کرنے والے تمام اساتذہ نے جان کے خوف سے ڈیوٹیاں انجام دینے سے صاف انکار کر دیا، جس سے علاقے کے درجنوں سکول متاثر ہوئے۔ اساتذہ کو مناسب تحفظ کی ضمانت دلوانے سے سرکار صاف مکر گئی اور حالات کو آج کی نہج پر پہنچانے میں حکومت نے خوب اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
کافی عرصہ احتجاجات کے بعد جب کوئی نتیجہ نہ نکلا تو بالآخر اساتذہ اور عوام بھی تھک ہار کر آرام سے بیٹھ گئی۔ اب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اہل سنت کے مقامی (تری منگل) اور غیر مقامی قبائل (لوئر کرم والے) سب مل کر واقعے کی مذمت کرتے۔ تاہم انہوں نے مذمت کی نجائے اس اقدام کو محمد شریف کا انتقام قرار دیتے ہوئے شیعہ اساتذہ و طلبہ کے احتجاج کے مقابلے میں صدہ میں احتجاج شروع کر دیا اور اپنے سکولوں سے شیعہ اساتذہ کے تبادلے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ویسے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اساتذہ کے ورثاء اپنے مقتولین کا بدلہ لیتے، بجائے اس کے اپر کرم کے منگل اور مقبل قبائل نے لوئر اور سنٹرل کرم کے دیگر اہل سنت قبائل کو غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے ساتھ ملا لیا اور انہی کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے راستے میں شیعہ گاڑیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ متعدد مقامات پر متعدد گاڑیوں اور اس میں بیٹھے مسافروں کو نشانہ بنایا۔
اسی دوران بغدے کے طوری دوپرزئی قبیلے کے کچھ افراد نے عزت کے مسئلے میں انہیں مطلوب لوئر کرم (منڈا) کے دو افراد کو ٹوپکی لوئر کرم میں نشانہ بنایا۔ جو پیشی کے بعد پاراچنار سول عدالت سے صدہ جا رہے تھے۔ مگر اس کے جواب میں صدہ میں عام ہجوم نے ایف سی ڈیوٹی سے چھٹی پر گھر آنے والے زیڑان کے (لیسیانی قبیلے کے) ایک غیر متعلقہ شخص زینت صوبیدار کو پولیس سٹیشن کے اندر پناہ لیتے ہوئے پتھر مار مار قتل کر ڈالا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد سنٹرل کرم کے علاقے دڑا دڑ وچہ درہ کے دو قبائل (لسیانی اور منگل) جن کی پرانی دشمنی تھی اور انہوں نے پشاور سمیت کرم میں بھی ایک دوسرے کے متعدد افراد کو دشمنی کے شاخسانے میں قتل کیا تھا۔ چنانچہ اسی شاخسانے میں لسیانی قبیلے کے دو افراد نے کڑمان بوغکی کے قریب اپنے ذاتی دشمن منگل قبیلے کے دو افراد کو قتل کیا۔
مگر صدہ کے غیر متعلقہ اہل سنت نے مدعیان نیز کیس کی نوعیت جاننے کی بجائے ڈائریکٹ علی شاری کے ایک بنگش شخص کو مل کر قتل کر ڈالا۔ خیال رہے کہ کرم یا کوئی بھی پشتون اپنے دشمن، خواہ وہ اس کا سگا بھائی کیوں نہ ہو، انتقام لئے بغیر چھوڑتا نہیں۔ اس میں شیعہ سنی کی کوئی تمیز نہیں۔ سنی اپنے سنی کو جبکہ شیعہ اپنے شیعہ کو بھی معاف نہیں کرتا، جبکہ کرم کے منگل اور مقبل (جو کہ اہل سنت ہیں) اگر اپنی ذاتی دشمنی میں قتل ہو جائیں، تو دوسرے قبائل کے اہل سنت صدہ اور لوئر کرم میں ان کا بدلہ ایک عام اور غیر متعلقہ شیعہ سے لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ: 1184236