حزب اللہ کا مستقبل اور لبنان
13 Jan 2025 21:28
اسلام ٹائمز: اگرچہ گذشتہ تقریباً 80 برس کے دوران لبنان کے اکثر صدور مملکت کا تعلق فوج سے رہا ہے لیکن جو چیز لبنانی قوم کی اکثریت کے لیے اہم ہے وہ مختلف قوموں کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور نئے منتخب صدر کی اسلامی مزاحمت کے بارے میں مثبت نگاہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوزف عون اپنی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاست اور پالیسیوں میں گذشتہ صدر مملکت مائیکل عون کی پیروی کریں گے اور اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی حمایت کرنے کی کوشش کریں گے۔
تحریر: حسن ہانی زادہ
آخرکار لبنان کے مختلف پارلیمنٹیرین گروہوں کے درمیان 26 مہینے کے انتہائی مشکل اور پیچیدہ مذاکرات کے بعد، اس قانون ساز ادارے نے کشمکش سے بھرپور اپنے 14 ویں اجلاس میں آرمی کے سربراہ جوزف خلیل عون کو ملک کا 14 واں صدر منتخب کر لیا ہے۔ اس اجلاس کی سربراہی لبنان پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کر رہے تھے جن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں عیسائی مذہب جوزف عون نے بھاری اکثریت حاصل کر کے نئے صدر کا عہدہ اپنے نام کر لیا اور اب انہیں بعبدا محل روانہ کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے پارلیمانی گروہ کے پاس 38 سیٹیں ہیں جنہوں نے نبیہ بری کے کہنے پر جوزف عون کے مقابلے میں دوسرے امیدوار سلیمان فرنجیہ کی حمایت ترک کر دی اور یوں جوزف عون کامیاب ہو گئے۔
لبنان کے سابق وزیر خارجہ اور مائیکل عون (سابق لبنانی صدر) کے داماد جبران باسیل کی سربراہی میں پارلیمانی فری نیشنل پارٹی نے جوزف عون کی مخالفت میں ووٹ ڈالا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ، فرانس اور بعض خلیجی عرب ریاستوں نے کافی عرصہ پہلے سے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر جوزف عون کو لبنان کے نئے صدر کے طور پر نہ چنا گیا تو وہ جنوبی لبنان میں تعمیر نو پراجیکٹس کے لیے مالی امداد فراہم نہیں کریں گے۔ جوزف عون لبنان آرمی کے سربراہ اور جنرل ہیں جو 1964ء میں سن الفیل کے علاقے میں ایک مارونی قدیم تاریخ کے حامل عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے امریکہ اور فرانس میں فوجی ٹریننگ کے کئی کورسز مکمل کیے ہیں۔ وہ سیاسیات میں بھی اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور ایک میانہ رو سیاست دان کے طور پر بھی معروف ہیں۔
جوزف عون، لبنان کے دوسرے ایسے صدر ہیں جن کا تعلق قدیم تاریخ کے حامل عون خاندان سے ہے۔ ان کے انتخاب کے بعد لبنان امن اور استحکام کے نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ لبنان کے آئین کی روشنی میں ضروری ہے کہ صدر مارونی عیسائی ہو اور پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے انتخاب کیا جائے۔ یاد رہے لبنان پارلیمنٹ کی کل 128 سیٹیں ہیں۔ جوزف عون کا لبنان کے صدر کے طور پر منتخب ہو جانے نے اس اختلاف کا خاتمہ کر دیا جو گذشتہ 26 ماہ سے لبنان کے مختلف پارلیمانی گروہوں کے درمیان چلا آ رہا تھا۔ اس چناو نے ثابت کر دیا ہے کہ لبنان کے ریاستی ادارے عقلانیت، قومی وحدت اور سیاسی اور قومی اختلافات کے حل کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔
اگرچہ گذشتہ تقریباً 80 برس کے دوران لبنان کے اکثر صدور مملکت کا تعلق فوج سے رہا ہے لیکن جو چیز لبنانی قوم کی اکثریت کے لیے اہم ہے وہ مختلف قوموں کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور نئے منتخب صدر کی اسلامی مزاحمت کے بارے میں مثبت نگاہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوزف عون اپنی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاست اور پالیسیوں میں گذشتہ صدر مملکت مائیکل عون کی پیروی کریں گے اور اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کی حمایت کرنے کی کوشش کریں گے۔ جنوبی لبنان میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا جاری رہنا، لبنان میں صیہونی فضائی بمباری کے نتیجے میں تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو، عوام کی معیشت بہتر بنانا، خطے کے ممالک سے تعاون اور شام میں امن و استحکام پیدا کرنے میں مدد فراہم کرنا نئے لبنانی صدر کو درپیش چیلنجز ہیں۔
جو چیز لبنانی قوم کی اکثریت کے لیے اہم ہے وہ لبنان میں اسلامی مزاحمت کی حفاظت ہے۔ کیونکہ امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو اسرائیل کی جانب سے لبنان کی تقسیم کا زمینہ فراہم ہو جائے گا۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے پارلیمانی گروہ نے اپنے تحفظات دور کرنے پر مبنی کچھ یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد جوزف عون کو ووٹ دیا ہے لیکن ان کی جانب سے صدر کا امیدوار سلیمان فرنجیہ تھے جو بعد میں جوزف عون کے حق میں بیٹھ گئے تھے۔ لبنان کے نو منتخب صدر نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر کے دوران وحدت اور قومی اتحاد برقرار رکھنے نیز لبنان کی معیشت کو ترقی دینے پر زور دیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی لبنان میں نئے صدر کے انتخاب پر لبنانی پارلیمنٹ، قوم اور حکومت کو مبارکباد پیش کی ہے اور نئی لبنانی حکومت کو ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لبنان سے متعلق ایران کی مجموعی سیاست ہمیشہ لبنان میں قومی وحدت کے فروغ اور غاصب صیہونی رژیم سے درپیش خطرات کے مقابلے میں عوامی قوتوں کے طاقتور ہونے پر استوار رہی ہے۔ لبنان کے نو منتخب صدر کا پہلا اقدام مختلف پارلیمانی گروہوں کے قابل قبول شخص کا چناو ہو گا جو آئندہ کابینہ تشکیل دے سکے۔ چونکہ لبنان میں وزیراعظم کا عہدہ اہلسنت مسلمانوں سے مخصوص ہے لہذا وہ لبنان کی مین اسٹریم پالیسیاں طے پانے میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ موجودہ وزیراعظم نجیب میقاتی کے علاوہ سابق وزیراعظم تمام سلام، لبنان ایئر لائنز کے سربراہ محمد الحوت اور دو پارلیمنٹ اراکین فواد مخزومی اور اشرف ریفی کے نام بھی زیر غور ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1184167