جرمنی کے جرائم
26 Dec 2024 00:20
اسلام ٹائمز: جرمنی اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں ہتھیاروں کی نئی کھیپ بھیج رہا ہے، جبکہ آئرلینڈ، جو یورپی یونین کا ایک رکن ہے، وہ صیہونی حکومت کے جرائم کو نسل کشی قرار دیتا ہے اور جنوبی افریقہ کیطرف سے اسرائیل کیخلاف پیش کردہ عالمی عدالت انصاف کی درخواست میں باقاعدہ شامل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے ججوں نے غزہ میں جنگ بندی کا حکم دیا ہے۔ یورپی یونین کے بیشتر ممالک، جن میں جرمنی سرفہرست ہے، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو صیہونیوں کا دفاع قرار دیتا ہے اور اسرائیل کی جعلی حکومت کو اسلحہ کی برآمدات کو جائز اقدام سمجھتا ہے۔
تحریر: مرتضیٰ مکی
ایک طرف آئرلینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں تو دوسری طرف جرمنی نے اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ہفتہ روزہ جرمن جریدے "اسپیگل" نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ "گذشتہ چند ہفتوں کے دوران جرمن حکومت نے اسرائیلی حکومت کو 30 ملین یورو سے زائد مالیت کے ہتھیاروں کی برآمدات کی منظوری دی ہے۔" اس سے قبل، جرمن حکومت نے صیہونی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بین الاقوامی خدشات کے باوجود، سالانہ 160 ملین یورو کے اسلحے کی ترسیل کی منظوری دی تھی۔ اشپیگل کے مطابق، جرمن وزارتِ اقتصادیات کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں اسلحے کی برآمدات کے تازہ ترین اعداد و شمار شائع کیے گئے ہیں۔ جرمنی اسرائیل کے فوجی ٹینکوں مرکاوا کے لیے سپیر پارٹس فراہم کرتا ہے، جو مقبوضہ علاقوں میں موجود ہیں۔
جرمنی اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں ہتھیاروں کی نئی کھیپ بھیج رہا ہے، جبکہ آئرلینڈ، جو یورپی یونین کا ایک رکن ہے، وہ صیہونی حکومت کے جرائم کو نسل کشی قرار دیتا ہے اور جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف پیش کردہ عالمی عدالت انصاف کی درخواست میں باقاعدہ شامل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے ججوں نے غزہ میں جنگ بندی کا حکم دیا ہے۔ یورپی یونین کے بیشتر ممالک، جن میں جرمنی سرفہرست ہے، غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کو صیہونیوں کا دفاع قرار دیتا ہے اور اسرائیل کی جعلی حکومت کو اسلحہ کی برآمدات کو جائز اقدام سمجھتا ہے۔ اسرائیل کی جعلی حکومت کے قیام کی تاریخ میں یورپی یونین کے ممبروں کے درمیان کبھی بھی اتنا گہرا اختلاف نہیں دیکھا گیا۔
اس سے پہلے مغربی ممالک میں صیہونی جرائم کی معمولی سے بھی تنقید کو یہودی دشمنی سمجھا جاتا تھا اور اسے برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔ اس وقت جو لوگ صیہونیوں کی جارحانہ پالیسیوں پر تنقید کرنے کی ہمت کرتے تھے، ان کو جرمانے، قید اور ملازمت سے برطرفی جیسی سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس وقت یورپی ممالک کی سطح پر آئرلینڈ جیسا یورپی یونین کا رکن ملک صیہونیوں کی طرف سے بہت زیادہ دھمکیوں کے باوجود صیہونیوں کے جرائم کی مذمت میں اپنی پوزیشن پر کھڑا ہے۔ آئرلینڈ نے فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کی ہے اور جنوبی افریقہ کی جانب سے صیہونی حکومت کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں دائر درخواست میں شامل ہوگیا ہے۔
صیہونی حکومت نے آئرش حکومت کے موقف کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ڈبلن میں اپنا سفارت خانہ بند کر رہا ہے۔ امریکہ، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور کئی دیگر یورپی ممالک کی طرف سے صیہونی حکومت کی حمایت کے خلاف آئرش حکومت کا پختہ موقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی حقوق کے محافظ ہونے کا دعوی کرنے والی مغربی حکومتیں ناکام ہوچکی ہیں۔ وہ بچوں کو مارنے والی صیہونی حکومت کی حمایت میں عوام کے سامنے جواز پیش کرتے نہيں تھکتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صیہونی حامی انسانی حقوق کے اصولوں کو نظرانداز کرکے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کو پامال کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1180499