یمن امریکہ کیلئے مستقل خطرہ
25 Dec 2024 16:46
اسلام ٹائمز: یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ یمن نے حالیہ مہینوں میں ایک بار بھی امریکی، اسرائیلی، برطانوی اور بحیرہ احمر کو عبور کرنے والے کسی بحری جہاز کو اسرائیل کی جانب جانے کا موقع نہیں دیا اور اپنی دھمکی کی ساکھ کو بلند ترین سطح تک پہنچانے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ یمن کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائے گا؟ کیا فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا یا کوئی اور آپشن استعمال کرے گا؟ یہ ایسا سوال ہے، جس کا جواب مشرق وسطی کی سیاست کو متعین کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
یمن کی فوج نے حالیہ دنوں میں بحیرہ احمر میں امریکی بحریہ اور صیہونی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی ہے، جس نے سیاسی اور عسکری مبصرین کو حیران و پریشان کر رکھا ہے۔ ان حملوں کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ یمنیوں نے دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقتوں کو چیلنج کیا ہے اور ابھی تک کوئی اسے روک نہیں سکا ہے۔
اس مقاومت کی چند وجوہات ہیں
1۔ یمنی باشندے جنگجو اور مرد میدان ہیں، ان کا عزم بالجزم ہے۔ یہ جذبہ اور عزم زیدی مذہب کے ساتھ ملا ہوا ہے، جو سیف (تلوار) پر زور دیتا ہے، جس نے انہیں ایک جنگجو اور سخت جان قوم بنا دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حالیہ لڑائی نہ صرف ان کا قومی مفاد اور ثقافت ہے بلکہ ان کے مذہب کا حصہ ہے اور ان کے لیے ایک شرعی فریضہ بھی ہے۔
2️ یمن ایک غریب ملک ہے، جہاں 80 فیصد سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور وہاں بہت سی بنیادی روایتی سماجی خدمات موجود نہیں ہیں۔ ️اس کے نتیجے میں لوگوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے اور انہیں اپنے ملک کے اسٹریٹجک صنعتی اور اقتصادی اثاثوں کی تباہی کے بارے میں بھی کوئی تشویش نہیں ہے۔
3️ یمن کی عوام کے لیے موجودہ سالویشن حکومتِ قانونی حیثیت کی حامل ہے اور قبائل اور حکام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ وہ سب تقریباً ایک ہی سطح پر رہتے ہیں۔
4️ سعودی عرب اور اماراتی اتحاد کی کئی سالہ کارروائیوں نے شمالی یمن میں موجود تقریباً ہر چیز کو تباہ کر دیا ہے، لہذا اب یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل اور امریکہ یمن کے خلاف کس حکمت عملی کو اپنائیں گے، مثلاً کہاں حملہ کریں گے، تاکہ یمنی کو تنگ کرکے تسلیم ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔
5️ یمن کے لوگ جدید ترین فوجی سازوسامان سے لیس ہیں اور وہ اس طرح کے ہتھیاروں کی تیاری خود کرسکتے ہیں، جو موجودہ جنگ کے لیے موزوں ہیں۔ اس طرح وہ میزائل اور ڈرون کے میدان میں بھی دنیا کے بہترین ممالک میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک ہائپرسونک بیلسٹک میزائل کے ذریعہ تل ابیب پر حالیہ حملہ ایک ایسا شاہکار تھا، جو صیہونی حکومت کی توانائی اور معاشی سہولیات پر کڑا وار کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل یمن کے اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے کیا کرے گا؟ یمن سے دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے اس کی فضائیہ کے لیے کوئی کام کرنا آسان نہیں ہے، کیونکہ یمن فلسطین کی طرح قریب نہیں ہے کہ جس پر بار بار بمباری کی جا سکے اور اس کے بعد اس پر زمینی حملہ کیا جاسکے۔
6۔ اب تک 3 امریکی طیارہ بردار بحری جہاز اور اس کے اتحادیوں کے بحری جہاز یمنی فوج کی طاقت کو کوئی خاص نقصان پہنچانے میں ناکام رہے ہیں اور یمنیوں نے انہیں بحیرہ احمر کے پانیوں کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چند دن پہلے بھی مبینہ طور پر ایک امریکی ایف 18 طیارہ یمنیوں کے میزائل اور ڈرون حملے کے نتیجے میں گرایا گیا، جو یمنیوں کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے دشمن ممالک کے خلاف سیاسی، معاشی اور عسکری وسائل استعمال کرتا ہے اور انہیں اقتصادی پابندیوں میں جکڑتا ہے، لیکن یمن کی نیشنل سالویشن حکومت کو اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا ہے اور نہ ہی امریکی پابندیوں سے یمن کی دیہی اور مقامی معیشت متاثر ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر فضائی حملے سے اس ملک کی فوج کے فوجی اثاثے (جو پہاڑ کے نیچے ہیں) ختم ہوسکتے ہیں۔
7️ مغربی ممالک نے یمن میں اپنے عرب اتحادیوں سے وابستہ زمینی افواج کو متحرک کرکے قومی نجات کی حکومت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف اہم بات یہ ہے کہ اگر ضروری ہوا تو اماراتی اور سعودی ایجنٹوں کے ممکنہ متحرک ہونے کے جواب میں، یمنی فوج سعودی عرب اور امارات میں کسی بھی مقام کو نشانہ بناسکتی ہے اور ان کے معاشی، تجارتی، صنعتی اور توانائی کے مراکز کو خطرات سے دوچار کرسکتی ہے اور اس امیر ملک کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو ختم کرسکتی ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ یمن نے حالیہ مہینوں میں ایک بار بھی امریکی، اسرائیلی، برطانوی اور بحیرہ احمر کو عبور کرنے والے کسی بحری جہاز کو اسرائیل کی جانب جانے کا موقع نہیں دیا اور اپنی دھمکی کی ساکھ کو بلند ترین سطح تک پہنچانے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکہ یمن کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائے گا؟ کیا فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا یا کوئی اور آپشن استعمال کرے گا؟ یہ ایسا سوال ہے، جس کا جواب مشرق وسطی کی سیاست کو متعین کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ: 1180445