اگر قائد اعظم بگل کے شور سے جاگ گئے؟
24 Dec 2024 21:02
اسلام ٹائمز: قائداعظم کی یہ تقریر افسران کیلئے ضابطہ اخلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں انکی حدود کا تعین ہے اور سیاست سے دور رہنے کی تلقین و پابندی بھی۔ قائد اعظم نے پاکستان کے آئین، قانون، نظام حکومت، اداروں کی تقسیم کار، معیشت، معاشرے کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں، انکی ان باتوں کو دیکھا جائے تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ ہم نے پاکستان کو اس ٹریک پر ڈال دیا، جو بانی پاکستان کی منشاء نہیں تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان میں کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے، جو بانی پاکستان کے تصور پاکستان کے مطابق ہو۔
تحریر: سید اسد عباس
25 دسمبر قائد اعظم کا یوم ولادت ہے۔ بانی پاکستان کے یوم پیدائش پر ویسے تو ہمیں کچھ بھی نہیں کرنا، سرکاری سطح پر چند ایک سرسری تقاریب منعقد ہوں گی، جس میں قائد کے فرامین پر بھاشن دیئے جائیں گے، ممکن ہے کہ چند جگہوں پر قرآن خوانی کا بھی اہتمام کر لیا جائے۔ ہاں کراچی میں قائد کے مزار پر گارڈ آف آنر کا اہتمام کیا جائے گا۔ بگل بجا کر قائد اعظم کی روح کو جگایا جائے گا کہ قبلہ اٹھ کر دیکھیں، ہم نے آپ کی اسلامی ریاست کے ساتھ کیا کیا ہے؟ آپ نے اپنی پوری زندگی جس وطن کے حصول کے لیے وقف کی، اپنی صحت کا خیال نہیں رکھا، اٹھ کر اس کے حالات دیکھیں۔ فرض کریں کہ اس جگانے پر قائد اعظم اٹھ بیٹھیں تو کیا ہوگا۔؟ یہ ایک اہم سوال ہے، اگر اس سوال کا جواب ہر پاکستانی خود سے کرے تو ملک کے اسّی فیصد مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے۔
جو باتیں قائد اعظم نے نئی اسلامی ریاست یعنی پاکستان کے حوالے سے کی تھیں، اگرچہ بہت سے لوگوں کو ازبر ہیں، تاہم ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ قائد اعظم کا احترام ایک بت کی مانند ہے، نوٹوں پر ان کا عکس لگایا جاتا ہے، دفاتر میں ان کا پوٹریٹ لٹکایا جاتا ہے، تاہم جیتا جاگتا قائد پاکستان کو جس طرح سے دیکھنا چاہتا تھا، اس پر نہ صرف یہ کہ عمل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے بالکل برعکس کام کیا جاتا ہے۔ یہ روش قائد کی توہین تو ہے ہی، تاہم اس بات کا بین ثبوت بھی ہے کہ جو جو قائد کی تعلیمات کے برعکس کام کر رہا ہے، وہ نہ قائد کا دوست ہے، نہ ملک کا۔ قائد نے کامیابی اور ترقی کا جو فارمولا بتایا تھا، اس پر عمل نہ کرنا واضح علامت ہے کہ برعکس کام کرنے والا ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔
قائد کے تصور پاکستان کو دہرانے کا کم از کم ایک فائدہ ضرور ہے کہ اگر کوئی اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو اب بھی اس کے پاس مہلت ہے کہ وہ درست راستہ اختیار کرلے، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے آنے والی نسلوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ بانی پاکستان، پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے اور موجود پاکستانیوں نے پاکستان کو کیسا بنا دیا ہے۔ قائد کی باتیں آج بھی پاکستان کی ترقی اور فلاح کے لیے معتبر ہیں، آج بھی اگر ان کے مطابق عمل کیا جائے تو پاکستان اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتا ہے۔
1943ء ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''پاکستان میں عوامی حکومت ہوگی اور یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کر دوں، جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس بات نے انھیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کے ساتھ عقل کی کوئی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ عوام کی لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں شامل ہوگئی ہے۔ انھوں نے اسلام کے سبق بھلا دیئے ہیں۔ حرص اور خود غرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے جائیں۔ میں گاؤں میں گیا ہوں، وہاں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہمارے عوام ہیں، جن کو دن میں ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔۔۔''
قائد اعظم نے 1946ء میں رائٹرز کے نمائندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:
"نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی، جس میں اختیارات کا سرچشمہ عوام ہوگی۔ نئی ریاست کے ہر شہری مذہب، ذات یا عقیدے کی بنا کسی امتیاز کے یکساں حقوق ہونگے۔" ایک مرتبہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں آپ سے دریافت کیا گیا کہ پاکستان کا آئین کس طرح کا ہوگا تو آپ نے کہا: ”میں کون ہوتا ہوں آپ کو آئین دینے والا، ہمارا آئین تو ہمیں آج سے تیرہ سو سال پہلے ہی ہمارے عظیم پیغمبرؐ نے دے دیا تھا۔ ہمیں تو صرف اس آئین کی پیروی کرتے ہوئے اسے نافذ کرنا ہے اور اس کی بنیاد پر اپنی مملکت میں اسلام کا عظیم نظامِ حکومت قائم کرنا ہے اور یہی پاکستان ہے۔“
دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے میں کسی شخص نے جذبات میں قائداعظمؒ کو مخاطب کرتے ہوئے ”شاہِ پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ لگایا۔ اس پر آپ خوش نہیں ہوئے بلکہ اس کو ناپسند فرماتے ہوئے تنبیہہ کی: ”دیکھیے آپ لوگوں کو اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں ہوگا۔ وہ مسلمانوں کی ری پبلک ہوگی، جہاں سب مسلمان برابر ہوں گے۔ ایک کو دوسرے پر فوقیت نہ ہوگی۔“ 11 اگست1947ء کی شہرہ آفاق تقریر میں آپ نے کہا: ”اگر ہم اس عظیم مملکت کو خوش اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں اور بالخصوص غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔“
30 اکتوبر 1947ء کو یونیورسٹی سٹیڈیم لاہور میں ایک اجتماع سے ان کا خطاب
''کام کی زیادتی سے گھبرائیے نہیں۔ نئی اقوام کی تاریخ میں کئی ایک مثالیں ہیں، جنھوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہر آبدار سے ہوئی ہے اور آپ کسی سے کم بھی نہیں۔ اوروں کی طرح اور خود اپنے آباء و اجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہ ہوں گے۔ آپ کو صرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آپ ایسی قوم ہیں، جس کی تاریخ، قابل، صلاحیت کے حامل، با کردار اور بلند حوصلہ اشخاص سے بھری ہوئی ہے۔ اپنی روایات پر قائم رہیئے اور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کر دیجئے۔''
قائداعظمؒ نے 13 جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“ 14 جنوری 1948ء شاہی دربار سبّی سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا: ''میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ ان سنہری اصولوں والے ''ضابطۂ حیات'' پر عمل کرنا ہے، جو ہمارے عظیم واضع قانون نبیؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے، مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔''
قائد اعظم نے ہر موقع پر سول اداروں اور سول قیادت کی بالادستی کی پرزور تلقین کی۔ جنرل ایوب خاں کو مہاجرین کی آبادکاری کے سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری دی گئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے قائد اعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ایوب خاں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور اس کا رویہ پیشہ وارانہ نہیں ہے۔ قائداعظم نے رپورٹ کی فائل پر لکھا: "میں اس آرمی آفیسر کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔‘‘ 25 مارچ 1948ء کو مشرقی بنگال کے گزٹیڈ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے براہ راست نہیں بلکہ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ حاکم نہیں ہیں، آپ کا حکمران طبقے سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ کا تعلق خدمت گاروں کی جماعت سے ہے۔ عوام الناس میں یہ احساس پیدا کر دیجیے کہ آپ ان کے خادم اور ان کے دوست ہیں۔‘‘
قائداعظم کی یہ تقریر افسران کے لیے ضابطہ اخلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ان کی حدود کا تعین ہے اور سیاست سے دور رہنے کی تلقین و پابندی بھی۔ قائد اعظم نے پاکستان کے آئین، قانون، نظام حکومت، اداروں کی تقسیم کار، معیشت، معاشرے کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں، ان کی ان باتوں کو دیکھا جائے تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ ہم نے پاکستان کو اس ٹریک پر ڈال دیا، جو بانی پاکستان کی منشاء نہیں تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان میں کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے، جو بانی پاکستان کے تصور پاکستان کے مطابق ہو۔ قائد اعظم نے تو واضح کہ دیا تھا کہ اگر ایسا پاکستان بنانا ہے تو میں اس کا حامی نہیں ہوں۔ اگر بانی پاکستان آج یہ بات کہتے تو ان پر غداری کا مقدمہ ہو جانا تھا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ان پر الزام لگا دیا جاتا کہ 9 مئی کو انھوں نے اپنے گھر کو خود ہی آگ لگائی ہے اور انھیں بھی دس سال قید بامشقت مل جاتی، یہ بھی امکان تھا کہ ان کا قیدی نمبر 805 ہوتا۔ ان کے کتے کو پیار کرنے والی تصویر پاکستانی اخبارات میں شائع ہوتی اور مولوی صاحبان ان پر فتوے لگاتے کہ یہ باہر کا پڑھا ہوا بھورا انگریز کسی دوسرے ملک کے ایجنڈے پر ہے۔ قائد اعظم بیچارے کو تو اردو بھی صحیح طرح سے نہیں آتی تھی، ان کو ڈیل کرنا آج کے صاحبان اقتدار کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہونا تھا۔ قائد اعظم کی دوسری شادی، ان کے اثاثے، ان کی کلین شیو، ان کا سگار، سب چیزوں پر اعتراضات سامنے آنے تھے۔
قائد اعظم کے ساتھی مثلاً سردار عبد الرب نشتر، ابو الحسن اصفہانی، سیٹھ حبیب اور راجہ صاحب آف محمود آباد بہت عرصہ پہلے پریس کانفرنس کرکے قائد اعظم سے اظہار لاتعلقی کرچکے ہوتے۔ جو کچھ کر لیا جائے، قائد اعظم کا تصور پاکستان ہمیشہ زندہ رہے گا اور یقیناً ایک نسل آئے گی، جو اس تصور کو از سر نو زندہ کرے گی اور پاکستان کو ویسی ریاست بنائے گی، جیسی بانیان پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ وہی پاکستان جس کے لیے لاکھوں انسانوں نے اپنی جانیں، مال، وطن اور ناموس سب کچھ قربان کر دیا۔ اقبال کا یہ شعر اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔
نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
خبر کا کوڈ: 1180222