رہبر انقلاب اور غلط فہمی کا ازالہ
23 Dec 2024 11:31
اسلام ٹائمز: قدرتی طور پر سیاسی اور فوجی میدان میں کبھی شکست ہوتی ہے اور کبھی کامیابی۔ یہ گروہ کچھ جنگوں میں جیت جاتے ہیں اور کچھ جنگوں میں نقصان اٹھاتے ہیں اور بعد میں وہ اپنی فوجی طاقت اور صلاحیت کو بحال کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔ ان گروہوں کے خاتمے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی عسکری طاقت کو کمزور کرنے کے بارے میں بیانات اور تجزیئے اس وجہ سے کیے گئے ہیں کہ مخالفین اور تجزیہ کاروں نے مزاحمتی گروہوں کی نوعیت اور اسلامی جمہوریہ ایران کی عسکری صلاحیت کے بارے میں غلط اندازے اور غیر حقیقت پسندانہ حساب کتاب کئے ہیں۔
تحریر: سید رضا عمادی
دشمنوں اور بعض تجزیہ کاروں کی جانب سے ایران کی علاقائی پوزیشن کے کمزور ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں، کیونکہ بقول ان کے مزاحمتی بلاک کے بعض عناصر کمزور ہوچکے ہیں، لہذا ایران کمزور ہوگیا ہے۔ رہبر انقلاب نے اس کا مدلل جواب دیا ہے۔آپ نے زور دے کر کہا ہے کہ ایران کے پاس خطے میں کوئی پراکسی نہیں ہے اور اگر ایران کوئی اقدام کرنا چاہے گا تو اسے کسی پراکسی اور نیابتی فورس کی ضرورت نہیں ہے۔ حماس اور حزب اللہ کے خلاف صیہونی حکومت کے حملوں اور شام کے نظام کے خاتمے کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران کے علاقائی بازو کے طور پر مزاحمت کے بلاک کے کمزور ہونے کے بارے میں مختلف تجزیئے اور تبصرے کئیے جارہا رہے ہیں۔
امام خامنہ ای نے گذشتہ روز ان بیانات اور تجزیوں میں موجود غلط فہمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے خطے میں اپنی نمائندہ افواج کو کھو دیا ہے۔ یہ ایک اور غلطی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے پاس کوئی پراکسی نہیں ہے۔ یمن لڑتا ہے، کیونکہ اس کا عقیدہ ہے، حزب اللہ لڑتی ہے، کیونکہ اس کے عقیدے کی طاقت اسے میدان میں لاتی ہے، حماس اور جہاد لڑتے ہیں، کیونکہ ان کے نظریات اور عقائد انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ ہمارے نمائندے یا پراکسیاں نہیں ہیں۔ ہم اگر کسی دن کارروائی کرنا چاہیں تو ہمیں کسی ایجنٹ یا پراکسی کی ضرورت نہیں ہے۔"
مختلف وجوہات اور شواہد کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنیادی طور پر مزاحمتی افواج نے نہ تو اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اب تک جنگ کی ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاع میں کوئی کارروائی کی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے حالیہ برسوں میں ایسی جنگ میں حصہ نہیں لیا ہے، جس میں کسی پراکسی کو استعمال کرنے کی ضرورت ہو۔ مزاحمتی فورسز نے جنگ لڑی ہے تو اپنے وطن اور اپنے ملک کی سرزمین کی سالمیت کے دفاع کے لیے لڑی ہے۔ ان فورسز کو اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت ضرور حاصل تھی، کیونکہ وہ اپنی سرزمین کا دفاع کر رہے تھے۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مزاحمتی گروپ کی جانب سے صیہونی حکومت کے خلاف یا دیگر جارح گروپوں کے خلاف دفاع یا فوجی کارروائی قرآن کا حکم ہے۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے بیان کیا ہے کہ یہ قرآنی اصولوں پر مبنی فریضہ ہے۔ مظلوموں کو مستکبروں کے خلاف تحفظ دینا یا مسلمانوں پر کفار کا غلبہ نہ ہونے دینا، قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح بیرونی حملوں کے خلاف اپنی سرزمین کا دفاع قرآنی اور اسلامی منطق پر مبنی ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ آپریشن وعدہ صادق1 اور 2 نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر اگر حملہ کیا گیا تو وہ اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے کسی بڑی یا چھوٹی بیرونی قوت کی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا ان بیانات اور تجزیوں کے برخلاف، مزاحمتی گروپوں کو مغربی ایشیاء کے ممالک میں یا مغربی ایشیاء کے خطے کی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران کی پراکسی یا نمائندہ افواج نہیں سمجھنا چاہیئے، بلکہ انہیں ممالک کے اندر اور مغربی ایشیاء کے خطے کی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران کے اتحادی سمجھا جانا چاہیئے۔
یوں بھی قدرتی طور پر سیاسی اور فوجی میدان میں کبھی شکست ہوتی ہے اور کبھی کامیابی۔ یہ گروہ کچھ جنگوں میں جیت جاتے ہیں اور کچھ جنگوں میں نقصان اٹھاتے ہیں اور بعد میں وہ اپنی فوجی طاقت اور صلاحیت کو بحال کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔ ان گروہوں کے خاتمے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی عسکری طاقت کو کمزور کرنے کے بارے میں بیانات اور تجزیئے اس وجہ سے کیے گئے ہیں کہ مخالفین اور تجزیہ کاروں نے مزاحمتی گروہوں کی نوعیت اور اسلامی جمہوریہ ایران کی عسکری صلاحیت کے بارے میں غلط اندازے اور غیر حقیقت پسندانہ حساب کتاب کئے ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1179924