ایٹمی پروگرام پر واویلا
19 Dec 2024 08:07
اسلام ٹائمز: 1967ء میں، اس بات کے اشارے ملے تھے کہ ڈیمونا ری پروسیسنگ کی تنصیبات مکمل ہوچکی تھی یا مکمل ہونے کے قریب تھی اور ایٹمی ری ایکٹر پوری صلاحیت سے کام کر رہا تھا، یعنی اسرائیل چھ یا آٹھ ہفتوں کے اندر جوہری ہتھیار تیار کرسکتا ہے۔ منظرعام پر آنے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اگلی دہائی کے دوران، واشنگٹن اس حقیقت کو تسلیم کرچکا تھا کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی سرکردگی میں استعماری طاقتیں صرف ان ممالک کے ایٹمی پروگرام چاہے وہ پرامن ہی کیوں نہ ہو، کے خلاف ہیں کہ جو ان کی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں یا ان کے ہمنوا نہیں ہیں۔ انھیں ان ایٹمی ہتھیاروں سے کوئی غرض نہیں ہے کہ جو قابض اسرائیل جیسی ناجائز صیہونی حکومت کے پاس ہوں اور وہ خطے اور دنیا کی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہی کیوں نہ ہوں۔
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکہ اور یورپی ممالک نے ایک بار پھر پروپیگنڈے کا بازار گرم کر دیا ہے۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی نے یورپی یونین کی جانب سے ایران مخالف قرارداد پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران یورپی ٹرائیکا کی جانب سے جوہری معاہدے کی مخصوص شق اسنیپ بیک میکانزم کے استعمال کی دھمکیوں کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایروانی نے کہا کہ اسنیپ بیک میکانزم کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے، جسے آپ ایران کو دھمکانے کے لیے استعمال کرسکیں۔ ایران پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی اشتعال انگیز اقدام کیا گیا تو بھرپور اور سخت ردعمل سامنے آئے گا۔ اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کرنے اور منسوخ شدہ قراردادوں کو دوبارہ نافذ کرنے سے ایک سنگین بحران پیدا ہوگا۔
امیر سعید ایروانی نے مزید کہا کہ یورپی ٹرائیکا اور امریکہ کی جانب سے بے بنیاد الزامات اور سیاسی مقاصد پر مبنی قرارداد کے باوجود ایران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنے وعدوں کے مطابق تعاون جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ گذشتہ مہینوں کے دوران گورننگ بورڈ اجلاس میں ایران کے خلاف تنقیدی قرارداد کی منظوری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ یورپی ٹرائیکا اور امریکہ ایک سیاسی ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں، جس کا مقصد سفارت کاری، اعتماد اور تعمیری رابطے کے ضروری اصولوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ ہم نے یورپی یونین کے نمائندے کے بیانات کو غور سے سنا۔ بدقسمتی سے ان کے بیانات بدستور سیاسی، جانبدارانہ اور یک طرفہ تھے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے ایران کے خلاف لگائے گئے بے بنیاد الزامات زمینی حقائق کو نہیں بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال کی اصل وجہ امریکہ کا یک طرفہ طور پر معاہدے سے نکل جانا، اپنے وعدوں سے روگردانی اور پابندیوں کو ایران پر دوبارہ نافذ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ تینوں یورپی ممالک نے بھی اپنے وعدوں پر عملدرآمد میں کوتاہی کی ہے۔
ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دو ہزار پندرہ میں ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے گئے، جس میں دونوں فریقوں نے معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے وعدے کیے۔ ایران نے ایٹمی معاہدے میں کیے گئے تمام وعدوں پر عمل کیا، لیکن امریکہ کی سرکردگی میں اس کے مقابل فریق نے مختلف بہانوں سے اس معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد سے روگردانی کرنا شروع کر دی اور بات صرف یہیں پر نہیں رکی بلکہ بعد میں آنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکلنے کا اعلان کر دیا اور اس کے بعد اس کے تین یورپی اتحادیوں برطانیہ فرانس اور جرمنی نے معاہدے میں باقی رہنے کا اعلان تو کیا، لیکن عمل درآمد کے حوالے سے مختلف بہانے تراشنا شروع کر دیے۔
دوسری جانب ایٹمی معاہدہ کرنے والے امریکی ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما کے بعد ریپبلکن صدر ٹرمپ نے اس سے یکطرفہ طور پر نکلنے کا اعلان کیا، لیکن ان کے بعد دوبارہ ڈیموکریٹ صدر جوبائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکی پالیسی پر نظرثانی کریں گے، لیکن مختلف لابیوں کے دباؤ پر انھوں نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اب جبکہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ برسراقتدار آرہے ہیں تو ایٹمی معاہدے کے حوالے توقعات دم توڑ رہی ہیں اور ابھی سے اس حوالے سے ایران کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ دوسری جانب ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا کہ ایٹمی معاہدے کی قرارداد 2231 کے مطابق اعتماد سازی کے لیے ایران کی طرف سے محدودیتوں کو قبول کرنے کے بدلے فریق ثانی پابندیوں کے خاتمے کا پابند ہے۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد 2231 کے دو حصے ہیں، جن میں اعتماد سازی کے لیے ایران کی جانب سے محدودیتوں کو قبول کرنے کے بدلے فریق ثانی پر پابندیاں ختم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بین الاقوامی ادارے کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہے کہ وہ معاملے کے صرف ایک پہلو کو اشتعال انگیز انداز میں بیان کرے جبکہ دوسرے اہم پہلو کا ذکر تک نہ کرے، جو کہ معاہدہ کرنے والے فریقوں کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے معاہدے کے دوسرے فریق سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ایران پر عائد پابندیاں منسوخ کرے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکہ کی سرکردگی میں عالمی سطح پر اقدامات ایک ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں کہ جب امریکی نیشنل سکیورٹی آرکائیو کی منظرعام پر آنے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن 1960ء کی دہائی سے جانتا تھا کہ صہیونی حکومت ڈیمونا جوہری تحقیقی مرکز میں ہتھیاروں کے درجے کا پلوٹونیم تیار کر رہی ہے، اس آرکائیو نے صیہونی حکومت کے جوہری پروگرام سے متعلق خفیہ دستاویزات کا ایک نیا مجموعہ شائع کیا ہے۔ امریکہ کے جوہری توانائی کمیشن کی وفاقی ایجنسی کی دسمبر 1960ء کی دستاویز، پہلی اور واحد معلوم رپورٹ ہے، جس میں صحیح اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسرائیل میں ڈیمونا پروجیکٹ میں ایک پلوٹونیم ری پروسیسنگ پلانٹ شامل ہے اور یہ ہتھیاروں کے ایک پروگرام سے تعلق رکھتا ہے۔ جب اسرائیل جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کرنے کے قریب پہنچ گیا تو اس نے ایٹمی ریاست کے طور پر اپنی حیثیت کو منوانے کے لیے امریکہ کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا۔
1967ء میں، اس بات کے اشارے ملے تھے کہ ڈیمونا ری پروسیسنگ کی تنصیبات مکمل ہوچکی تھی یا مکمل ہونے کے قریب تھی اور ایٹمی ری ایکٹر پوری صلاحیت سے کام کر رہا تھا، یعنی اسرائیل چھ یا آٹھ ہفتوں کے اندر جوہری ہتھیار تیار کرسکتا ہے۔ منظرعام پر آنے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اگلی دہائی کے دوران، واشنگٹن اس حقیقت کو تسلیم کرچکا تھا کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کی سرکردگی میں استعماری طاقتیں صرف ان ممالک کے ایٹمی پروگرام چاہے وہ پرامن ہی کیوں نہ ہو، کے خلاف ہیں کہ جو ان کی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں یا ان کے ہمنوا نہیں ہیں۔ انھیں ان ایٹمی ہتھیاروں سے کوئی غرض نہیں ہے کہ جو قابض اسرائیل جیسی ناجائز صیہونی حکومت کے پاس ہوں اور وہ خطے اور دنیا کی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہی کیوں نہ ہوں۔
خبر کا کوڈ: 1179163