QR CodeQR Code

موجودہ حکومت پاراچنار سے لاتعلق کیوں ہے؟

17 Dec 2024 22:38

اسلام ٹائمز: پاراچنار میں ہونیوالے مظالم اور حکومت کی خاموشی عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو متاثر کرسکتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کیجانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرے۔ اگر پاکستان کے داخلی مسائل بین الاقوامی سطح پر زیادہ نمایاں ہوتے ہیں تو اسکا اثر ملک کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات پر بھی پڑ سکتا ہے۔ پاراچنار میں شدت پسند گروہوں کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت کیجانب سے ان گروہوں کیخلاف مؤثر اقدامات نہ ہونے کیوجہ سے داخلی سلامتی کی صورتحال بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ اگر حکومت نے اس مسئلے کو فوراً حل نہ کیا تو یہ پورے ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔


تحریر: محمد حسن جمالی

سب کو پتہ ہے کہ پاراچنار خیبر پختونخوا صوبے کے ضلع کرم کا ایک اہم شہر ہے۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ یہ شہر اپنے جغرافیائی محل وقوع، ثقافتی اور مذہبی حیثیت کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں پر شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے، جنہیں تاریخی طور پر فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا رہا ہے۔ چھوٹے بڑے سب کے علم میں ہے کہ ماضی میں اس علاقے میں فرقہ وارانہ لڑائیاں اور تشدد کے بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے سرکاری سکیورٹی میں پاراچنار کی طرف جانے والی گاڑیوں کو روک کر سرعام بے شمار بے گناہ مسافروں کا قتل عام کیا گیا، جسے سن کر اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بنی ویڈیوز دیکھ کر پر پاکستانی و غیر پاکستانی کی آنکھیں اشکبار ضرور ہوگئیں، مگر پاکستان کے ظالم حکمران ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ان کے پتھر دل میں رحم کی بجائے مزید ظلم کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ انہوں نے پاراچنار کے مظلوموں کی فریاد سننے کی بجائے دہشتگردوں کو سپورٹ کرکے ان مظلوموں کے زخمی دلوں پر نمک چھڑک دیا۔

پاراچنار کے عوام کو درپیش مسائل سے یکسر لاتعلقی کا مظاہرہ کرکے موجودہ حکومت نے نہ صرف ضلع کرم کے باسیوں کو خود سے دور کیا ہے، بلکہ پاکستان کے ہر باشعور فرد کو خود سے متنفر کروا دیا ہے، کیونکہ پاراچنار کے حالات سے سبھی واقف ہیں۔ وہاں کے عوام انسانی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، وہاں طبی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے داعی اجل کو لبیک کہنے مجبور ہیں، امنیت یقینی نہ ہونے کے باعث وہاں کے بچوں کے لئے تعلیمی درسگاہیں ابھی تک بند ہیں، وہاں کے لوگوں کو سخت ٹھٹھرتی سردی میں گرمائش کا کوئی انتظام نہیں، راستے کی بندش کی وجہ سے لوگوں کو غذائی سخت قلت کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود افسوسناک بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت پاراچنار پر توجہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ کیوں آخر کیوں؟ کیا پاراچنار والے پاکستانی نہیں؟ اگر وہ پاکستانی ہیں تو کیا ان کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری نہیں۔؟

امپورٹڈ حکومت کس کو خوش کرنے کے لئے پاراچنار کے عوامی فوری حل طلب مسائل سے آنکھیں چرا رہی ہے؟ کیا افغان طالبان کے سرحد کراس کرکے پاراچنار تک پہنچنا گورنمنٹ کے اشارے کے بغیر ممکن ہے۔؟ نواز شریف جس طرح کرگل جنگ میں محاذ ایریاز کو ہندوستان کی گود میں ڈالنے کے لئے پوری رضامندی سے تیار ہوگئے تھے، ویسے ہی لگتا ہے کہ ان کا بھائی شہباز شریف پاراچنار کو افغانستان کی جھولی میں ڈالنے کے لئے بالکل تیار ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔پاراچنار میں فرقہ وارانہ تشدد کی ایک طویل تاریخ ہے، جس میں شیعہ مسلمانوں کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا ہے۔ یہ تشدد کبھی ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں، کبھی بم دھماکوں اور کبھی مسلح حملوں کی صورت میں ہوتا رہا ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے یہاں کے لوگ خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہر دور کی حکومت نے اس مسئلے کو کبھی بھی سنجیدہ طور پر نہیں لیا، جس کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور غصہ بڑھ رہا ہے۔

موجودہ حکومت کی جانب سے پاراچنار کے عوام کے مسائل پر خاموشی اور عدم توجہی نے عوام میں شدید بے چینی پیدا کی ہے۔ حکومت کے رویئے نے یہ تاثر دیا ہے کہ شہباز اور اس کے کارندے پاراچنار کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے۔ عوام کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں "انسان" سمجھنا ہی گوارا نہیں کیا، کیونکہ ان کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ اس خاموشی کے نتیجے میں عوام کا حکومتی اداروں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ پاراچنار میں سکیورٹی کی صورتحال سنگین ہے۔ مختلف شدت پسند گروہ علاقے میں سرگرم ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی جا رہی۔ اس کے علاوہ، علاقے میں صحت کی سہولتیں، سڑکوں کی حالت اور دیگر بنیادی ضروریات کی کمی کا سامنا ہے۔سڑکوں کی بندش اور مواصلاتی مسائل نے لوگوں کی زندگیوں کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ان بنیادی مسائل کو حل کرنے میں حکومت کی ناکامی نے عوام کی زندگی کو انتہائی دشوار بنا دیا ہے۔

فرقہ وارانہ تشدد پر حکومت کی خاموشی نہ صرف پاراچنار بلکہ پورے ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ جب ایک علاقے میں اقلیتی گروہ کو حکومتی سطح پر نظرانداز کیا جاتا ہے تو یہ دیگر علاقوں میں بھی اسی طرح کے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ حکومت کا اس مسئلے پر خاموش رہنا فرقہ وارانہ تناؤ کو بڑھا سکتا ہے اور ملک کی سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حکومت کی عدم توجہی کے نتیجے میں پاراچنار کے عوام میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ عوامی سطح پر حکومت کے خلاف ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہرگز نہیں۔ یہ صورتحال سیاسی بحران کا سبب بن سکتی ہے، جو حکومتی استحکام کو متاثر کرے گا۔ اگر عوام کا غصہ مزید بڑھتا ہے تو یہ احتجاج، ہڑتالوں اور دیگر سیاسی مہموں کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے۔

پاراچنار میں ہونے والے مظالم اور حکومت کی خاموشی عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو متاثر کرسکتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرے۔ اگر پاکستان کے داخلی مسائل بین الاقوامی سطح پر زیادہ نمایاں ہوتے ہیں تو اس کا اثر ملک کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات پر بھی پڑ سکتا ہے۔ پاراچنار میں شدت پسند گروہوں کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت کی جانب سے ان گروہوں کے خلاف مؤثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے داخلی سلامتی کی صورتحال بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ اگر حکومت نے اس مسئلے کو فوراً حل نہ کیا تو یہ پورے ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاراچنار کے عوام کے مسائل کو فوری طور پر حل کرے۔ سوشل میڈیا پر ہر باشعور انسان یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ موجودہ حکومت پاراچنار سے لاتعلق کیوں ہے۔؟


خبر کا کوڈ: 1179131

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1179131/موجودہ-حکومت-پاراچنار-سے-لاتعلق-کیوں-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com