QR Code
16 دسمبر اور پارہ چنار کے بچے
15 Dec 2024 11:48
اسلام ٹائمز: ساری ملت پاکستان کو اس دکھ درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں، کیا لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کیلئے انکے بچوں کو بھوک اور پیاس سے مارنا ظلم کی انتہا نہیں۔؟ کیا اس سال سولہ دسمبر کے موقع پر ہم بنگالیوں کے بچوں اور اے پی ایس پشاور کے بچوں پر کئے جانیوالے مظالم کو ایک نئے انداز میں پارہ چنار والوں کے بچوں پر پھر سے نہیں دہرا رہے۔؟ یاد رکھئے، جب تاریخ کو دہرایا جاتا ہے تو پھر نتیجہ بھی پرانا ہی نکلتا ہے۔ کاش ہم یہ محسوس کریں کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، یہ قوم کے معمار ہیں، انہیں موت سے بچایئے، یہ ہم سب کے بچے ہیں اور یہی کل کا پاکستان ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
سولہ دسمبر ہمیں سقوط بنگال اور سانحہ اے پی ایس پشاور کی یاد دلاتا ہے۔ اس مرتبہ سولہ دسمبر کے موقع پر پارہ چنار کے بچے بھی ویسی ہی صورتحال سے دو چار ہیں۔ جیسا قتل عام اے پی ایس پشاور کے بچوں کا کیا گیا تھا، ویسا ہی پارہ چنار کے بچوں کا بھی ہو رہا ہے، بس طریقہ قتل تھوڑا سا مختلف ہے۔ پارہ چنار کے بچے غذائی قلت اور دوائیوں کے فقدان کی وجہ سے مسلسل قتل ہو رہے ہیں۔ جاری صورتحال کے بارے میں کچھ نہ پوچھئے۔ مجتبیٰ حسن کا تعلق پارہ چنار سے ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی فریاد ہر پاکستانی تک پہنچے۔ ان کا کہنا ہے کہ پارہ چنار کے بچے بھی تو اے پی ایس پشاور، مقبوضہ کشمیر اور غزہ کے بچوں کی طرح مظلوم ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ مظلوم ہیں، چونکہ ان کیلئے کوئی آواز بھی نہیں اٹھاتا۔
گذشتہ روز انہوں نے بتایا ہے کہ پاراچنار میں دراصل سنی و شیعہ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ سارا مسئلہ یہ ہے کہ پارہ چنار دراصل افغانستان و پاکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اب تک افغانستان کی طرف سے ہونے والی تمام عسکری کارروائیوں کا مقابلہ یہاں کے مقامی قبائل نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا ہے۔ یہ بات ریاستی اداروں میں موجود طالبان نواز مافیا کو ہرگز گوارا نہیں۔ وہ لوگ منشیات سمیت ہر طرح کی سمگلنگ اور غیر قانونی و غیر انسانی کارروائیوں کیلئے یہاں پر طالبان کا مکمل قبضہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے مفاد پر ملکی مفاد کو قربان کرنے کے درپے ہیں، انہیں ملکی سلامتی یا مقامی قبائل کے بجائے اپنی تجوریوں سے غرض ہے۔
اس علاقے میں طالبان کے قدم جمانے کیلئے پارہ چنار کے مقامی لوگوں کو ہجرت اور نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے محب وطن عوام کو اب تک یہ خبر نہیں کہ پارہ چنار کے مقامی افراد کا غزہ کی طرح بدترین محاصرہ کرکے یہ علاقہ افغانستان کے قبضے میں دیئے جانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس جنگ زدہ اور محصور علاقے کے مقامی قبائل خواہ وہ شیعہ ہوں یا سُنّی، وہ ہرگز اس تصادم کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ ایک غلط فہمی جان بوجھ کر پھیلائی گئی ہے کہ پارہ چنار میں شیعہ سنی جنگ ہو رہی ہے، دراصل یہ اس علاقے کو خالی کرانے کیلئے شیعہ و سنی دونوں کے خلاف مسلط کی گئی ایک جنگ ہے۔ اس سے فلسطین کی مانند پارہ چنار کے مقامی سنی و شیعہ دونوں کو بے گھر کیا جا رہا ہے۔
ہماری ملک بھر کے پاکستانیوں سے یہ گزارش ہے کہ وہ ہمارے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ سارے ملک کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ یہ ملک پاکستان رہے گا تو سنی و شیعہ بھی رہیں گے اور اگر یہ منطقہ طالبان کے قبضے میں دے دیا گیا یا طالبان نواز جتھوں کو یہاں پر مسلط کر دیا گیا تو پھر سارے ملک میں کسی کی بھی تجارت، عبادت گاہ، تعلیمی ادارے، عزت و ناموس اور جان محفوظ نہیں رہے گی۔ ماضی میں پارہ چنار کے سُنّی و شیعہ عوام اپنے پاکستانی بھائیوں اور ریاستی اداروں کو بیدار کرنے کیلئے سفید پرچم اٹھا کر متعدد مرتبہ امن اور خوشحالی کیلئے جلوس اور ریلیاں بھی نکال چکے ہیں۔
حسن اقبال بھی ہمارے جاننے والوں میں سے ایک ہیں۔ وہ پارہ چنار سے تعلق رکھتے ہیں اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔ انہیں پارہ چنار میں مقیم اپنے عزیز و اقارب کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پارہ چنار کے عوام تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، وہاں کے تعلیمی ادارے تو کئی مہینوں سے بند پڑے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی مانند مقامی تجارت اور کاشتکاری والی لاکھوں ایکڑ اراضی کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ مسافر گاڑیاں نقل و حرکت نہیں کرسکتیں۔ کانوائے، ایمبولینس، امدادی راشن اور دوائیاں لے جانے والی گاڑیاں اور رضاکار بھی محفوظ نہیں۔
غذائی قلت اور دوائیوں کے فقدان کی وجہ سے عام اموات ہو رہی ہیں، جبکہ وہاں رضاکاروں، میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رسائی ہی نہیں۔ ایمبولینس گاڑیوں میں سوار ڈاکٹروں اور زخمیوں کو ایسے ہی قتل کر دیا جاتا ہے جیسے اسرائیل میں۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی بندش روزانہ کا معمول ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، ملک کے سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں، ملک کے صدر، وزیراعظم اور چیف آف آرمی اسٹاف کی مسلسل خاموشی سے لگتا ہے کہ پارہ چنار کو طالبان کے قبضے میں دینے پر ہمارے ملک کے بڑوں نے بڑی سطح پر اتفاق کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ملک کے دفاع اور اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کیلئے پارہ چنار کے مقامی قبائل اپنے وطن کی سالمیت کی خاطر ان سارے مظالم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے رہیں گے۔
یاد رہے کہ پارہ چنار کے لوگ پاکستان کے طول و عرض اور ساری دنیا میں تعلیم اور روزگار کیلئے پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے گذشتہ کئی مہینوں سے پارہ چنار جانے والے راستوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں، اسی طرح دیگر ممالک میں مقیم پارہ چناریوں کے دکھ و غم اور پریشانی کا احساس کرنے کی ضرورت ہے، خصوصاً جب ان کے بچے اس وقت غذائی قلت اور دوائیوں کی عدم دستیابی کے باعث دم توڑ رہے ہیں۔ ساری ملت پاکستان کو اس دکھ درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں، کیا لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کیلئے ان کے بچوں کو بھوک اور پیاس سے مارنا ظلم کی انتہا نہیں۔؟
کیا اس سال سولہ دسمبر کے موقع پر ہم بنگالیوں کے بچوں اور اے پی ایس پشاور کے بچوں پر کئے جانے والے مظالم کو ایک نئے انداز میں پارہ چنار والوں کے بچوں پر پھر سے نہیں دہرا رہے۔؟ یاد رکھئے، جب تاریخ کو دہرایا جاتا ہے تو پھر نتیجہ بھی پرانا ہی نکلتا ہے۔ کاش ہم یہ محسوس کریں کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، یہ قوم کے معمار ہیں، انہیں موت سے بچایئے، یہ ہم سب کے بچے ہیں اور یہی کل کا پاکستان ہیں۔
خبر کا کوڈ: 1178451
اسلام ٹائمز
https://www.islamtimes.com