QR CodeQR Code

رجب طیب اردگان کی بڑی غلطی

14 Dec 2024 19:47

اسلام ٹائمز: ترکی کا معاشرہ، گذشتہ چند عشروں اور خاص طور پر گذشتہ چند سالوں میں لادینیت اور اسلام، روایت اور جدیدیت نیز سیکولر اسلام اور حقیقی اسلام کے درمیان ٹکراو کا مرکز بن چکا ہے۔ ترکی کے سماجی اور سیاسی شعبوں میں اس ٹکراو کے جنم لینے کے نتیجے میں یہ ملک پینڈولم والی حالت اختیار کر چکا ہے۔ ترکی کا سیاسی جغرافیہ اور محل وقوع، جو ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے، بھی اس کشمکش کے شدت اختیار کر جانے میں اہم کردار کا حامل ہے۔ ترک معاشرے میں الیکشن سے متعلق انجام پانے والے سروے، خاص طور پر الیکشن کے قریبی دنوں میں زیادہ قابل اعتماد نہیں ہوتے۔ جس طرح اوپر اشارہ ہوا ہے، مخالفت کی بنیاد پر ووٹ بینک کی وسیع گردش کے باعث ایک خاص امیدوار کی عوام میں محبوبیت یا عدم محبوبیت بہت اہم اور موثر کردار ادا کرتی ہے۔


تحریر: زہرا افضلی
 
ترکی میں انجام پانے والے صدارتی اور بلدیاتی الیکشن کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک معاشرے میں "مخالفت میں ووٹ دینے" کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، لادینیت کو مسترد کرنے یا اسلام پسندوں کو مسترد کرنے جیسے نعرے الیکشن میں اہم کردار ادا کرنے لگے ہیں اور مرکزی سیاسی جماعتوں کی جیت یا ہار کا باعث بن رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2023ء کے صدارتی الیکشن میں رجب طیب اردگان کی مخالف سیاسی جماعتوں کا اتحاد (چھ پارٹی اتحاد) ان کی مخالفت کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا اور اس کے تشکیل پانے کی وجہ سیاسی اور سماجی اتفاق رائے نہیں تھا۔ اسی طرح ترکی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی مخالفت کی بنیاد پر پڑنے والے ووٹوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بلدیاتی الیکشن میں ہر شہری کو بڑے شہر کے میئر کے علاوہ علاقے کے نمبردار کو بھی انتخاب کرنا تھا۔
 
یوں، ایک شہری میئر کو ایک پارٹی سے جبکہ نمبردار کو کسی اور پارٹی سے چن سکتا تھا۔ لہذا، ترکی کے بلدیاتی انتخابات میں شہریوں کے پاس صدارتی الیکشن کی نسبت چناو کی زیادہ گنجائش موجود ہوتی ہے۔ دو بڑی پارٹیوں، جمہوریت خلق پارٹی (CHP) اور انصاف و ترقی پارٹی (AKP) کے درمیان سیاسی مقابلہ بازی کے سبب اکثر ووٹ انہی دو جماعتوں کی مخالفت میں پڑے ہیں۔ مثال کے طور پر استنبول میں جمہوریت خلق پارٹی کے امیدوار اکرام امام اوگلو کامیاب ہوئے ہیں اور ان کی کامیابی کی بڑی وجہ کرد شہریوں کی حمایت تھی۔ یہ ایسے وقت انجام پایا جب ڈیموکریٹک خلق پارٹی، جو کردوں کی حامی جماعت تصور کی جاتی ہے، نے اپنے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے میدان میں اتارا تھا۔ استنبول کے اکثر کرد شہریوں نے کرد جماعت کو ووٹ دینے کی بجائے ایسے شخص کو ووٹ دیا جس کے انصاف و ترقی پارٹی کے مقابلے میں جیتنے کے زیادہ امکان تھے۔
 
اس سے وہی چیز ظاہر ہوتی ہے یعنی مخالفت کی بنیاد پر ووٹ پڑنے کا زیادہ کردار ہے۔ کچھ تجزیہ کار مخالفت کی بنیاد پر ووٹوں کو "ٹیکٹیکل ووٹ" بھی کہتے ہیں۔ یعنی ایسا ووٹ بینک جو کسی خاص سیاسی جماعت یا گروہ سے وابستگی کی خاطر نہیں بلکہ ایک خاص سیاسی جماعت کو ہرانے کے لیے تشکیل پاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ترکی کی سیاسی جماعتوں کے پورے ووٹ بینک کو مخالفت کی بنیاد پر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عام طور پر جو ووٹ فری کاز پارٹی (HDP)، حرکت ملی پارٹی (MHP) اور چھوٹی مگر موثر سیاسی جماعتوں جیسے جدید فلاح، سعادت اور ظفر پارٹیوں کو پڑتے ہیں وہ وفاداری کی بنیاد پر ہیں اور مذکورہ بالا پارٹیوں سے ووٹرز کی وابستگی کی وجہ سے پڑتے ہیں۔ ترکی میں انتخاباتی عمل کا تجزیہ و تحلیل کرنے کے لیے ایک اور تصور جسے واضح کرنے کی ضرورت ہے "اپوزیشن" ہے۔
 
یورپی ممالک میں ایسا ہوتا ہے کہ حکومت مخالف اپوزیشن، اقتصاد اور سیاست کے میدان میں مشترکہ موقف کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت جرمنی میں اپوزیشن، تین سیاسی جماعتوں، سوشل ڈیموکریٹ، فری ڈیموکریٹس اور گرین پارٹیوں کے درمیان اتحاد پر مشتمل ہے۔ یہ تینوں جماعتیں مختلف شعبوں جیسے ماحولیات، سیاست خارجہ اور معیشت کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر کی حامل ہیں۔ دوسری طرف دائیں بازو کی شدت پسند جماعت، جرمنی کے لیے متبادل پارٹی (AEP) کی اپوزیشن میں کوئی جگہ نہیں ہے اگرچہ بعض ایشوز، جیسے حکمران جماعت کا مقابلہ کرنے میں اس کا اپوزیشن جماعتوں سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ لہذا ایک خاص جماعت سے اختلاف کا ضروری نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ مختلف جماعتیں آپس میں باہمی اتحاد تشکیل دے دیں۔ لیکن ترکی میں ایسا نہیں ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ ترکی میں صرف مخالفت کی بنیاد پر کئی سیاسی اتحاد تشکیل پائے ہیں۔
 
ترکی کا معاشرہ، گذشتہ چند عشروں اور خاص طور پر گذشتہ چند سالوں میں لادینیت اور اسلام، روایت اور جدیدیت نیز سیکولر اسلام اور حقیقی اسلام کے درمیان ٹکراو کا مرکز بن چکا ہے۔ ترکی کے سماجی اور سیاسی شعبوں میں اس ٹکراو کے جنم لینے کے نتیجے میں یہ ملک پینڈولم والی حالت اختیار کر چکا ہے۔ ترکی کا سیاسی جغرافیہ اور محل وقوع، جو ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے، بھی اس کشمکش کے شدت اختیار کر جانے میں اہم کردار کا حامل ہے۔ ترک معاشرے میں الیکشن سے متعلق انجام پانے والے سروے، خاص طور پر الیکشن کے قریبی دنوں میں زیادہ قابل اعتماد نہیں ہوتے۔ جس طرح اوپر اشارہ ہوا ہے، مخالفت کی بنیاد پر ووٹ بینک کی وسیع گردش کے باعث ایک خاص امیدوار کی عوام میں محبوبیت یا عدم محبوبیت بہت اہم اور موثر کردار ادا کرتی ہے۔
 
گذشتہ چند برس کے دوران مختلف جماعتی اور سیاسی حریفوں، خاص طور پر دو سیاسی جماعتوں، انصاف و ترقی پارٹی اور جمہوریت خلق پارٹی، کے درمیان فاصلہ کم ہوا ہے، جس کے نتیجے میں سرگردان ووٹوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور وہ الیکشن کے نتائج کا تعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ سرگردان ووٹوں کا کردار الیکشن کے آخری لمحات میں واضح ہوتا ہے جبکہ ایک امیدوار کے وعدے یا عوامی جذبات ان پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ صدارتی الیکشن میں رجب طیب اردگان نے آخری دنوں میں 2024ء میں تنخواہ 49 فیصد بڑھانے کا وعدہ کیا اور یوں عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ البتہ یہ حربہ صرف صدارتی الیکشن میں ہی کارگر ثابت ہوتا ہے جبکہ بلدیاتی الیکشن میں اس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔


خبر کا کوڈ: 1178317

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1178317/رجب-طیب-اردگان-کی-بڑی-غلطی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com