شام میں انتقال اقتدار کے علاقائی اثرات
13 Dec 2024 12:10
اسلام ٹائمز: خود مختار گریٹر بلوچستان کا نعرہ بھی لگایا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کی موجودہ حکومت بھی گریٹر پختونستان کا مطالبہ اٹک تک کرتی ہے۔ یہ نعرے بھی کئی بار افغانستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں سے بھی سنے گئے تھے کہ افغانستان دعویٰ کرتا ہے کہ اٹک تک انکا علاقہ ہے۔ میں صرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں کہ گہری نظر کیساتھ خصوصاً جغرافیائی سرحدوں کی محافظ افواج پاکستان کو ہر قسم کی علاقائی، جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں پر کڑی نظر رکھنے کیلئے ماہرین کا پینل تشکیل دینا چاہیئے، جو ہمہ وقت اس قسم کے ممکنہ حادثات پر نظر رکھے اور سازش کو تقویت دینے کا باعث بننے والے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کرکے ہئیت تحریر الشام نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے۔ میں انہیں حالات کا اندازہ 1991ء میں لکھے گئے اپنے کالم ”نیو ورلڈ آرڈر اور متوقع جغرافیائی تبدیلیاں“ کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کے حالات بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ شام کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے، یہ عالمی سامراجی قوتوں کی شیطانی سازشوں کا حصہ ہے۔ جب باغی گروہ کے حلب پر قبضے کی خبر آئی تو تاریخ کے اوراق پلٹتے پتہ چلا کہ یہ سرزمینِ انبیاء ہے۔ حلب اللہ تعالیٰ کے مکرم نبی حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کا علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حلب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام بھیڑیں چرایا کرتے تھے۔ وہ بھیڑوں کا دودھ مقامی لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے، اسی وجہ سے دودھ کی وجہ سے شہرت کے باعث اس علاقے کا نام حلب پڑا۔ شام پر باغی گروہ کی چڑھائی ایک دن یا چند مہینوں کی منصوبہ سازی نہیں تھی، سالہا سال سے اس پر کام ہو رہا تھا۔ اس سازش کو کامیاب کروانے اور پروان چڑھانے میں بشارالاسد اور اس کے والد حافظ الاسد کا آمرانہ کردار بھی نظر آتا ہے۔
جب سلطنت عثمانیہ میں شام ایک وسیع علاقے پر محیط ملک تھا، جس میں لبنان فلسطین، اردن اور شام کے بیرونی علاقے بھی شامل تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سامراجی قوتوں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مل کر شام کے ٹکڑے کرکے یہاں مختلف خاندانوں کی حکومتیں تشکیل دیں۔ لبنان میں مسیحیوں کی حکومت بنائی گئی۔ فلسطین میں فلسطینیوں کو حکومت دی گئی، جبکہ اردن اور عراق میں ہاشمی خاندان کو لوگوں پر مسلط کیا گیا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد دنیا میں کمیونزم اور سوشلزم کا نعرہ بلند ہوا۔ دو عرب ممالک عراق اور شام میں بعث پارٹی نے سوشلزم سے متاثر ہوکر سوشلسٹ نظام کو متعارف کروایا۔ شام کی سوشلسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل حافظ الاسد نے اقتدار سنبھالا، اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور طول دینے کیلئے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا۔
حافظ الاسد کی موت کے بعد اس کے بیٹے آئی اسپیشلسٹ بشارالاسد کو بیرون ملک سے بلوا کر اقتدار اس کے حوالے کر دیا گیا۔ بشارالاسد نے جمہوریت کا نعرہ لگایا اور اقتدار میں آتے ہی قبائلی نظام کو مضبوط کیا اور کاسہ لیس ساتھیوں کو اقتدار میں شامل کرلیا اور اقتدار مضبوط کرنے کیلئے مخالفین کا قتل عام کیا، ملک بدری کا ہتھیار استعمال کیا۔ لاکھوں افراد ترکی اور لبنان میں پناہ گزین ہوئے۔ اس طرح لاکھوں مخالفین کو قتل کرکے بشارالاسد نے اپنے اقتدار کو طول دیا۔ انہی ایام میں "نیو ورلڈ آرڈر" کے نقشے میں رنگ بھرنے کیلئے بڑی طاقتوں نے اسلامی حکومت قائم کرنے کے نام پر کچھ گروہوں کو ہر قسم کی امداد فراہم کی۔ القاعدہ اور داعش کو مضبوط کرکے عراق کے اندر قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا۔ پھر انہی گروہوں کے سرپرستوں نے موجودہ تحریرالشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کو ان گروہوں سے علیحدہ کرکے شامی حکومت کے مخالفین کو اس کی سرپرستی میں دے دیا۔ بیسیوں کی تعداد میں یہ گروہ بشارالاسد کی حکومت کیخلاف لڑتے رہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ مضبوط گروہ کردوں کا ہے۔
انہوں نے بہت سے علاقوں میں اپنی حکومت بھی قائم کر دی۔ یہ بھی اسی نیو ورلڈ آرڈر کے نقشے کا حصہ ہے، جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔ شام کے اقتدار پر قبضے کی سازش اسرائیل، ترکی، امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک نے تیار کی اور عملی اقدام کرنے کیلئے مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ لبنان کے علاقے میں صیہونی حکومت نے لبنان کے علاقے پر قبضہ کرنے کیلئے وہاں جنگ چھیڑ دی اور فضائی حملوں سے لبنان کی شہری آبادی پر اتنی بمباری کی کہ مجبوراً یہاں کی جہادی، سماجی اور سیاسی قوت حزب اللہ نے بھرپور مقابلہ کیا۔ سامراجی قوتوں کی ضرورت کے تحت اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کروائی گئی۔ پھر چند ہی دنوں بعد شام میں تحریر الشام نے حملے شروع کر دیئے اور تقریباً ڈیڑھ ہفتے کے اندر پورے ملک کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ بشار الاسد کو ایک معاہدے کے تحت ملک چھوڑنا پڑا۔ وہ اپنی جان بچاتے ہوئے اپنے خاندان اور قریبی ہمنواوں کیساتھ روس میں سیاسی پناہ حاصل کرچکے ہیں۔
میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ شام کی موجودہ قابض حکومت اپنی پالیسیوں کو سامنے لا رہی ہے، جس میں اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ابو محمد الجولانی شام کے علاقے جولان پر اسرائیلی قبضے پر خاموش ہے، اس پر کوئی ردعمل نئی حکومت نے نہیں دیا۔ اموی مسجد میں خوشیاں منانے والے نئے حکمران فلسطین کے مظلوم عوام کیلئے ایک جملہ بھی کہنے کو تیار نہیں، جبکہ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کیخلاف کوئی اقدام اٹھانے کا عندیہ تک نہیں دیا گیا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ کے مسلمانوں کیلئے حالات زیادہ خراب ہوئے ہیں۔ ایران اور حزب اللہ بھی مشکلات کا شکار ہوں گے، لیکن سب سے زیادہ نقصان فلسطینی عوام کا ہوگا، جن کی سرپرستی شام کے راستے ایران کر رہا تھا۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ نیو ورلڈ آرڈر منصوبہ ابھی مکمل نہیں ہوا۔ شام میں بدامنی کی چنگاری کے اثرات عراق میں بھی نظر آئیں گے۔ یہ تبدیلی ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کے علاقے میں بھی افراتفری پھیلا کر مستحکم حکومت کو متزلزل کرنے کی کوشش کرے گی۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ایرانی بلوچستان سے پاکستانی بلوچستان میں افراتفری پھیلا کر گریٹر بلوچستان کی بات کی جائیگی۔ اسی طرح ہمارے کچھ ناسمجھ اور ناتجربہ کار تجزیہ کاروں کے آرٹیکلز میری نظروں سے گزرے ہیں، جن میں وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازع مسئلہ کشمیر بارے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں اطراف کے کشمیری "خود مختار کشمیر" چاہتے ہیں۔ جس طرح ایران، ترکی، عراق اور شام کے کرد گریٹر کردستان بنانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح سے عراق شام ایران کو بھی تقسیم کرنے کی سازش ہوگی، کیونکہ گریٹر بلوچستان کے حوالے سے انڈیا کی سرپرستی میں بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر حکومت کیخلاف میدان عمل میں لایا گیا ہے۔
خود مختار گریٹر بلوچستان کا نعرہ بھی لگایا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کی موجودہ حکومت بھی گریٹر پختونستان کا مطالبہ اٹک تک کرتی ہے۔ یہ نعرے بھی کئی بار افغانستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں سے بھی سنے گئے تھے کہ افغانستان دعویٰ کرتا ہے کہ اٹک تک ان کا علاقہ ہے۔ میں صرف متوجہ کرانا چاہتا ہوں کہ گہری نظر کیساتھ خصوصاً جغرافیائی سرحدوں کی محافظ افواج پاکستان کو ہر قسم کی علاقائی، جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں پر کڑی نظر رکھنے کیلئے ماہرین کا پینل تشکیل دینا چاہیئے، جو ہمہ وقت اس قسم کے ممکنہ حادثات پر نظر رکھے اور سازش کو تقویت دینے کا باعث بننے والے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔
خبر کا کوڈ: 1178066