ظلم کے یہ ضابطے ہم نہیں مانتے
10 Dec 2024 23:16
اسلام ٹائمز: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ریاست اپنی ہی عوام کے ساتھ حالت جنگ میں ہو۔ یہ لوگ طاقت کے نشے میں پاگل ہوچکے ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے ملک کو اس نہج پر لے گئے ہیں، جہاں پر کنٹرول ان کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اور یہ ظالم مسلسل اس ظلم کے نظام کا دوام چاہتے ہیں۔ ٹیچرز خاموش، صحافی خاموش، وکلا خاموش، علماء خاموش، کاروباری اور تاجر خاموش، انسانی حقوق کے علمبردار خاموش!!! سرکاری میڈیا جھوٹ کو سچ اور باطل کو حق دکھا رہا ہے اور سرکاری صحافی مظلوم کو ہی ظالم بنا کر پیش کر رہے ہیں، لیکن جھوٹ کبھی سچ اور باطل کبھی حق نہیں ہوسکتا۔
تحریر: رضوان نقوی
ظلم اور ظالم سے نفرت فطری عمل ہے، اگر کوئی ظالم کا مخالف نہیں اور مظلوم کا حامی نہیں تو وہ اپنی فطرت سے ہٹ چکا ہے۔ معاشرے میں جو بھی ظلم کو دیکھے اور اس کے خلاف قیام نہ کرے یا آواز نہ اٹھائے تو اس نے دین فطرت کے خلاف عمل کیا۔ ظالموں کے خلاف قیام دین اسلام کا حکم ہے اور مظلوموں کی حمایت اور مدد پسندیدہ عمل ہے۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "کونوا للظالم خصما و للمظلوم عونا"، "ظالموں کے مخالف اور مظلوموں کے مددگار بن جاؤ۔" امام حسین علیہ السلام اور کربلا کا درس بھی ظالموں کے خلاف قیام اور ظلم سے نفرت ہے۔ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی پاور، دنیا کی ساتویں بڑی فوج اور دنیا کی نمبر ون ایجنسی رکھنے کے باوجود کوئی سوچ سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی شہریوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنے کے لئے کانوائے کی صورت میں پولیس اور فوج کی مدد لینی پڑتی ہے اور وہ بھی حملے کی صورت میں محافظ بھاگ جاتے ہیں اور نہتے معصوم شہری شہید ہو جاتے ہیں، جس میں خواتین اور بچوں کو بھی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
صرف پارا چنار سے پشاور کا راستہ ہی غیر محفوظ نہیں بلکہ کوئٹہ سے تفتان اور کراچی سے ریمدان کے راستے بھی غیر محفوظ اور خطرناک ہیں۔ مسافروں کو نہیں معلوم ہوتا کہ کب وہ ان درندوں اور وحشیوں کے ہاتھوں شہید ہو جائیں، جن کو پال کر ہماری ریاست نے ہی بڑا کیا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
جب ظلم حد سے بڑہتا ہے تو معاشرے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ آج ہم اپنے ملک میں ہر سطح پر ظلم و بربریت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بے گناہ لوگوں کو قید کیا جارہا ہے۔ غیر قانونی کیسز بنائے جاتے ہیں، شہریوں کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر لیا گیا ہے۔ ظالم اور ظلم کے خلاف بولنے والوں کو اٹھا لیا جاتا ہے، حتی خواتین اور بچوں کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کر لیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کو مسلسل پامال کیا جا رہا ہے۔ پھر بھی آخر خاموشی کیوں۔؟؟؟
ملک میں ظلم کا نظام، غربت، افلاس، بے روزگاری، رشوت، لوٹ مار، بنیادی اور انسانی حقوق کی پامالیاں لیکن پھر بھی خاموشی کیوں۔؟؟؟ بھاری بھرکم ٹیکسز، بجلی اور گیس کے بل، مہنگائی، غربت، افلاس، بیروزگاری، نا امنی، نا انصافی، بنیادی سہولیات سے محرومی، تعلیم، صحت گویا ہر سطح پر عوام ظلم و نا انصافی کا شکار ہے پھر بھی خاموشی کیوں؟؟؟
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
امن و امان کی تشویشناک صورتحال ہے، ملک میں کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ کوئی حادثہ، واقعہ یا ظلم کی کوئی نئی داستان رقم نہ ہو۔ بلوچستان، وزیرستان اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقے مسلسل حالت جنگ میں رہتے ہیں۔ انسانی جان، مال اور ناموس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ چوری، ڈکیتی اور دہشتگردی کھلے عام ہے۔ ناامنی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے اپنے سکیورٹی ادارے پولیس اور فوجی جوان بھی دہشتگردی سے محفوظ نہیں، حتی ملکی مہمانوں کی جان کو بھی نہیں بخشا جاتا!!!
ملک میں نظام انصاف مفلوج اور انتہائی ابتر حالت میں ہے، یہاں تک کہ ایک غریب اور کمزور آدمی انصاف کے لئے نسل در نسل دھکے کھاتا ہے، لیکن اس کو انصاف نہیں ملتا۔ یہاں ظالم، ظلم کرکے فخر کرتا ہے اور مظلوم کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی تو ایسے معاشروں کی تباہی نوشتہ دیوار ہے۔ یہ ریاست اور حکومت عوام کا اعتماد کھو چکی ہے۔ جہاں بلوچی بھی ظلم کا شکار اور پشتون بھی، پنجابی بھی ناراض اور سندھی بھی، کشمیری بھی ناخوش اور گلگت و بلتستان کے باشندے بھی، کاروباری بھی تنگ اور تاجر بھی، یہاں خوش ہیں مافیاز اور اشرافیہ، جو طاقتور لوگوں کے ساتھ مل کر لوٹ مار کر رہے ہیں اور ان کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ ظلم کا نظام ہمارے ملک میں اوپر سے نیچے تک سرایت کر گیا ہے۔
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
ملک میں ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا دور ظلمت و تاریکی کا زمانہ تھا، لیکن آج کی ظلم و بربریت نے ضیاء الحق کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہر چند کہ پاکستان کی تباہی اور بربادی کی بنیاد ضیاء نے رکھی تھی، اس کے کارنامے ایسے تھے، جن کے اثرات آج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ آج دوبارہ حبیب جالب کے نغمے گنگنانے چاہیئے اور احمد فراز کے اشعار کو زندہ کرنا چاہیئے۔
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
ایسا لگتا ہے کہ ملک میں تمام تر طاقت و قدرت کا محور فقط ایک ادارے کا سربراہ یا چند اشخاص ہیں، جو ملک کو جس سمت چاہیں، گھسیٹ کر لے جاتے ہیں۔ چاہے اس میں عوام کا قیمہ بن جائے اور ملک چاہے تباہ و برباد ہو جائے، لیکن اس شخص یا چند افراد کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور ان سے کوئی سوال بھی نہیں کرسکتا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ریاست اپنی ہی عوام کے ساتھ حالت جنگ میں ہو۔ یہ لوگ طاقت کے نشے میں پاگل ہوچکے ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے ملک کو اس نہج پر لے گئے ہیں، جہاں پر کنٹرول ان کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے اور یہ ظالم مسلسل اس ظلم کے نظام کا دوام چاہتے ہیں۔ ٹیچرز خاموش، صحافی خاموش، وکلا خاموش، علماء خاموش، کاروباری اور تاجر خاموش، انسانی حقوق کے علمبردار خاموش!!! سرکاری میڈیا جھوٹ کو سچ اور باطل کو حق دکھا رہا ہے اور سرکاری صحافی مظلوم کو ہی ظالم بنا کر پیش کر رہے ہیں، لیکن جھوٹ کبھی سچ اور باطل کبھی حق نہیں ہوسکتا۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اگر فطری عمل ہے تو عوام اور خواص کی اکثریت ظلم کے خلاف خاموش کیوں؟؟ ظلم کے خلاف خاموشی کی ایک بڑی وجہ ڈر اور خوف ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے ہماری عوام ظلم کو سہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ خواص کی اکثریت پیسہ، لالچ، شہرت اور مقام کے وجہ سے بھی یا خاموشی اختیار کرتے ہیں یا ظالم کے حامی بن جاتے ہیں۔
آج چند صحافیوں کے علاوہ باقی صحافی ظالم کو ظالم کہنے اور ظلم و بربریت کے خلاف بولنے کو تیار نہیں بلکہ کچھ لفافہ صحافی مظلوم کو ہی ظالم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وکلا نے عدل و انصاف کی پامالی اور نظام انصاف کی بے حرمتی پر مسلسل چپ سادھ رکھی ہے۔
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کی
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
ایسے حالات میں عوام پر فرض ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے سراپا احتجاج ہوں۔ وہ ظالموں کے خلاف کلمہ حق بلند کریں اور خوف و ہراس کے بتوں کو پاش پاش کر دیں کیونکہ اللہ کا حکم ہے۔ "إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم"
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
خبر کا کوڈ: 1178012