QR CodeQR Code

شام کے حالات اور مستقبل

9 Dec 2024 16:39

اسلام ٹائمز: ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ معزول شامی صدر بشار الاسد کے اتحادی ایران کو مداخلت کرنے کیلئے نہیں کہا گیا تھا، کیونکہ باغی دمشق کی جانب طرف بڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم سے کبھی مدد نہیں مانگی گئی، بنیادی طور پر یہ ذمہ داری شامی فوج کی تھی، یہ نہ تو ہماری ذمہ داری تھی اور نہ ہی ہم نے کبھی اسے اپنا فرض سمجھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ "حیرت انگیز طور پر شامی فوج باغیوں کی دمشق کی جانب اس پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہی۔"


تحریر: سید اسد عباس

شام میں الاسد خاندان کا اقتدار 8 دسمبر 2024ء کو اپنے اختتام کو پہنچا، الاسد جن کا تعلق علوی مسلک سے ہے، ملک میں ایک اقلیت ہیں، جن کی تعداد تقریباً چار لاکھ کے قریب ہے۔ بشار کے والد حافظ الاسد نے اقتدار میں آنے کے بعد سنی اکثریت کو ملک کے سیاسی اداروں کی سربراہی دی جبکہ علویوں کو عسکری عہدوں سے نوازا گیا۔ بشار اپنے والد کی رحلت کے بعد شام کا صدر منتخب ہوا۔ بشار کے اقتدار کے فقط سات روز میں خاتمے کے حوالے سے مختلف تجزیات اور باتیں سامنے آرہی ہیں۔ سہیل وڑائچ روزنامہ جنگ میں لکھتے ہیں "روس کی طاقت اور ایران کی مدد کے باوجود شام کی حکومت کو غیر منظم باغیوں کے ہاتھوں شکست و ریخت کا سامنا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آج بھی ایک ہی سپر پاور ہے۔" روزنامہ پاکستان کے اداریہ میں لکھا گیا :"ماضی میں ایران اور اِس سے منسلک عسکری گروپوں نے بھی بشار الاسد کا اقتدار قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، تاہم ایران اِس وقت خطے میں براہِ راست یا پراکسیوں کے ذریعے کسی بھی ٹکراؤ سے گریز کر رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ اِس مرتبہ اپنی عسکری قوت صدر بشار الاسد کے حق میں استعمال نہیں کر پایا۔

روزنامہ دنیا کے اداریہ میں لکھا گیا :"اسد حکومت کے خاتمے کے ساتھ ایران ایک اہم علاقائی اتحادی سے محروم ہوچکا ہے، جس کے اثرات آنے والے وقت میں لبنان میں ایرانی اثر و رسوخ خاص طور حزب اللہ کی عسکری قوت کے حوالے سے سامنے آئیں گے۔" معروف کالم نگار جاوید حفیظ نے روزنامہ دنیا کے کالم میں لکھا تہران حکومت بشار الاسد کی مضبوط حمایتی تھی اور شامی حکومت بھی ایران کو حزب اللہ کو کمک پہچانے میں مدد کرتی رہی، مگر شام کی اسّی فیصد آبادی کا مسلک شافعی سُنی ہے اور یہ لوگ اپوزیشن کے حامی ہیں۔ سعود عثمانی لکھتے ہیں "دمشق پر قبضہ بشار الاسد ہی کی نہیں، اس کے حامیوں خاص طور پر ایران اور روس کی بھی بڑی شکست ہے۔" نصرت جاوید نے نوائے وقت میں اپنے کالم میں لکھا: "شام مسلکی اعتبار سے ایران کے قریب نہ ہونے کے باوجود تہران کا طاقتور ترین حلیف رہا ہے۔ اس کے زمینی راستوں سے ایران لبنان میں اسرائیل کے خلاف ڈٹی حزب اللہ کو نہ صرف جدید ترین اسلحہ پہنچاتا رہا بلکہ شام سمیت لبنان تک بھی اپنا تیل فروخت کرتے ہوئے اپنے خلاف لگائی اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرتا رہا۔"

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بشار الاسد کے سقوط کی وجہ درحقیقت ایران سے دور ہونا ہے۔ بی بی سی نے مزید لکھا "کچھ عرصے سے بشار الاسد تنہائی سے نکلنے اور پابندیوں کے خاتمے کے لیے مغرب کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سے ایران کو اندازہ ہوا کہ اسد کا ہونا نہ ہونا مقاومت کے لیے فائدہ مند نہیں۔ بی بی سی کے مطابق بشار الاسد کی فوج میں سپاہیوں کی تنخواہ تقریباً 15 سے 17 ڈالر ماہانہ کے برابر ہے۔ ایک شامی شہری کے مطابق یہ تنخواہ تین دن کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔ گذشتہ ہفتے بشار الاسد نے فوجیوں کی تنخواہ 50 فیصد بڑھانے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد بظاہر فوج کا مورال بلند کرنا تھا، تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ قدم اٹھانے میں شامی حکومت نے کافی دیر کر دی تھی۔ بیروت میں کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے سینیئر فیلو ڈاکٹر یزید صیغ کہتے ہیں ایران، حزب اللہ اور روس کی طرف سے براہ راست فوجی امداد روک دیئے جانے کی وجہ سے بھی شامی فوج کا مورال نمایاں طور پر گرا ہے۔ ان کے مطابق شام کے اتحادی اب کی بار اس کی جنگ میں مداخلت بھی نہیں کر پائے۔

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ معزول شامی صدر بشار الاسد کے اتحادی ایران کو مداخلت کرنے کے لیے نہیں کہا گیا تھا، کیونکہ باغی دمشق کی جانب طرف بڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم سے کبھی مدد نہیں مانگی گئی، بنیادی طور پر یہ ذمہ داری شامی فوج کی تھی، یہ نہ تو ہماری ذمہ داری تھی اور نہ ہی ہم نے کبھی اسے اپنا فرض سمجھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ "حیرت انگیز طور پر شامی فوج باغیوں کی دمشق کی جانب اس پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہی۔" اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے شام میں بشار الاسد کے زوال کو مشرق وسطیٰ کے لیے تاریخی دن قرار دیا اور کہا ہے کہ ایران کی مزاحمت کے محور کی مرکزی کڑی توڑ دی گئی ہے۔ انھوں نے اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان حملوں کا براہ راست نتیجہ ہے، جو ہم نے اسد کے اہم حامیوں ایران اور حزب اللہ پر کیے ہیں۔

اس اقدام نے پورے مشرق وسطیٰ میں ایک سلسلہ وار ردِعمل شروع کر دیا ہے اور اس جابرانہ حکومت سے آزادی کے خواہاں لوگوں کو بااختیار بنایا ہے۔ بنیامن نیتن یاہو نے یہ بھی اعلان کیا کہ انھوں نے اسرائیلی فوج کو گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی بفر زون پر قبضہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اور شام کے درمیان 1974ء کا علیحدگی کا معاہدہ 50 سال سے جاری تھا، لیکن یہ کل رات ٹوٹ گیا۔ شامی فوج نے اپنی پوزیشنز چھوڑ دیں۔ ہم نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا کہ وہ ان پوزیشنوں پر قبضہ کر لیں، تاکہ اسرائیلی سرحد کے ساتھ دشمن افواج کی ممکنہ دراندازی کو روکا جا سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک عارضی دفاعی پوزیشن ہے، جب تک کہ اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نہیں مل جاتا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی شام سے متعلق پالیسی کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن تبدیل ہوا ہے۔ روزویلٹ روم سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے شام کے لیے تین جہتی پالیسی کا احاطہ کیا، جس میں اتحادیوں کے لیے امداد، پابندی و سفارتکاری اور فوجی قوت کا استعمال شامل ہے۔ فوجی قوت سے ان کی مراد شام میں موجود امریکی فوج ہے۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ بشار الاسد کی حکومت کے جانے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ روس نے شام کی صورتحال پر اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کر دی۔ اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نائب نمائندے دمتری پولیانسکی نے ٹیلی گرام پر لکھا ہے کہ انھیں امید ہے کہ سوموار کے روز سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے گا۔

روس کا کہنا ہے کہ وہ شامی حزبِ اختلاف کے گروہوں کے ساتھ روابط بحال رکھے ہوئے ہے اور ان کی جانب سے روس کے فضائی اڈوں کی سکیورٹی کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ تاہم صورتحال اتنی بھی آسان نہیں ہے۔ اس وقت شام میں کُل 7500 روسی فوجی تعینات ہیں، جن میں سے اکثر اہم روسی ملٹری تنصیبات پر موجود ہیں، جن میں طرطوس اور لاذقیہ شامل ہیں۔ شام میں ہونے والی پیشرفت پر ایرانی وزارت خارجہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا "اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے شام کی حالیہ پیش رفت کے حوالے سے شام کی وحدت، قومی خود مختاری اور ارضی سالمیت کے احترام کے بارے میں ایران کے اصولی موقف کی یاد دہانی کرواتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ شام کی تقدیر کا تعین اور فیصلہ سازی کسی بیرونی مداخلت کے بغیر شامی عوام کا استحقاق ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جلد از جلد فوجی تنازعات کو ختم کرنے، دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے اور شامی معاشرے کے تمام شعبوں کی شرکت کے ساتھ قومی مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ایک جامع حکومت تشکیل دی جائے، جو تمام شامی عوام کی نمائندگی کرے۔

اسلامی جمہوریہ ایران ماضی کی طرح شام میں سیاسی عمل کی پیشرفت کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد 2254 پر مبنی بین الاقوامی میکانزم کی حمایت کرتا ہے اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ساتھ تعمیری طور پر تعاون جاری رکھے گا۔ اس صورت حال میں جہاں شام اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے، وہاں تمام شامی شہریوں اور دیگر ممالک کے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون کے مطابق مذہبی مقدس مقامات کے تقدس نیز سفارتی اور قونصل خانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔ ایران اور شام کی عوام کے مابین دیرینہ اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں، امید کی جاتی ہے کہ یہ تعلقات دونوں ممالک کے دانشمندانہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدامات، مشترکہ مفادات نیز عالمی قوانین کے مطابق جاری رہیں گے۔ شام کی مغربی ایشیائی خطے میں ایک اہم اور بااثر ملک کی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران شام میں سلامتی اور استحکام کے قیام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا اور اس مقصد کے لیے تمام بااثر فریقوں کے ساتھ مشاورت جاری رکھے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران شام اور علاقے کی پیش رفت پر بغور نگرانی کرتے ہوئے اور شام کے سیاسی اور سکیورٹی منظر نامے میں موثر کرداروں کے طرز عمل اور کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب رویہ اور موقف اپنائے گا۔

سطور بالا سے یہ تو واضح ہوگیا کہ شام میں کئی ایک کردار سرگرم عمل تھے۔ ایک انتہائی باخبر دوست کے مطابق بشار نے غزہ کی جنگ کے آغاز سے ایرانی اور مقاومتی گروہوں سے فاصلے بڑھا لیے تھے۔ دمشق میں کسی ایرانی مشیر یا افسر کو عمارت کرائے پر دینے کی اجازت نہ تھی۔ ایرانیوں کے خیال میں شام اور لبنان پر ہونے والے حملوں میں بھی بشار حکومت کا کردار ہے۔ بشار عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت چاہتا تھا اور اسے سعودیہ و عرب امارات کی جانب سے شامی معیشت کو سنبھالنے کے لیے امداد کا جھانسا بھی دیا گیا تھا اور اس کے لیے واحد شرط مقاومت سے دوری رکھی گئی تھی۔ بشار چاہتا تھا کہ روس شام کی فضائی اور زمینی تحفظ کی ذمہ داری لے، جو کہ یوکرائن جنگ کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ آستانہ مذاکرات، دوحہ ملاقات اور بغداد مذاکرات میں امور طے کر لیے گئے تھے۔ روس، عراق اور ایران کو اس شورش کے اہم کرداروں کی جانب سے ان کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری دلوائی گئی، جن میں سفارت خانے، سفارتی عملہ کا تحفظ اور مقدس مقامات کا تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔
 
کہانی کے بہت سے پہلو ہیں، تاہم اس وقت تک جو نتائج موصول ہو رہے ہیں، یہی ہیں کہ اسرائیل شام کی سرزمین میں داخل ہوچکا ہے، روس جلد شام کو ترک کر دے گا، امریکا، ترکی اور اسرائیل شام کے مستقبل کا تعین کریں گے، ایران اور روس نے خطے میں ایک اہم اتحادی کھو دیا ہے، جس کے اثرات آنے والے وقت میں لبنان میں ایرانی اثر و رسوخ خاص طور حزب اللہ اور حماس کی عسکری قوت کے حوالے سے سامنے آئیں گے۔ شام کے علوی، شیعہ، دروزی اور عیسائی اس وقت تحریر الشام کے رحم و کرم پر ہیں، شام میں ایک مرکزی حکومت کی عدم موجودگی اور کردوں نیز دیگر اقلیتوں میں پائی جانے والی بے چینی کے باعث ملک استحکام کی جانب نہیں جائے گا، نہ ہی اس پر پابندیوں کا خاتمہ ہوگا۔ اندرونی اختلاف فاتح گروہ میں بھی اختلافات کو جنم دے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شام تین ذیلی ریاستوں میں تقسیم ہو جائے، جس میں ایک ترکیہ کے زیر اثر سنی اکثریتی ریاست، دوسری امریکہ کی اتحادی کرد ریاست، جو اس وقت بھی نیم خود مختار علاقے ہیں اور تیسری علویوں اور مسیحیوں کی ریاست۔ واللہ اعلم


خبر کا کوڈ: 1177393

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.com/ur/article/1177393/شام-کے-حالات-اور-مستقبل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.com