بشار الاسد کی ناکامی کا سبب
9 Dec 2024 00:47
اسلام ٹائمز: اسرائیل کے مقابلے میں بشار الاسد کی حکومت دفاعی اعتبار سے نہایت کمزور تھی۔ اسرائیلی فضائیہ نے شام کی ارضی سالمیت پر وار کرنا اپنا روز کا معمول بنایا ہوا تھا۔ بشار الاسد کی فضائیہ کے طیاروں نے شاید ہی کبھی اسرائیلی بمباری کا جواب دیا ہو، ان کے لڑاکا طیارے ہمیشہ اپنے ہینگرز میں ہی پائے گئے جو بالآخر باغیوں کے ہاتھ لگے۔
تحریر: سید تنویر حیدر
یاسر عرفات نے اپنی تنظیم ”پی ایل او“ کا ہیڈکوارٹر لبنان میں قائم کیا ہوا تھا۔ 1982ء میں اسرائیل کی افواج نے لبنان پر حملہ کیا اور پی ایل او نے بغیر کسی مزاحمت کے لبنان کو خیرباد کہہ دیا۔ یاسر عرفات نے اسرائیل کی اس جارحیت کے خلاف تمام مسلم ممالک سے مدد کی درخواست کی، لیکن اس وقت بھی آج ہی کی طرح سوائے اسلامی جمہوری ایران کے کسی ملک نے اپنی فوج نہ بھیجی۔ البتہ عرفات نے ایرانی فوج کو لڑنے کی اجازت نہ دی اور خود ہتھیار ڈال دیئے۔ وجہ یہ تھی کہ یاسر عرفات سیکولر نظریے کے حامی تھے۔ انہوں نے اپنی تنظیم ”تنظیم آزادی فلسطین“ کو بھی سیکولر بنیادوں پر استوار کیا ہوا تھا۔
وہ سمجھتے تھے کہ اگر ایرانی افواج کے ذریعے صیہونی افواج کو لبنان سے نکالا گیا تو اس سے فلسطینیوں میں بھی انقلاب اسلامی کے اثرات پھیلیں گے، جو ان کی سیکولر تحریک کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔ چنانچہ انہوں نے شکست گوارہ کر لی لیکن فلسطینیوں میں مذہبی اثرات کے پھیلاؤ کو گوارہ نہیں کیا۔ امام خمینی (رح) اس وقت حیات تھے۔ آپ نے یاسر عرفات کی اس شکست پر فرمایا تھا کہ ”آپ کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی جدوجہد محض زمین کے ایک ٹکڑے (فلسطین) کے لیے ہے، اگر آپ کامیابی چاہتے ہیں تو آپ کی جدوجہد محض ایک علاقے کی بجائے دین کے لیے ہونی چاہیئے۔“
اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن معاہدے کے بعد یاسر عرفات کے ایران سے اختلافات پیدا ہوگئے اور پھر آنے والے وقتوں میں یاسر عرفات نے ایران کے خلاف اپنے خبث باطن کا کھل کر اظہار کرنا شروع کر دیا اور یہاں تک کہا کہ ایران فلسطین کی آزادی کے لیے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی بات اس لیے کرتا ہے، تاکہ وہ مقبوضہ فلسطین کو اسرائیل سے آزاد کروا کر اس پر خود قبضہ کرلے۔ یاسر عرفات نے اسرائیل سے جو نام نہاد امن معاہدہ کیا تھا، وہ دیرپا ثابت نہ ہوا اور پھر اسرائیل کے سامنے اپنے ہاتھوں میں زیتون کی شاخ لہرانے والا اسرائیل کے ہاتھوں زہر خوانی کا شکار ہوا۔
گردش زمانہ نے پلٹا کھایا اور پھر وہ وقت آیا، جب اہل فلسطین میں ”حماس“ کے نام سے ایک تحریک وجود میں آئی، جس نے خالص دینی بنیادوں پر اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور ایک دن ”طوفان اقصیٰ“ کے نام سے اقصائے عالم میں ایک طوفان پرپا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ آج بشار الاسد کا بھی کچھ یہی معاملہ ہے۔ اگرچہ اسرائیل کے خلاف وہ تمام عرب حکام کے مقابلے میں اپنے والد کی طرح مضبوط موقف رکھتے تھے، لیکن انہوں نے بھی اپنی مملکت کو سیکولر بنیادوں پر ہی استوار کیا ہوا تھا۔ وہ دین حنیف کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کو اپنا ضابطہ سیاست بنانے کی بجائے ”بعث پارٹی“ کے منشور پر عمل پیرا تھے اور ان کی جماعت کے اراکین اسی منشور پر حلف اٹھاتے تھے۔
اسرائیل کے مقابلے میں بشار الاسد کی حکومت دفاعی اعتبار سے نہایت کمزور تھی۔ اسرائیلی فضائیہ نے شام کی ارضی سالمیت پر وار کرنا اپنا روز کا معمول بنایا ہوا تھا۔ بشار الاسد کی فضائیہ کے طیاروں نے شاید ہی کبھی اسرائیلی بمباری کا جواب دیا ہو، ان کے لڑاکا طیارے ہمیشہ اپنے ہینگرز میں ہی پائے گئے، جو بالآخر باغیوں کے ہاتھ لگے۔ یہ ہیں وہ حقیقی اسباب جن کی بنا پر ان کی دفاعی افواج بھی یاسر عرفات کے لشکریوں کی طرح اسرائیل اور اس کے حواریوں کے سامنے مقاومت نہ دکھا سکیں اور ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔
خبر کا کوڈ: 1177230