شام میں جنگ، ترکیہ کی سہولت کاری؟(1)
7 Dec 2024 21:58
اسلام ٹائمز: اصل بات یہ ہے کہ اردوگان جس نے منافقت اور سہولت کاری کا تمغہ اپنے سینے پہ سجایا ہے، کیا اس تاج کیساتھ وہ خود کو امریکی و اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور مقاومت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے وار کا فائدہ مستقبل میں اٹھا سکے گا یا صدام کی طرح، اپنے سرپرستوں کے ہاتھوں ہی اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوگا۔ تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ امریکہ پر اعتماد کرنے والوں کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا، اب اردوگان کا انجام کیسا ہوتا ہے، یہ جلد یا بدیر سامنے آجائے گا۔
تحریر: ارشاد حسین ناصر
اس وقت شام کے حالات میں سب سے نمایاں کردار، جس نے دنیا بھر کے دہشت گردوں کو جمع کرنے میں اور انہیں شامی حکومت کے خلاف جو دراصل مقاومت کے خلاف سمجھنا چاہیئے، بھیانک کردار ادا کیا ہے، وہ ترکیہ ہے۔ ترکیہ کی سہولت کاری نے جہاد و مزاحمت، چاہے اس کا تعلق لبنان سے ہے یا فلسطین و غزہ سے، حماس سے ہے یا حزب اللہ سے اور اس کا تعلق شام کی سلامتی سے ہے یا عراق کی یکجہتی سے، سب کیلئے بھیانک اور خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیل جسے اہل فلسطین، اہل لبنان نے مسلسل ایک سال سے زیادہ وقت سے مشغول رکھا ہوا تھا اور اس کو کسی بڑی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیا تھا، حتیٰ مقاومت کی اہم ترین قیادت نے شہادتیں بھی دیں، مگر مزاحمت کا علم بلند رکھا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں مقاومت کی پیٹھ میں اگر کسی نے چھرا گھونپا ہے تو وہ ترکیہ ہے۔
ترکیہ کی سہولت کاری نے اسرائیل، امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو جتنا خوش کیا ہے، وہ اس سے پہلے نہیں تھے۔ اس لیے کہ 2011ء میں شام کے خلاف شروع کیا جانے والا سلسلہ بہت سی عظیم قربانیوں اور منصوبہ بندی سے ناکامی سے دوچار ہوگیا تھا۔ یہ شام پر حملہ نہیں تھا، یہ پورے خطے کو تبدیل کرنے کا منصوبہ تھا، جسے شام سے شروع کیا گیا تھا اور اس کو عراق میں بھی عملی کیا جانا تھا، عراق و شام کی تقسیم اور کردوں کی ایک الگ ریاست اور پھر ان تقسیم شدہ ریاستوں پر من مرضی کے حکمران لا کر بٹھاتے ہوئے ایران کا ناطقہ بند کرنا تھا۔ ایران کا ناطقہ بند کرنے کا مطلب لبنانی مقاومت کو ختم کرنا اور انہیں مقامی دہشت گرد گروپوں کیساتھ الجھا کر انہیں انتہائی محدود کرنا ہوسکتا تھا۔ یہ منصوبہ اس وقت تو ناکامی سے دوچا ہوا.
اس کیلئے بلا شبہ جمہوری اسلامی ایران، لبنانی مقاومت، عراقی مزاحمت، یمنی مجاہدین اور دنیا بھر سے عشاقان حرمین اہلبیت (ع) جو مدافعان حرمین بن کر سامنے آئے اور اپنی جانوں کو نچھاور کرتے رہے، مگر تکفیری اسرائیلی ایجنٹوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس وقت بھی دنیا بھر سے لائے جانے والے دہشت گردوں کو ترکیہ کے ذریعے شام و عراق میں لایا گیا تھا اور خون ناحق بہانے اور سفاکیت کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے والے داعشیوں کیلئے سہولت کاری کا کام کرکے منافقت اور غداری کا ایسا کردار ادا کیا، جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ اب ایک بار پھر پہلے سے کہیں زیادہ تیاری کیساتھ ترکیہ نے بھیانک سہولت کاری کا بیڑا اٹھایا اور ایک برس سے زیادہ مسلسل غزہ کے مجاہدین، مظلومین کی مدد کرنے کے بجائے اسرائیل و امریکہ کی مدد کرتے ہوئے شام میں تباہی لا نے کا باعث بنا ہے۔
آخر ترکیہ کا مقصد کیا ہے، جس کے حصول کیلئے وہ ایسا کر رہا ہے۔؟ آخر ترکیہ کیوں آگ و خون کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے، کس مقصد کے تحت وہ شام کو تقسیم کرنے، اس کی حکومت کو گرانے اور مزاحمت کیلئے شدید مشکلات ایجاد کرنے میں آگے آگے ہے۔؟ ترکیہ شاید شام میں من پسند حکومت چاہتا ہے، ایسی حکومت جو اس کے ہاتھوں کھیلے اور ایسا شام جس کے کچھ علاقوں کو اپنے ساتھ شامل کر لے، جہاں وہ پہلے سے قابض ہے اور اپنی فوج رکھے ہوئے ہے۔ کیا ترکیہ اپنا مقصد حاصل کر لے گا اور اس کے ہمسائے میں مستقل امن و سلامتی کے گیت گائے جاتے رہیں گے یا یہ سرمین فتنوں، سازشوں اور بغاوتوں کی تاریخ دہراتی رہے گی۔؟ کیا شام ایک نیا لیبیا بن جائے گا، جہاں قذافی کے سقوط کے بعد سے آج تک امن و سلامتی اور شانتی ناپید ہوچکی ہے اور جنگ و جدل اور فتنہ فساد مسلسل درد سر کی صورت میں دیکھا اور محسوس کیا جا رہا ہے۔
اس جنگ کا اصل مقصد مقاومت کو کمزور کرنا ہی ہے، سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کے خاتمے کی مہم کا مرکزی نکتہ و مرکزی مقام شام ہی ہے، جہاں سے سب مقاومتی قوتوں کو مدد اور سپورت بہم پہنچائی جاتی ہے۔ شام ایک سیکولر عرب ملک ہے، جبکہ سعودیہ کو اب سیکولر بنایا جا رہا ہے۔ اس عنوان سے شام اہل مغرب کے بہت قریب ہوسکتا تھا، مگر شام کا کردار مقاومتی قوتوں سے تعلقات، ان کی مدد اور ان کیلئے راستوں کی بندشوں، رکاوٹوں کو ختم کرنا، یہ اہل مغرب بالاخص امریکہ، عرب ممالک، اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اسی وجہ سے شام میں اسرائیل فضائی حملے بھی کرتا ہے اور نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر ہم دقت کریں تو شام کا محاذ مقاومتی قوتوں کیلئے زندگی اور موت کا مقام رکھتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جو پوزیشن بن چکی ہے، اس مرحلے پر مقاموتی قوتوں کو ایک بار مل کر اپنا زور لگانا پڑے گا۔
مقاومتی قوتوں کو حمص کو بہرحال بچانا ہے، حمص خدانخواستہ سقوط کر گیا تو پھر شام کی تقسیم کا فارمولا لاگو ہوسکتا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ حمص میں تمام مقاومتی قوتیں جمع ہیں اور تکفیری مسلح گروہوں کو یہاں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ حلب، و حما میں حکومتی فورسز نے ازخود شہروں کو خون خرابہ سے بچانے کیلئے خالی کیا، جن پر تکفیری گروہوں نے فقط جھنڈے گاڑے ہیں اور فتح کے جشن مناتے دیکھے گئے ہیں۔ اس لڑائی میں ایک اور عنصر بہت نمایاں دیکھا جا رہا ہے کہ مسلح جتھے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں، جبکہ پراپیگنڈہ کیلئے جدید ترین کیمرے اور کیمرہ مینز، پریس کی بلٹ پروف جیکٹس کیساتھ گھوم رہے رہیں ہیں، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ افواہوں اور پراپیگنڈا کے ذریعے اپنی برتری کو پیش کرو۔
باقی عربی و مغربی میڈیا کیساتھ ساتھ اسرائیلی میڈیا بھی مسلح جتھوں کی بھرپور کوریج کر رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اردوگان جس نے منافقت اور سہولت کاری کا تمغہ اپنے سینے پہ سجایا ہے، کیا اس تاج کیساتھ وہ خود کو امریکی و اسرائیلی مفادات کے تحفظ اور مقاومت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے وار کا فائدہ مستقبل میں اٹھا سکے گا یا صدام کی طرح، اپنے سرپرستوں کے ہاتھوں ہی اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوگا۔ تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ امریکہ پر اعتماد کرنے والوں کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا، اب اردوگان کا انجام کیسا ہوتا ہے، یہ جلد یا بدیر سامنے آجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ہم اس مضمون کے دوسرے حصہ میں امریکہ پر اعتماد اور پاکستانی حکمرانوں کے انجام کے بارے میں تاریخ کی روشنی میں تفصیلی بات کریں گے)
خبر کا کوڈ: 1177112