سیرت فاطمیہ میں دینی اقدار اور سیاست کا تعلق(1)
5 Dec 2024 02:23
اسلام ٹائمز: یہ سیاسی احتجاج اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدل و انصاف کا قیام صرف فرد کے حقوق تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ اسکے ساتھ ساتھ پورے معاشرتی اور سیاسی نظام میں بھی انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے نہ صرف سیاسی اور معاشی عدل کی حمایت کی بلکہ اخلاقی عدل پر بھی زور دیا۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ انسان کو اپنے اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہیئے۔ آپ نے سچائی، ایمانداری اور دیانتداری کے اصولوں پر عمل کیا، جس نے انکے کردار کو بے مثال بنا دیا۔ آپکی یہ سیرت نہ صرف اس دور کیلئے منارہ نور تھی بلکہ آج بھی انسانی معاشرے کو عدل و انصاف کے قیام کیلئے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
تحریر: محمد حسن جمالی
دین اور سیاست ناقابل جمع ہرگز نہیں۔ اسلام کے دشمنوں نے اپنے مفاد کے حصول کے لئے دین اور سیاست کو الگ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں میں اس بات کو راسخ کیا کہ دیندار سیاست مدار نہیں ہوسکتا، اس کے برعکس سیاست مدار دیندار نہیں ہوسکتا۔ انسان کو دین اور سیاست میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا، کیونکہ ان دونوں کا اجتماع محال ہے۔ اس بے بنیاد فکر کو دشمنوں نے مختلف ذرائع سے لوگوں کے ذہنوں میں مستحکم کیا۔ چنانچہ آج ہمیں روشن خیال پڑھے لکھے جوانوں کی اکثریت اس فکر سے متاثر دکھائی دیتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ہمارے جوانوں کا دینی تعلیمات سے بیگانہ رہنا ہے۔ اگر وہ دینی زرین تعلیمات سے اجمالی آگاہی بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں، اگر وہ دین اور سیاست کے حقیقی مفاہیم کو سمجھیں تو ان کے سامنے یہ حقیقت اظہر من الشمس کے طور پر نمایاں ہوگی کہ دین اور سیاست ہرگز جدا نہیں۔
پاکستان میں سیاست کے نام سے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سیاست نہیں بلکہ شیطنت ہے۔ عرصہ دراز سے پاکستان میں سیاست کے نام سے دو خاندانوں کی بدمعاشیاں، جس کے نتیجے میں ان کی موج مستیاں اور عیاشیاں چلتی آرہی ہیں۔ ان فرعونوں نے پاکستان کو کنگال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فی الحال اس تحریر میں سیاست سے ہماری مراد پاکستانی عوام پر مسلط غاصب چور، لٹیرے اور گندے افراد کی غلیظ حرکتیں اور نازیبا ایکٹیوٹیز نہیں بلکہ سیاست کا حقیقی مفہوم مقصود ہے۔انبیاء (ع) اور چہاردہ معصومین علیھم السلام بشریت کے لئے ہادی اور راہنماء بن کر آئے۔ ان کی مقدس زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں انہوں نے بشریت کو عبادی اور انفرادی زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ہے، وہیں انہوں نے انسانوں کو اجتماعی اور سیاسی زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی سکھا دیا ہے۔ ایام فاطمیہ چل رہے ہیں تو مناسبت کے پیش نظر ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیرت فاطمیہ میں دینی اقدار اور سیاست کا آپس میں کیا تعلق ہے۔؟
دینی اقدار سے مراد وہ اصول اور نظریات ہیں، جو کسی مکتب فکر کی تعلیمات اور تبلیغات کی بنیاد ہوتے ہیں۔ یہ اقدار انسان کے رویوں، فیصلوں اور معاشرتی کاموں کو متاثر کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ عقیدہ توحید، معاد، عصمت ائمہ، صداقت، امانت، انصاف، رحم دلی، نماز، روزہ، زکات، کرامت انسانی، حقوق اور آزادی کی پاسداری، معاشرے کے افراد کے ساتھ حسن سلوک کرنا وغیرہ اقدار دینی کے نمونے ہیں۔ دینی اقدار انسان کو جسمانی ترقی سے بالاتر روحانی اور معنوی طور پر ترقی کرنے کی بھی ترغیب دیتی ہیں۔ حضرت فاطمہ نے اپنی زندگی میں دین اور سیاست کو الگ نہیں کیا، بلکہ دونوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ رکھا۔ سیرت فاطمیہ میں اس کی بہت سی مثالیں ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جیسے حضرت فاطمہ الزہراء نے اپنی زندگی میں جو استقامت اور صبر دکھایا، وہ سیاست کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا پیغام ہے۔
جب حکومت کو حقوق کے حصول کے لئے عوامی احتجاج کا سامنا ہو تو اسے صبر اور استقامت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اور حضرت فاطمہ کی طرح عوام کو اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنا چاہیئے اور مشکلات کے باوجود صحیح راستے پر چلنا چاہیئے۔حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا کردار اسلامی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، خصوصاً عدل و انصاف کے قیام کے حوالے سے۔ آپ (س) کی زندگی بھر کا عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی عدل و انصاف کی مکمل پاسداری کرتی تھیں اور ہمیشہ ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھایا کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں عدل و انصاف کی حمایت کی اور اس کے قیام کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ ان کے یہ اقدامات ایک مثال ہیں، جو آج بھی مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (س) کی زندگی کا آغاز ہی عدل و انصاف سے ہوا۔ ان کی تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیر سایہ ہوئی، وہ حضرت علی علیہ السلام کی بیوی اور امام حسن و امام حسین علیہما السلام کی والدہ بن کر اس بات کی عملی نمائندگی کرتی تھیں کہ عدل و انصاف کا راستہ انسان کے بنیادی اخلاقی اصولوں سے جڑا ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ ان اصولوں کو اپنایا، جو عدل و انصاف کے قیام کے لیے ضروری تھے۔ اس سلسلے میں آپ (س) کا سب سے بڑا اقدام فدک کے معاملے میں سامنے آیا۔ جب حضرت ابو بکر نے آپ کا حق (فدک) چھین لیا تو آپ نے نہ صرف اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ اس کے خلاف کھڑے ہو کر انصاف کا مطالبہ کیا۔ آپ نے فدک کے حوالے سے بھرپور احتجاج کیا، یہ اس بات کا غماز تھا کہ کسی بھی صورت میں اپنے جائز حقوق کی پامالی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
فدک کے حوالے سے جو موقف آپ نے اپنایا، وہ صرف ایک ذاتی مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک وسیع تر پیغام تھا کہ عدل و انصاف کے قیام کے لیے انسان کو ہر حالت میں قدم بڑھانا ضروری ہے۔ آپ نے اس وقت کے حکام کے ظلم و زیادتی کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی، جس نے عدل و انصاف کے قیام کے حوالے سے ایک مستحکم بیانیہ پیش کیا۔ ان کا یہ عمل ظلم و ناانصافی کے خلاف ایک جرات مندانہ اقدام تھا۔ حضرت زہراء کا فدک کے مسئلے پر خطبہ ایک تاریخی دستاویز ہے، جس میں انہوں نے نہ صرف فدک کے حق کو ثابت کیا بلکہ اس میں حکومتی انصاف کی پامالی کی بھی نشاندہی کی۔حضرت زہراء نے اس خطبے میں اپنے حقوق کے حصول کی بات کی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر اصولی بات بھی کی کہ حکمرانوں کو اپنے فیصلوں میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیئے۔
حضرت زہراء کے اس خطبے میں فدک کی زمین کا معاملہ ایک علامت بن گیا کہ حکومتی فیصلوں میں ذاتی مفادات کو نظر انداز کرنا ضروری ہے، تاکہ عدل و انصاف قائم ہوسکے۔ (آپ) نے ہمیشہ ان لوگوں کا ساتھ دیا، جن کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی تھی۔ حضرت زہراء کا یہ عمل ایک مضبوط پیغام تھا کہ مظلوموں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا اور ان کے حق میں کھڑا ہونا، عدل و انصاف کے قیام کا لازمی حصہ ہے۔ حضرت زہراء کا سیاسی احتجاج اس بات کا غماز تھا کہ وہ نہ صرف اپنے ذاتی حقوق بلکہ پورے معاشرتی اور سیاسی نظام میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے سرگرم تھیں۔ آپ نے جس طریقے سے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی اور قدرتمندوں کے فیصلے کے خلاف کھل کر موقف اختیار کیا، وہ ایک تاریخ ساز عمل تھا۔
یہ سیاسی احتجاج اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدل و انصاف کا قیام صرف فرد کے حقوق تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پورے معاشرتی اور سیاسی نظام میں بھی انصاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے نہ صرف سیاسی اور معاشی عدل کی حمایت کی بلکہ اخلاقی عدل پر بھی زور دیا۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ انسان کو اپنے اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہیئے۔ آپ نے سچائی، ایمانداری اور دیانتداری کے اصولوں پر عمل کیا، جس نے ان کے کردار کو بے مثال بنا دیا۔ آپ کی یہ سیرت نہ صرف اس دور کے لئے منارہ نور تھی بلکہ آج بھی انسانی معاشرے کو عدل و انصاف کے قیام کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ: 1176608